منت - معاشرے کی منافقت سے پردہ نوچتا اچھوتا افسانہ

منت - معاشرے کی منافقت سے پردہ نوچتا اچھوتا افسانہ

غلام صدیق پنجاب کے دوردراز گاؤں طوطی پور کا رہا ئشی ، پانچ بیٹیوں اور دو بیٹوں کا با پ تھا۔ غلا م صد یق دس ایکڑ وراثتی زمین کا ما لک ہونے کے ناطے پیشہ تو کھیتی باڑی کا ہی اپنائے ہوئے تھا لیکن گا ؤں طوطی پورکا منتختب کونسلربھی تھا اس لیے پورا  گا ؤں غلام صد یق کوچو دھری صا حب کے نام سے پکا رتا۔ غلا م صد یق گا ؤں کے چھوٹے موٹے معاملا ت کے فیصلے کر کے اور کورٹ کچہر ی کے مقد ما ت میں مخصوص قا نونی مدد کر کے اپنے ممبر ہو نے کا عملی ثبوت دیتا، جبکہ اسنے حلقے کے پٹو اری اور زکواۃ کے چیر مین سے دوستی یاری بھی پالی ہوئی تھی۔ایک سال قبل گا ؤ ں کی ایک بیوہ عو رت سلٰمی جس کا شوہر چو دھر ی صا حب کے ڈیر ے پر ملا زم تھا اور ایک صبح اپنے بستر پر مردہ پایا گیا تھا۔


اس کے صر ف دو بچے تھے اوران کے لیے چودھری صا حب نے زکوٰاۃ چیرمین سے خصوصی سفارش کر کے 500 روپے مہینہ لگوا دیا، جس پر گا ؤں کے باقی بیوہ عورتوں نے چودھر ی صا حب سے بھی اس قسم کی امید باندھی ہو ئی تھی لیکن چو دھری صا حب نے ان کی سفا رش کر نے کی زحمت گوارہ نہیں کی۔ جس پر گا ؤں کی ایک بیو ہ نے چو دھر ی صا حب سے شدید اجتجا ج کر تے ہو ئے صر ف سلمی کی سفا رش کر نے پر ایسے الز اما ت بھی لگا ئے جس سے لو گوں کے سلمٰی کے شوہر کی موت کے بارے میں کئی شکوک وشبہا ت کو تقو یت ملی لیکن سلمٰی کے شوہر کی مو ت اور زکوٰاۃ کی منظور ی جیسے معاملات گاؤں کے گھروں کے چولہوں میں شروع ہو کر چولہو ں میں جل گئے۔چو دھر ی صا حب کے پاس مو ٹے تا زے دو بیلوں کی جوڑی رکھی ہو تھی جوصبح شام چو دھری صا حب کے گھر کے با ہر ڈیرے پر بند ھے نظر آتے ہیں۔ایک بیل جسے چو دھری صا حب نے پیار سے مجنوں کا نام دیا ہوا تھا اور چو دھر ی صا حب کئی دفعہ اپنے ملا ز م فقیرے سے فخریہ انداز میں کہ چکے تھے کہ مجنو ں کو جب بھی بیچا دو لا کھ روپے سے کم میں نہیں بکے گا۔


ایک دن فجر کی نما ز پڑ ھنے کے بعد چو دھر ی صاحب حسب معمول بیو ہ سلمٰی کے گھر گئے جہا ں روزانہ کی طر ح سلمٰی کے بچو ں پردست شفقت پھیرا اور سلمٰی سے گو یا ہو ئے کہ مجنو ں کو اگلے اتوار منڈ ی میں بیچوں گا اورپھرتم ایک نئے گھر میں سکون سے رہوگی۔بس ایک ہفتے کی بات ہے اور مجھے رب صلہ دینے والا ہے۔ یہ کہتے ہو ئے چو دھری صا حب نے سلمٰی کے سر پر ہا تھ پھیرنا  نہ بھو لا اور ڈیرے کی طر ف روانہ ہوگئے۔
آج مجنو ں کے آگے چارہ ویسے کا ویسے پڑ ا ہے اور مجنو ں بھی کچھ انگھ سا رہا ہے۔چو دھر ی صا حب کے ڈیر ہے پر پہنچنے پر فقیرے نے مجنوں کی طبیعت کے بارے میں انکشا ف کیا ۔
