برصغیر کے مسلمانوں کی تباہی میں علما کا کردار

برصغیر کے مسلمانوں کی تباہی میں علما کا کردار
ہندوستان میں مسلمان حکمران خاندانوں کے دورِ حکومت میں علما حکومتی اداروں کی مدد سے اس بات کی کوشش کرتے رہے کہ مسلمان معاشرے میں راسخ العقیدتی کی جڑیں مضبوط رہیں تاکہ اس کی مدد سے وہ اپنے اثر و رسوخ کو باقی رکھ سکیں۔ حکومتوں نے علما کا تعاون حاصل کرنے کی غرض سے جہاں انہیں حکومتوں کے اعلیٰ عہدوں (قاضی، حکیم وغیرہ) پر فائز کیا، وہاں اس کے ساتھ انہیں ’مددِ معاش‘ کے نام سے جاگیریں دے کر معاشی طور پر خوش حال رکھا۔ اس لئے علما اور حکومت کے درمیان مفاہمت اور سمجھوتے کے جذبات قائم رہے اور انہوں نے اس کے عوض ان حکومتوں کو اسلامی قرار دے کر مسلمان رعیت کو وفادار رہنے کی تلقین کی۔

علما کا کام مسئلوں کو حل کرنا نہیں بلکہ مسائل پیدا کرنا تھا۔ کیونکہ جیسے جیسے مسلمان معاشرے کو ان مسائل میں الجھایا جاتا رہا، ویسے ویسے معاشرے میں علما کا اثر و رسوخ بڑھتا رہا اور وہ معاشرے کے رہنما بنتے رہے۔ اس لئے انہوں نے ان مسائل کا حل ڈھونڈنے کی کوشش نہیں کی بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ نئے مسائل دریافت کرتے گئے۔

1) مذہبی منافرت کا کاروبار

ہندوؤں اور مسلمانوں میں فرق رکھنے میں علما نے ابتدا ہی سے تشدد اور تعصب سے کام لیا۔ اس کی مثال عہد سلاطین میں علما کے ان بیانات سے ملتی ہے کہ جن میں انہوں نے التمش سے یہ مطالبہ کیا تھا کہ یا تو ان سب کو قتل کر دیا جائے یا ذلیل و خوار کر کے رکھا جائے۔ احمد سرہندی (مجدد الف ثانی) نے بھی انہی خیالات کا اظہار مغلیہ دور میں کیا۔ اور ہر اس تحریک کی مخالفت کی جس کے ذریعے ہندوؤں اور مسلمانوں میں اتفاق و اتحاد پیدا ہوتا اور ان میں ثقافتی ہم آہنگی بڑھتی تھی۔ انہوں نے اپنے خطوط میں بار بار اس کا اظہار کیا کہ ہندوؤں کو ذلیل و خوار کر کے رکھا جائے اور ان کے مذہبی تہواروں پر پابندی عائد کی جائے۔ شیخ فرید کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں کہ:

’’پس اسلام کی عزت، کفر اور کافروں کی خواری میں ہے۔ جس نے سہلِ کفر کو عزیز رکھا، اس نے اسلام کو خوار کیا۔ انہیں عزیز رکھنے سے فقط تعظیم کرنا اور بلند بٹھانا ہی مراد نہیں۔ بلکہ اپنی مجلسوں میں جگہ دینا، ان کی ہم نشینی کرنا اور ان کے ساتھ گفتگو کرنا، سب اعزاز میں داخل ہے۔ انہیں کتوں کی طرح اپنے سے دور کرنا چاہیے‘‘[1]۔

اس طرح سے احمد سرہندی کے خیالات اکبر کی جدیدیت کے خلاف تھے۔ اکبر نے جس روشن خیالی کی تحریک شروع کی تھی، اس میں اس بات کی کوشش تھی کہ مسلمان فاتحین مذہب کی آڑ لے کر جو مفتوحین کو ذلیل کرتے ہیں، اس سے انہیں آزاد کرایا جائے۔ یہ علما کے لئے ایک ناپسندیدہ پالیسی تھی۔ کیونکہ اس صورت میں معاشرے میں ان کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہتی۔ ہندوؤں کے ساتھ اسی تشدد کی پالیسی کو شاہ ولی الله نے جاری رکھا۔ انہوں نے اپنے خط میں، جس کا حوالہ اطہر عبّاس رضوی نے اپنی کتاب ’شاہ عبدالعزیر‘ میں دیا ہے، لکھا کہ:

