• آن لائن اشتہاری ٹیرف
  • رابطہ کریں
  • ہمارے بارے میں
  • ہمارے لئے لکھیں
  • نیا دور انگریزی میں
اتوار, اپریل 2, 2023
نیا دور
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English
No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English
No Result
View All Result
نیا دور
No Result
View All Result

28 مئی 2010 سانحہ: جو میں نے دیکھا

مطہر احمد طاہر by مطہر احمد طاہر
ستمبر 30, 2021
in انسانی حقوق, دہشتگردی, فیچر, مذہب
9 0
2
Attack on Ahmadis 28 may 2010
11
SHARES
50
VIEWS
Share on FacebookShare on TwitterShare on Whatsapp

یہ کوئی سوا ایک سے ڈیڑھ بجے کے درمیان کا وقت ہوگا جب لاہور گڑھی شاہو اور ماڈل ٹاؤن میں واقع احمدیوں کی دو ’عبادت گاہوں‘ پہ دہشت گردوں نے حملہ کر دیا۔ ان حملوں میں لگ بھگ سو نہتے احمدی قتل ہوئے، جب کہ درجنوں نے زخم کھائے۔ علاوہ ازیں جو زندہ بچ گئے وہ زندگی بھر کے لئے نفسیاتی اور ذہنی خوف کا شکار بن گئے۔

’دارالذکر‘ گڑھی شاہو کے پچھلے دروازے کے ساتھ ایک چھوٹے سے دفتر میں، میں اپنے والد صاحب اور ان کے دو دوستوں کے ہمراہ موجود تھا۔

RelatedPosts

جنرل باجوہ کی توسیع؟ کابینہ کمیٹی کی آرمی ایکٹ میں ترمیم، ‘دوبارہ تقرر’ کی جگہ ‘برقرار’ لکھنے کی تجویز

حکومت پاک فوج اور افسر کے خلاف ہتک عزت پر قانونی کارروائی کرے: آئی ایس پی آر

Load More

جب ’عبادت‘ کا وقت قریب آیا تو ہم دفتر کو بند کر کے دارالذکر کے داخلی دروازے، جو کہ مین روڈ کی طرف ہے، کی جانب چل دیے۔ ابھی ہم دارالذکر کے عقب میں گلی ہی میں تھے کہ اچانک سے فائرنگ کی آواز آنے لگی۔ چند سیکنڈز کے اندر یہ آوازیں بلند تر اور شدید تر ہو گئیں۔

ہم چار لوگ تھے اور جیسے ہی ہم نے فائرنگ کی آواز سنی، ہمارے قدم وہیں رک گئے اور ہم نے اسی دفتر میں کچھ دیر ٹھہرنے کا فیصلہ کیا۔ میرے والد اور ان کے دوستوں کا پہلا اندازہ یہ تھا کہ شاید یہ دو مقامی گروپوں کا تصادم ہے، جو کچھ منٹ بعد تھم جائے گا۔ لیکن مجھے عجیب سی گھبراہٹ اور خوف لگ گیا کہ کہیں  یہ ہماری ’عبادت گاہ‘ پہ دہشت گردوں کا حملہ نہ ہو۔ چنانچہ ہم ابھی دفتر کی جانب لوٹے ہی تھے کہ ایک زور دار دھماکہ سنائی دیا۔

دھماکے کے بعد ایک دوست نے نہایت فکرمند چہرے کے ساتھ تشویش کا اظہار کرتے ہوئے جو جملہ کہا وہ میری یاد داشت میں پتھر پہ لکیر کی طرح نقش ہے۔ اور ہمیشہ رہے گا۔

’’معاملہ گرم ہے جی‘‘

چنانچہ اس کے بعد میں نے بھی اپنے خدشے کو زبان پہ لاتے ہوئے ابو سے پوچھا کہ کیا یہ ہماری ’عبادت گاہ‘ پہ حملہ ہوا ہے؟ ابو نے بظاہر تو میرے اس سوال کا جواب نہ دیا لیکن فوراً ایک دوست کو فون ملایا جو اس وقت دارالذکر کے اندر موجود تھا۔ ابو نے چند سیکنڈز فون پہ بات کی اور فون رکھتے ہی یہ خبر دی کہ:

’’بندے اندر تک گھس آئے ہیں‘‘

یعنی دارالذکر پہ حملہ ہو چکا تھا اور معصوم احمدیوں کے خون سے ہولی کھیلے جانے کا آغاز ہو چکا تھا۔

