فیس بک کے سپاہی: حقیقی خوشیوں اور رنگوں سے دور ایک ’دنیا‘

فیس بک کے سپاہی: حقیقی خوشیوں اور رنگوں سے دور ایک ’دنیا‘
’جی نہیں میں بہت پرسکون زندگی گزار رہا ہوں‘۔ اس ایک جملے نے ہمارا دل زخموں سے چور کر دیا۔ پرانے دوست سے ملاقات ہوئی تو ان سے سوال یہ داغا کہ بھائی تم کیا فیس بک پر ہو، جس پر یہ جواب ملا۔ چچا غالب کے اشعار میں بے اختیار ترمیم کرتے ہوئے دل نے کہا:

فیس بک نے غالب نکما کر دیا

ورنہ ہم بھی آدمی تھے کام کے

یہ صرف ہماری بپتا نہیں ہر اُس انسان کی ہے جو فیس بک کا قیدی ہے۔ مارک زکربرگ نے یونیورسٹی سے نکالے جانے کا انتقام سب سے ایسے لیا کہ موصوف آج ہماری زندگیوں سے حقیقی رشتوں کا احساس نکال چکے ہیں۔ سولہ برس پہلے یہ نشہ سب کو لگایا گیا اور پھر دھیرے دھیرے یہ وہ کمبل بن گیا جو چھوڑے نہیں چھٹتا۔ زیادہ پرانی بات نہیں پہلے اہتمام کے ساتھ کمپیوٹر کھول کر فیس بک کی دنیا میں داخل ہوا جاتا تھا لیکن اسمارٹ فونز نے آسانیاں پیدا کرکے زندگیوں سے سکون کی ’اسمارٹنس‘ چھین لی ہے۔ بس جناب بیٹھے رہیں اور فیس بک پیچ کو اوپر نیچے کرتے رہنے میں گھڑیوں کی سوئیاں آگے پیچھے دوڑاتے رہنا اب محبوب مشغلہ بن گیا ہے۔

فیس بک پر آپ کو غازیوں، تجزیہ کاروں، ادیب، شعرا کرام، عالم دین، بقراط اور ارسطوؤں کی فوج ظفر موج ملے گی۔ جو کسی بھی موضوع پر اظہار خیال کا ’ فیس بک تجربہ‘ رکھتے ہیں۔ دکھ ہو یا سکھ، سردی ہو یا گرمی، عید یا کوئی اور تہوار، ان فیس بک دیوانوں کی رگ زوروں سے پھڑکتی ہے اور پھر ان کی زنبیل سے بلکہ یہ کہیں کہ اِدھر اُدھر سے اٹھا کر پوسٹس کی قطار لگ جاتی ہیں۔ عاشقوں کی طرح ان دیوانوں کا دسمبر اور برسات میں دل کچھ زیادہ ہی ’گارڈن گارڈن‘ ہونے کو بے قرار رہتا ہے۔ اور ’مدر ڈے‘ پر تو یہ بہار اپنے جوبن پر ہوتی ہے۔ ہر سیزن کا مزا لیا جاتا ہے۔ نیم حکیم خطرے جان کے مصداق کچھ گھریلو حکیم اور ڈاکٹرز بھی ٹوٹکوں کی وہ دکان کھول لیتے ہیں جو ’صدقہ جاریہ‘ سمجھی جاتی ہے۔ جبھی کچھ ‘جوش جوانی‘ میں بغیر تصدیق کے آگے بڑھاتے رہتے ہیں۔

