تکفیر اور موانع تکفیر اسلامی نقطہ نظر سے

تکفیر اور موانع تکفیر اسلامی نقطہ نظر سے
مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر کے دورِحکومت میں ایک طوائف نے حصول دولت اور لالچ کی غرض سےچوری چھپے چار شادیاں کر رکھی تھیں۔ اور وہ اپنے شوہروں کو میکے جانے کاجھانسہ دے کر ایک سے دوسرے شوہر کے پاس جایا کرتی تھی۔ مگر اس کی یہ مکروفریب کی چال زیادہ دیر نہ چل سکی اور جلد ہی وہ پکڑی گئی۔ اب مقدمہ قاضی کی عدالت میں گیا جہاں اسلامی قوانین کے مطابق سزا و جزا کا معاملہ ہونا تها اور عین ممکن تھا کہ اس کو موت کی بهی سزا سنائی جاتی۔

طوائف نے جب دیکھا کہ پانی سر سے گزر رہا اور بچنے کا کوئی چارہ نہیں تو اس نے ایک مشہور وکیل سے رابطہ کیا کہ کسی طرح میری جان بچاؤ۔ وکیل نے حامی بھر لی کہ میں ایک شرط پر تمہاری جان بخشوا سکتا ہوں اگر تم اپنی ساری دولت میرے نام کر دو۔ طوائف نے سوچا کہ جان بچی تو لاکھوں پائے۔ لہذا اس نے وعدہ کر لیا کہ اگر تم میری جان بخشواؤ گے تو میں ساری دولت تمہارے نام کر دوں گی۔ وکیل نے اسے سکھایا کہ جب قاضی تمہیں عدالت میں بلائے تو کہنا کہ "میں ایک مسجد کے قریب سے گزر رہی تھی تو میں نے سنا کہ مولانا صاحب خطاب میں فرما رہے تھے کہ اسلام چار شادیوں کی اجازت دیتا ہے، چلتے چلتےمیرے کانوں میں یہ آواز پڑی تو میں نے اسے جائز سمجھتے ہوئے چار شادیاں کر لیں۔ اب مجھے کیا علم تھا کی یہ اجازت صرف مرد حضرات کے لیے ہی ہے"۔ یعنی مکمل علم کے فقدان کا بہانہ کرنا یوں تم سزا سے بچ جاؤ گی۔ اس عورت نے ایسا ہی کیا اور عذرِجہل کو بنیاد بنا کر وکیل نےاسے بچا لیا۔

طوائف نے تو خود کو بچانے کی نیت سے ایسا کیا مگر آج کل یہ فیشن الٹا ہو گیا ہے کم علمی یا لاعلمی کے باعث خود کو مکمل کرنے کی بجائے لوگ دوسرں پر کفر کے فتوے لگانا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ لوگ چند کتابیں پڑھ کر یا چند علما کی تقاریر سن کر جزوی علم ہونے پر ہی خود کوعقل کُل سمجھنے کی غلط فہمی میں مبتلا ہو کر اسلام کی ٹھیکداری کا ذمہ اپنے سر لے لیتے ہیں۔ اور پھر ہوتا کیا ہے کہ یہ اونے پونے، ڈیڑھ یا سوا چھٹانک مفتیان بے لگام جن کے پاس نامکمل علم ہوتا ہے، بنا اپنی علمی حیثیت کو خاطر میں لائے لوگوں میں تکفیری اور بدعتی ہونے کی ڈگریاں بانٹنا شروع کر دیتے ہیں۔

کچھ بھائی حافظ کے مطابق ایسے لوگ بهی ہوتے ہیں جن کی اپنی داڑھی نہیں ہوتی اور وہ کسی باریش آدمی کے منہ پر ہاتھہ پھیر کر اپنا رانجھا راضی کر لیتے ہیں یعنی جنہوں نے مطالعہ نہیں کیا ہوتا یا بلاواسطہ علمائے اکرام کو نہیں سنا ہوتا وہ سنی سنائی سے کام چال لیتے ہیں۔ اپنے آپ کو علمی طور پر معتبر ثابت کرنے کی کوشش میں مصروف ان نیم ملاوں کےاس عمل کے نتیجہ میں فرقہ واریت جنم لیتی ہے اور عوام الناس میں انتشار پهیلتا ہے کیونکہ ہر دوسرے مکتبہ فکر کا بندہ اپنے مختلف مکتبہ فکر والے بهائی کو تکفیری کی ڈگری دینا اپنا فرض سمجھ رہا ہوتا ہے۔ یوں اپنی ڈیڑھ اینٹ کی وکهری مسیت (مسجد) کو بنانے اور اپنا دهندہ چمکانے کے چکر میں انہوں مسلم امہ کو آپس میں لڑا کر گروہوں میں تقسیم کر دیا ہے اور ہر دوسرا مسلمان اپنے مسلمان بهائی کی طرف سے کفر کے فتوے لگنے پر اس سے دوری اختیار کر رہا ہے۔