یاد رہے کہ 28 مئی 2010 کے واقعہ سے پہلے دارالذکر بروز جمعہ ’عبادت‘ کے دوران بالکل کھلا ہوتا تھا اور آنے والوں کی چیکنگ اور حفاطت کے لئے رضاکارانہ طور پہ خدام مین گیٹ پہ ڈیوٹی دیتے تھے۔ یہ خدام غیر مسلح ہوتے تھے۔

جب فائرنگ شروع ہوئی تھی تو سب سے پہلے مین گیٹ پر موجود ڈیوٹی دینے والے غیر مسلح احمدی خدام ’ہلاک‘ ہوئے تھے۔

یادش بخیر، اس ضمن میں، میں امتیاز صاحب کا ذکر کیے بغیر آگے بڑھنا مناسب نہیں سمجھتا۔ امتیاز صاحب میرے ابو کے دوست تھے اور یہ بھی دارالذکر کے مین گیٹ پر ڈیوٹی دیا کرتے تھے۔ آپ انتہائی ملنسار انسان تھے۔ مجھے یاد ہے، جب بھی ہم نے ’عبادت‘ کے لئے جانا تو انہوں نے دور سے دیکھتے ہی آواز لگانی: ’’اے منور علی شاہد دا منڈا اے، اینوں آن دیو‘‘. کالا چشمہ لگائے اور متوازن خط رکھے ہوئے امتیاز صاحب نے مسکرا کر ملنا اور دعا دینی۔ امتیاز صاحب دار الزکر میں ’ہلاک‘ ہونے والے ابتدائی احمدیوں میں سے تھے۔

خیر اب واپس دارالزکر کے عقب میں اس دفتر میں آتے ہیں جہاں اس وقت ہم چار نفوس موجود ہیں۔

یہ اطلاع ملتے ہی کہ دارالزکر میں دہشت گرد داخل ہو چکے ہیں، ابو اور ان دوستوں نے سب سے پہلے پولیس کو فون کیا اور انہیں اس امر کی اطلاع دی۔ یہ بیان کرنا بہت ضروری ہے کہ تھانہ گڑھی شاہو، دارالذکر سے بہت نزدیک ہے۔ 5 منٹ کے اندر آدمی پیدل وہاں پہنچ سکتا ہے۔ پولیس کے ساتھ ساتھ یہ لوگ میڈیا، این جی اوز، انسانی حقوق سے وابستہ افراد اور صحافیوں کو فون کر کے دارالذکر پہ حملے کی اطلاع دینے لگے۔

اس دفتر میں ٹی وی موجود تھا۔ حملے کے کوئی 15 منٹ بعد پہلی پٹی جو ٹی وی پر چلی وہ کچھ اس طرح تھی

’علامہ اقبال روڈ گڑھی شاہو پہ شدید فائرنگ‘

اور پھر آہستہ آہستہ خبر پھیلنا شروع ہوئی۔ حملہ ہونے کے کوئی گھنٹہ، سوا گھنٹہ کے بعد اس وقت کے صدر آصف زرداری اور وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی جانب سے اس حملے کی مذمت میں بیان کی پٹی سکرین پہ گردش کرنے لگی۔

ابھی ہم دارالزکر ہی پر حملے کو دیکھ رہے تھے کہ ماڈل ٹاؤن میں واقع ’بیت النور‘ پہ حملے کی دلخراش اطلاع بھی آن پہنچی۔

جیسا کہ ابھی عرض کر چکا ہوں کہ ہم چار لوگ تھے جو دارالزکر کے عقب میں دفتر نما ایک کمرے میں موجود تھے۔ فائرنگ کے آغاز سے ہم اسی دفتر میں محصور ہو کر رہ گئے تھے اور یہیں سے ہم دہشت گردوں کی کارروائی کو سن رہے تھے اور باہر کی دنیا سے رابطے میں تھے۔ یہ دفتر دارالزکر کے عقب میں تھا اور گلی میں پر ہی واقع تھا۔

حملے کے کوئی 10 سے 15 منٹ بعد، اس گلی میں ہم نے ہلچل سنی۔ کئی گھنٹوں بعد جب حملہ ختم ہوا تو میں نے باہر نکل کر دیکھا، دہشت گرد اس گلی میں سیڑھی لے کر آئے تھے۔ اس سیڑھی کے پاس میں نے ایک خون میں لت پت جوتی بھی دیکھی جو غالباً دہشت گردوں میں سے کسی کی تھی۔ اگرچہ ہم دفتر میں مقید تھے، لیکن دارالزکر میں ہونے والی دہشت گردوں کی کارروائی کو سن بھی سکتے تھے، اور اس کی ننگی وحشت کا بخوبی ادراک بھی کر سکتے تھے۔

