• آن لائن اشتہاری ٹیرف
  • رابطہ کریں
  • ہمارے بارے میں
  • ہمارے لئے لکھیں
  • نیا دور انگریزی میں
پیر, مارچ 20, 2023
نیا دور
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English
No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English
No Result
View All Result
نیا دور
No Result
View All Result

انسدادِ ہراسانی کمیٹیاں بھی اساتذہ کا ساتھ دینے لگیں، طالبات اپنی فریاد کسے سنائیں؟

شہزاد یوسفزئی by شہزاد یوسفزئی
فروری 23, 2020
in خواتین, فیچر
3 0
0
انسدادِ ہراسانی کمیٹیاں بھی اساتذہ کا ساتھ دینے لگیں، طالبات اپنی فریاد کسے سنائیں؟
15
VIEWS
Share on FacebookShare on TwitterShare on Whatsapp

بچن سے ہمیں والدین کی جانب سے ہمیشہ یہی سیکھایا جاتا تھا کہ اساتذہ بھی والدین کی طرح ہی قابل احترام ہیں لیکن یونیورسٹی میں داخلہ لینے کے بعد بعض اساتذہ کا مکروہ چہرہ دیکھ کر مجھے حقیقت بالکل اس کے برعکس لگی۔ یہ کہانی ہے راولپنڈی کی ایک نامور یونیورسٹی میں زیرِ تعلیم حنا علی (فرضی نام) کی جسے دوستی کرنے کے لئے اس کے اپنے استاد کی جانب سے دباو کا سامنا کرنا پڑا۔ حنا کہتی ہیں کہ ان کا استاد انہیں رات گئے میسجز اور فون کالز کرتا تھا حتیٰ کہ استاد نے اسے ڈگری مکمل ہونے کے بعد یونیورسٹی میں ملازمت کی بھی پیشکش کی۔ لیکن ان کی جانب سے مسلسل نظر انداز کرنے اور پیشکش مسترد کرنے پر اسے امتحان میں D گریڈ دے کر یہ پیغام دیا گیا کہ اگر اس نے استاد کی خواہش پوری نہ کی تو اسے آئندہ سمسٹر میں بھی D گریڈ کا سامنا کرنا پڑے گا۔

ایسا صرف حنا کے ساتھ نہیں ہوا بلکہ بہت سی طالبات کو اساتذہ کی جانب سے اس قسم کے رویئے کا سامنا کرنا پڑتا ہے لیکن وہ سماج میں بدنامی یا کریئر میں ناکامی کے خوف سے شکایت نہیں کرتیں۔ تعلیمی اداروں بالخصوص یونیورسٹیوں میں ہراسانی کے واقعات معمول بن چکے ہیں۔

RelatedPosts

صنعتی انقلاب نے برطانیہ میں خواتین کے بنیادی حقوق کی راہ ہموار کی

پنجاب کا گاؤں موہری پور جہاں معاشرتی روایت نے خواتین کو ووٹ ڈالنے سے روک رکھا ہے

Load More

سرکاری یونیورسٹی کی ایک اور طالبہ فائزہ علی (فرضی نام) کہتی ہیں کہ یونیورسٹیوں میں انسداد ہراسانی کے لئے قائم کمیٹیاں صرف ایک رسمی کارروائی ہے۔ یہ کمیٹیاں اسی ادارے کے اساتذہ پر مشتمل ہوتی ہیں جو کسی بھی شکایت کی صورت میں طلبہ کو انصاف فراہم کرنے کی بجائے اپنے ساتھیوں کو تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ یونیورسٹی کے نظام میں اساتذہ کے پاس لامحدود اختیارات ہوتے ہیں جس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ طلبہ کا استحصال کرتے ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ اگر کوئی طالبہ کسی استاد کے برے اعمال کا ذکر کسی دوسرے استاد یا یونیورسٹی انتظامیہ سے کرتی ہے تو اسے سنگین نتائج کی دھمکیاں دے کر چپ کرا دیا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں کسی بھی صورت میں لڑکی کو ہی قصور وار ٹھہرایا جاتا ہے جس کی وجہ سے طالبات شکایت کرنے سے گریز کرتی ہیں۔

غیر سرکاری تنظیم دختر فاؤنڈیشن کی جانب سے اپریل 2018 میں کام کرنے والی جگہوں پر خواتین کو ہراساں کیے جانے کے واقعات کو رپورٹ کرنے اور متاثرہ خواتین کی مدد کرنے کے لئے ٹیلی فون ہیلپ لائن کا قیام عمل میں لایا تھا۔

