تکفیر اور موانع تکفیر اسلامی نقطہ نظر سے (قسط 2)

تکفیر اور موانع تکفیر اسلامی نقطہ نظر سے (قسط 2)
وہ تمام رکاوٹیں جو ایک شخص کو کفریہ فعل کرنے کے بعد بھی کافر یا ملحد ہونے سے روکتی ہیں موانع تکفیر کہلاتی ہیں۔ یعنی شرعی اعتبار سے وہ گنجائشیں جو ایک مسلمان کے ارتکاب کفر کے بعد بھی اس کو کافر کے لیبل سے بچاتی ہیں، موانع تکفیر کہلاتی ہیں۔ جیسا کہ پہلے بتایا گیا ہے کہ جب کوئی مسلمان کفریہ قول یا فعل سرانجام دیتا ہے تو فوراً اسے کافر نہیں قرار دیا جاتا بلکہ کچھ مہلت دی جاتی ہے کہ اپنے کیے پر نادم ہوتے ہوئے توبہ کر لے بشرطیکہ اس کا کافرانہ عمل دین کے بنیادی عقائد کی نفی نہ کرتا ہو۔

یہ بھی پڑھیں: تکفیر اور موانع تکفیر اسلامی نقطہ نظر سے (قسط 1)

وہ رکاوٹیں جو اسے کافر ہونے سے بچاتی ہیں ان میں سے چند اہم درج ذیل ہیں۔

عذر جہل

اس سے مراد جہالت یا لا علمی کا بہانہ ہے۔ یعنی ایک شخص کوئی کفریہ قول یا فعل سر انجام دے رہا ہے مگر اس کو اس بات کا علم نہ ہو کی وہ ارتکاب کفر کر رہا ہے تو اس وقت تک آپ اس شخص پر فتویٰ کفر نہیں لگا سکتے جب تک اسے اپنے اس عمل کا علم نہ ہوجائے۔ اگر کفریہ قول یا فعل سے آشنائی کے بعد وہ توبہ نہ کرے اور بدستور اپنی حرکت پر قائم رہے تو محقق علما اکرام اس کے حق میں فتویٰ جاری کرنے کا حق رکھتے ہیں۔ عام مسلمان پر لازم ہے کہ جب تک علما اکرام فتویٰ جاری نہ کریں ایک بظاہر مسلمان کو کافر نہ کہیں۔

مجبوری

اس سے مراد ہے کہ اگر کوئی شخص کسی سنگین مجبوری کے تحت کفریہ قول یا فعل کا ارتکاب کرے مگر دل سے حق پر قائم و دائم رہے تو اس پر فتویٰ کفر عائد نہیں کیا جا سکتا۔ مثال کے طور پر اگر کسی کو کلمہ کفر نہ کہنے پر جان سے مارنے کی دھمکی دی جائے اور عین ممکن ہو کہ اگر اس نے اقرار کفر نہیں کیا تو وہ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے گا تو علما اکرام کے مطابق اس کے لیے گنجائش موجود ہے لیکن اگر وہ کفر کرنے کی بجائے حق پر ڈٹ جائے اور اس وجہ سے اسے شہادت نصیب ہو جائے تو اس کا یہ عمل اللہ رب العزت کے ہاں اسے اور محبوب کر دے گا۔ مگر ایک بات ذہن نشین رہے کہ اگر محض ایک اپنی جان بچانے کی غرض سے کفر کا ارتکاب کرنے سے ملتی یا ریاستی سطح پر کسی تخریب کاری کا خطرہ ہو تو اس کی اجازت نہیں دی جا سکتی ۔ مثال کے طور پر اگر اپنی جان بچانے کی غرض سے دوسروں کی جان لینا یا اپنے ملک میں تخریب کاری کے لیے کفر کا ساتھ دینا ہرگز جائز نہیں ہے۔