فقیر ے سے مجنوں کے بارے چارہ نہ کھا نے کی خبر سن کر چو دھر ی صا حب کو تھو ڑی سی پر یشانی ہو ئی تو چو دھر ی صا حب نے خود جا کر مجنوں کے جسم پر ہا تھ پھیرا۔ مجنوں کا جسم تپ رہا تھا اورجب مجنوں کو اٹھا نے کی کو شش کی تو چودھری صا حب کو محسوس ہو ا کہ مجنوں کی ٹا نگیں بھی اسکا ساتھ نہیں دے رہیں لیکن جب چو دھر ی صا حب اور فقیر ے کی مشتر کہ کو شش کے باوجو د بھی مجنو ں نہ اٹھ سکا توچو دھری صا حب کی پریشا نی مزید بڑھ گئی۔
فقیرے مو ٹر سائیکل نکا ل جلد ی شہر چلیں ڈاکٹر کے پاس۔چو دھر ی صا حب نے جلد ی سے شہر جاکر مجنو ں کے لیے دوائی خر ید نے کی ٹھا نی۔
فقیرے نے مو ٹر سائیکل اسٹا رٹ کر کے چو دھر ی صا حب کو پیچھے بٹھا کر شہر کی جانب روانہ ہو گیا ۔


شہر کی طر ف جانے والی سٹر ک ٹو ٹ پھو ٹ کا شکا ر تھی جس پر دھول اڑ رہی تھی۔ دھول اور گرد وغبار کی وجہ سے راستے میں چو دھری صا حب کو ایک کھانسی کا دورہ بھی پڑ اور چو دھر ی صا حب نے کھانستے ہوئے فقیر کے کو مو ٹر سائیکل آہستہ چلانے کو کہا۔
فقیرے مجنو ں کی بیما ری کا پتہ ہر گز کسی کو نہ چلے اگلے اتو ار منڈ ی پر اسے بیچنا ہے،ہمارے لو گ تم جانتے ہو بہت خراب ہیں پھر باتیں کر تے ہیں اورہاں شام کو سلمٰی کے گھر بھی پانی جلدی پہنچا دیاکر و،یتیم بچے ہیں اس کے۔ چو دھر ی صا حب نے کھانستے ہو ئے فقیرے کو نصیحت کی۔
چودھری صا حب میرا خیا ل ہے کہ سلمٰی کو اب شا دی کر لینی چاہیے ۔فقیر نے مو ٹرسائیکل کی رفتا ر کم کر تے ہو ئے چو دھری صا حب کو کہا۔
فقیرے تو بھی کبھی کبھی ایسی بات کر دیتا ہے جو بے وقو فی کی انتہا ء ہو تی ہے۔ چو دھر ی صا حب منہ پر کپڑ ا پھیر تے ہو ئے بولے۔
سلمٰی کیوں شادی کرے پاگل، دوسری شادی اتنی آسان نہیں ہو تی،اللہ خیال رکھنے والا ہے۔ ہم خیال رکھیں گے سلمٰی کا۔ چو دھری صا حب نے فیصلہ کن انداز میں کہا۔
شہر جو قر یب ہی تھا چو دھری صاحب نے فقیرے کو سید ھا ڈاکٹر رحیم کے گھر جانے کو کہا۔ ڈاکٹر رحیم ویسے تو ڈسپنسر تھا لیکن شہر میں مخصو ص مویشی ہسپتال نہ ہو نے کی وجہ سے حیوانا ت کاعلا ج کر لیتا تھا اور چو دھری صا حب کے ساتھ پرانی دعا سلا م بھی تھی۔ ابھی چو دھر ی صا حب ڈاکٹر رحیم کی گلی مڑ ے ہی تھے کہ پیچھے سے کسی نے آوا دی چو دھر ی صا حب۔
آواز سنتے ہی فقیر ے نے مو ٹر سائیکل روک کر دیکھا تو پیچھے گاؤں کے مو لو ی بشیر آرہے تھے۔چودھر ی صا حب اتنی صبح آپ شہرآگئے خیر تو ہے؟۔ مو لو ی صا حب نے آتے ہی سو ال داغا۔ بس ذرا ضروری کا م تھا مو لو ی جی آپ کیسے آئے،چودھر ی صا حب نے بددلی سے جواب دیا۔
میں نما ز پڑھا تے ہی شہر نکل آیا صبح فجر کی آذان کے وقت لاوڈ سپیکر خراب ہو گیا تھا اسے بھی ٹھیک کرانا تھا اور اسامہ (مو لو ی کا چھوٹا بیٹا) کے لیے کو ئی جو تے بھی دیکھنے تھے۔ مو لو ی بشیر نے شہر آنے کی وجو ہا ت تفصیل سے بتا ئی۔
