• آن لائن اشتہاری ٹیرف
  • رابطہ کریں
  • ہمارے بارے میں
  • ہمارے لئے لکھیں
  • نیا دور انگریزی میں
بدھ, فروری 8, 2023
نیا دور
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English
No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English
No Result
View All Result
نیا دور
No Result
View All Result

جب سیکس سے انکار پر انہوں نے میرے بال کاٹ دیے

عبداللہ مومند by عبداللہ مومند
مارچ 8, 2020
in صنف, فیچر, معاشرہ
793 8
0
جب سیکس سے انکار پر انہوں نے میرے بال کاٹ دیے
935
SHARES
4.5k
VIEWS
Share on FacebookShare on TwitterShare on Whatsapp

ستائیس سالہ مسکان مارچ کے مہینے کی سخت بارش میں اسلام آباد کے سڑکوں پر ٹریفک سگنل بند ہونے کے انتظار میں سڑک کے کنارے کھڑی تھی۔ اس کے کپڑے بارش کی وجہ سے پورے گیلے تھے اور سرد ہوا کی وجہ سے اس کا پورا جسم کانپ رہا  تھا مگر جیسے ہی ٹریفک سگنل بند ہوتا تھا تو اس سمت میں بھاگ کر سگنل کھلنے کے انتظار میں کھڑے لوگوں کے گاڑیوں کے شیشوں پر اپنی انگلی سے ہلکی سے ضرب لگاتی تاکہ کوئی متوجہ ہو جائے اور اس کو کچھ پیسے بھیک کے طور پر دے جائے۔

میرے کپڑے بھی بارش سے مکمل طور پر شرابور ہو چکے تھے مگر آج میں نے مسکان کی کہانی لکھنی تھی تاکہ معلوم ہو جائے کہ ملک میں خواجہ سراؤں کے ساتھ انسانی رویے کیسے ہیں۔

RelatedPosts

ڈاکٹر مہرب معز اعوان مرد ہیں یا خواجہ سرا؟

خواجہ سرا طبقے سے متعلق تضحیک آمیز ڈائیلاگ، فلم ’دم مستم‘ کیخلاف کارروائی کا مطالبہ

Load More

مسکان جب شیشوں پر اپنے انگلی سے دستک دیتی تھی تو کوئی شیشہ نیچے کر کے پیسے ادا کرتا تھا اور ساتھ دعائیں دینے کے لئے درخواست کرتا تھا جب کہ کچھ لوگ دس روپے کا نوٹ نکال کر کبھی ہاتھ اندر کرتے تھے اور کبھی باہر۔ اس کوشش سے ایک طرف مسکان کو بھی ترساتے تھے تو دوسری جانب ٹریفک سگنل کے انتظار میں کھڑے گاڑی ڈرائیور بھی اس چوہے اور بلی کے گیم سے لطف اندوز ہوتے تھے مگر کچھ اس پورے گھنٹے میں صرف دو ڈرائیوروں نے مسکان کو گاڑی کے اندر بیٹھنے کی دعوت دی۔

مسکان کے منہ سے ہر ایک کے لئے ایک جملہ نکلتا تھا: صاحب کچھ دو، گورو بیمار ہے۔ بجلی اور مکان کا بل بھی ادا کرنا ہے۔

اس تماشے کو دیکھنے کے بعد میں اور مسکان ایک چائے خانے میں داخل ہو چکے تھے مگر چائے خانے تک پہنچنے کے لئے ہم نے جو کچھ میٹرز کا فاصلہ طے کیا تھا، ہر گزرتی آنکھ نے ہمیں عجیب نظروں سے دیکھا تھا۔ یہ نظریں کچھ اور بیان نہیں کر رہی تھیں بلکہ ملک میں خواجہ سراؤں اور جسم فروشی کو ایک ہی نظر سے دیکھنے والی سوچ کی عکاسی کر رہی تھیں۔

فیصل سے مسکان تک کا سفر کراچی کی گلیوں سے شروع ہو کر اسلام آباد کی کشادہ سڑکوں اور عمارتوں پر ختم ہوتا ہے مگر اس سفر میں مسکان نے وہ سب کچھ برداشت کیا ہے جو اس ملک کے تقریباً ہر خواجہ سرا اپنے بچپن سے پیشہ ورانہ زندگی تک برداشت کرتا ہے۔