’’تمام اسلامی شہروں میں یہ حکم دیا جائے کہ کافر اپنے تہوار کھلے عام نہ منائیں، جیسے ہولی یا گنگا اشنان‘‘[2]۔

شاہ ولی الله کا جو رویہ ہندوؤں سے تھا، وہ ان کے ایک خواب سے ظاہر ہوتا ہے:

’’میں نے خواب میں اپنے آپ کو دیکھا کہ میں قائم الزمان ہوں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ الله تعالیٰ جب بھلائی اور خیر کے کسی نظام کو قائم کرنا چاہتا ہے تو اس وقت مجھے اس مقصد کی تکمیل کے لئے گویا ایک آلہ اور واسطہ بناتا ہے۔ اور میں نے دیکھا کہ کفار کا راجہ مسلمانوں کے بلاد پر مسلط ہو گیا اور ان کے اموال کو اس نے لوٹ لیا۔ ان کی عورتوں اور بچوں کو گرفتار کر لیا اور اجمیر شہر میں اس نے کفر کے شعائر کا اعلان کر دیا۔ شعائر اسلام کو اس نے مٹا دیا۔ پھر اس کے بعد یہ دیکھا کہ زمین کے باشندوں پر حق تعالیٰ غضب ناک ہوا اور سخت غضب ناک۔ اور میں نے حق تعالیٰ کے غصہ کی صورت کو ملا اعلیٰ میں مکمل ہوتے دیکھا۔ اور پھر وہاں سے ٹپک ٹپک کر الہیٰ غیض میرے اندر اترا۔ پھر میں نے اپنے کو غضب ناک پایا۔ اور یہ غضب جو مجھ میں بھر گیا تھا، حضرت الہٰ کی طرف سے مجھ میں دم کیا گیا۔ پھر میں ایک شہر کی طرف اسے برباد کرتے ہوئے اور اس کے باشندوں کو قتل کرتے ہوئے آگے بڑھا۔ لوگ میرے ساتھ تھے۔ یوں ایک شہر کے بعد دوسرے شہر کو تباہ و برباد کرتے ہوئے ہم بالآخر اجمیر پہنچ گئے۔ اور وہاں ہم نے کفار کو قتل کیا۔ پھر میں نے کفار کے بادشاہ کو دیکھا کہ وہ اسلام کے بادشاہ کے ساتھ، مسلمانوں کے ایک گروہ کے ساتھ، چل رہا ہے۔ اتنے میں اسلام کے بادشاہ نے کفار کے بادشاہ کے متعلق حکم دیا کہ اسے ذبح کر دیا جائے۔ لوگوں نے اسے پکڑ کر دے پٹخا اور چھری سے اسے ذبح کر دیا۔ میں نے جب دیکھا کہ اس کی گردن کی شہ رگوں سے خون اچھل اچھل کر نکل رہا ہے، تب میں نے کہا: اب رحمت نازل ہو گئی‘‘[3]۔

اسی طرح انہوں نے ایک جگہ اپنے خط میں سلاطین سے مخاطب ہو کر کہا کہ:

’’اے بادشاہو! ملا اعلیٰ کی مرضی اس زمانے میں اس امر پر مستقر ہو چکی ہے کہ تمام تلواریں کھینچ لو۔ اور اس وقت تک نیام میں داخل نہ کرو جب تک مسلم مشرک سے جدا نہ ہو جائے۔ اور اہل کفر و فسق کے سرکش لیڈر کمزوروں کے گروہ میں شامل نہ ہو جائیں۔ اور یہ کہ ان کے قابو میں پھر کوئی ایسی بات نہ رہ جائے جس کی بدولت وہ آئندہ سر اٹھا سکیں‘‘[4]۔