یہاں آپ کو فرقوں اور نظریات کی وہ جنگ بھی ملے گی، جس کا انجام کبھی نہیں ہوتا۔ اپنے اپنے خیالات کے حامی تند تیز جملوں کی تلواریں نکال کر ایک دوسرے پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ کسی کا محبوب قدموں میں نہ بیٹھا ہو تو کسی کا دل کا راجا، باجا بجاتے ہوئے آگیا ہو تو ڈھول پیٹ کر یہ بتانا بھی سب کو مقصود ہوتا ہے۔ شیطان کہیں روکے نہ روکے لیکن اچھی پوسٹ کو شیئر کرتے ہوئے ضرور روکنے کی دھمکی بھی فیس بک کے طفیل ملتی ہے۔ یعنی فیس بک کی ’پل صراط‘ پر چلنے کا ’جذبہ ایمانی‘ آزمائش بن جاتا ہے۔ کیا کھایا، کیا پیا، کہاں گئے، کیا سوچا، کیا دیکھا، کیا احساس کیا، بس دل کسی کھلی کتاب کی طرح کھول کر رکھ دیں سب کے سامنے۔ روکھی سوکھی کھائیں لیکن دوسروں پر ’بھرم‘ ڈالنے کے لیے مرغن غذاؤں سے سجی تصاویر لگانے میں بھی کوئی قباحت نہیں۔

کوئی زندگی کی بازی ہار گیا ہو تو اس کے ساتھ اپنی تصویریں لگا کر’خراج عقیدت‘ پیش کرنا بھی اب فیشن بن گیا ہے۔ ابتدا میں فیس بک پر کچھ ’مرد آہن‘ ایسے بھی گزرے ہیں جو ’ہیں کواکب کچھ نظر آتے ہیں کچھ‘ کے معیار پر پورا اترتے۔ جبھی دھار کر روپ صنف نازک کا ’تماشائے اہل کرم‘ دیکھتے رہے۔ عشق و محبت کے ساتویں پائیدان کے بعد نئے کی تلاش میں رہتے۔ وہ تو بھلا ہو’سیانی لڑکیوں‘ کا جن پر ایسی ’خود ساختہ اجنبی سہیلیوں‘ کی اصلیت عیاں ہونے لگی۔ حقیقی زندگی میں اتنی ’ڈولز، پرانس یا پرانسز‘ سے آپ کا پالا نہیں پڑا ہوگا، جتنی فیس بک کے جہاں میں آپ کو مل جائیں گی۔ ’بابا کی لاڈلی‘ تو ملیں گی لیکن بے چاری ’ماما کی نہیں‘۔ کچھ ’پریاں' تو ایسی بھی ملیں گی، جو عشق اور محبت کی ’ان دیکھی راہ‘ پر چلتے ہوئے شہزادہ گلفام کا ہاتھ تھامے، دور بہت دور کا سفر کررہی ہوں گی۔ یہ خواب خیالوں کے رومانی دیس کی شہزادیاں ’آئیڈل کی تلاش‘ میں فیس بک پر کررہی ہوتی ہیں۔ ان میں سے کچھ ’گوری میم‘ سات سمندر پار کرکے ’دیسی بابو‘ کے ساتھ عہد و پیمان کے لیے ان کے نزدیک پہنچ بھی جاتی ہیں۔ کسی کو آپ برسوں سے جانتے ہوں لیکن فیس بک آپ کی دوستی کی صحیح اوقات بھی بتاتا ہے۔

پچھلے سال آپ کہاں تھے؟ اس کی چغلی بھی محلے کی خالہ کی طرح کی جاتی ہے۔ یہی نہیں جناب سال گرہ کا گلدستہ یہ راز بھی کھولتا ہے کہ موصوف عمر کی کتنی بہاریں دیکھ چکے ہیں۔ لیکن ہوتے ہیں کچھ جو ’ابھی تو میں جواں ہوں‘ پر یقین رکھتے ہیں جو عمر کا ’سگنل‘ غائب بالکل ایسے کردیتے ہیں جیسے سرکاری ٹی وی پر اپوزیشن رہنماؤں کی تقریریں ہوجاتی ہیں۔ گئے وقتوں پر جب ’اداسی والا ایموجی‘ نہیں تھا تو کچھ نادان دوست کسی بھی سانحے ، انتقال یا بری خبر کی پوسٹ پر آناً فاناً ’لائیک‘ کا انگوٹھا دبا دیتے۔ خیر ایسے بھی صاحبان ملیں گے، جو مردوں کی پوسٹ پر ’انگوٹھا دبانے‘ کو اپنی شان کے خلاف تصور کرتے ہیں۔ البتہ صنف نازک کچھ بھی پوسٹ کریں یہی صاحبان پوری ایمان داری کے ساتھ قومی فریضہ سمجھتے ہوئے انگوٹھا ہی نہیں دباتے بلکہ اپنی مفکرانہ سوچ کا اظہار بھی کرنے سے باز نہیں آتے۔

