پاکستان کی فوجی صلاحیت میں مسلسل بہتری لانے میں چین کا کردار

پاکستان کی فوجی صلاحیت میں مسلسل بہتری لانے میں چین کا کردار
پچھلی دو دہائیوں میں امریکہ کے ساتھ تعلق سرد ہونے کے باعث افواج پاکستان، ہتھیاروں کی فراہمی کے لئے چین کی طرف دیکھتی ہیں۔ پاکستان چینی مصنوعات کا بڑا خریدار ہونے کے ساتھ ساتھ بڑی تعداد میں دفاعی سامان بھی چین سے خریدتا ہے۔ یہ پاکستان اور چین کے مظبوط ہوتے تعلقات کی ایک بڑی وجہ ہے۔

مندرجہ ذیل فہرست ان ہتھیاروں کی ہے جو پاکستان اب چین سے خرید رہا ہے یا لائسنس حاصل کر چکا ہے:

  • ایٹمی ہتھیاروں کا منصوبہ


1990 کی دہائی میں پاکستان کے ایٹمی طاقت بننے کو عدم پھیلاؤ معاہدے پر کاری ضرب قرار دیا جاتا ہے۔ لیکن یہ بات اکثر کہی جاتی ہے کہ پاکستان کو ایٹمی قوت بننے میں چین کی جانب سے مدد فراہم کی گئی تھی جس میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی جاسوسی بھی شامل تھی۔

چین کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس نے مبینہ طور پر میزائل کے اجزا، وار ہیڈ ڈیزائن اور بہترین کوالٹی کا یورینیم بھی پاکستان کو فراہم کیا تھا۔

اس مدد کا سیاسی پہلو یہ نکالا جاتا ہے کہ پاکستان، بھارت کے خطے میں بڑھتے اثر و رسوخ کے آگے ڈھال کا کام کرے۔ لیکن چین کی جانب سے کی گئی مدد سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاک چین دفاعی تعاون کس قدر مضبوط ہے۔

  • جے ایف 17 جہاز


جے ایف 17 ایک کثیر المقاصد جنگی جہاز ہے جس نے امریکی F-16 سیز کی جگہ لے لی ہے۔ JF-17 میں کئی خوبیاں ہیں۔ جیسے کہ ہوا سے ہوا میں اور ہوا سے زمین پر مار کرنے کی صلاحیت۔ اس میں ہوا سے میزائل لانچ کرنے کا نظام اور فعال ریڈار سسٹم نصب ہیں۔ صلاحیتوں اور جدت کے اعتبار سے یہ ایک نہایت مناسب قیمت کا جہاز ہے۔ اس کا بھارتی Su-30MKIs سے اس کا آمنے سامنے کا مقابلہ ہو جائے تو اپنے زیادہ وزن اور گھومنے کی کم رفتار کے باعث JF-17 Thunder کا پلڑہ ہلکا رہے گا۔ تاہم، اگر مقابلہ آمنے سامنے کے بجائے فاصلے سے ہو تو یہ ایک مشکل حریف ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ بھارتی تیاروں میں پہلی جنریشن کے R-77 میزائل نصب ہیں جن میں ٹارگٹ کو دور سے لاک کرنے کی صلاحیت اچھی نہیں ہے۔



  • A-100 Multiple Rocket Launcher


یہ راکٹ لانچرز جدید جنگی میدان میں مہلک ترین ہتھیار مانے جاتے ہیں۔ ڈان باس میں ہوئی لڑائی نے یہ ثابت کیا کہ اگر اس حملے کے لئے آپ تیار نہ ہوں تو یہ MRLs پوری پوری یونٹ کو تباہ کر سکتے ہیں۔ A-100 اس وقت کے جدید ترین MRLs میں سےایک ہے جس کی آپریشنل صلاحیت 2000 تک جا سکتی ہے۔ چین کی جانب سے اس کے پہلے یونٹس 2008 میں پاکستان کو فروخت کیے گئے تھے جس کے بعد سسٹم کے لئے پاکستان نے راکٹ خود بنانا شروع کر دیے۔

دور تک مار کرنے والے MRLs بھارت اور پاکستان دونوں نے ہی نصب کیے ہوئے ہیں۔ بھارت کے پاس سوؤیت روسی BM-30 Smirch MRL ہیں۔

لڑائی کی ابتدا میں عقب میں موجود علاقوں میں راکٹ توپ خانے بڑی تعداد میں تباہی پھیلانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ تاہم بھارت اور پاکستان کی مزاحمتی حکمتِ عملی میں دونوں ہی ایم آر ایل سسٹمز بنیادی اہمیت کے حامل ہیں۔

  • VT-1A


خطے کے بہترین ٹینکوں میں سے ایک، VT-1A کو الخالد یا ایم بی ٹی 2000 بھی کہا جاتا ہے۔ اس کا ڈیزائن جو کہ کلین سلیٹ ہے، پاکستان اور چین نے مل کر تیار کیا تھا۔ ان ٹینکوں میں حرارت کے ذریعے ٹارگٹ کو پہچاننے کی صلاحیت، کمانڈر کے لئے پینوراما منظر کی صلاحیت اور ایک 125MM بندوق ہے۔

اگر چہ اس میں روسی اور مغربی طرز کے ٹینکوں کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت نہیں، VT-1A، بھارتی ٹینکوں T-72Ms کا بہترین مقابلہ کر سکتا ہے۔ تاہم، جدید T-90S کا مقابلہ کرنا اس کے لئے مشکل ثابت ہو سکتا ہے۔ پاکستان VT-4 حاصل کرنے کے بارے میں غور کر رہا ہے جو کہ VT-1A کے ڈیزائن کی جدید شکل ہے۔



  • HQ-16


افواجِ پاکستان نے ہمیشہ دفاع کے لئے پاک فضائیہ پر گہرا انحصار کیا ہے۔ پاکستان نےاپنی فارمیشن کی حفاظت کے لئے چین سے HQ-16 میڈیم رینج زمین سے ہوا میں مار کرنے والے میزائل لیے ہیں۔

یہ روسی BUK کی جدید ترین شکل ہے۔ HQ-16 بھی جوابی وار کی رفتار بڑھانے کے لئے عمودی لانچ اور containerized میزائل استعمال کرتا ہے۔

اس کی بیٹریاں بھی کافی متحرک ہیں جس سے اسے توپخانے اور SEAD/DEAD حملوں سے بچنے میں مدد ملتی ہے۔

پاکستان کی چین سے دور تک مار کرنے والے چینی HQ-9 سسٹم پر بھی بات چل رہی ہے۔ یہ دور تک مار کرنے والے روسی S-300 کا چینی ورژن ہے۔




چارلی گاؤ کا یہ مضمون The National Interest میں شائع ہوا جسے نیا دور قارئین کے لئے اردو میں ترجمہ کیا گیا ہے۔