ہندوؤں اور مسلمانوں میں اس فرق کو باقی رکھتے ہوئے احمد سرہندی اور شاہ ولی الله، دونوں نے اشتراک اور ہم آہنگی کی سخت مخالفت کی۔ اس طرح انہوں نے ہندوستان میں مسلمان حکمرانوں کے برعکس یہ نکتۂ نظر اختیار کیا کہ ہندو ذمی نہیں، کافر ہیں۔ لہٰذا انہیں ذمیوں کے حقوق حاصل نہیں ہونے چاہئیں۔ اور انہیں ہر ممکن طریقے سے ذلیل کر کے رکھنا چاہیے۔ اس لئے شاہ ولی الله شناخت کے سلسلے میں اس کے قائل ہیں کہ:

’’مسلمانوں کو، خواہ وہ کسی بھی ملک میں اپنی ابتدائی زندگی گزاریں، لیکن بہر حال اپنی وضع قطع اور طرز بود و ماند میں اس ملک کے مقامی باشندوں سے قطعی جدا رہنا چاہیے۔ اور جہاں کہیں رہیں، اپنی عربی شان اور عربی رجحانات میں ڈوبے رہیں‘‘[5]۔

وہ غیر عربی ثقافت کو اختیار کرنے کے سخت مخالف ہیں، ایک جگہ لکھتے ہیں کہ:

’’خبردار! بچے رہنا۔ اس تونگر میں امیر سرکش، خواہ مخواہ غیروں اور عجمیوں کے طور طریقوں کو زبردستی اختیار کرتا ہے۔ اور جو لوگ صحیح راہ سے منحرف ہیں، ان سے مقابلہ اور برابری میں مصروف رہتا ہے‘‘[6]۔

علما نے ہندوستان میں ان سوالات کو ہمیشہ زندہ رکھا کہ کیا ہندو طور طریق، رسومات، زبان اور مذہب کے بارے میں سیکھنا، جاننا، ان کے ساتھ شریک ہونا، ان کا کھانا کھانا، ان سے کھانے کی چیزیں خریدنا، یہ سب جائز ہیں؟ شناخت کا یہ مسئلہ ابتدا ہی سے مسلمان حکمران طبقوں کے لئے اہم رہا تھا۔ کیوں کہ اس مسئلے کا تعلق ہندوستان میں مسلمانوں کی تعداد سے تھا۔ اگر یہ تعداد ہندوستان کی ثقافتی زندگی میں گم ہو جاتی تو ان کی سیاسی حیثیت کمزور ہو جاتی۔

دوسری بات، ثقافتی ہم آہنگی نفرت اور عداوت اور دشمنی کو کم کرتی ہے اور میل ملاپ کو فروغ دیتی ہے۔ اس صورت میں ان کی مہم جویانہ جنگوں کو نقصان پہنچتا جو وہ برابر ہندوؤں کے خلاف لڑ رہے تھے۔ اس لئے یہ حکمران طبقوں کے مفاد میں تھا کہ ہندوؤں اور مسلمانوں میں علیحدگی رہے۔ اور ان کے درمیان ثقافتی روابط پیدا نہ ہوں۔ تاکہ ان کی فوجی قوت کمزور نہ ہو اور انہیں برابر فوجی ملتے رہیں۔ علما کا مفاد بھی علیحدگی میں تھا کیوں کہ ان کی سربراہی کا دار و مدار مسلمانوں کی تعداد پر تھا۔ اگر مسلمان معاشرے میں مذہبی اثرات کم ہو جاتے تو ان کا اثر بھی گھٹ جاتا اور ان کی معاش کے ذرائع ختم ہو جاتے۔

2) گھٹن کا پرچار

علما نے جن ہندوانہ اور غیر اسلامی رسم و رواج کے خلاف ابتدا سے مخالفت کی وہ دو قسم کی تھیں: اول وہ رسومات جو ثقافتی و سماجی تہواروں اور مواقع پر ہوتی تھیں۔ ان میں میلے ٹھیلے اور شادی بیاہ کی تقریبات وغیرہ تھیں۔ دوسری قسم کی وہ رسومات تھیں کہ جو معاشرے کے سماجی و معاشی ماحول کے نتیجے میں پیدا ہوئی تھیں، جیسے چیچک کی دیوی ستیلا کی پرستش وغیرہ۔ اس لئے ان دونوں اقسام کے فروغ کی وجوہات جدا تھیں۔