مذکورہ تنظیم کی جانب سے دیے گئے اعداد و شمار کے مطابق انہیں 20 ہزار 741 شکایات موصول ہوئی ہیں اور حیرت انگیز طور پر ان میں 16 ہزار 981 شکایات جو کل شکایات کا 82 فیصد ہیں انہیں مختلف یونیورسٹیوں کی طالبات کی جانب سے موصول ہوئیں جہاں انہیں اساتذہ یا یونیورسٹی ملازمین کی جانب سے ہراساں کیے جانے کی شکایات تھیں۔

دختر فاؤنڈیشن کی صدر حمیرا سید کا کہنا ہے کہ پرائیویٹ یونیورسٹیوں کے مقابلے میں طالبات کو ہراساں کیے جانے کے واقعات کی شرح سرکاری یونیورسٹیوں میں زیادہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بعض واقعات تو یونیورسٹی کی جانب سے قائم کردہ انسداد ہراسانی کمیٹی کے اراکین بھی طالبات کو ہراساں کرنے میں ملوث پائے گئے ہیں جس کی وجہ سے طالبات ان کمیٹیوں کے پاس اپنی شکایات لے کر جانے سے گریز کرتی ہیں۔

حمیرا سید نے بتایا کہ دختر فاؤنڈیشن کی ٹیم صحافیوں، وکلا، سماجی کارکنوں اور ماہر نفسیات پر مشتمل ہے، اور ہم اپنی ہیلپ لائن پر رابطہ کرنے والی طالبات کو رازداری کا یقین دلاتے ہیں۔

وفاقی محتسب برائے انسداد ہراسانی کو کل 1140 شکایات موصول ہوئیں جن میں 1063 کو نمٹا لیا گیا ہے۔ ہراسانی سے متعلق شکایات میں پنجاب 500 سے زائد شکایات کے ساتھ سرفہرست ہے جبکہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد اس فہرست میں 391 شکایات کے ساتھ دوسرے نمبر پر ہے۔ سندھ سے ہراسانی کی 132، خیبرپختونخوا سے 80 اور بلوچستان سے 32 شکایات موصول ہوئی ہیں۔

وفاقی محتسب برائے انسداد ہراسانی کے اہلکار نے بتایا کہ باقاعدگی سے ہراسانی سے متعلق آگاہی مہم کی بدولت سال 2019 میں شکایات کی تعداد 2018 کی نسبت دگنی ہے۔ جن میں سے ایک بڑی تعداد تعلیمی اداروں سے متعلق بھی ہے۔

وفاقی محستب برائے انسداد ہراسانی کی سربراہ کشمالہ طارق نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یونیورسٹیوں میں ہراسانی کی بڑی وجہ سمسٹر سسٹم ہے جو اساتذہ کو لامحدود اختیارات دیتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یونیورسٹیوں میں قائم انسداد ہراسانی کمیٹیاں غیر فعال ہیں۔ اس مسئلے پر قابو اسی صورت میں پایا جا سکتا ہے کہ ہم طالبات میں حوصلہ پیدا کریں کہ اس قسم کی صورتحال میں اپنی سہیلیوں سے بات شیئر کریں تاکہ بوقت ضرورت وہ گواہی دے سکیں، جس سے ان کا کیس زیادہ مضبوط ہوگا۔

ہراسانی بمقام کار ایکٹ 2010 کے تحت ہر ادارے نے اس قانون کے بننے کے بعد تیس یوم میں اس ایکٹ کے تحت موصول ہونے والی شکایات کو سننے کے لئے انکوائری کمیٹی تشکیل دینی ہے۔ مذکورہ انکوائری کمیٹی کے باس جرمانے یا ملازمت سے نکالنے کی سفارش کرنے کا اختیار ہوگا۔

فاطمہ جناح وومن یونیورسٹی کی وائس چانسلر ڈاکٹر ثمینہ امین قادر کہتی ہیں کہ اس قسم کے واقعات عموماً استاد اور طالبہ کے درمیان مخص غلط فہمی ہوتی ہے۔ ہماری یونیورسٹی میں اس قسم کے واقعات کی تحقیقات کو دو مرحلوں میں تقیسم کیا گیا ہے۔ پہلے مرحلے میں ہراسمنٹ مانیٹرنگ آفیسر واقعہ کی تحقیقات کرتا ہے اور عموماً مسئلہ یہیں پر حل ہو جاتا ہے لیکن اگر پھر بھی طالبہ کے تحفظات دور نہ ہوں تو اسے انسداد ہراسانی کمیٹی کے پاس بھیج دیا جاتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ گذشتہ پانچ سال کے دوران صرف ایک کیس انسداد ہراسانی کمیٹی کے پاس گیا ہے اور اس کیس میں بھی استاد بے قصور پایا گیا ہے۔

ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر ثمینہ کا کہنا تھا کہ پاکستان سٹیزن پورٹل اس قسم کی شکایات کے لئے طاالبات کے پاس بہترین ذریعہ ہے۔

دعؤوں کے برعکس جب مختلف یونیورسٹیوں کے اساتذہ سے ان کے ادارے میں قائم انسداد ہراسانی کمیٹی کے بارے میں پوچھا گیا تو بیشر نے اس حوالے سے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انہیں معلوم نہیں کہ ایسی کوئی کمیٹی ہے بھی یا نہیں اور اگر ہے تو اس کے ممبران کون کون ہیں۔

قائد اعظم یونیورسٹی کے سوسیالوجی ڈپارٹمنٹ کے سربراہ ڈاکٹر محمد زمان سے جب اس بارے میں پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ہراسانی صرف تعلیمی اداروں کا مسلہ نہیں ہے مجموعی طور پر معاشرتی اقدار گراوٹ کا شکار ہو چکے ہیں اور پھر اساتذہ بھی اسی معاشرے کا حصہ ہیں۔ انہوں نے اس بات کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ یہ درست ہے کہ اس مقدس پیشے سے وابستہ بعض کالی بھڑیں اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتی ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ بعض اوقات طالبات بھی اس مسئلے کو اپنے ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہیں اور زیادہ نمبر لینے کے لئے استاد کو بلیک میل کرتی ہیں جس کی کئی مثالیں موجود ہیں۔

ڈاکٹر زمان کا کہنا تھا کہ یہ بھی درست ہے کہ تعلیمی اداروں میں قائم انسداد ہراسانی کمیٹی صرف ایک رسمی کارروائی ہے اور کمیٹی کے ممبران کسی بھی شکایت کی صورت میں اپنے دوستوں کا ساتھ دیتے ہیں۔

اس حوالے سے جب ہائر ایجوکیشن کمیشن کی ترجمان عائشہ اکرام سے رابطہ کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ تمام یونیورسٹیاں خود مختار ادارے ہیں اور انہوں نے اس قسم کے مسئلے طے کردہ طریقہ کار کے مطابق خود حل کرنے ہوتے ہیں۔ اگر شکایت کنندہ یونیورسٹی کی کمیٹی کے فیصلے سے مطمئن نہیں تو اس کے پاس اختیار ہے کہ وہ مذکورہ قانون کے مطابق وفاقی محستب میں شکایت کر سکتے ہیں۔ یونیورسٹیوں میں قائم انسداد ہراسانی کمیٹیوں کی نگرانی ایچ ای سی کا دائرہ اختیار نہیں ہے۔

Tags: اساتذہ اور طالباتاساتذہ کی ہراسانیپاکستان میں خواتینپاکستان میں ہراسانیخواتین کے حقوقیونیورسٹیوں میں ہراسانی
Previous Post

احساس کفالت پروگرام، اور پاکستان کا امیج

Next Post

ملائیشین وزیراعظم مہاتیر محمد اپنے عہدے سے مستعفی، وجہ کیا بنی؟

شہزاد یوسفزئی

شہزاد یوسفزئی

Related Posts

پاکستان میں احمدی عبادت گاہوں اور قبرستانوں پر حملے کیوں ہوتے ہیں؟

پاکستان میں احمدی عبادت گاہوں اور قبرستانوں پر حملے کیوں ہوتے ہیں؟

by خضر حیات
مارچ 15, 2023
1

یوں تو پاکستان میں بسنے والی کم و بیش تمام ہی اقلیتی برادریوں کو مشکل حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے تاہم...

ایران سے آئے پارسی جنہوں نے برصغیر کی صورت گری میں مرکزی کردار ادا کیا

ایران سے آئے پارسی جنہوں نے برصغیر کی صورت گری میں مرکزی کردار ادا کیا

by خضر حیات
فروری 24, 2023
0

226 عیسوی سے 651 عیسوی تک ریاست فارس (موجودہ ایران) میں ساسانی سلطنت قائم تھی جس کا سرکاری مذہب زرتشتی تھا۔ اس...

