جب سیکس سے انکار پر انہوں نے میرے بال کاٹ دیے

جب سیکس سے انکار پر انہوں نے میرے بال کاٹ دیے
ستائیس سالہ مسکان مارچ کے مہینے کی سخت بارش میں اسلام آباد کے سڑکوں پر ٹریفک سگنل بند ہونے کے انتظار میں سڑک کے کنارے کھڑی تھی۔ اس کے کپڑے بارش کی وجہ سے پورے گیلے تھے اور سرد ہوا کی وجہ سے اس کا پورا جسم کانپ رہا  تھا مگر جیسے ہی ٹریفک سگنل بند ہوتا تھا تو اس سمت میں بھاگ کر سگنل کھلنے کے انتظار میں کھڑے لوگوں کے گاڑیوں کے شیشوں پر اپنی انگلی سے ہلکی سے ضرب لگاتی تاکہ کوئی متوجہ ہو جائے اور اس کو کچھ پیسے بھیک کے طور پر دے جائے۔

میرے کپڑے بھی بارش سے مکمل طور پر شرابور ہو چکے تھے مگر آج میں نے مسکان کی کہانی لکھنی تھی تاکہ معلوم ہو جائے کہ ملک میں خواجہ سراؤں کے ساتھ انسانی رویے کیسے ہیں۔

مسکان جب شیشوں پر اپنے انگلی سے دستک دیتی تھی تو کوئی شیشہ نیچے کر کے پیسے ادا کرتا تھا اور ساتھ دعائیں دینے کے لئے درخواست کرتا تھا جب کہ کچھ لوگ دس روپے کا نوٹ نکال کر کبھی ہاتھ اندر کرتے تھے اور کبھی باہر۔ اس کوشش سے ایک طرف مسکان کو بھی ترساتے تھے تو دوسری جانب ٹریفک سگنل کے انتظار میں کھڑے گاڑی ڈرائیور بھی اس چوہے اور بلی کے گیم سے لطف اندوز ہوتے تھے مگر کچھ اس پورے گھنٹے میں صرف دو ڈرائیوروں نے مسکان کو گاڑی کے اندر بیٹھنے کی دعوت دی۔

مسکان کے منہ سے ہر ایک کے لئے ایک جملہ نکلتا تھا: صاحب کچھ دو، گورو بیمار ہے۔ بجلی اور مکان کا بل بھی ادا کرنا ہے۔

اس تماشے کو دیکھنے کے بعد میں اور مسکان ایک چائے خانے میں داخل ہو چکے تھے مگر چائے خانے تک پہنچنے کے لئے ہم نے جو کچھ میٹرز کا فاصلہ طے کیا تھا، ہر گزرتی آنکھ نے ہمیں عجیب نظروں سے دیکھا تھا۔ یہ نظریں کچھ اور بیان نہیں کر رہی تھیں بلکہ ملک میں خواجہ سراؤں اور جسم فروشی کو ایک ہی نظر سے دیکھنے والی سوچ کی عکاسی کر رہی تھیں۔

فیصل سے مسکان تک کا سفر کراچی کی گلیوں سے شروع ہو کر اسلام آباد کی کشادہ سڑکوں اور عمارتوں پر ختم ہوتا ہے مگر اس سفر میں مسکان نے وہ سب کچھ برداشت کیا ہے جو اس ملک کے تقریباً ہر خواجہ سرا اپنے بچپن سے پیشہ ورانہ زندگی تک برداشت کرتا ہے۔



مسکان کراچی کے ایک اعلیٰ گھرانے میں پیدا ہوا جس کا نام خاندان والوں نے فیصل رکھا۔ اس کا والد لکڑیوں کا کاروبار کرتا تھا۔ وہ والدین کا شادی کے بعد پہلا بیٹا تھا اور مسکان کے مطابق اس کو گھر میں بہت پیار ملا تھا۔ مسکان کا ایک بھائی اور ایک بہن بھی تھے جو اس سے چھوٹے تھے۔ وقت کے ساتھ ساتھ جب فیصل عرف مسکان بڑا ہونے لگا تو وہ ہمیشہ گڑیا خریدنے کی فرمائش کرتا تھا جس پر اس کے والدین بقول مسکان کے غصہ کرتے تھے کہ آپ لڑکیوں کی چیزیں کیوں پسند کرتے ہو۔