انسان کی فطرت میں لطف اندوز ہونے اور خوشی و مسرت سے محظوظ ہونے کے جذبات چھپے ہوئے ہیں۔ وہ رقص و موسیقی کے ذریعے اپنے ان جذبات کی تسکین کرتا ہے۔ کیونکہ اس کی وجہ سے زندگی میں جو غم و اندوہ اور یاس کے سائے ہیں، وہ دور ہوتے ہیں۔ اور تفریح کے لمحات اسے جسمانی اور روحانی طور پر صحت مند بناتے ہیں۔ اس لئے اس کی کوشش ہوتی ہے کہ ہر موقع اور تہوار کو اپنی خوشی و مسرت کے لئے استعمال کرے۔ اس کی زندگی کے اس پہلو کو عوامی (پاپولر) مذہب پورا کرتا ہے۔ کیوں کہ اس میں وہ مذہبی روایات، رسومات اور تہواروں کو رقص و موسیقی سے رنگین بناتا ہے۔ اس سے ایک عام آدمی کو ثقافتی وجود ملتا ہے۔ اور اس کی زندگی میں جو دکھ، محرومیاں اور اداسیاں ہیں، وہ دور ہوتی ہیں۔ اور اس کی کچلی ہوئی شخصیت ایسے موقعوں پر پوری طرح سے ابھرتی ہے۔ شور و غل، ہنگاموں اور چیخ و پکار میں اس کی شخصیت کی چھپی ہوئی اور خوابیدہ صلاحیتیں بیدار ہوتی ہیں۔

چونکہ عرب کے تہوار ثقافتی طور پر اتنے رنگین اور دلکش نہیں تھے جتنے ایران و ہندوستان کے، لازمی طور پر مسلمان ان سے متاثر ہوئے۔ اور تبدیلی مذہب کے بعد لوگ ان روایات کو بطور ورثہ اپنے ساتھ لائے۔ اور انہوں نے ان تہواروں اور رسومات کو جاری رکھا۔ اس لئے مسلمان بادشاہوں کے دربار میں نوروز کا تہوار بڑی شان و شوکت کے ساتھ منایا جاتا رہا۔ ہندوستان میں بھی مسلمان امرا اور عوام، ہندو تہوار؛ دوسہرہ، ہولی اور دیوالی منانے لگے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے ان کے مقابلے میں اپنے تہواروں میں بھی وہی روایات اختیار کر لیں۔ جیسے شب برات میں دیوالی کی طرح روشنی ہونے لگی۔ محرم کے موقعے پر تعزیہ نکالنے اور جلوس نکالنے میں تلوار بازی اور بنوٹ کے کرتب دکھائے جانے لگے۔ اسی طرح بہت سی ثقافتی رسومات کو اختیار کر کے زندگی میں رنگ اور جاذبیت پیدا کی گئی۔ مثلاً شادی و بیاہ کے موقعوں پر ہندوستان کی بہت سی رسومات کو اختیار کیا گیا۔

طبقاتی معاشروں میں یہ رسومات طبقاتی فرق اور شان و شوکت کا اظہار بھی بن جاتی ہیں۔ اس لئے ہندوستان کے جاگیردار معاشرے میں ان کے ذریعے وہ اپنے سماجی فرق کو ظاہر کرنے لگے۔ اور فاتحہ، نیاز اور چڑھاووں میں اپنی طبقاتی برتری کو برقرار رکھنے لگے۔ پھر اس طبقے کی بے کاری اور دولت کی فراوانی نے مختلف تہواروں پر کھانے کی مختلف قسموں کا رواج دیا۔ اور اس طرح سے یہ تہوار اور رسومات معاشرے کے لئے ایک اقتصادی بوجھ بن گئیں۔ اس صورت حال میں اصل خرابی معاشرے کی معاشی ناہمواری اور طبقاتی تقسیم تھی جس نے رسومات کو اپنے لئے استعمال کیا۔ اس لئے جب رسومات کے خلاف علما نے تحریک شروع کی تو محض تحریک سے یہ سلسلے ختم نہیں ہوئے۔ کیوں کہ ان کے خاتمے کے لئے ضروری تھا کہ معاشرے کی ساخت و بناوٹ پر حملہ کیا جاتا۔ تاکہ ان رسومات نے جو فرق عوام و خواص میں پیدا کر دیا تھا، وہ دور ہوتا۔ اسی لئے یہ رسومات اور تہوار معاشرے میں موجود رہے اور علما کی مخالفت کے باوجود اسی طرح برقرار رہے۔ کیوں کہ ایک طرف ان میں سادگی اس لئے نہیں آ سکتی تھی کہ جن کے پاس دولت تھی، وہ اس کا استعمال چاہتے تھے۔ دوسرے یہ انسانی فطرت کی ضرورت تھی کہ جو ان سے لطف اندوز ہونا چاہتی تھی۔

