• آن لائن اشتہاری ٹیرف
  • رابطہ کریں
  • ہمارے بارے میں
  • ہمارے لئے لکھیں
  • نیا دور انگریزی میں
پیر, اگست 15, 2022
نیا دور
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • عوام کی آواز
  • Click here for English
No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • عوام کی آواز
  • Click here for English
No Result
View All Result
نیا دور
No Result
View All Result

سفید فام نسل پرست ریاست ہائے متحدہ امریکہ، اور غلامی کی تاریخ

نیا دور by نیا دور
ستمبر 30, 2021
in انسانی حقوق, فیچر
8 0
0
سفید فام نسل پرست ریاست ہائے متحدہ امریکہ، اور غلامی کی تاریخ
43
VIEWS
Share on FacebookShare on TwitterShare on Whatsapp

امریکہ ایک ایسا ملک ہے جس کی بنیاد یہاں کی مقامی آبادی کے قتلِ عام، اور ان کی زمینوں پر قبضے، اور افریقیوں کو ان کے گھروں سے اٹھا کر ’غلاموں کی سرزمین‘ پر لا کر آباد کر کے رکھی گئی ہے۔

لیکن اس کے باوجود، بہت سے سفید فام امریکی، جو ان تاریخی جرائم کا آج تک فائدہ اٹھا رہے ہیں، نہ صرف خود دعویٰ کرتے ہیں بلکہ اپنے ساتھ دوسرے رنگ کے لوگوں سے بھی زبردستی یہ دعویٰ کرواتے ہیں کہ ان کا ملک ’land of the free and the home of the brave‘ یعنی آزاد لوگوں کی سرزمین اور بہادروں کا گھر ہے۔ حالانکہ ’land of the slave and the home of the brave‘ یعنی غلاموں کی سرزمین اور بہادر لوگوں کا گھر نہ صرف زیادہ مبنی بر حقیقت ہے بلکہ مصرعہ بھی ٹھیک بیٹھتا ہے۔

RelatedPosts

No Content Available
Load More

سفید فاموں کی برتری پر مبنی ’جمہوریت‘

آزادی اور خود ارادیت جیسے الفاظ ان 13 امریکی نوآبادیوں میں، جو کہ خود سفید فام افراد کی جانب سے نوآبادیاتی نظام کے ذریعے آباد کی گئی تھیں، صرف اتنا معنی رکھتے تھے کہ ان کی جائیداد پر، بشمول افریقی غلاموں کے، برطانوی ٹیکس لاگو نہ ہوں، کیونکہ ان کے خیال میں یہ ٹیکس ایک طرح سے ان کے لئے ’غلامی‘ کا طوق تھے۔

جنگِ آزادی کے دوران، ورجینیا، کیرولینا اور جارجیا نے سفید فام رضاکاروں کو سفید فام قوم کی برتری کے لئے قائم کی گئی جمہوریت کی خاطر لڑنے کے عوض زمین اور غلاموں کی پیشکش کی۔ لیکن سیاہ فام غلاموں کے لئے لازمی تھا کہ وہ اپنے سفید فام آقاؤں کی برطانیہ سے ’آزادی‘ کے لئے لڑیں۔ اس کے باوجود، بہت سے سفید فام نو آباد کاروں نے امریکہ کی آزادی کے خلاف برطانیہ کا ساتھ دیا۔ یہ لوگ ’Loyalist‘ کہلاتے تھے۔ ان میں سے قریب ایک لاکھ امریکہ سے ہجرت کر گئے اور اپنے 15 ہزار غلام اپنے ساتھ لے گئے۔

ہزاروں کی تعداد میں غلاموں نے برطانوی فوج کی طرف سے بھی جنگ میں حصہ لیا۔ برطانیہ نے انہیں اپنی طرف سے لڑنے کے عوض آزادی کی پیشکش کی تھی۔ 1783 میں برطانیہ کی شکست کے بعد سفید فام loyalists اور ان کے سیاہ فام غلاموں کے ساتھ ان کو بھی برطانوی بحری جہازوں میں بٹھا کر نووا سکاٹیا کالونی اور برطانیہ لے جایا گیا۔