وقت گزرتا گیا اور مسکان کو اندازہ ہونے لگا کہ گھر والوں نے اس کا نام فیصل رکھا ہے اور اس کو بیٹا سمجھتے ہیں مگر وہ لڑکوں سے بہت مختلف ہے اور اس کو لپ سٹک لگانا، سنگھار کرنا، رقص کرنا اور لڑکیوں کے کپڑے پہننا اچھا لگتا تھا جب کہ اس کے والدین مسکان کی ان خواہشات پر اس پر تشدد کرتے تھے۔ جب مسکان پورے نو سال کی ہوئی تو گھر والوں کو یقین ہوا کہ وہ خواجہ سرا ہے جس کی وجہ سے اس کو گھر میں قید کیا گیا اور ان سے سکول جانے کا حق بھی چھین لیا گیا۔

مسکان کے مطابق جب رشتہ داروں میں شادی یا کوئی دوسرا پروگرام ہوتا تھا تو بھائی اور بہنوں کی طرح میں بھی تیار ہوتا تھا کہ میں بھی جاؤں گا مگر
ابو کا یہ جملہ آج بھی مجھے یاد ہے جب وہ کہتے تھے کہ کتنی عزت برباد کرو گے۔ تم نے ہماری عزت میں چھوڑا کیا ہے؟

وقت کے ساتھ ساتھ میں نے سکول جانے کی ضد شروع کر دی مگر ابو نے مجھے بہت مارا۔ تم سکول میں اپنے نام کے ساتھ میرا نام لگاؤ گے۔ خدا کے لئے ہم پر رحم کرو اور جو کچھ عزت باقی رہ گئی ہے، وہ قائم رہنے دو۔ مسکان کے مطابق اس کو ابو سے کوئی گلہ نہیں تھا کیونکہ ان کو بھی گلی محلے سے لے کر رشتہ داروں تک ایک ہی طنز کا سامنا تھا۔ اچھا سنا ہے آپ کا بیٹا ہیجڑا ہے۔ اسی وجہ سے میرے ابو نے رشتہ داروں کی شادیوں میں بھی جانا کم کر دیا۔ جب میں 12 سال کا ہوا تو ابو کی برداشت بھی جواب دے گئی۔ انہوں نے ایک دوست کے توسط سے مجھے ایک گورو کے حوالے کیا۔ امی جان بہت روئی تھیں اور میں بلک بلک کے سسکیاں لے رہا تھا مگر ابو نے فیصلہ کر دیا تھا کہ اب مجھے ایک دن بھی برداشت نہیں کیا جائے گا۔



میں درد سے تڑپ رہا تھا اور میرے سامنے تین چہرے تھے۔ ایک میری امی کا، ایک بھائی کا اور ایک بہن کا۔ گورو مجھے اسلام آباد لے آیا۔ میں کچھ دن تکلیف میں تھا مگر میرے اردگرد لوگ میرے جیسے ہی تھے جن کو اپنے خاندان والوں نے گھروں سے نکالا تھا۔

گھر سے دور تھا مگر مجھے ازادی کی سانسیں نصیب ہوئی تھیں اور اب میں نہ صرف لڑکیوں کے کپڑے پہن سکتا ہوں بلکہ ازادی کے ساتھ لپ سٹک اور بناؤ سنگھار بھی کر سکتا ہوں اور میرے اردگرد وہی لوگ تھے جن کو گھر والے لڑکے سمجھتے تھے مگر وہ خواجہ سرا تھے۔

مسکان کا قد تقریباً چھ فٹ ہے اور اسلام آباد آنے کے بعد اپنے دیگر ساتھیوں کے ساتھ تھیٹر اور شادیوں پر جا کر دیکھتے تھے کہ خواجہ سرا رقص کس طرح کرتے ہیں اور چار سال بعد مسکان بھی رقص کے داؤ پیچ سے آگاہ ہو چکا تھا اور اب وہ باقاعدہ رقص کر سکتا تھا۔

