برمودا ٹرائی اینگل کیا ہے؟ کیا واقعی یہاں دجّال موجود ہے؟

برمودا ٹرائی اینگل کیا ہے؟ کیا واقعی یہاں دجّال موجود ہے؟
برمودا ٹرائی اینگل کیا ہے؟ اس کی حقیقت کیا ہے؟ کیا واقعی یہاں دجّال موجود ہے؟ یا امام مہدی یہاں چھپے ہوئے ہیں؟ مارس سے کوئی UFO آتا ہے؟ یہاں اتنے زیادہ جہاز کیوں ڈوبتے ہیں؟ بحری جہاز تو چھوڑیے، ہوائی جہاز بھی؟ آخر کیا ہے سمندر کے اس چھوٹے سے ٹوٹے میں جو ساری دنیا کو حیرت میں مبتلا کیے ہوئے ہے؟

برمودا ٹرائی اینگل کو ڈیولز ٹرائی اینگل یعنی شیطانی تکون بھی کہا جاتا ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ برمودا ٹرائی اینگل دنیا کے جس خطے میں واقع ہے یہ بحری جہازوں کی سب سے زیادہ ٹریفک والے علاقوں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے جہاں سے امریکہ، یورپ اور جزائر غرب الہند آنے جانے والے سینکڑوں جہاز روزانہ گزرتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود اس خطے سے ایسا خوف عوام کے دلوں میں بیٹھا ہوا ہے کہ اس کے پیچھے کوئی نہ کوئی کہانی چھپی ضرور نظر آتی ہے۔ کچھ روایتوں کے مطابق یہاں paranormal یعنی جنوں، بھوتوں سے متعلق واقعات پیش آتے رہے ہیں۔ کچھ اور کے مطابق یہاں خلائی مخلوق بھی دیکھی گئی ہے۔ لیکن اس میں مبالغہ شامل بھی ہو تو کچھ سچائی تو ہوگی ہی؟ آخر اس کی شروعات کہاں سے ہوئی؟ لوگوں نے اچانک ایسا کہنا شروع کر دیا کہ یہاں بھوت پریت کا بسیرا ہے یا اس کے پیچھے کچھ ایسے حقائق تھے دنیا جن سے نظریں چرانے میں ہی عافیت سمجھتی ہے؟

معاملہ کچھ یوں ہے کہ The Miami Herald میں ایڈورڈ جونز نامی ایک رپورٹر نے پہلی مرتبہ ستمبر 1950 میں ایک آرٹیکل لکھا جس میں اس نے اس علاقے میں رونما ہونے والی کچھ عجیب و غریب وارداتوں کا ذکر کیا۔ اس کے بعد Fate میگزین نے بھی 1952 میں ایک اور آرٹیکل لکھا جس کا عنوان تھا: Sea Mystery at Our Back Door۔ اس مضمون میں اس علاقے میں بہت سے بحری اور ہوائی جہازوں کے غائب ہونے کی واردات لکھی گئی، جن میں سے ایک Flight 19 کا واقعہ بھی تھا۔ Flight 19 امریکی نیوی کے 5 بمبار جہازوں پر مشتمل ایک فلیٹ تھا اور یکایک غائب ہو گیا تھا۔ یہی وہ مضمون تھا جس میں پہلی مرتبہ ایک مخصوص تکون کا ذکر کیا گیا تھا جسے آج برمودا تکون کے نام سے جانا جاتا ہے۔ Flight 19 کا ذکر ایک مرتبہ پھر 1962 میں سامنے آیا جب American Legion میگزین میں ایلن ایکرٹ نے لکھا کہ اس پرواز کے لیڈر کے آخری الفاظ کچھ یوں تھے: ہم سفید پانی میں داخل ہو رہے ہیں، کچھ ٹھیک نہیں لگ رہا۔ ہمیں نہیں پتہ کہ ہم کہاں ہیں۔ پانی سبز ہے۔ نہیں سفید ہے۔ اس نے یہ بھی لکھا کہ نیوی کے جس بورڈ نے اس واقعے کی انکوائری کی اس نے اپنی رپورٹ میں لکھا تھا کہ یہ تمام جہاز ’مارس کی طرف اڑ گئے‘۔ یہ وہ پہلا مضمون تھا جس نے برمودا ٹرائی اینگل سے متعلق کسی مافوق الفطرت عنصر کا ذکر کیا۔ فروری 1964 میں ایک اور مضمون میں ایک اور مصنف نے دعویٰ کیا کہ Flight 19 کا واقعہ اکیلا نہیں بلکہ ایسے کئی واقعات اس علاقے میں رونما ہو چکے ہیں۔ اگلے برس اس مضمون کے مصنف ونسنٹ گاڈس نے اپنے مضمون میں خاطر خواہ اضافہ کرتے ہوئے اسے ایک کتاب کی شکل دے دی۔

اس مضمون ہی نے برمودا ٹرائی اینگل کی اصل حدود و قیود کا تعین کیا۔ اس کے مطابق یہ تکون سان جوان، پوئرٹو ریکو اور برمودا کے درمیان ایک جگہ ہے۔