مسکان کراچی کے ایک اعلیٰ گھرانے میں پیدا ہوا جس کا نام خاندان والوں نے فیصل رکھا۔ اس کا والد لکڑیوں کا کاروبار کرتا تھا۔ وہ والدین کا شادی کے بعد پہلا بیٹا تھا اور مسکان کے مطابق اس کو گھر میں بہت پیار ملا تھا۔ مسکان کا ایک بھائی اور ایک بہن بھی تھے جو اس سے چھوٹے تھے۔ وقت کے ساتھ ساتھ جب فیصل عرف مسکان بڑا ہونے لگا تو وہ ہمیشہ گڑیا خریدنے کی فرمائش کرتا تھا جس پر اس کے والدین بقول مسکان کے غصہ کرتے تھے کہ آپ لڑکیوں کی چیزیں کیوں پسند کرتے ہو۔

وقت گزرتا گیا اور مسکان کو اندازہ ہونے لگا کہ گھر والوں نے اس کا نام فیصل رکھا ہے اور اس کو بیٹا سمجھتے ہیں مگر وہ لڑکوں سے بہت مختلف ہے اور اس کو لپ سٹک لگانا، سنگھار کرنا، رقص کرنا اور لڑکیوں کے کپڑے پہننا اچھا لگتا تھا جب کہ اس کے والدین مسکان کی ان خواہشات پر اس پر تشدد کرتے تھے۔ جب مسکان پورے نو سال کی ہوئی تو گھر والوں کو یقین ہوا کہ وہ خواجہ سرا ہے جس کی وجہ سے اس کو گھر میں قید کیا گیا اور ان سے سکول جانے کا حق بھی چھین لیا گیا۔

مسکان کے مطابق جب رشتہ داروں میں شادی یا کوئی دوسرا پروگرام ہوتا تھا تو بھائی اور بہنوں کی طرح میں بھی تیار ہوتا تھا کہ میں بھی جاؤں گا مگر
ابو کا یہ جملہ آج بھی مجھے یاد ہے جب وہ کہتے تھے کہ کتنی عزت برباد کرو گے۔ تم نے ہماری عزت میں چھوڑا کیا ہے؟

وقت کے ساتھ ساتھ میں نے سکول جانے کی ضد شروع کر دی مگر ابو نے مجھے بہت مارا۔ تم سکول میں اپنے نام کے ساتھ میرا نام لگاؤ گے۔ خدا کے لئے ہم پر رحم کرو اور جو کچھ عزت باقی رہ گئی ہے، وہ قائم رہنے دو۔ مسکان کے مطابق اس کو ابو سے کوئی گلہ نہیں تھا کیونکہ ان کو بھی گلی محلے سے لے کر رشتہ داروں تک ایک ہی طنز کا سامنا تھا۔ اچھا سنا ہے آپ کا بیٹا ہیجڑا ہے۔ اسی وجہ سے میرے ابو نے رشتہ داروں کی شادیوں میں بھی جانا کم کر دیا۔ جب میں 12 سال کا ہوا تو ابو کی برداشت بھی جواب دے گئی۔ انہوں نے ایک دوست کے توسط سے مجھے ایک گورو کے حوالے کیا۔ امی جان بہت روئی تھیں اور میں بلک بلک کے سسکیاں لے رہا تھا مگر ابو نے فیصلہ کر دیا تھا کہ اب مجھے ایک دن بھی برداشت نہیں کیا جائے گا۔

میں درد سے تڑپ رہا تھا اور میرے سامنے تین چہرے تھے۔ ایک میری امی کا، ایک بھائی کا اور ایک بہن کا۔ گورو مجھے اسلام آباد لے آیا۔ میں کچھ دن تکلیف میں تھا مگر میرے اردگرد لوگ میرے جیسے ہی تھے جن کو اپنے خاندان والوں نے گھروں سے نکالا تھا۔

گھر سے دور تھا مگر مجھے ازادی کی سانسیں نصیب ہوئی تھیں اور اب میں نہ صرف لڑکیوں کے کپڑے پہن سکتا ہوں بلکہ ازادی کے ساتھ لپ سٹک اور بناؤ سنگھار بھی کر سکتا ہوں اور میرے اردگرد وہی لوگ تھے جن کو گھر والے لڑکے سمجھتے تھے مگر وہ خواجہ سرا تھے۔

مسکان کا قد تقریباً چھ فٹ ہے اور اسلام آباد آنے کے بعد اپنے دیگر ساتھیوں کے ساتھ تھیٹر اور شادیوں پر جا کر دیکھتے تھے کہ خواجہ سرا رقص کس طرح کرتے ہیں اور چار سال بعد مسکان بھی رقص کے داؤ پیچ سے آگاہ ہو چکا تھا اور اب وہ باقاعدہ رقص کر سکتا تھا۔