حملے کے دوران دارالزکر پہ ہوُ کا عالم تھا۔ وقفے وقفے سے گولیوں اور گرینیڈز کی ہولناک آوازیں ماحول کی دہشت میں کئی گنا اضافہ کر دیتی تھیں۔ مجھے وہ منظر اس کی وحشت میں لپٹی کیفیات کے ساتھ یاد ہے۔ دفتر میں، میرے بڑے بات کر رہے ہوتے تو اچانک دارالزکر کے اندر سے گولیوں کی طویل بوچھاڑ کا سلسلہ شروع ہوتا جو لگاتار 20-30 سیکنڈز تک چلتا اور پھر ایک زور دار دھماکہ۔

یہاں باتوں کا سلسلہ رک جاتا اور ہم پھٹی آنکھوں کے ساتھ ایک دوسرے کی جانب دیکھنے لگتے۔ ہمارے دل ان معصوم بھائیوں کے غم میں ڈوب جاتے جو دارالزکر کے اندر اس قیامت کا سامنا کر رہے تھے۔

حملہ ہونے کے چند منٹ کے اندر پولیس کو اطلاع کی جا چکی تھی مگر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دارالزکر پہ حملہ آور دہشت گردوں کے خلاف مؤثر کارروائی کا آغاز کئی گھنٹوں کی تاخیر سے ہوا۔ دہشت گرد مارے گئے تو ایک دوست نے دارالزکر کے عقب کی کھڑکی توڑ کر محصور احمدیوں کو باہر نکلنے میں مدد کی۔ ان بچ جانے والوں میں ایک ننھی احمدی بچی بھی تھی جس کے گال پہ شیشے کا گہرا زخم آیا تھا۔

مجھے ابو نے فوراً گھر پہنچنے کا کہا۔ میں دار الزکر کے مین گیٹ پر پہنچا تو وہاں مقامی لوگوں کا ہجوم تھا۔ لوگ متجسس اور حیران تھے۔ ان میں سے اکثر کسی طرح دار الزکر کے اندر آنا چاہتے تھے۔ میں نے گھر پہنچ کر اپنے اور ابو کی خیریت کی اطلاع کیا دینی تھی، کہ مجھے میرے انکل اعجاز الحق کے ’مارے‘ جانے کا پتہ چلا۔

یہ سانحہ میرے دل و دماغ پہ ناقابل فراموش اثرات مرتب کر گیا۔

اس حادثے نے مجھے احمدیوں کے خلاف معاشرے میں پھیلی نفرت کی گہرائی اور اس کی مختلف جہات کو سمجھنے میں مدد دی۔

اگلے دن، 29 مئی 2010 کو، میرا بورڈ کا امتحان تھا۔ میرے کلاس فیلوز میں سے کسی ایک نے بھی ان حملوں کی مذمت نہیں کی۔ بلکہ میرے سامنے وہ بڑے فخر سے دہشت گردوں کی تعریف کرتے رہے اور ان کے پوز کی نقل اتار کر ان کی ’ہمت‘ کی داد دیتے رہے۔ میں چپ چاپ ان کو احمدیوں کے قاتلوں کی تعریفیں کرتا سنتا رہا اور ایک کنفیوزڈ مسکراہٹ چہرے پہ سجائے ان کے درمیان بیٹھا رہا۔

دہائیوں پر مبنی نفرت انگیز پراپیگنڈے نے احمدیوں کی شناخت کو ایک انسان اور پاکستانی شہری سے گھٹا کر ایک ولن تک محدود کر دیا ہے۔

وطن عزیز کے عوام اس پراپیگنڈے سے اس قدر متاثر ہوئے ہیں کہ ان کے لئے احمدیوں کے ساتھ عادلانہ اور امن پر مبنی رویہ اختیار کرنا ممکن ہی نہیں رہا۔ نوبت یہاں تک آ چکی ہے کہ جو پاکستانی، احمدیوں کے خلاف جتنی نفرت اور حقارت کا اظہار کرے گا، وہ اتنا ہی نیک اور حب الوطن مانا جائے گا۔