جلد ہی برطانیہ کو احساس ہوا کہ ان کے اپنے آزاد کیے گئے سیاہ فام غلاموں اور امریکی آزاد کردہ غلاموں کا حل یہی ہے کہ انہیں مغربی افریقہ میں نو آباد کاروں کے طور پر بسا دیا جائے تاکہ افریقی ’بت پرستوں‘ کو بھی مسیحیت میں داخل کر لیا جائے۔ یوں اٹھارھویں صدی کے اواخر میں سیاہ فام آباد کاروں کے ذریعے برطانیہ نے Sierra Leone کی بنیاد رکھی۔

دوسری جانب آزادی حاصل کرنے کے بعد امریکہ کے اپنے Founding Facthers یعنی ’بانی اجداد‘ جو خود بھی غلام رکھتے تھے، کو یہ فکر لاحق تھی کہ وہ اپنے آزاد کردہ سیاہ فام غلاموں کا کیا کریں۔ اٹھارھویں صدی کی ابتدا میں کچھ جریدوں میں انہیں لے جا کر افریقہ میں بسا دینے کی بات کی گئی تھی، لیکن آزادی کی جنگ اور خانہ جنگی کے درمیانی سالوں میں غلامی اور نسل سے متعلق مباحث میں یہ نظریہ بار بار سامنے آتا ہے۔

آزاد کردہ سیاہ فاموں کو ملک سے نکالنے کی تجویز کو نہ صرف غلام رکھنے والوں میں خاصی مقبولیت حاصل تھی بلکہ غلامی کے مخالفین میں بھی۔ یہاں تک کہ Protestant مشنریوں اور مقبول سیاستدانوں میں بھی یہ نظریہ پذیرائی رکھتا تھا۔ ان سیاستدانوں میں امریکی صدور جیفرسن، مون رؤ، اور بعد ازاں ابراہم لنکن بھی شامل تھے۔ 1816 میں American Colonisation Society کی بنیاد رکھی گئی جس کا کام آزاد کردہ سیاہ فاموں کو امریکہ سے باہر نکالنے کے فیصلے پر عملدرآمد کروانا تھا۔ اور یوں 1820 کی دہائی میں سیاہ فام نو آبادکاروں کا ملک لائبیریا وجود میں آیا۔

نسل پرست قوانین کی بھرمار

گو کہ کچھ آزاد سیاہ فاموں نے اس پالیسی کی حمایت کی لیکن زیادہ تر سیاہ فام دانشوروں نے مغربی افریقہ میں سیاہ فام آباد کاری کی مخالفت کی، بشمول فریڈرک ڈگلس کے، جن کا بجا طور پر یہ ماننا تھا کہ اس پالیسی کے ذریعے آزاد سیاہ فام افراد کو ملک سے نکال دیا جائے گا اور ملک میں غلامی برقرار رکھی جائے گی۔ کچھ کا ماننا تھا کہ انہیں ہیٹی کی طرف ہجرت کر لینی چاہیے۔ ہیٹی نے اس سے چند ہی برس قبل فرانس سے آزادی حاصل کی تھی اور اس نے امریکہ میں آزاد کردہ تمام سیاہ فاموں کو اپنی سرزمین پر آ جانے کی دعوت دے رکھی تھی۔

ابراہم لنکن کو امریکہ کے سفید فام ترقی پسند اور قدامت پرستوں دونوں ہی کی جانب سے امریکہ کی تاریخ میں سیاہ فام افراد کے لئے ایک مسیحا کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ 1854 میں انہوں نے ایک تقریر میں کہا کہ میرا ذاتی طور پر ماننا ہے کہ تمام غلاموں کو آزاد کر کے انہیں لائبیریا بھیج دیا جائے، جو کہ ان کی اپنی سرزمین ہے، لیکن اس میں اخراجات بہت زیادہ ہوں گے۔