مسکان نے کہا کہ میرے گورو نے مجھے والدین سے زیادہ پیار دیا اور جب میں یہاں آیا تو اس نے میرے بال بڑے کیے جو نیچے تک تھے کیونکہ میں سب میں کم عمر تھا۔ میں بہت حسین تھا، اس لئے شادیوں میں سب سے زیادہ لوگوں کی چھیر چھاڑ کا سامنا رہتا تھا۔

مسکان زندگی کے تلخ واقعات بیان کرتے ہوئے کہتی ہے کہ ایک دن ہم شادی پر گئے اور میں نے خوب رقص کیا اور بدن تھکاوٹ سے بے حال تھا جس کے بعد ساتھ میں موجود ایک کمرے میں گئی تاکہ پانی پی کر کمر سیدھی کروں۔ میں کمرے میں لیٹ گئی اور اس دوران کچھ لڑکے کمرے میں داخل ہوئے اور پیار سے فرمائش کرنے لگے کہ ہمارے ساتھ سیکس کرو۔ میں نے سخت لہجے میں کہا کہ میں صرف رقص کرتی ہوں، جسم فروشی نہیں۔ مگر ان کے روئیوں میں سختی آتی گئی اور میری مزاحمت پر انہوں نے مجھ پر بہت تشدد کیا۔ مگر میرا جواب انکار ہی تھا جس کے بعد انہوں نے غصے میں آ کر میرے ریشمی بال کاٹ ڈالے اور یہ حرکت مجھے کئی دن تک پریشان کرتی رہی۔

مسکان کے مطابق تھیٹر کے زوال سے خواجہ سراؤں کے زوال کے دن بھی شروع ہوئے اور خواجہ سرا زندگی کی ضروریات پوری کرنے کے لئے یا تو جسم فروشی کرتے ہیں یا ہماری طرح سڑکوں پر بھیگ مانگتے ہیں کیونکہ اب ہماری عمریں بھی زیادہ ہو گئی ہیں اور شادیوں میں چھوٹے خواجہ سراؤں کی فرمائش زیادہ ہے۔

مسکان نے حال ہی میں پیش آنے والے ایک واقع کا ذکر کیا اور کہا کہ کچھ دن پہلے جب رات کافی ہو چکی تھی، میں پاس کھڑی ایک گاڑی کے قریب پہنچی تو ایک لڑکا اور لڑکی بیٹھے تھے اور میں نے کچھ مانگنے کی فرمائش کی۔ انہوں نے کہا ہٹ جاؤ کدھڑے، جس پر مجھے بہت غصہ آیا اور میں نے گالی دی۔ مگر مجھے پتہ ہی نہیں چلا کہ وہ دونوں نشے میں ہیں اور اس نے شراب کی بوتل اُٹھا کر میرے سر پر دے ماری۔ بس مجھے کچھ لمحے ہوش رہا۔ پھر پتہ نہیں چلا اور میں بے ہوش ہوئی اور اس کے بعد پولیس والے مجھے اپنی گاڑی میں ڈال کر ہسپتال لے کر گئے۔

پولیس والا بہت اچھا تھا۔ انہوں نے مجھے کہا کہ اگر آپ کو گاڑی کا نمبر یاد ہو تو ہم ان پر پرچہ کاٹیں گے مگر مجھے نمبر یاد نہیں۔ ہاں، جب بھی وہ میرے سامنے آئے گا میں ان کو بالوں سے پکڑ کر سب کے سامنے سڑک پر گھسیٹ کر ماروں گا۔

مسکان نے کہا کہ اج کل ہمارے گورو بیمار ہیں اور ایک اسپتال میں داخل ہیں۔ ہم دن رات کام کر رہے ہیں تاکہ گورو کا علاج ہو جائے کیونکہ گورو ہمارا سب کچھ ہوتا ہے اور اپنے والدین سے زیادہ دل کے قریب ہے کیونکہ انہوں نے گھر سے نکالا تھا اور گورو نے سینے سے لگایا تھا۔

Tags: transgendertransgender in islamabadاسلام آباد میں خواجہ سراخواجہ سرامسکان
Previous Post

میرا جسم، تیری مرضی کیوں؟

Next Post

وزیر مملکت شہریار آفریدی کے بھتیجے نے سر میں گولی مار کر خودکشی کر لی

عبداللہ مومند

عبداللہ مومند

عبداللہ مومند اسلام آباد میں رہائش پذیر ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔

Related Posts

سوات: سیلاب کی وجہ سے ٹراؤٹ فش کے کاروبار کو 1ارب 35 کروڑ روپے کا نقصان

سوات: سیلاب کی وجہ سے ٹراؤٹ فش کے کاروبار کو 1ارب 35 کروڑ روپے کا نقصان

by شہزاد نوید
فروری 8, 2023
0

جس طرح ہر علاقہ اپنی کسی مخصوص سوغات کی وجہ سے دنیا بھر میں جانا جاتا ہے تو اسی طرح خیبر پختونخواہ...