وہ امت جس کی مثال جسدواحد کی سی تھی آج ٹکڑوں میں بٹی ہوئی نظر آ رہی ہے اور دشمن اس کا فائدہ اٹهاتے ہوئے آسانی سے ہمیں نقصان پہنچا رہے ہیں۔حضرت اقبال کی اتحاد امت کی ساری کاوشوں پر پانی پھیر دیا گیا ہے اور آپس میں کافر کافر بنانا کهیل رہے ہیں مگر اصلی کافر کی طرف کسی کی توجہ ہی نہیں ہے جس کا نتیجہ یہ کہ آج مسلمان ساری دنیا میں ذلت اور رسوائی کی لعنت میں گرفتار ہو کر رہ گئے ہیں۔

ان نام نہاد مفتیوں سے امت مسلمہ کو محفوظ کرنے اور اپنے آپ کو مطمئن کرنے کی غرض سے میں نے چند جید علما اکرام سے درخواست کر کے اس موضوع پر راہنمائی کے لیے وقت لیا اور کچھ مستند کتب سے بھی استفادہ حاصل کیا ہے۔ علما دین کی فتویٰ ایمان و کفر کے حوالے سے کی گئی ایک بات مجهے بے حد پسند آئی وہ یہ کہ گناہ اور ثواب کا اجر دینے اور دلوں کے بید جاننے کا کام اللہ رب العزت کا ہے ہم کون ہوتے ہیں کسی کو ایماندار یا بدعتی ہونے کا سرٹیفیکیٹ دینے والے؟ یہ اللہ اور اس کے بندے کا معاملہ ہے جو بظاہر کلمہ گو ہے اس کے متعلق ہم کفر کا فتوی اس وقت تک نہیں دے سکتے جب تک اسلام کے بنیادی عقائد کے نفی نہ ہو رہی ہو، لیکن اس سلسلے میں، میں نے جو کچھ سیکها وہ آپ سے بهی شئیر کروں گا۔

سب سے پہلی بات یہ کہ ہمیں علم ہونا چاہیے کہ تکفیر کیا ہے اور موانع تکفیر عناصر کون سے ہیں؟ تکفیر کا لفظی مطلب "کافر قرار دینا" کے ہیں اور اصطلاح میں اسلامی قانون (فقہ) کے مطابق کسی مسلمان کو اس کے کافرانہ عمل کی بنا پر یا اس کے اقرار کفر کے بعد ملحد یا کافر قرار دینا تکفیر کہلاتا ہے۔

اب اگلا سوال یہ ہے کہ کیا کفریہ قول یا فعل کرتے ہی اس پر کافر کا لیبل لگ جائے گا یا کچھ تاخیر بهی کی جا سکتی ہے تو اس کے معاملہ پر میں عرض کرتا چلوں کہ اسلام دین شفیق ہے اور اللہ رب العزت کو ہرگز پسند نہیں کہ اپنے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے امتی اور کلمہ گو کو بنا توبہ کی مہلت دیے ہی سزا وار ٹهہرا دے، اس لیے اسلام میں جب کوئی بندہ جانے انجانے میں تکفیر کا مرتکب ہو جاتا ہے تو فوراً فتوی دے کر اس کو دائرہ اسلام سے خارج کرنے کی ممانعت کا حکم دیا گیا ہے اور علما دین کے مطابق اس شخص کو مکمل مہلت دی جاتی ہے کہ وہ توبہ کر کے کفارہ ادا کرے۔ جاری۔۔۔

(اگلی تحریر میں موانع تکفیر اور فتوی تکفیر کو بحث میں لایا جائے گا اور بنا وجہ کے کسی کو کافر کہنے کے عذاب پر بهی روشنی ڈالی جائے گی)