1858 میں بھی ابراہم لنکن غلامی کے خلاف ضرور تھے لیکن نسل پرستی کے خلاف نہیں تھے۔ ایک تقریر میں انہوں نے کہا کہ میرے نزدیک بہترین فیصلہ یہ ہے کہ سیاہ اور سفید نسلیں الگ الگ رہیں۔ 1861 میں، بطور امریکی صدر، انہوں نے کانگریس کو ترغیب دی کہ وہ ایسا کوئی طریقہ ڈھونڈیں کہ اتنے فنڈز جمع ہو جائیں کہ ان سیاہ فام افراد کو ایک نئی زمین حاصل کر کے وہاں آباد کیا جا سکے۔ واشنگٹن کے ایک اخبار نے مشورہ دیا کہ سیاہ فام افراد کی اس نئی آبادی کو لنکونیا کا نام دیا جائے۔

جہاں جنوب میں خانہ جنگی کے بعد جم کرو قوانین کے تحت غلامی کے قوانین کو بہتر بنایا گیا، شمالی حصوں میں آزاد سیاہ فام افراد کے لئے انتہائی نسل پرستانہ قوانین موجود رہے۔ سکونت اختیار کرنے کے لئے کالونیاں ہوں، تعلیم ہو، قوانینِ مزدوری ہوں یا پھر عوامی فلاحی خدمات، قانونِ انصاف کو تو چھوڑ ہی دیجئے، ہر طرف سیاہ فام افراد پر مظالم کیے جاتے اور ان کے ساتھ امتیازی سلوک روا رکھا جاتا۔

جنگ عظیم دوئم میں صرف سفید فام افراد کے لئے شہروں کے مضافات میں نئی کالونیاں بنائی گئیں، اور اچھی تعلیم کے لئے قوانین کے مطابق سکول میں داخلہ پراپرٹی ٹیکس کی بنیاد پر دیا جاتا تھا۔ اس طرح اچھے سکولوں میں صرف سفید فام بچے پڑھا کرتے تھے جب کہ سیاہ فام بچوں کے لئے غیر معیاری سکول تھے۔

امتیاز اور قید و بند کے قوانین

سیاہ فام افراد کی جانب سے ایک بہت بڑی تحریک کے بعد جسے ہم شہری حقوق کی تحریک کہتے ہیں، یہ امتیاز ختم کرنے کی کوشش کی گئی اور طلبہ کو ایک ضلعے سے دوسرے ضلعے کے سکولوں میں تعلیم دلوانے کے لئے بھیجنے کا فیصلہ کیا گیا تاکہ علیحدگی کا یہ نظام ختم کیا جا سکے۔ نہ صرف جنوب کے نسل پرست سفید فاموں نے اس پالیسی کی مخالفت کی بلکہ شمال کے ’معتدل‘ مانے جانے والے سفید فاموں نے بھی اس پر تنقید کی۔ یہاں تک کہ 1970 کی دہائی میں بوسٹن میں بھی اس کے خلاف احتجاج ہوئے اور جو بائڈن تک نے Delaware میں اس پالیسی کو ختم کرنے کے لئے سینیٹ میں مہم کی قیادت کی۔

امتیازی قوانینِ مزدوری تو ختم کر دیے گئے لیکن نسل پرست نظام اس طرح برقرار رہا کہ ملازمت میں ’سنیارٹی‘ کے مطابق مراعات دی جانے لگیں اور اس نظام کے تحت ظاہر ہے کہ سفید فاموں ہی کو فائدہ ہوا۔

جنگ کے بعد GI قانون تمام امریکیوں کو مراعات دیتا تھا لیکن حقیقت میں سیاہ فام افراد اس سے فائدہ اٹھانے سے قاصر تھے، کیونکہ سکونت کے نسل پرست قوانین کے تحت سیاہ فام افراد کو سفید فام محلوں میں رہنے کی اجازت نہیں تھی۔ یونیورسٹیوں اور کالجوں میں امتیاز اس کے علاوہ تھا۔