سیلاب سے متاثر کسانوں کو ابھی تک معاوضہ نہیں مل سکا

سیلاب سے متاثر کسانوں کو ابھی تک معاوضہ نہیں مل سکا

by دی تھرڈ پول
فروری 7, 2023
0

پاکستان میں زیادہ تر کسان جن کی فصلیں گزشتہ سال کے تباہ کن سیلاب میں برباد ہو گئی تھیں، ان کے پاس...

Load More
Next Post
وزیر مملکت شہریار آفریدی کے بھتیجے نے سر میں گولی مار کر خودکشی کر لی

وزیر مملکت شہریار آفریدی کے بھتیجے نے سر میں گولی مار کر خودکشی کر لی

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تلاش کریں

No Result
View All Result

ایڈیٹر کی پسند

عمران خان، اور ان کے ارد گرد بیٹھے سیاسی آوارہ گردوں کی اصل حقیقت!

عمران خان، اور ان کے ارد گرد بیٹھے سیاسی آوارہ گردوں کی اصل حقیقت!

by عاصم علی
فروری 8, 2023
2

...

فیض حمید صاحب، سب اچھا نہیں ہے!

فیض حمید صاحب، سب اچھا نہیں ہے!

by عاصم علی
فروری 3, 2023
0

...

Aamir Ghauri Nawaz Sharif

نواز شریف چوتھی مرتبہ وزیر اعظم بن سکتے ہیں؟

by عامر غوری
جنوری 30, 2023
0

...

عمران خان اسٹیبلشمنٹ کی ٹھکرائی ہوئی محبوبہ ہیں

عمران خان اسٹیبلشمنٹ کی ٹھکرائی ہوئی محبوبہ ہیں

by عاصم علی
جنوری 18, 2023
1

...

جنرل یحییٰ خان اور جنرل قمر باجوہ ایک ہی سکے کے دو رخ ثابت ہوئے

جنرل یحییٰ خان اور جنرل قمر باجوہ ایک ہی سکے کے دو رخ ثابت ہوئے

by طارق بشیر
جنوری 18, 2023
0

...

Newsletter

ہماری مدد کریں

ٹویٹس - NayaDaur Urdu

نیا دور کے صفِ اوّل کے مصنفین

پیٹر جیکب
پیٹر جیکب
View Posts →
حسن مجتبیٰ
حسن مجتبیٰ
View Posts →
عرفان صدیقی
عرفان صدیقی
View Posts →
نجم سیٹھی
نجم سیٹھی
View Posts →
نبیلہ فیروز
نبیلہ فیروز
View Posts →
محمد شہزاد
محمد شہزاد
View Posts →
توصیف احمد خان
توصیف احمد خان
View Posts →
رفعت اللہ اورکزئی
رفعت اللہ اورکزئی
View Posts →
فوزیہ یزدانی
فوزیہ یزدانی
View Posts →
حسنین جمیل
حسنین جمیل
View Posts →
مرتضیٰ سولنگی
مرتضیٰ سولنگی
View Posts →
اسد علی طور
اسد علی طور
View Posts →
ادریس بابر
ادریس بابر
View Posts →
رضا رومی
رضا رومی
View Posts →
علی وارثی
علی وارثی
View Posts →

This message is only visible to admins.
Problem displaying Facebook posts.
Click to show error
Error: Server configuration issue

خبریں، تازہ خبریں

  • All
  • انٹرٹینمنٹ
  • سیاست
  • ثقافت
کم از کم اجرت 20 ہزار، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ: بجٹ 2021 پیش کر دیا گیا

اقتدار کے ایوانوں سے جلد کسی ‘بڑی چھٹی’ کا امکان ہے؟

اکتوبر 31, 2021
ہمیں نفرت اور مذہب کے بیوپاریوں کی نہیں، دھانی اور دھونی جیسے ہیروز کی ضرورت ہے

ہمیں نفرت اور مذہب کے بیوپاریوں کی نہیں، دھانی اور دھونی جیسے ہیروز کی ضرورت ہے

اکتوبر 27, 2021
بد ترین کارکردگی پر الیکشن نہیں جیتا جاسکتا، صرف ای وی ایم کے ذریعے جیتا جاسکتا ہے

ای وی ایم اور انتخابات: ‘خان صاحب سمندر پار پاکستانیوں کے ووٹ لینے کے لیئے بے تاب ہیں’

اکتوبر 24, 2021

Naya Daur © All Rights Reserved

No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English

Naya Daur © All Rights Reserved

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password?

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In