سوال یہ ہے کہ ریاست آخر کس چیز کا انتظار کر رہی ہے؟

کیا اب وقت آ نہیں گیا کہ دہائیوں پر مبنی اس نفرت انگیز اور جھوٹے پراپگنڈے کی ریاستی سطح پر بھرپور حوصلہ شکنی کی جائے تاکہ احمدیوں کو بھی برابر کے حقوق مل سکیں؟ 28 مئی 2010 کا سانحہ احمدیت اور پاکستان، دونوں کی تاریخ کا ایک المناک باب رہے گا۔

ضروری امر البتہ یہ ہے کہ ایسے سانحات اور ان کے پس پردہ عوامل کو معروضی انداز میں سمجھا جائے اور پھر انسان دوستی پر مبنی ایک سیکولر قومی بیانیہ تشکیل دیا جائے جس میں تمام پاکستانی بلا تفریق رنگ و نسل اور مذھب سیاسی اور سماجی لحاظ سے یکساں متصور کیے جائیں۔

بصورت دیگر، نفرتوں کے اس ’گرم معاملے‘ میں سارا پاکستانی معاشرہ جلتا اور جھلستا رہے گا۔

پاکستان، زندہ باد۔

Tags: 28 مئی 2010 حملےاحمدی عبادتگاہوں پر حملہاحمدیوں پر حملےبیت النوردار الذکرنیا دور
Previous Post

دعوتِ اسلامی کی ساکن زمین، اور علامہ اقبال کا ’غیر متحرک اسلام‘

Next Post

کرونا پاکستان کو نگلنے لگا: ایک دن میں 4 ہزارکے قریب نئے کیسز سامنے آگئے

مطہر احمد طاہر

مطہر احمد طاہر

Related Posts

انگریز سامراج کے خلاف آزادی کی جنگ لڑنے والا بھگت سنگھ ہمارا ہیرو کیوں نہیں بن سکا؟

انگریز سامراج کے خلاف آزادی کی جنگ لڑنے والا بھگت سنگھ ہمارا ہیرو کیوں نہیں بن سکا؟

by خضر حیات
مارچ 25, 2023
0

آج 23 مارچ کا دن ہے اور اسے ہم قرار داد پاکستان کے حوالے سے یاد کرتے ہیں۔ 1940 میں اسی روز...

گورنر جنرل غلام محمد جنہوں نے سیاست میں فوجی اور عدالتی مداخلت کی بنیاد رکھی

گورنر جنرل غلام محمد جنہوں نے سیاست میں فوجی اور عدالتی مداخلت کی بنیاد رکھی

by خضر حیات
مارچ 21, 2023
0

پاکستان کی تاریخ میں کئی ڈرامائی کردار آئے اور عجیب و غریب کرتب دکھا کر منظر عام سے ہٹتے چلے گئے۔ انہی...

Load More
Next Post
کرونا وائرس سے انتقال کرنے والے مریضوں کی تدفین سے متعلق نیا ہدایت نامہ جاری

کرونا پاکستان کو نگلنے لگا: ایک دن میں 4 ہزارکے قریب نئے کیسز سامنے آگئے

Comments 2

  1. عبدالخالق مُحسِن فارُوقی says:
    3 سال ago

    ماشاء اللہ پیارے بھانجے عزیزم مُطہر احمد طاہر صاحب آپ نے 28 مئی 2010ء کے اس المناک اور انسانیّت سوز واقع کی بہت عمدگی سے عکاسی کی ہے اور چونکہ آپ اور آپکے والد صاحب اور دیگر دو اور احباب اس وقت دارالزکر کے عقبی دفتر میں موجود تھے اس لئے آپکے جذبات اور احساسات کو بخوبی محسوس کیا جا سکتا ہے – خدا تعالیٰ اُن شہیدانِ احمدیّت کو اپنی رضا کی جنّتوں میں داخل فرمائے اور دشمنانِ احمدیّت کو نشانِ عبرت بنائے – آمین

    جواب دیں
  2. موبی says:
    3 سال ago

    تصویر میں جس شخص کو خون میں لتھڑے ہوئے پولیس لے جا رہی ہے اس پیارے بھائی کا نام منور ہے جو چھوٹے منور کے نام کے ساتھ مشہور تھے اور چھوٹی جسامت کے باوجود نہایت بہادر تھے اور دہشت گردوں کے ساتھ بغیر کسی ہتھیار کے قابو پانے کی کوشش کی اور شہید ہو گئے اس واقع میں ان کے بڑے بھائی بھی شہید ہو گئے تھے اور امتیاز بھائی کا ذکر کیا ہے جو فرنٹ دروازے پر ڈیوٹی دیتے تھے ان کا پورا نام چوہدری امتیاز تھا اور نہایت ملنسار اور خدمت گزار انسان تھے اس دن چوہدری امتیاز اپنی ہینڈ گن لانا بھول گئے تھے لیکن موقعہ پر ہی دہشت گردوں کو روکنے کی کوشش میں شہید ہوگئے۔