1960 اور 70 کی دہائی میں کئی سیاہ فام رہنماؤں کے قتل اور قید و بند کے ذریعے راستے سے ہٹانے کے بعد، New Jim Crow قانون بنایا گیا۔ اس نئے قانون کے تحت ظالمانہ قسم کی پولیسنگ، غیر معیاری ریاستی سہولیات اور بڑی تعداد میں جیلوں میں ڈالا جانا ممکن بنایا گیا۔ اس قانون کو نہ صرف سفید فام لبرلز اور قدامت پرستوں کی طرف سے سراہا گیا بلکہ مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والی چھوٹی سی سیاہ فام اشرافیہ نے بھی اس کا دفاع کیا۔ یہ وہی سیاہ فام افراد تھے جنہیں علاقائی اور وفاقی حکومتوں میں سیاسی عہدے عطا کیے گئے تھے۔

ان نئے سیاہ فاموں نے، جنہیں Black Agenda Report نے بجا طور پر ’misleadership‘ کا خطاب دیا ہے، نہ صرف ان نئے نسل پرست قوانین سے فائدے اٹھائے بلکہ اپنی سیاہ فام constituency کے سامنے امریکہ کو ایک ’آزاد ملک‘ کے طور پر بھی بیچتے رہے، ’جس میں کچھ نسل پرستی کے مسائل ہیں لیکن جمہوری نظام کے ذریعے انہیں دور کیا جا سکتا ہے‘۔

اسی نظام کے تحت براک اوباما اکیسویں صدی کے اوائل میں سیاسی طاقت حاصل کرنے میں کامیاب ہوا۔

’ہلکی پھلکی‘ نسل پرستی کے ساتھ سمجھوتہ

امریکہ کا پہلا سیاہ فام صدر براک اوباما ان سفید فام امریکی لبرلز کا ہیرو ہے جو ’ہلکی پھلکی‘ نسل پرستی کو جائز بنا کر پیش کرتے ہیں اور شہری حقوق کی تحریکوں والے نعروں اور بیانیوں کو تو دہراتے ہیں لیکن ان کی سیاست میں اس کی جھلک کہیں دکھائی نہیں دیتی۔

صدر بننے کے بعد اپنی پہلی تقریر میں اوباما نے امریکہ کے ’بانی اجداد‘ کے نام قصیدے کہے جو کہ خود نسل پرست تھے اور غلام خریدتے تھے۔ ایسا اس نے بعد میں بھی متعدد مواقع پر کیا۔ اور بارہا ’محنتی امریکیوں‘ (جو کہ سفید فام امریکیوں کی تعریف کرنے کا ایک طریقہ ہے، جب کہ سیاہ فاموں کو اکثر سست اور کاہل قرار دیا جاتا ہے) کی ثنا خوانی کی، اور کئی مواقع پر غیر موجود سیاہ فام والدوں کو برا بھلا کہا (وہ شاید بھول گیا تھا کہ ان میں سے کئی تو جیلوں میں سڑ رہے ہیں)۔ اس نے سیاہ فام یونییورسٹی گریجویٹس کے لئے کوئی اقدامات نہیں اٹھائے۔ اور اس کے دورِ حکومت میں ایک بھی سیاہ فام کے قتل کے لئے ایک بھی سفید فام پولیس والے کے خلاف قانونی چارہ جوئی نہیں کی گئی، بشمول اس سفید فام پولیس والے کے جس نے 2014 میں ایرک گارنر کو دم گھونٹ کر مار دیا تھا۔ یاد رہے کہ ایرک کے آخری الفاظ بھی جارج فلائیڈ کی طرح ’میرا دم گھٹ رہا ہے‘ ہی تھے۔

18 سالہ غیر مسلح مائیکل براؤن کا قتل بھی ایک سفید فام پولیس والے کے ہاتھوں اس کے چند ہفتے بعد ہی پیش آیا تھا۔ یہ واقعہ فرگیوسن، میسوری میں پیش آیا۔ اس پولیس والے کے خلاف بھی کوئی قانونی کارروائی نہیں ہوئی۔ فرگوسن میں عوامی احتجاج کی لہر بھی اوباما کے دورِ حکومت میں ہی اٹھی، لیکن سیاہ فام سیاستدانوں اور امیر طبقے کی امیدوں کے عین مطابق، جو اس سفید فام برتری پر مبنی نظام کو برقرار رکھنے میں سفید فام امریکیوں کے معاون ہیں، اوباما نے ان سیاہ فام امریکیوں کو انصاف دلانے کے لئے کچھ نہیں کیا۔