Load More
Next Post
وزیراعظم کا مہاتیر محمد کو ٹیلیفون، مقبوضہ کشمیر کی صورتحال سے آگاہ کیا

ملائیشین وزیراعظم مہاتیر محمد اپنے عہدے سے مستعفی، وجہ کیا بنی؟

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تلاش کریں

No Result
View All Result

ایڈیٹر کی پسند

‘عمران خان اور شیخ رشید پاکستان کے جھوٹے ترین شخص ہیں’ (پارٹ 1)

‘عمران خان اور شیخ رشید پاکستان کے جھوٹے ترین شخص ہیں’ (پارٹ 1)

by شاہد میتلا
مارچ 20, 2023
0

...

معاشی لحاظ سے پاکستان کس طرح خود انحصاری حاصل کر سکتا ہے؟

معاشی لحاظ سے پاکستان کس طرح خود انحصاری حاصل کر سکتا ہے؟

by ہارون خواجہ
مارچ 18, 2023
0

...

عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین جاری کھیل آخری مرحلے میں داخل ہو چکا؟

عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین جاری کھیل آخری مرحلے میں داخل ہو چکا؟

by رضا رومی
مارچ 20, 2023
0

...

توشہ خانہ فہرست شریف خاندان میں دراڑ نہیں، شاہد خاقان کی علیحدگی کا اعلان ہے

توشہ خانہ فہرست شریف خاندان میں دراڑ نہیں، شاہد خاقان کی علیحدگی کا اعلان ہے

by مزمل سہروردی
مارچ 15, 2023
0

...

جنرل فیض حمید

نواز شریف کو نکالنے کے ‘پروجیکٹ’ میں باجوہ اور فیض کے علاوہ بھی جرنیل شامل تھے، اسد طور نے نام بتا دیے

by نیا دور
مارچ 14, 2023
0

...

Newsletter

ہماری مدد کریں

ٹویٹس - NayaDaur Urdu

نیا دور کے صفِ اوّل کے مصنفین

پیٹر جیکب
پیٹر جیکب
View Posts →
حسن مجتبیٰ
حسن مجتبیٰ
View Posts →
عرفان صدیقی
عرفان صدیقی
View Posts →
نجم سیٹھی
نجم سیٹھی
View Posts →
نبیلہ فیروز
نبیلہ فیروز
View Posts →
محمد شہزاد
محمد شہزاد
View Posts →
توصیف احمد خان
توصیف احمد خان
View Posts →
رفعت اللہ اورکزئی
رفعت اللہ اورکزئی
View Posts →
فوزیہ یزدانی
فوزیہ یزدانی
View Posts →
حسنین جمیل
حسنین جمیل
View Posts →
مرتضیٰ سولنگی
مرتضیٰ سولنگی
View Posts →
اسد علی طور
اسد علی طور
View Posts →
ادریس بابر
ادریس بابر
View Posts →
رضا رومی
رضا رومی
View Posts →
علی وارثی
علی وارثی
View Posts →

This message is only visible to admins.
Problem displaying Facebook posts.
Click to show error
Error: Server configuration issue

خبریں، تازہ خبریں

  • All
  • انٹرٹینمنٹ
  • سیاست
  • ثقافت
کم از کم اجرت 20 ہزار، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ: بجٹ 2021 پیش کر دیا گیا

اقتدار کے ایوانوں سے جلد کسی ‘بڑی چھٹی’ کا امکان ہے؟

اکتوبر 31, 2021
ہمیں نفرت اور مذہب کے بیوپاریوں کی نہیں، دھانی اور دھونی جیسے ہیروز کی ضرورت ہے

ہمیں نفرت اور مذہب کے بیوپاریوں کی نہیں، دھانی اور دھونی جیسے ہیروز کی ضرورت ہے

اکتوبر 27, 2021
بد ترین کارکردگی پر الیکشن نہیں جیتا جاسکتا، صرف ای وی ایم کے ذریعے جیتا جاسکتا ہے

ای وی ایم اور انتخابات: ‘خان صاحب سمندر پار پاکستانیوں کے ووٹ لینے کے لیئے بے تاب ہیں’

اکتوبر 24, 2021

Naya Daur © All Rights Reserved

No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English

Naya Daur © All Rights Reserved

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password?

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In