مسکان نے کہا کہ میرے گورو نے مجھے والدین سے زیادہ پیار دیا اور جب میں یہاں آیا تو اس نے میرے بال بڑے کیے جو نیچے تک تھے کیونکہ میں سب میں کم عمر تھا۔ میں بہت حسین تھا، اس لئے شادیوں میں سب سے زیادہ لوگوں کی چھیر چھاڑ کا سامنا رہتا تھا۔

مسکان زندگی کے تلخ واقعات بیان کرتے ہوئے کہتی ہے کہ ایک دن ہم شادی پر گئے اور میں نے خوب رقص کیا اور بدن تھکاوٹ سے بے حال تھا جس کے بعد ساتھ میں موجود ایک کمرے میں گئی تاکہ پانی پی کر کمر سیدھی کروں۔ میں کمرے میں لیٹ گئی اور اس دوران کچھ لڑکے کمرے میں داخل ہوئے اور پیار سے فرمائش کرنے لگے کہ ہمارے ساتھ سیکس کرو۔ میں نے سخت لہجے میں کہا کہ میں صرف رقص کرتی ہوں، جسم فروشی نہیں۔ مگر ان کے روئیوں میں سختی آتی گئی اور میری مزاحمت پر انہوں نے مجھ پر بہت تشدد کیا۔ مگر میرا جواب انکار ہی تھا جس کے بعد انہوں نے غصے میں آ کر میرے ریشمی بال کاٹ ڈالے اور یہ حرکت مجھے کئی دن تک پریشان کرتی رہی۔

مسکان کے مطابق تھیٹر کے زوال سے خواجہ سراؤں کے زوال کے دن بھی شروع ہوئے اور خواجہ سرا زندگی کی ضروریات پوری کرنے کے لئے یا تو جسم فروشی کرتے ہیں یا ہماری طرح سڑکوں پر بھیگ مانگتے ہیں کیونکہ اب ہماری عمریں بھی زیادہ ہو گئی ہیں اور شادیوں میں چھوٹے خواجہ سراؤں کی فرمائش زیادہ ہے۔



مسکان نے حال ہی میں پیش آنے والے ایک واقع کا ذکر کیا اور کہا کہ کچھ دن پہلے جب رات کافی ہو چکی تھی، میں پاس کھڑی ایک گاڑی کے قریب پہنچی تو ایک لڑکا اور لڑکی بیٹھے تھے اور میں نے کچھ مانگنے کی فرمائش کی۔ انہوں نے کہا ہٹ جاؤ کدھڑے، جس پر مجھے بہت غصہ آیا اور میں نے گالی دی۔ مگر مجھے پتہ ہی نہیں چلا کہ وہ دونوں نشے میں ہیں اور اس نے شراب کی بوتل اُٹھا کر میرے سر پر دے ماری۔ بس مجھے کچھ لمحے ہوش رہا۔ پھر پتہ نہیں چلا اور میں بے ہوش ہوئی اور اس کے بعد پولیس والے مجھے اپنی گاڑی میں ڈال کر ہسپتال لے کر گئے۔

پولیس والا بہت اچھا تھا۔ انہوں نے مجھے کہا کہ اگر آپ کو گاڑی کا نمبر یاد ہو تو ہم ان پر پرچہ کاٹیں گے مگر مجھے نمبر یاد نہیں۔ ہاں، جب بھی وہ میرے سامنے آئے گا میں ان کو بالوں سے پکڑ کر سب کے سامنے سڑک پر گھسیٹ کر ماروں گا۔

مسکان نے کہا کہ اج کل ہمارے گورو بیمار ہیں اور ایک اسپتال میں داخل ہیں۔ ہم دن رات کام کر رہے ہیں تاکہ گورو کا علاج ہو جائے کیونکہ گورو ہمارا سب کچھ ہوتا ہے اور اپنے والدین سے زیادہ دل کے قریب ہے کیونکہ انہوں نے گھر سے نکالا تھا اور گورو نے سینے سے لگایا تھا۔

عبداللہ مومند اسلام آباد میں رہائش پذیر ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