چو دھر ی صا حب کام ہو تے رہیں گے آو ہوٹل میں چائے پیتے ہیں۔ مو لو ی بشیرنے باقاعدہ مو ٹر سائیکل کاہینڈ ل پکڑ لیا۔
نہیں مو لو ی جی ابھی مجھے صا حب بہا در (تحصیلد ار)کے پا س جانا ہے واپسی پر چائے پیتے ہیں۔ چو دھر ی صا حب نے فقیر ے کو مو ٹر سائیکل اسٹارٹ کر نے کا اشارہ کیا۔
مو لوی صا حب سے جان چھڑوانے کے بعد چو دھر ی صاحب سید ھا ڈاکٹر رحیم کے پا س پہنچے اور نہا یت فکر مند ی سے ڈاکٹررحیم کو مجنو ں کی بیما ری کا احوال سنا یا۔
ڈاکٹرصا حب آپ نے تو دیکھا ہوا ہے مجنوں پورے دو لاکھ روپے کا ہے اور میں نے اسے اگلے اتوار منڈ ی میں بیچ کر ایک بہت ضروری کام کر نا ہے۔ چو دھر ی صاحب نے نہا یت فکر مند ی سے ڈاکٹر رحیم کو مجنو ں کی اہمیت بتا ئی۔
اللہ خیر کر ے گا چو دھر ی صا حب تین گو لیا ں ہر دوگھنٹے بعد کھلا ؤ۔ ڈاکٹر رحیم نے تسلی دیتے ہو ئے چودھر ی صا حب کو گولیوں کے دس پیکٹ دیے۔
گھرآنے کے بعد چو دھر ی صا حب نے ڈاکٹر رحیم کی ہد ایا ت کے بعد مجنو ں کو دوائی کھلانا شروع کی لیکن دو دن تک کو ئی افاقہ نہ ہوا اور مجنو ں کی حا لت خراب ہو تی گئی۔ مجنوں کی حالت خراب دیکھ کر چو دھری صا حب کی پر یشانی اپنے نقطہ عر وج پرپہنچ گئی۔ مجنوں کی بیما ری کے تیسرے دن رات کے کھا نے کے بعد چو دھر ی صا حب سلمٰی کے گھر گئے اور سلمٰی کو مجنو ں کی بیما ری کا پہلی دفعہ ذکر کیا۔
مجنوں کل کا بیما رہے۔ نہ کچھ کھا تا ہے نہ کچھ پیتا اور نہ ہی اپنے پیر وں پر کھڑ ا ہو سکتا ہے۔ چو دھ ی صا حب نے کمر ے کے اند ر بچھی چارپائی پر بیٹھے ہو ئے سلمی سے کہا۔
ڈاکٹر کو ادھر لے آتے مجنو ں کو ٹھیک ہو نا چاہیے اور چو دھر ی صا حب مجھے بھی اب چکر آتے ہیں منہ کا ذائقہ بھی خراب رہتا ہے۔ سلمی نے گھبر ا کر اپنی پر یشا نیو ں کا ذکر کیا۔
ہا ں ڈاکٹر کو کل لے آئے گا فقیر ا،ور تم بھی اپنی دوائی لے لینا۔ مجنو ں ٹھیک ہو جائے تو پھر سب ٹھیک ہو جائے گا۔ چو دھر ی صا حب نے تسلی دیتے ہو ئے سلمی کے سر پر ہا تھ پھیرا۔
سلمی کے گھر سے چو دھر صا حب سید ھا ڈیرے پر آئے مجنوں کے آگے چارہ ویسے کا ویسے پڑ ا تھا اورمجنو ں سر جھکا ئے بیٹھا تھا۔ چودھری صاحب دسو یں پیکٹ کی آخر ی تین گو لیا ں بھی مجنو ں کو کھلا کر پھرخود چودھری صا حب کھا نا کھا کرچارپائی پر لیٹ گئے۔
مجنو ں کے حوالے سے چو دھر ی صا حب ایک بات میرے ذہن میں آرہی ہے ۔سا تھ والی چارپائی پر لیٹے فقیرے نے چو دھر ی صا حب کو مخاطب کر تے ہوئے کہا۔ کیا با ت ہے؟ چو دھر ی صا حب نے بے خیالی میں جو اب دیا۔وہ چو دھر ی صا حب مجنو ں کو ہم نے زیا دہ گو لیا ں کھلا لی ہیں اب تو وہ اندر گرمی کررہی ہو ں گی۔فقیر ے نے چو دھر ی صا حب کو ایک ہی سانس میں اپنی پر یشانی بتائی۔
ہاں لیکن دوائی تو کھلا نی ہے فقیرے۔ چو دھر ی صا حب نے جو اب دیا۔