تاویل

کسی شخص کا کفر سے بخوبی واقف ہوتے ہوئے اسے کسی مصلحت کے تحت یا کسی چال کے تحت بہانے کے طور پر اختیار کرنا اور کفر میں اترنے سے پہلے اپنے اس عمل کی مکمل وضاحت دینا کہ میں ایسا اسلام کی سربلندی کی خاطر کر رہا ہوں تاویل کہلاتا ہے۔ اس صورتحال میں اس بات کا خیال رہے کہ جو شخص تاویل کے طور پر بظاہر کفر کا لبادہ اوڑھے ہوئے ہے اصل میں اپنے عقیدہ اسلام پر قائم و دائم ہےاور دل سے اقرار کفر نہیں کرتا۔ مثال کے طور پر جاسوسی کی غرض سے کفار کے ملک میں موجود مسلمان اگر ظاہری طور پر کسی سکھ یا ہندو کا روپ دھارتا ہے مگر دل سے عقیدہ حق پر موجود ہے توعلمائےاکرام کے نزدیک اس کے لیے بھی شرعی لحاظ سے گنجائش موجود ہے۔ اس صورت حال میں بہتر یہ ہے کہ اگر تنہائی میسر آئے تو اپنے رب کے حضور صدق دل سے گڑ گڑا کر معافی مانگے اور جلد نفاذ اسلام اور اپنے مقصد کی تکمیل کی دعا کرے۔ چونکہ تکفیر ایک نہایت نازک معاملہ ہے اس لیے انتہائی احتیاط کی ضرورت ہے حضور نبی کریمﷺ نے فرمایا: "جس نے اپنے مسلمان بھائی کو کافر کہا تو یہ کفر ان میں سے کسی ایک کی طرف لوٹے گا" اس حدیث مبارکہ کا مفہوم یہ ہے کہ اگر کسی ایک مسلمان نے اپنے دوسرے مسلمان بھائی پر کفر کا فتویٰ لگایا اور اس میں اگر کوئی کفریہ عمل موجود نہ ہو تو یہ کفر فتویٰ لگانے والے کی طرف لوٹے گا یعنی پھر کفر کا فتویٰ لگانے والا خود کافر ہو جائے گا ایک اور جگہ ارشاد نبوی ہے کہ: "وہ دو آدمی جنت میں اکھٹے نہیں ہوں گے جن میں سے ایک نے دوسرے بھائی کو کافر کہا" یعنی ان میں سے ایک کافر ہو گا۔ لیکن حدیث مبارکہ کا مقصد مومنوں کو بے جا تکفیر سے منع فرمانا ہے اب ان دونوں احادیث مبارکہ سے صاف ظاہر ہے کہ کسی مسلمان پر فتویٰ کفر لگانا کتنا نازک معاملہ ہے اور بنا تحقیق اور مکمل تصدیق کے ذاتی پسند و ناپسند کی بنیاد پر الزام تراشیاں آپ کے اپنے ایمان کے لیے بھی خطرہ ہوسکتی ہیں۔

ان احادیث مبارکہ کی روشنی میں ہمیں اس بات کا اندازہ کرنا مشکل نہیں ہوگا کہ شفیع الامم، محسن انسانیت ، سرورکائنات حضور نبی کریمﷺ نے بےجا ایک دوسرے پر کفر کا کیچڑ اچھالنے سے نا صرف منع فرمایا ہے بلکہ اس کام میں مبتلا ہونے والے کو سخت وعید بھی سنائی ہے۔ اس لیے اپنی جعلی دکانداریاں چلانے والے اونے پونے مفتی صاحبان سے گزارش ہے کہ ان احادیث سے عبرت پکڑیں اور دوسروں کردارکشی کرنے سے باز آئیں۔ جو وقت دوسروں کی خامیاں تلاش کرنے اور دوسروں پر بہتان باندھنے میں ضائع کرتے ہیں اسے اپنی ذاتی اصلاح اور اپنے اہل خانہ سمیت خود سے وابستہ ہر شخص کی اصلاح پر صرف کریں تو یقیناً بہتر ہوگا۔

تکفیر سے متعلق ایک اور اہم مسئلہ یہ ہے کہ تکفیر کا فتویٰ صرف ایک جید، محقق عالم دین اور مفتی صاحب ہی جاری کرنے کی اتھارٹی رکھتے ہیں۔ اس لیے دیگر افراد جن میں عام عالم دین اور نماز روزہ کے پابند مسلمان شامل ہیں وہ اس کام سے باز رہیں کیونکہ اس سے امت مسلمہ میں انتشار اور تفرقہ بازی کا خدشہ ہے۔ موجودہ صورتحال کے تناظر میں اگر دیکھا جائے تو ہمیں ہر طرح کی تفریق کو مٹا کر ایک ہونے کی ضرورت ہے۔ ہمارے پاس قرآن پاک، احادیث مبارکہ، نبی کریم ﷺ کی حیات طیبہ، اہل بیت رسولﷺ اور اصحاب رسولﷺ کی زندگانیاں مشعل راہ کے طور پر موجود ہیں۔ ان تمام باتوں کی روشنی میں راقم الحروف عرض کرنا چاہتا پے کہ ہم فرقہ واریت کی مکمل نفی کریں اور فلسفہٰ اقبالؒ "ایک ہوں مسلم حرم پاسبانی کے لیے" پر عمل پیرا ہوں۔ کیونکہ اتحاد امت کی اس وقت اشد ضرورت ہے۔

یہ بھی عرض کرنا چاہوں گا کہ ہر ادارے میں کالی بھیڑیں ہوتی ہیں اسی طرح علمائے اکرام کا مقدس روپ دھارے عوام کا ستیاناس کرنے والی کالی بھیڑوں سے نجات حاصل کرنے کی بهی اشد ضرورت ہے جو عوام میں انتشار کا باعث بنتے ہیں۔ اللہ پاک امت مسلمہ کو ایک ہونے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارے ساتهہ بهلائی کا معاملہ کرتے ہوئے ہمیں صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