وہ گرمیوں کی لمبی دوپہریں کیا ہوئیں۔۔ ایک ماضی پرست کے قلم سے

وہ گرمیوں کی لمبی دوپہریں کیا ہوئیں۔۔ ایک ماضی پرست کے قلم سے
میرے ساتھ وہ سبھی لوگ جن کے بچپن کا تعلق 90 کی دہائی سے رہا ہے، کبھی نہ کبھی تو اچانک بیٹھے بیھٹے ان کہی سی اداسی کا شکار ہوتے ہوں گے۔ قصور ہمارا نہیں ہے اس اداسی کی وجہ شاید وقت اور ٹیکنالوجی کی وہ رفتار ہے، جو اس قدر تیز تھی کہ ہم چاہنے کے باوجود بھی بہت کچھ سمیٹ کر ساتھ 2020 میں نہ لا سکے۔

کچھ روایات تھیں، کچھ یادیں اور کچھ دل کے قصے، کب 99 میں فون کی تار سے بندھے دلوں نے no strings attached کا سفر طے کیا، پتہ ہی نہ چل سکا۔

وہ چاول سے لے کر کھیر تک ہمسائیوں کے گھر دے کر آنے کی روایت کب عید کے عید سویّاں بھیجنے اور پھر ہوٹل میں جاتے ہوئے کسی ہمسائے کو دیکھ کر دور سے سر ہلانے پر آن رکی خبر ہی نہ ہوئی۔

کب وہ لمبی شام جو دوپہر کو شروع ہوتی تو دل بھر کر گلی میں کھیلنے، مارنے پیٹنے کے بعد پھر مل کر ہنسنے پر اختتام پذیر ہوتی تھی، ٹی وی سکرین اور موبائل سکرین کھا گئی کچھ خبر نہیں۔



وہ رات جو مغرب کے بعد کسی سے کہانی سنتے ہوئے اپنا چہرہ دکھایا کرتی تھی، کسی ہوٹل کی میز، کمرے کی تنہائی میں بنتی اسائنمنٹ کھا گئی،

ہمارے ماضی میں نا، لوگ اور جذبے بہت تھے، کہانی تھی، شاعری تھی، چھوٹے چھوٹے سے شگن بھی خوشی لاتے تھے، ہاتھ کی کھجلی اور دانت کا ٹوٹنا بھی پیسے ملنے کی نوید دیتا تھا، اب تو سائنس نے وہ سچ سکھائے کہ چھوٹی چھوٹی خوشیاں بھی ہم سے چھین لیں۔

اس قدر بھی کیا حقیقت پسندی کے عمرو عیار کی کہانی کا لطف بھی جاتا رہے اور ٹارزن کی طاقت پر بھی سوال ہو، عمران کی ڈگری بھی جھوٹی لگے اور سوپر فیاض کی بے وقوفی بھی، ہیر کا عشق بھی دماغی فتور لگے اور رانجھے کا عشق سستی اور سہل پسندی۔

عینک والا جن بھی بہت بھلا لگتا تھا ہمیں تو۔ اب مارس کی سیر پر بنی ’دی مارشن‘ کون سمجھائے ہمیں؟

بات صرف تختی سے آئی پیڈ کے سفر کی ہو تو قرار بھی آ جائے، بات تو ان دوستیوں اور جذبوں کی ہے جو ناپید ہوئے ہیں، کچھ دن پہلے پڑھا کہ ہم 1970 کی نسبت آج 30 فیصد زیادہ شقی القلب ہیں۔ ہم جیسوں کو تو یہ بات ٹھیک ہی لگتی ہے مگر آج کے بچے کہتے ہیں کہ پہلے میڈیا کی پہنچ نہ تھی اس لئے جرائم رپورٹ نہ ہوتے تھے، مگر سچ کہوں تو تب چڑیا کے بچے کی تکلیف دیکھ بھی درخت پر چڑھنے کو تیار ملتے تھے، آج تو بچے سکرین میں اتنے مصروف ہیں کہ درخت پر چڑھنا بھول گئے ہیں اور چڑیا بھی شاید روٹھ کر دور جا چکی ہے۔



زندگی مصروف ہوئی ہے، بہتری کی جانب بڑھی ہے، اس حقیقت سے انکار نہیں ہے مجھے۔ مگر انسان کہاں کھو گئے ہیں؟ رشتوں کی جگہ گیجٹ لے رہے ہیں۔ اور چیزوں کی گنتی کرتے کرتے شاید جذبوں کی گنتی بھولتے جا رہے ہیں۔ کہانیوں سے زیادہ کہانی سنانے والے کی یاد ہے، چڑیا کی مدد سے زیادہ وہ مدد کا جذبہ معنی رکھتا ہے۔ چاولوں کی ایک پلیٹ سے زیادہ اہمیت اس خوشی اور اپنائیت کی تھی جو ہم سے روٹھتی جا رہی ہے۔ آج کے بچے ہم سے زیادہ جانتے ہیں مگر کتاب کی خوشبو سے شاید ناواقف، کرداروں کے ساتھ جینے سے محروم، اور کہانی کے ساتھ بہنا نہیں جانتے ہیں۔

وہ اس سب سے ناواقف ہیں، یہ دکھ الگ، مگر اصل دکھ تو یہ ہے کہ ہم بھی اس تیز رفتاری میں ان یادوں کو سنبھال نہیں پا رہے ہیں۔ ہم نے زندگی کے ساتھ گھسٹنے میں اسے جینا چھوڑ دیا ہے۔ یہ ماضی کی یادیں اصل میں نوحہ ہیں۔ ان سست دو پہروں کا جب دھوپ سے بے نیاز دوستی آنگن میں کھیلتی تھی۔ جب شام میں اپنوں کی آواز چارپائیوں کی قطار کی مانند صحن کو بھرتی تھی اور جب صبح میں اپنائیت مکھن کے پراٹھوں کی خوشبو کی مانند پورے محلے میں اڑتی تھی۔