ان دعؤوں کی حقیقت کیا تھی، اس طرف آنے سے پہلے یہ دلچسپ معلومات بھی ذہن نشین رہیں کہ گذشتہ کچھ سالوں میں ایسے مضامین اسلامی دنیا میں تواتر سے لکھے گئے ہیں، اور ان میں سے کئی انٹرنیٹ پر بھی موجود ہیں، جن میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ برمودا تکون میں دجّال موجود ہے اور وہ سامنے آنے سے پہلے یہاں اپنی طاقت بڑھا رہا ہے اور ایک مخصوص موقع پر سامنے آئے گا۔ کچھ اہلِ تشیع افراد کی طرف سے یہ تھیوری پیش کی جاتی ہے کہ ان کے آخری امام جنہیں امام مہدی بھی کہا جاتا ہے، برمودا تکون ہی میں کہیں موجود ہیں اور وہ وقت آنے پر دنیا کے سامنے خود کو ظاہر کر دیں گے۔

ایک اور نظریہ جو دلچسپی سے خالی نہیں کہتا ہے کہ جنت سات آسمانوں کے اوپر جب کہ جہنم سات زمینوں کے نیچے ہے لہٰذا برمودا تکون کی تہہ میں جہنّم واقع ہے۔ اس تھیوری کی حمایت میں وہ یہ دلیل یا سائنسی تھیوری سامنے لاتے ہیں کہ بہت سے واقعات میں جب کوئی شخص حرکتِ قلب بند ہونے سے deceased قرار دیا جا چکا ہو لیکن بعد ازاں اس کو ہوش آ جائے اور اس سے پوچھا جائے کہ اس نے مرنے کے بعد کیا دیکھا تو وہ بتاتا ہے کہ اسے ایک تکون دکھائی دے رہی تھی اور سامنے سے روشنی آ رہی تھی جب کہ اسے کانوں میں بہت شور سنائی دے رہا تھا جیسے لوگ چلّا رہے ہوں۔ یاد رہے کہ زمین کی تہہ سورج جتنی ہی گرم ہے اور اس تھیوری کے مطابق جہنّم کی آگ بھی سورج جیسی گرمی رکھتی ہے۔

اس کے علاوہ بھی مختلف مذاہب میں ایسے مختلف عقائد اس خطے کے حوالے سے رکھے جاتے ہیں۔

واضح رہے کہ 1950 میں سامنے آنے والا ایڈورڈ جونز کا مضمون کسی اخبار میں رپورٹ کیا گیا پہلا واقعہ ضرور ہو سکتا ہے لیکن مقامی لوگوں کے مطابق انیسویں صدی کے اواخر میں اس خطے میں ایسی روایات مقامی لوگوں میں مشہور تھیں۔ 1918 میں ایک امریکی بحری جہاز بھی اسی علاقے میں اچانک غائب ہو گیا تھا۔

تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ اس تکون میں غائب ہونے والے جہازوں کی تعداد سمندر کے باقی حصوں کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ لیکن یہ فرق اتنا زیادہ بھی نہیں کہ اسے کسی مافوق الفطرت چیز کی موجودگی کا واضح ثبوت سمجھا جا سکے۔ میامی، برمودا، پوئٹو ریکو ایسے مقامات ہیں جو tropical یا خط سرطان اور خط جدی کے درمیانی حصے میں واقع ہیں اور یہاں طوفانوں کا آنا معمول کی بات ہے۔ برمودا تکون انہی تین ریاستوں کے درمیانی سمندر کو کہا جاتا ہے اور ایسے میں اگر یہاں معمول سے کچھ زیادہ جہاز غائب ہوئے بھی ہیں تو اس میں کوئی حیرت کی بات نہیں۔ 1975 میں چھپنے والی کتاب The Bermuda Triangle Mystery: Solved میں ایسے بہت سے توہمات کا جواب دیا گیا ہے۔ اس کتاب میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جہازوں اور کشتیوں کے غائب ہونے کے واقعات میں کئی جگہ مبالغے سے کام لیا گیا ہے۔ مثلاً تین دن تک ایک جہاز اٹلانٹک پورٹ سے غائب ہونے کا واقعہ پیش ضرور آیا تھا لیکن بحرالکاہل میں۔ یہ واقعہ سنسنی پھیلانے کے لئے بلاوجہ اس خطے سے منسوب کر دیا گیا۔ اسی طرح جہازوں اور کشتیوں کے غائب ہونے کے کئی واقعات ایسے تھے جو کتابوں یا مضامین میں لکھے گئے لیکن حقیقت میں پیش نہیں آئے۔ کئی مرتبہ ایسا ہوا کہ واقعات پیش تو آئے مگر یہ کشتیاں بعد میں مل گئیں اور گمشدگی کی رپورٹ تو ہوئی مگر واپس مل جانے کی خبروں کو نظر انداز کر دیا گیا۔

یہاں تک کہ 2013 میںWorld Wide Fund for Nature  نے جہازرانی کے لئے دنیا کے دس خطرنات ترین پانیوں کی ایک فہرست مرتب کی۔ یہ فہرست اس بنیاد پر مرتب کی گئی تھی کہ کن علاقوں میں بحری جہازوں کو سب سے زیادہ حادثات پیش آئے ہیں۔ ان دس علاقوں کی فہرست میں برمودا تکون شامل نہیں تھی۔

جہاں تک دجّال کی بات ہے، تو کئی احادیث سے ثابت ہے کہ صحابہ کو ایسے کسی جزیرے سے متعلق کوئی خبر نہیں دی گئی تھی جو اس وقت تک دنیا کے نقشے پر موجود ہی نہ ہو۔ کسی بھی حدیث سے دجّال کا وسطی امریکہ میں واقع کسی جزیرے پر چھپے ہونے کا کوئی اشارہ نہیں ملتا۔