جب مجروح سلطان پوری نے نہرو کو ’ہٹلر‘ سے تشبیہ دی

جب مجروح سلطان پوری نے نہرو کو ’ہٹلر‘ سے تشبیہ دی
مجروح سلطان پوری کبھی بھی فلمی شاعر بننا نہیں چاہتے تھے۔ انہوں نے تو سوچا بھی نہیں تھا۔ وجہ یہ تھی کہ کٹر مذہبی گھرانے میں آنکھ کھولی، اور لڑکپن میں ہی عربی اور فارسی میں مہارت حاصل کرلی۔ والد عالم دین بنانے کا خواب آنکھوں میں سجائے ہوئے تھے، جبھی مدرسے بھیج دیا لیکن فٹبال کھیلنے کے جرم میں اسرار الحسن خان کے نام سے شناخت کیے جانے والے اس نوجوان پر فتویٰ لگا کر نکال باہر کیا گیا۔

اس مرحلے پر سوچا کہ حکیم بن جائیں۔ سلطان پور سے ہجرت کر کے فیض آباد میں مطب کھولا اور یہاں تحصیل دار کی بیٹی کے عشق کے ایسے قیدی بنے کہ تڑپتے ہوئے اشعار لکھنا شروع کردیے۔ جگر مراد آبادی کی شاگردی اختیار کی۔ محبت کی پتنگ بلندی پر تھی کہ ظالم سماج نے لنگر ڈال کر اسے توڑ ڈالا۔ مجبوراً واپس سلطان پور آنا پڑا۔ دل پیار کے لگائے ہوئے زخموں سے چھلنی تھا۔ جبھی شاعری میں بھی اس کی بہترین عکاسی کرنے لگے۔ ایسے میں ابھرتے ہوئے شعرا میں شمار ہونے لگا۔ دیکھتے ہی دیکھتے مشاعروں کی جان سمجھے جانے لگے۔ غالباً وہ پہلے شاعر ہوں گے جن کا تخلص خود انہوں نے نہیں بلکہ یار دوستوں نے ’مجروح‘ منتخب کیا۔ اس کی ایک وجہ ان کی ناکام محبت بھی ہوسکتی ہے۔ انہوں نے مجروح کے ساتھ اپنے آبائی علاقے ’سلطان پوری‘ کا اضافہ کیا۔

انیس سو پینتالیس میں بمبئی کے ایک مشاعرے میں پروڈیوسر اے آر کاردار کو اس نوجوان شاعر کا کلام بھا گیا۔ زیر تکمیل فلم ’شاہ جہاں‘ کے گیت لکھنے کی خواہش ظاہر کی تو مجروح سلطان پوری نے صاف انکار کر دیا۔ لیکن استاد جگر مراد آبادی نے سمجھایا کہ مشاعروں میں شرکت کر کے اس قدر نہیں کما سکتے جتنا فلمی گیت لکھنے سے، اور انہی کے حکم پر کندن لال سہگل کی بطور ہیرو اس فلم کے گیت لکھے، موسیقار نوشاد کے ترتیب دیے ہوئے ان گیتوں نے فلم نگری میں دھوم مچادی۔ بالخصوص گیت ’جب دل ہی ٹوٹ گیا جی کے کیا کریں گے‘ تو زبان زد عام ہوا۔ بلکہ کندن لال سہگل نے تو وصیت کی کہ ان کی آخری رسومات میں خاص طور پر اس گانے کو بجایا جائے۔

’شاہ جہاں‘ سے مجروح صاحب اور نوشاد کی کامیابی کا نیا سفر شروع ہوا یہ دوستی بعد میں رشتے داری میں بدل گئی، جب نوشاد صاحب کے بیٹے کی شادی مجروح صاحب کی بیٹی سے ہوئی۔ دوستی، انداز، کالا پانی اور چلتی کا نام گاڑی جیسی فلموں کے گانوں نے تو جیسے مجروح صاحب کی زندگی کا رخ ہی بدل دیا۔ وہ ایسے کامیاب نغمہ نگار بنے جن کا ہر گیت دلوں میں اتر جاتا۔ مجروح صاحب کی خاصیت یہ تھی کہ وہ پہلے سے تیار دھنوں پر بول لکھنے میں مہارت رکھتے تھے۔ آنے والے دنوں میں ان کے قلم سے بے شمار انمول گانوں کا خزانہ کھلا۔

عامر خان کے والد طاہر حسین اور چچا ناصر حسین نے جتنی فلمیں تخلیق کیں، مجروح سلطان پوری کے گیت ان فلموں کو کامیابی سے ہمکنار کرتے۔ آر ڈی برمن، لکشمی کانت پیارے لال، راجیش روشن، آنند ملند اور جتن للیت وہ موسیقار ہیں جنہیں اعلیٰ مقام، مجروح صاحب کے گانوں کی وجہ سے ملا، نئے اور پرانے موسیقار تو مجروح صاحب کو اپنے لیے خوش قسمت قرار دیتے۔