لیکن چو دھری صاحب دوائی اثر کیو ں نہیں کر رہی۔ فقیر ے نے نکتہ اٹھا یا۔اثر کرے گی دوائی،فقیرے مجنوں ٹھیک ہوجائے گا تم دیکھنا۔ چو دھر ی صا حب نے اپنی امید قائم رکھی۔چو دھر ی صا حب شفاء تو اللہ کے ہا تھ میں ہے لیکن۔۔فقیر ے نے فقر ہ ادھو را چھوڑدیا۔ لیکن کیا فقیرے۔چودھر ی صا حب نے غصہ سے فقیرے سے پوچھا۔ لیکن کہتے ہیں کہ حلال چیز کو حلا ل کر دینا بہتر ہوتا ہے۔ آخر فقیر ے نے وہ بات کہ ڈالی جو اسے بے چین کر رہی تھی۔اوے بےوقوف، تیرے اند رعقل نام کی کو ئی چیز نہیں ہے تو مشورے نہ دے بس تم کل صبح شہر سے ڈاکٹر رحیم کو لے کر آنا اور اب جاکے سو جا۔ چو دھر ی صا حب نے فقیر ے کو تا کید کر تے ہوئے سونے کا حکم بھی دیا۔
رات کے پچھلے پہرفقیر ے کی انکھ کھلی تو دیکھا کہ مجنوں تڑپ رہا تھا، پو را جسم تپ رہا تھا۔اسے اندازہ ہو گیا تھا کہ مجنو ں اب بچنے والا نہیں۔ فقیر ے نے دیکھا کہ چو دھر ی صا حب کی چارپا ئی خالی پڑی تھی لیکن فقیر ے کو انہیں ڈھونڈ نے میں زیا دہ دیر نہ لگی۔چو دھر ی صا حب مجنو ں کی حا لت بہت خراب ہے۔ فقیرے پریشا نی سے بتایا۔
کیا ہو گیا ہے فقیرے تو کا نپ کیوں رہا ہے۔ چو دھر ی صا حب نے فقیرے کی طر ف دیکھا۔وہ۔۔وہ چو دھر ی صا حب آپ مجنو ں کوجا کر دیکھ لیں ایک دفعہ بس۔فقیر ے نے چو دھری کے ڈیرے کی طر ف اشا رہ کر تے ہو ئے کہا۔
چو دھر ی صا حب نے مجنو ں کی حا لت دیکھی تو چو دھر ی صا حب کے ماتھے پر پسینہ آگیا اور فقیر ے سے پو چھا کہ کو ئی گو لی با قی ہے۔
چو دھری صا حب آپ بھی کما ل کر تے ہیں مجنو ں کوہم جتنی جلد ی ہو سکے ذبح کر دیں۔ فقیرے نے چھر ی دیکھائی جو اس نے اپنی بغل میں چھپا ئی ہو ئی تھی۔
چودھری صا حب نے مجنوں کو خود ذبح کر نے کے لیے فقیرے سے چھر ی لینے کی کو شش کی تو فقیرے نے کہا نہیں چودھری صا حب تکبیر بھی تو پڑھنی پڑے گی۔ چودھری نے فقیرے کو سر کے اشارے سے ذبح کرنے کی اجازت دی۔
ادھر مجنو ں کی گردن سے خون کا فورا چھوٹا، ادھر فجر کی آذان کی آوازگاؤں کی فضا میں گو نجی۔ مجنوں کے ذبح ہونے کے بعد چودھری صا حب بوجھل قد مو ں سے مسجد کی جانب روانہ ہو ئے۔مولوی مسجد میں چودھری صا حب کی سب سے پہلے آمد پر حیران ہوا اور کل شہر میں چائے پلا نے کے وعدے کا گلہ کر نے والا ہی تھا کہ چو دھر ی صا حب خود ہی بو ل پڑ ے۔
مو لوی جی ابھی ایک پرانی منت کو پورا کرکے آرہا ہو ں۔
کونسی منت پوری کی چودھری صا حب؟ مو لوی جی نے حیر ت سے چو دھر ی صا حب کی طر ف دیکھتے ہو ئے پوچھا
بڑ ے چو دھر ی صا حب کی روح کو ایصا ل ثو اب کی خاظر مجنو ں کو اللہ کے نام خیر ات کر نے کی منت، جو کئی سالو ں سے تھی آج پوری کر کے آرہا ہو ں۔میں مجنوں کو اللہ کے نام پر ذبح کر کے آرہا ہو ں اورمو لوی صاحب آج فقیرے کا ولیمہ بھی ہو گا آپ ا علا ن کر دیں۔ چودھری صا حب نے تفصیل سے جواب دیتے ہو ئے لو ٹا اٹھا یا اور وضو کرنے لگے۔