    جواب دیں

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تلاش کریں

No Result
View All Result

ایڈیٹر کی پسند

سیاسی معاملات میں عدالتی مداخلتوں کا راستہ بند ہو جانا چاہئیے

سیاسی معاملات میں عدالتی مداخلتوں کا راستہ بند ہو جانا چاہئیے

by رضا رومی
مارچ 31, 2023
0

...

Shehbaz-Sharif-Vs-Bandial

چیف جسٹس کے اختیارات کم کرنے سے آئینی حکمرانی کا خواب پورا نہیں ہوگا

by اعجاز احمد
مارچ 29, 2023
0

...

الیکشن پہلے عمران خان نے رکوائے، پھر شہباز شریف نے

الیکشن پہلے عمران خان نے رکوائے، پھر شہباز شریف نے

by شاہد میتلا
مارچ 31, 2023
0

...

ہائبرڈ دور میں صحافت پر حملے؛ ذمہ دار عمران خان یا جنرل باجوہ؟ (پارٹ 1)

ہائبرڈ دور میں صحافت پر حملے؛ ذمہ دار عمران خان یا جنرل باجوہ؟ (پارٹ 1)

by شاہد میتلا
مارچ 22, 2023
1

...

معاشی لحاظ سے پاکستان کس طرح خود انحصاری حاصل کر سکتا ہے؟

معاشی لحاظ سے پاکستان کس طرح خود انحصاری حاصل کر سکتا ہے؟

by ہارون خواجہ
مارچ 18, 2023
1

...

Newsletter

ہماری مدد کریں

ٹویٹس - NayaDaur Urdu

نیا دور کے صفِ اوّل کے مصنفین

پیٹر جیکب
پیٹر جیکب
View Posts →
حسن مجتبیٰ
حسن مجتبیٰ
View Posts →
عرفان صدیقی
عرفان صدیقی
View Posts →
نجم سیٹھی
نجم سیٹھی
View Posts →
نبیلہ فیروز
نبیلہ فیروز
View Posts →
محمد شہزاد
محمد شہزاد
View Posts →
توصیف احمد خان
توصیف احمد خان
View Posts →
رفعت اللہ اورکزئی
رفعت اللہ اورکزئی
View Posts →
فوزیہ یزدانی
فوزیہ یزدانی
View Posts →
حسنین جمیل
حسنین جمیل
View Posts →
مرتضیٰ سولنگی
مرتضیٰ سولنگی
View Posts →
اسد علی طور
اسد علی طور
View Posts →
ادریس بابر
ادریس بابر
View Posts →
رضا رومی
رضا رومی
View Posts →
علی وارثی
علی وارثی
View Posts →

This message is only visible to admins.
Problem displaying Facebook posts.
Click to show error
Error: Server configuration issue

خبریں، تازہ خبریں

  • All
  • انٹرٹینمنٹ
  • سیاست
  • ثقافت
کم از کم اجرت 20 ہزار، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ: بجٹ 2021 پیش کر دیا گیا

اقتدار کے ایوانوں سے جلد کسی ‘بڑی چھٹی’ کا امکان ہے؟

اکتوبر 31, 2021
ہمیں نفرت اور مذہب کے بیوپاریوں کی نہیں، دھانی اور دھونی جیسے ہیروز کی ضرورت ہے

ہمیں نفرت اور مذہب کے بیوپاریوں کی نہیں، دھانی اور دھونی جیسے ہیروز کی ضرورت ہے

اکتوبر 27, 2021
بد ترین کارکردگی پر الیکشن نہیں جیتا جاسکتا، صرف ای وی ایم کے ذریعے جیتا جاسکتا ہے

ای وی ایم اور انتخابات: ‘خان صاحب سمندر پار پاکستانیوں کے ووٹ لینے کے لیئے بے تاب ہیں’

اکتوبر 24, 2021

Naya Daur © All Rights Reserved

No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English

Naya Daur © All Rights Reserved

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password?

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In