غیر اسلامی رسومات کی جو تفصیل شاہ اسماعیل دہلوی شہید نے اپنی کتاب ’تقویۃ الایمان‘ میں دی ہے اور اس میں جن رسومات کو شامل کیا ہے، وہ یہ ہیں: شادی میں سہرا باندھنا، داڑھی منڈانا، عید پر بغل گیر ہونا، شب برات میں روشنی کرنا، گدھے، خچر اور اونٹ کی سواری کو معیوب سمجھنا، تعزیہ، علم اور قدم رسولؐ کی تعظیم کرنا، لڑکے کی پیدائش پر بکرا ذبح کرنا، فائرنگ کرنا، ختنے کے موقع پر تقریب کرنا، نکاح میں موتی باندھنا، آتش بازی و روشنی کی سیڑھی کا تماشا کرنا، ناچ کرانا، سرخ لباس پہننا، مرد کو مہندی لگانا، شادی سے پہلے برادری کا کھانا کرنا، چوتھی کھیلنا، محرم میں زینت ترک کرنا، محرم کی محفلیں برپا کرنا، علم چڑھانا، ربیع الاول میں میلاد کی محفل، عید پر سویاں پکانا، عید پر مصافحہ کرنا، موسیقی و راگ کا شوق، اپنے نسب پر فخر کرنا، آپس میں ایک دوسرے کی حد سے زیادہ تعظیم کرنا، حق مہر بہت زیادہ مقرر کرنا، شادیوں میں بے جا اسراف، خود کی زیب و زینت کرنا، بیٹھک میں آداب و تسلیم کا رواج، اور السلام علیکم کا کہنا ترک کرنا، وغیرہ[7]۔

دوسری قسم کی وہ رسومات تھیں جو کہ تعلیم کی کمی، سیاسی و سماجی و معاشی ٹوٹ پھوٹ اور ضعیف الاعتقادی اور توہمات کی وجہ سے پیدا ہوئی تھیں۔ تقویۃ الایمان میں ان کی تفصیل اس طرح سے ہے: مُردوں سے حاجتیں مانگنا، شگون لینا، تاریخ اور دن کی نحوست و سعادت پر یقین، زچہ کی چارپائی پر تیر اور کلام الله رکھنا، قبروں کی زیارت کرنا، قبروں پر چراغ جلانا، عورتوں کا مزارات پر جانا، قبروں پر چادر چڑھانا، پکی قبر بنانا، قبروں پر تاریخیں اور آیتیں لکھنا، مجاور بن جانا، ستیلا کی پرستش کرنا، بیوہ عورتوں کی شادی نہ کرنا، وغیرہ[8]۔ صراط مستقیم میں شاہ اسماعیل دہلوی شہید لکھتے ہیں:

’’سننا چاہیے کہ اکثر لوگ پیروں، پیغمبروں، اماموں اور شہیدوں کو مشکل کے وقت پکارتے ہیں۔ ان سے مرادیں مانگتے ہیں اور ان کی منتیں مانگتے ہیں۔ اور حاجت برآئی کے لئے ان کی نذر و نیاز کرتے ہیں ۔۔۔ کوئی کسی کے نام پر جانور ذبح کرتا ہے۔ کوئی مشکل کے وقت دہائی دیتا ہے۔ کوئی اپنی باتوں میں کسی کے نام کی قسم کھاتا ہے‘‘[9]۔