کندن لال سہگل کے لیے لکھنے والا یہ سفر سلمان خان تک تک کے لیے جاری رہا۔ قیامت سے قیامت تک، انداز اپنا اپنا، خاموشی، خوددار، جو جیتا وہی سکندر، کیا کہنا، ون ٹو کا فور، اکیلے ہم اکیلے تم، انامیکا، زمانے کو دکھانا ہے اور کالیہ نمایاں فلمیں تسلیم کی جاتی ہیں۔ مجروح صاحب کے گانوں کی خاص بات یہ رہی کہ کبھی بھی ان میں بازاری پن اور ذومعنی الفاظ کی رتی برابر جھلک نہیں ملتی۔ ہر شعر کوئی نہ کوئی معنویت لیے ہوتا۔ محبت کا احساس دلاتا وہیں محبوب کے قرب اور جدائی کا بھی۔ چاہے وہ ’پاکیزہ‘ کا ’انہی لوگوں نے‘ ہو ’تم سا نہیں دیکھا‘ کا چھپنے والے سامنے آ، یا پھر ’یادوں کی برات‘ کا چرالیا ہے تم نے جو یا پھر ’دھرم کرم‘ کا ایک دن مٹ جائے گا۔

مجروح پہلے نغمہ نگار قرار دیے گئے جنہیں انیس سے ترانوے میں بھارتی فلمی صنعت کا گراں قدر اعزاز ’دادا صاحب پھالکے ایوارڈ‘ ملا۔ چوبیس مئی دو ہزار میں چاہنے والوں سے ہمیشہ کے لیے جدا ہونے والے مجروح سلطان پوری جہاں فیض احمد فیض کی شاعری سے متاثر تھے وہیں اُن سے یہ بھی شکوہ رہا کہ انہیں ترقی پسند شعرا اور ادب کا بانی کیوں کہا جاتا ہے۔ اس سلسلے میں مجروح صاحب دعویٰ کرتے تھے کہ انہوں نے اس صنف میں فیض احمد فیض سے پہلے قدم رکھا۔ مجروح صاحب کے مطابق وہ انیس سو پینتالیس سے ترقی پسند ادبی تحریک اور بائیں بازو کی سیاست میں سرگرم رہے جبکہ فیض احمد فیض انیس سو ترپن میں فعال ہوئے۔

اسی بنا پر وہ فخریہ کہتے:

میں اکیلا ہی چلا تھا جانبِ منزل مگر

لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا

فیض صاحب سے اس نکتے پر اختلاف کے باوجود مجروح صاحب کو ان کی غزل ’مجھ سے پہلی سی محبت مرے محبوب نہ مانگ‘ اس قدر پسند تھی کہ انہوں نے اس کا ایک مصرعہ ’تری آنکھوں کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے‘ باقاعدہ اجازت لے کر فلم ’چراغ‘ کے گیت کا مکھڑا بنایا۔

تقسیم ہند کے بعد مجروح سلطان پوری کو امید تھی کہ نئے دیس میں قلم اور اظہار رائے کی آزادی ہوگی۔ لیکن جب انیس سو انچاس میں نہرو نے صحافیوں، مزدورں، طالب علموں، ادیب اور شعرا کے حقوق غضب کرنے شروع کیے، تو مجروح صاحب سراپا احتجاج بن گئے۔ بمبئی میں مزدوروں کی ریلی سے خطاب کرتے ہوئے نہرو کو ہٹلر سے تشبیہ دی۔ یہیں انہوں نے اپنی شعلہ بیان نظم پڑھی۔ من میں زہر ڈالر کو بسا کر، پھرتی ہے بھارت کی آہنسا، یہ بھی کوئی ہٹلر کا ہے چیلا، مار لو ساتھی جانے نہ پائے۔ ان سلگتے چنگھاڑتے اشعار نے نہرو کو آگ بگولہ کردیا۔ جنہوں نے مجروح سلطان پوری اور بلراج ساہنی کو سلاخوں کا اسیر بنا دیا۔

مجروح صاحب سے مطالبہ داغا گیا کہ معافی کی صورت میں رہائی کا پروانہ ملے گا۔ لیکن مجروح صاحب ڈٹ گئے۔ دو سال تک قید میں رہے لیکن نہرو اور ان کی حکومت کے سامنے گھٹنے ٹیکنے کو تیار نہیں تھے۔ قید کے دوران ان کی پتلی مالی حالت کا احساس راج کپور کو ہوا۔ جنہوں نے مجروح صاحب کے خاندان کی کفالت کرنے کی خواہش ظاہر کی۔ لیکن خود دار مجروح صاحب نے انکار کر دیا۔ راج کپور بھی پیچھے نہیں ہٹے اور مجروح صاحب کا مان رکھتے ہوئے جیل میں ہی ایک گیت ’دنیا بنانے والے کیا ترے من میں سمائی‘ لکھوایا۔ جس کا معاوضہ فوری طور پر ایک ہزار روپے اد ا کیا، جسے مجروح صاحب نے گھر والوں کو روانہ کیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس گیت کو لگ بھگ دس برس بعد راج کپور نے ’تیسری قسم‘ میں شامل کرایا۔