سفید فاموں کی امتیازی سوچ امریکی صدر ڈانلڈ ٹرمپ کی پیدا کردہ نہیں۔ اگرچہ یہ حقیقت ہے کہ وہ اس کی عظمت کے گن گاتا ہے اور اس کی شان و شوکت کے پرانے دن بحال کرنے کا خواہاں ہے۔ ٹرمپ اسی legacy کی پیداوار ہے جو اس سے پہلے جارج واشنگٹن، ابراہم لنکن، فرینکلن روزوویلٹ، جان ایف کینیڈی، لنڈن جانسن، جمی کارٹر، رانلڈ ریگن، بل کلنٹن اور براک اوباما چھوڑ گئے ہیں۔

تبدیلی کی جانب سفر

اوباما کا اپنی تمام تر امارت اور 1 کروڑ 20 لاکھ ڈالر مالیت کا محل جو اس نے Martha’s Vineyard میں خرید رکھا ہے، کے باوجود دل نہیں بھرا۔ یہ اس کے پرانے رویے ہی کا ایک مظہر ہے۔ اوباما کا نیا منصوبہ یہ ہے کہ امریکی سیاہ فاموں کی اس نئی تحریک کو ضائع نہ جانے دیا جائے بلکہ اس کو استعمال کرتے ہوئے اس کی بیوی مشیل کو امریکہ پر مسلط کر دیا جائے تاکہ ملک کو اوباما کا 8 سالہ دورِ اقتدار مزید میسر آ سکے، اور اگر ڈیموکریٹک صدارتی امیدوار جو بائیڈن اسے اپنا نائب صدر رکھ لے تو یہ عرصہ کچھ لمبا بھی ہو سکتا ہے۔

اوباما کا اسی ہفتے سامنے آنے والا بیان جس میں اس نے ’پرتشدد‘ مظاہروں کی مخالفت کرتے ہوئے عوام کو ملک کے نسل پرست قوانین میں یقین رکھنے کی تلقین کی ہے، کوئی نئی بات نہیں۔ ماضی میں بھی امریکی سیاہ فاموں کی misleadership ایسے ہی بیانات دیتی رہی ہے۔ اٹلانٹا اور واشنگٹن کے سیاہ فام میئرز نے بھی ایسے ہی بیانات جاری کیے ہیں۔ ایسے بیانات سفید فام اعتدال پسندوں اور امریکی میڈیا کو بہت پسند ہیں۔

جب تک امریکی سفید فام اور سیاہ فاموں کی misleadership امریکہ کی سفید فام نسل پرست تاریخ پر اظہارِ شرمندگی نہیں کرتی، اس کے بانی اجداد پر اظہارِ شرمندگی نہیں کرتی، اور وہ تمام معاشرتی، سیاسی اور معاشی مراعات اور امتیازی حقوق جو اس طبقے نے اس نظام سے حاصل کیے ہیں، ان کو تیاگ نہیں دیتی، کچھ نہیں بدلے گا۔

جب تک سفید فام امریکی، خواہ وہ اعتدال پسند ہوں یا قدامت پرست، افریقی امریکیوں، مقامی امریکیوں، لاطینی امریکیوں، ایشیائی امریکیوں اور سفید فاموں کے علاوہ تمام امریکیوں کے ساتھ مل کر اس سفید فام نسل پرست ریاست کو سیاسی اور معاشی طور پر ہٹانے کے لئے ان کا ساتھ نہیں دیں گے، افریقی امریکیوں اور ان کے ہمنواؤں کی سفید فام نسل پرستی پر مبنی امریکی ریاست کے خلاف بغاوتیں جاری رہیں گی۔