پیروں اور مزاروں کو وسیلہ بنانا، ان سے مرادیں مانگنا اور اپنے تمام مسائل کے حل کے لئے ان پر بھروسہ کرنا، یہ برصغیر میں مسلمان حکمران خاندانوں کے سیاسی نظام کے زیر اثر پیدا ہوا۔ کیوں کہ ایسا نظام کہ جس میں طبقاتی تقسیم تھی، وہاں بادشاہ اور امرا کے دربار تک عام آدمی کی رسائی نہیں ہو سکتی تھی۔ وہ لوگوں کی پہنچ سے دور تھے۔ جب تک کوئی وسیلہ یا سفارش نہ ہو، ان تک جایا نہیں جا سکتا تھا۔ اس ذہنیت نے ان عقائد کی تشکیل کی کہ خدا تک بغیر کسی وسیلے کے انسان براہِ راست رسائی حاصل نہیں کر سکتا ہے۔ اور اس کے لئے اسے کسی وسیلے یا مدد کی ضرورت ہے۔ یہ وسیلہ اس نے پیروں، صوفیوں اور اولیا کی ذات میں پایا۔ چونکہ اس عقیدے سے پیروں اور صوفیوں کا اثر و رسوخ بڑھتا تھا اور اس سے ان کے معاشی مفادات بھی وابستہ تھے، اس لئے انہوں نے اسے مستحکم کرنے میں حصہ لیا۔ اس صورت حال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے آخری عہد مغلیہ میں صوفیوں اور پیروں کی تعداد میں اضافہ ہو گیا۔ جو لمبی لمبی زلفیں بڑھائے، عطر لگائے، مریدوں کے جم غفیر کے ساتھ عوام کو کرامات دکھا کر مرعوب کرتے تھے۔ عوام میں ان کے لئے اعتقاد اس لئے بڑھا کہ اس عہد کی ٹوٹ پھوٹ میں بھوک، افلاس، بیماری، روز مرہ کے مسائل کا انبار، پریشانیاں، الجھنیں، کم مائیگی کا احساس اور عدم تحفظ، یہ سب وہ حالات تھے کہ عوام مافوق الفطرت طاقتوں کی جانب بڑھنے لگے۔ ان پر بھروسہ کرنے لگے اور کرامات و معجزوں کے منتظر رہنے لگے۔ اس لئے ایک طرف عوام معاشرے کے ظلم اور معاشی و معاشرتی نا آسودگی کا حل مزاروں اور پیروں کے ہاں ڈھونڈتے تو دوسری طرف صوفیا اور پیروں کا استحصالی طبقہ اس سے فائدہ اٹھا کر قبر پرستی کو رواج دے کر نذر و نیاز، تحفے تحائف اور چڑھاوے وصول کر رہا تھا۔

3) صنفی امتیاز کے پیدا کردہ مسائل

عہد مغلیہ کے آخری زمانے میں علما کو یہ شکایت تھی کہ عورتیں کثرت سے مزاروں پر جاتی ہیں۔ اور وہاں بے پردگی اور بے شرمی کے مظاہرے ہوتے ہیں۔ لیکن کسی نے اس کا پس منظر اور اس کی بنیادی وجہ سمجھنے کی کوشش نہیں کی۔ ایک ایسے معاشرے میں جہاں عورت کو چادر و چار دیواری میں قید کر کے رکھا جائے گا، اس کی آزادی کے تمام راستے بند کر دیے جائیں گے، اس کی تفریح کے تمام مواقع کو حرام قرار دیا جائے گا، تو ان حالات میں اس کی یہ فطری خواہش کہ وہ کس طرح اس زندان سے نکلے، اور باہر کی دنیا دیکھے، شدید ہوتی چلی جائے گی۔ یہ صرف اسی صورت ممکن تھا کہ وہ منت و مرادیں مانگنے اور چڑھاوے چڑھانے کی خاطر مزاروں پر جائے۔ ان کی تفریح کا یہ واحد ذریعہ رہ گیا تھا جسے وہ پوری طرح سے استعمال کرنا چاہتی تھی۔ اس عہد کی اس رسم پر مرزا حیرت دہلوی لکھتے ہیں:

’’شرفا کی خواتین میں پیر پرستی کی انتہا ہو گئی تھی اور اس پردے میں بد وضع لوگوں کی بن آئی تھی۔ وہ اپنی ناواجب خواہش حاصل کرنے کے لئے شریف زادیوں پر تاک جھانک کیا کرتے تھے۔ ہر سال بڑی بڑی قبروں پر شرفا کی بہو بیٹیوں کے ہجوم رہتے تھے اور کوئی روکنے والا نہ تھا۔ پردے کی کچھ پرواہ نہ تھی[10]۔

ان حالات میں علما کی یہ کوشش تھی کہ عورتیں پردے میں رہیں۔ ان میں جو توہمات پیدا ہو گئے ہیں، وہ دور ہو جائیں۔ لیکن ان تمام خرابیوں کی جو اصل وجہ تھی، اسے دور کرنے کے بارے میں کسی نے نہیں سوچا۔ ان سب باتوں کا تعلق سماج میں عورت کے مقام سے تھا۔ کیونکہ ایسے سماج میں کہ جس میں عورت کی حیثیت ملکیت کی تھی اور اسے مرد سے انتہائی کمتر سمجھا جاتا تھا، تو اس صورت میں نہ تو اس کی معاشرے میں عزت تھی اور نہ اس کے حقوق کا خیال رکھا جاتا تھا۔ اس لئے محض یہ کہنا کہ بیوہ عورتوں کی شادی کی جائے، کافی نہیں تھا۔ کیوں کہ اس کے پس منظر میں یہ تصور تھا کہ وہ کسی اور کی ملکیت رہ چکی ہے۔ اور کسی اور کے تصرف میں آ کر وہ فرسودہ ہو چکی ہے۔ اس لئے معاشرتی طور پر کنواری عورت کے مقابلے میں اس کی حیثیت کم تر ہو جاتی تھی۔ اور پھر بیوہ ہونے کی ذمہ دار بھی عورت ہی تھی۔ اور اس لحاظ سے اسے منحوس خیال کیا جاتا تھا اور کوئی اس سے سماجی تعلقات رکھنے کا روادار نہیں تھا۔ یہ تصورات اسی وقت تبدیل ہو سکتے تھے کہ معاشرے میں عورت کا درجہ بلند ہوتا اور اسے مرد کے برابر حقوق ملتے۔ مگر علما میں کوئی عورت کو یہ مقام دینے کو تیار نہ تھا۔ وہ محض معمولی اصلاحات پر توجہ دے رہے تھے۔ اس لئے ان کی تمام کوششوں کے باوجود یہ مسائل اسی طرح سے برقرار رہے۔

4) شرک یا سائنسی پسماندگی؟

عورتوں میں توہمات اس لئے بھی باقی رہے کہ وہ تعلیم یافتہ نہیں تھیں۔ جہالت اور محدود دنیا نے انہیں ناواقفیت اور توہم پرستی میں الجھا دیا تھا۔ اس سے چھٹکارا اسی وقت مل سکتا تھا جب ان میں تعلیم عام ہوتی اور ان کے لئے دنیا کھلی ہوتی۔ اسی طرح جب لوگ چیچک کی بیماری سے بچنے کے لئے ستیلا دیوی کو چڑھاوے چڑھاتے تھے، یا بیماریوں کے علاج کے لئے تعویذ گنڈے، پیروں کی دعاؤں اور منتوں کی طرف رجوع کرتے تھے تو اس کی وجہ یہ تھی کہ معاشرے میں ان بیماریوں کے علاج کے لئے نہ تو دوائیں تھیں نہ اسپتال تھے۔ نہ حکیموں اور ویدوں کی اتنی تعداد تھی کہ وہ مریضوں کے لئے کافی ہوں۔ اور نہ غریبوں کی اتنی استطاعت تھی کہ وہ علاج کے اخراجات برداشت کر سکتے۔ ان حالات میں لوگوں کے پاس سوائے اس کے کوئی راستہ نہیں تھا کہ وہ بیماری کے لئے دعاؤں اور تعویزوں کا سہارا لیں۔ یا صحت یاب ہو جائیں گے، یا مر جائیں گے۔ جن معاشروں میں لوگوں کی بنیادی ضروریات پوری ہو گئی ہیں وہاں یہ تمام توہمات خود بخود ختم ہو گئے ہیں۔

