گوادر میں منشیات کے عادی افراد پر تحقیق کے مطابق سب سے زیادہ تعداد بچوں کی ہے

گوادر میں منشیات کے عادی افراد پر تحقیق کے مطابق سب سے زیادہ تعداد بچوں کی ہے
پوری دنیا سمیت اس وقت پاکستان بھی کرونا سے لڑ رہا ہے، لاک ڈاؤن کی صورت حال ہے، غریب امیر سب پریشان ہیں، دہاڑی دار مزدور کے گھر کا چولہا بجھ چکا ہے مگر اس اذیت ناک صورت حال میں بھی اگر کوئی یہ کہہ دے کہ کرونا کی اذیت کچھ بھی تو نہیں ہے، اس کا مطلب وہ کسی بڑی اور زیادہ خطرناک اذیت سے گزر رہا ہے۔

جی ہاں پچھلے دنوں ایک بلوچ خاتون سے بات چیت ہوئی وہ جیسے تڑپ اٹھی جب میں نے ان سے کرونا لاک ڈاؤن کی پریشانیوں سے متعلق سوال کیا۔ یہ بوڑھی بیوا عورت چار جوان لڑکوں کی ماں ہے مگر ان کے تینوں بڑے بیٹے منشیات کے عادی ہیں، کئی بار جیل جا چکے ہیں۔ اس بڑھاپے میں یہ بیٹے بجائے ماں کا سہارا بننے کے ان کے لئے کرونا جیسی وبا سے بدتر اذیت بن چکے ہیں۔

خاتون دعا کر کے کہتی ہے ’یا پروردگار، دشمن کے بچوں کو بھی منشیات سے دور رکھنا‘۔ ان کے مطابق کرونا تو ایک بار مار دیتی ہے مگر منشیات گھر اور خاندان کو اجاڑ دیتی ہے، سب کچھ برباد کر دیتی ہے۔ یہ صرف ایک گھر یا ایک ماں کی کہانی نہیں ہے بلکہ بلوچستان اب پسماندگی، غربت، ناخواندگی کے ساتھ ساتھ اس آگ میں بھی بری طرح جھلس رہا ہے۔ مکران کے کئی علاقوں میں کم عمر نوجوانوں سمیت خواتین بھی بڑی تعداد میں منشیات کی عادی بن رہی ہیں۔



گو کہ اس متعلق کوئی قابلِ اعتماد اعداد و شمار موجود نہیں کہ بلوچستان میں منشیات کے عادی افراد کی تعداد کتنی ہے مگر کئی علاقوں میں صورت حال اس حد تک خراب ہے کہ ہر گھر میں کوئی ایک شخص لازماً اس ناسور کا شکار ہے۔ گوادر سے چند نوجوانوں نے اس حوالے سے ایک ڈاکومنٹری بنانے کے لئے قریبی علاقے کلاچ سے کچھ ڈیٹا اکھٹا کیا جس سے ایک انتہائی پریشان کن سچائی سامنے آئی کہ منشیات کے عادی افراد میں اکثریت بچوں کی ہے۔ گوادر کے علاقے دشت، کلاچ، نگور سمیت کئی دوسرے علاقوں میں اب بلوچ خواتین کی بڑی تعداد بھی منشیات میں مبتلا ہو رہی ہے۔

بلوچ سماج میں چونکہ پردہ اور چادر و چار دیواری کی رسم آج بھی مضبوطی کے ساتھ موجود ہے تو ایسے میں چند ایک منشیات کی روک تھام اور بحالی کے جو مراکز ہیں ان میں مرد تو جا سکتے ہیں مگر عورتوں کے جانے کا تصور ہی نہیں کیا جا سکتا۔ منشیات کے کاروبار میں اکثر وہ بااثر شخصیات ملوث ہیں جن کے خلاف کارروائی ناممکن کے قریب ہے بلکہ گوادر سے تعلق رکھنےوالی سیاسی و مذہبی شخصیت مولانا ہدایت الرحمٰن کے مطابق ان بااثر منشیات فروشوں کے خلاف عوامی منتخب نمائندے بھی نہیں بول سکتے کیونکہ یہ ان کے ووٹ بینک ہیں اور ادارے برائے فروخت ہیں۔

منشیات نسلوں کو کھا رہی ہے۔ آج بلوچستان کے ہر گاؤں، دیہات سے لے کر شہروں تک یہ وبا سے بڑھ کر پھیل چکی ہے۔ جو طبقے گوادر سمیت بلوچستان کو صرف تصاویر کی حد تک ترقی کرتا دیکھنا چاہتے ہیں وہ وہی دیکھ کر خوش ہیں مگر ترقی اور قوم کے معمار منشیات کی دلدل میں گرتے جا رہے ہیں۔ اگر بلوچستان کی ترقی واقعی کسی کا خواب ہے تو پہلے یہاں کی نسلوں کو بچانا ہوگا تاکہ کوئی ماں کرونا جیسی وبا کو معمولی نہ سمجھے۔

لکھاری بلوچستان کے شہر گوادر سے تعلق رکھتے ہیں اور صحافت کے طالبعلم ہیں۔