یوسف مصعد کا یہ مضمون مڈل ایسٹ آئی میں شائع ہوا۔

Tags: امریکہ میں آزادی کی تحریکیںامریکہ میں سیاہ فام تحریکیںامریکہ میں غلامی کی تاریخ
Previous Post

بہاولپور میں ہندو برادری کے گھروں کی مسماری، مقامی انتظامیہ ذمہ دار قرار

Next Post

مشرق وسطیٰ کا کردوغلو کون؟ بشار الاسد یا طیب اردگان؟

نیا دور

نیا دور

Related Posts

کیا ہمارا ملک جناح کا پاکستان بن سکتا ہے؟

کیا ہمارا ملک جناح کا پاکستان بن سکتا ہے؟

by امجد نذیر
اگست 13, 2022
0

محمد علی جناح نے مسافرت بھری نگاہوں سے فاطمہ جناح کو دیکھا اور کہا: "فاطی، نہیں! جیتے رہنے میں اب میری کوئی...

نیا سامراج اور حقیقی آزادی کا خواب

نیا سامراج اور حقیقی آزادی کا خواب

by کامران جیمز
اگست 13, 2022
0

دوسری عالمی جنگ کے بعد نو آبادیاتی نظام تیزی سے دنیا کے مختلف خطوں سے بظاہر ختم ہوتا چلا گیا لیکن اس...

Load More
Next Post
مشرق وسطیٰ کا کردوغلو کون؟ بشار الاسد یا طیب اردگان؟

مشرق وسطیٰ کا کردوغلو کون؟ بشار الاسد یا طیب اردگان؟

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تلاش کریں

No Result
View All Result

ایڈیٹر کی پسند

سلمان اقبال اور کچھ اینکرز نے مراعات کی خاطر ARY ملازمین کی نوکریاں داؤ پر لگا دیں

سلمان اقبال اور کچھ اینکرز نے مراعات کی خاطر ARY ملازمین کی نوکریاں داؤ پر لگا دیں

by عمر اظہر بھٹی
اگست 13, 2022
0

...

"آپ آزاد ہیں”، نوجوان قائداعظم محمد علی جناحؒ کے پاکستان کو واپس لیں

"آپ آزاد ہیں”، نوجوان قائداعظم محمد علی جناحؒ کے پاکستان کو واپس لیں

by عرفان رضا
اگست 13, 2022
1

...

سوات پر عسکریت پسندوں کے سائے: کیا جنت نظیر وادی سوات ایک بار پھر کشیدگی کی جانب گامزن ہے؟

سوات پر عسکریت پسندوں کے سائے: کیا جنت نظیر وادی سوات ایک بار پھر کشیدگی کی جانب گامزن ہے؟

by عبداللہ مومند
اگست 13, 2022
0

...

Salman Iqbal

وہ 5 کیسز جن میں ARY کو برطانیہ میں پراپیگنڈا اور ہتک عزت کا مجرم ٹھہرایا گیا

by نیا دور
اگست 10, 2022
0

...

Asad Durrani

شہباز شریف کا ہاتھ عوام کی نبض پر نہیں تھا

by لیفٹینٹ جنرل (ر) اسد درانی
اگست 6, 2022
0

...

میگزین

شاعری سے ٹی ٹی پی کمانڈر تک کا سفر کرنے والے عمر خالد خراسانی کون تھے؟

شاعری سے ٹی ٹی پی کمانڈر تک کا سفر کرنے والے عمر خالد خراسانی کون تھے؟

by عبداللہ مومند
اگست 8, 2022
0

...

سابق صدر آصف علی زرداری کے خلاف مشہور جھوٹے پروپیگنڈے

سابق صدر آصف علی زرداری کے خلاف مشہور جھوٹے پروپیگنڈے

by حسن نقوی
اگست 8, 2022
0

...

آمر سے لڑتے ہوئے جان دینے والا "وارث میر”

آمر سے لڑتے ہوئے جان دینے والا "وارث میر”

by بشیر ریاض
جولائی 11, 2022
0

...

Abdul Sattar Tari

عبدالستار تاری – جس کے پائے کا طبلہ نواز آج دنیا میں موجود نہیں

by محمد شہزاد
جولائی 7, 2022
1

...