اصلاح کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ معاشرے میں سب سے پہلے (سائنسی) تعلیم کا فروغ ہو۔ سائنسی و فنی ایجادات ہوں۔ بیماریوں کی دوائیں دریافت کی جائیں اور انہیں لوگوں تک پہنچایا جائے۔ صرف اس صورت میں توہمات، ضعیف الاعتقادی اور مافوق الفطرت عقائد کا خاتمہ ہو گا۔ جب تک عام انسان کی ذہنی سطح کو بلند نہ کیا جائے، اس وقت تک محض وعظ اور تشدد کے ذریعے کوئی معاشرتی یا معاشی اصلاح نہیں ہو سکتی۔ برصغیر ہندوستان میں جب بھی علما نے ان اصلاحات کی تحریک چلائی تو وہ اس لئے ناکام رہے کہ انہوں نے معاشرتی برائیوں کی وجوہات کو تلاش نہیں کیا۔ اور انہیں محض کافرانہ و مشرکانہ کہہ کر ان کی مخالفت کرتے رہے۔

5) سیاسی بصیرت کا نہ ہونا

شاہ ولی الله کے زمانے میں مغل خاندان کا استحکام ختم ہو چکا تھا اور بادشاہت کا ادارہ اپنی خرابیوں کے بوجھ تلے دب کر شکستہ ہو چکا تھا۔ امرا عیاشیوں اور بدعنوانیوں کا شکار تھے۔ اس لئے انہوں نے اپنے عہد کے سیاسی نظام پر تنقید کی اور بادشاہ و امرا کی بد عنوانیوں کو ظاہر کیا۔ لیکن پھر بھی وہ اصلاحات کے بعد اسی نظام کا استحکام چاہتے تھے۔ اس لئے کبھی وہ روہیلہ سردار نجیب الدولہ سے رجوع کرتے ہیں اور کبھی احمد شاہ ابدالی کو ہندوستان پر حملے کی دعوت دیتے ہیں۔ انہوں نے ہندوستان کی سیاست میں ہونے والی تبدیلیوں کا تجزیہ ایک محدود دائرے میں کیا۔ وہ سکھوں، جاٹوں اور مرہٹوں کی قوم پرستی کے جذبات کو سمجھنے سے قاصر رہے۔ وہ اس بات کو سمجھنے سے قاصر رہے کہ ہندوستان کی ہندو اکثریت کو اس کے بنیادی حقوق ملنے چاہئیں۔ انہیں بھی یہ حق ہے کہ وہ اپنے مذہب کا دفاع کریں اور حکومت میں شریک ہوں۔ اسی طرح وہ ہندوستان میں انگریزوں کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو نہ سمجھ سکے۔

 

مأخذ: ڈاکٹر مبارک علی، ”المیہٴ تاریخ“، باب 9، 10؛ صفحات82، 95۔105؛ فکشن ہاؤس لاہور، (2012)۔

















[1] شیخ محمد اکرام، ”رود ِکوثر“، صفحہ 320، لاہور (1967)

[2] اطہر عبّاس رضوی، ”شاہ عبد العزیز“(انگریزی)، صفحہ 4، کینبرا، (1982)

[3] شاہ ولی الله، ”فیوض الحرمین“، صفحات 297۔299، لاہور، (1947)

[4] مناظر احسن گیلانی، ”تذکرہ شاہ ولی الله“، صفحہ 90، کراچی (1959)

[5] مناظر احسن گیلانی، ”تذکرہ شاہ ولی الله“، صفحہ 121، کراچی (1959)

[6] مناظر احسن گیلانی، ”تذکرہ شاہ ولی الله“، صفحہ 122، کراچی (1959)

[7] شاہ اسماعیل دہلوی، ”تقویۃ الایمان“، صفحہ 79، 81، 82، کراچی

[8] شاہ اسماعیل دہلوی، ”تقویۃ الایمان“، صفحہ 200۔201، کراچی

[9] شاہ اسماعیل دہلوی، ”صراط مستقیم“، صفحہ 39، کراچی

[10] مرزا حیرت دہلوی، ”حیات طیبہ“، صفحہ 124، لاہور (1976)