اسی طرح ’صاحب بہادر‘ کی ’خوشامد‘ کا ایک ذریعہ یہ ظالم فیس بک بھی ہے۔ یہاں تک کہ انہیں شیئر کرکے ’ثواب دارین‘ کے ساتھ ساتھ نمبرز بھی بڑھا لیتے ہیں۔ ذرا تصور کریں کہ اُس وقت آپ کی کیا حالت ہوتی ہوگی جب آپ کی ’دیوار‘ پر کوئی اپنا سامان ٹانگ کر چلا جائے۔ آپ کو لینا دینا نہ ہو لیکن ’مان نہ مان میں ترا مہمان‘ کی طرح یہ پوسٹ آپ کا خون جلانے کے لیے کافی ہوتی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ گروپ بندی، کسی صورت درست نہیں لیکن ’ فیس بک میسنجر‘ پر آپ کو کوئی نہ کوئی گروپ اپنا رکن بنا ہی لیتا ہے، جہاں بہوئیں، سسرال والوں کی برائیاں کرکے خود کو سکون پہنچاتی ہیں جبھی ’چیٹنگ‘ کا بخار کبھی اترتا ہی نہیں۔ اپنے نت نئے فیچرز کی بنا پر حالیہ برسوں میں فیس بک بھی کمائی کا ذریعہ بن گیا ہے۔ اسی لیے معمولی سی دکان سے لے کر بڑے ادارے کا اشتہار، رقم ادا کر کے آپ کسی کے بھی پیچ پر ڈالواسکتے ہیں، یعنی مصنوعات کی تشہیر کا بھرپور موقع ملتا ہے۔

خیر جب سے یہ ’ فیس بک لائیو‘ آیا ہے، اس نے تو جیسے ہر کسی کو رپورٹر، ڈائریکٹر اور کیمرا مین بنا دیا ہے، اب ہمارے یہاں سڑکوں پر، تفریح مقامات اور تقریبات میں درجن بھر ’اسٹفن اسپیل برگ‘ ملنا شروع ہوگئے ہیں۔۔ یورپ اور امریکہ میں تو اسی ’لائیو‘ پر زندگی سے ہاتھ دھونے والوں کا نظارہ بھی سب دیکھ چکے ہیں۔ ان سب حجتوں اور قباحتوں کے باوجود فیس بک کے ذریعے بسا اوقات مظلوم کو انصاف اور مسائل کو حل کرنے کی خوشخبریاں بھی ملتی ہیں۔ ویسے وہ بھی کیا دور تھا جب کوئی ’ فیس بک کا وزیراعظم‘ بھی کہلایا جاتا۔

دور حاضر میں فیس بک کے ’رضائی بہن بھائیوں‘ جیسے واٹس ایپ، انسٹا گرام، ٹوئٹرز، ٹک ٹاک کا غیر معمولی اضافہ ہورہا ہے۔ لیکن ’مصنوعی خوشیوں اور رنگوں‘ کے علاوہ زندگی خوبصورت اور پرکشش ہے۔ لمحات یادگار ہیں، جو آپ کے ارد گرد ہی ہیں، جنہیں ہم ’اسمارٹ فون‘ سے نگاہیں اٹھا کر پل بھر کے لیے نہیں بلکہ بھرپور انداز میں دیکھیں تو واقعی لگے گا زندگی کتنی پرسکون ہے۔