ہماری مدد کریں

ٹویٹس - NayaDaur Urdu

نیا دور کے صفِ اوّل کے مصنفین

پیٹر جیکب
پیٹر جیکب
View Posts →
حسن مجتبیٰ
حسن مجتبیٰ
View Posts →
عرفان صدیقی
عرفان صدیقی
View Posts →
نجم سیٹھی
نجم سیٹھی
View Posts →
نبیلہ فیروز
نبیلہ فیروز
View Posts →
توصیف احمد خان
توصیف احمد خان
View Posts →
رفعت اللہ اورکزئی
رفعت اللہ اورکزئی
View Posts →
فوزیہ یزدانی
فوزیہ یزدانی
View Posts →
مرتضیٰ سولنگی
مرتضیٰ سولنگی
View Posts →
اسد علی طور
اسد علی طور
View Posts →
ادریس بابر
ادریس بابر
View Posts →
رضا رومی
رضا رومی
View Posts →
علی وارثی
علی وارثی
View Posts →

Cover for Naya Daur Urdu
64,742
Naya Daur Urdu

Naya Daur Urdu

پاکستان کی ثقافت اور تاریخ کو دیکھنے کا ایک نیا زاویہ

Naya Daur Urdu

1 hour ago

Naya Daur Urdu
بھارت سے آنے والے چارٹر طیارے نے دوپہر 12:10 بجے کراچی ائیرپورٹ پر لینڈ کیا تھا۔ 12 مسافروں میں دو غیر ملکی مسافر بھی سوار ہوئے۔ آخر یہ لوگ کون تھے؟میڈیا میں چہ مگوئیاں شروع ہو گئیں۔urdu.nayadaur.tv/news/94168/charter-plane-karachi-airport-india-karachi-airport/ ... See MoreSee Less

بھارت سے آنے والے چارٹر طیارے کی کراچی ائیرپورٹ پر لینڈنگ، میڈیا پر چہ مگوئیاں

urdu.nayadaur.tv

بھارت سے آنے والے چارٹر طیارے نے کراچی ائیرپورٹ پر لینڈنگ کی اور یہاں سے 12 مسافروں کو لے کر دبئی روانہ ہو گیا۔ ذ...
View on Facebook
· Share

Share on Facebook Share on Twitter Share on Linked In Share by Email

Naya Daur Urdu

2 hours ago

Naya Daur Urdu
پی ٹی آئی لانگ مارچ کے دوران خاتون پر پستول تاننے والا تھانیدار نوکری سے فارغurdu.nayadaur.tv/news/94163/pti-long-march-25-may-islamabad-sho-abid-jutt-punjab-police/ ... See MoreSee Less

Photo

View on Facebook
· Share

Share on Facebook Share on Twitter Share on Linked In Share by Email

خبریں، تازہ خبریں

  • All
  • انٹرٹینمنٹ
  • سیاست
  • ثقافت
کم از کم اجرت 20 ہزار، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ: بجٹ 2021 پیش کر دیا گیا

اقتدار کے ایوانوں سے جلد کسی ‘بڑی چھٹی’ کا امکان ہے؟

اکتوبر 31, 2021
ہمیں نفرت اور مذہب کے بیوپاریوں کی نہیں، دھانی اور دھونی جیسے ہیروز کی ضرورت ہے

ہمیں نفرت اور مذہب کے بیوپاریوں کی نہیں، دھانی اور دھونی جیسے ہیروز کی ضرورت ہے

اکتوبر 27, 2021
بد ترین کارکردگی پر الیکشن نہیں جیتا جاسکتا، صرف ای وی ایم کے ذریعے جیتا جاسکتا ہے

ای وی ایم اور انتخابات: ‘خان صاحب سمندر پار پاکستانیوں کے ووٹ لینے کے لیئے بے تاب ہیں’

اکتوبر 24, 2021

Naya Daur © All Rights Reserved

No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • عوام کی آواز
  • Click here for English

Naya Daur © All Rights Reserved

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password?

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In