• آن لائن اشتہاری ٹیرف
  • رابطہ کریں
  • ہمارے بارے میں
  • ہمارے لئے لکھیں
  • نیا دور انگریزی میں
جمعرات, اگست 11, 2022
نیا دور
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • عوام کی آواز
  • Click here for English
No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • عوام کی آواز
  • Click here for English
No Result
View All Result
نیا دور
No Result
View All Result

’باتیں ہماری سنیے گا‘

توصیف احمد خان by توصیف احمد خان
جون 29, 2020
in تعلیم, فیچر, کورونا وائرس, میڈیا
5 0
0
’باتیں ہماری سنیے گا‘
30
VIEWS
Share on FacebookShare on TwitterShare on Whatsapp

استاد محترم ڈاکٹر مغیث الدین شیخ کی رحلت سے صرف ایک روز قبل معلوم ہوا کہ وہ بھی کرونا کا شکار ہو کر اسپتال میں داخل ہیں۔ خبر سنتے ہی دل کو دھڑکا لگ گیا کیونکہ میرے علم میں تھا کہ وہ ذیابیطس کے مریض تھے اور کچھ عرصہ قبل ایک ملاقات میں پتہ چلا کہ وہ گلے کی کسی ایسی بیماری میں مبتلا ہیں جس کی وجہ سے ان کی آواز نحیف ہو گئی تھی۔ اگلے دن سو کر اٹھا تو واٹس ایپ پر اوپر نیچے ان کی رحلت کی اطلاع دی ہوئی تھی۔ دل بہت بوجھل سا ہو گیا اور بڑے عرصے کے بعد آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی رواں ہو گئی۔ پرانی یادیں ایک فلم کی طرح آنکھوں کے سامنے چلنے لگیں۔

پنجاب یونیورسٹی میں کچھ ’کامیاب انسان‘ قسم کے ڈپارٹمنٹ میں داخلہ چھوڑ کر ماس کمیونیکیشن میں داخلہ لینے کا فیصلہ اس لئے کیا کہ میں ان لوگوں کو سامنے دیکھ پاؤں گا جو اخبارات میں لکھتے ہیں اور عام آدمی کے لئے دیوتا سامان ہیں۔ پہلے دن کلاس کے تیسرے پیریڈ میں ڈاکٹر صاحب سے سامنا ہوأ۔ حاضری رجسٹر کے حساب سے سب کو کھڑا کر کے تعارف لیا۔ چھٹے نمبر پر میری باری تھی۔ میں نے مسکراتے ہوئے اپنا تعارف کرایا تو بغور دیکھتے رہے۔ تعارف ختم ہونے پر مسکراتے ہوئے کہا بہت شرارتی ہو۔ خیر سے اسی ہوسٹل میں الاٹمنٹ ہوئی جس کے وہ وارڈن تھے، اسی وجہ سے انہیں بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ بہت دوستوں کے نزدیک وہ اکھڑ مزاج تھے لیکن میرا تجربہ بالکل مختلف ہے۔ وہ امریکہ سے پڑھ کے آئے توابلاغیات کی جدید تعلیم کے ساتھ کچھ اصول و ضوابط بھی سیکھ کر آئے جنہیں انہوں نے بطور معلم، وارڈن اور بعدازاں بطور سربراہ ادارہ اپنے شاگردوں اور ادارہ میں داخل کرنے کی کامیاب کوشش کی۔ شروع میں مشکلات ضرور پیش آئیں لیکن ڈاکٹر مغیث کب ہار ماننے والے تھے۔ پورے دو سال میں انہوں نے صرف تعارف کی خاطر حاضری رجسٹر کا استعمال کیا اور اس کے بعد کبھی کلاس میں حاضری نہ لگائی۔ ان کے بقول جس کو شوق ہو وہی پڑھنے آئے۔ حاضریاں پوری کرنے کی مجبوری سے آنے والے بیشک نہ آئیں ان کی حاضری لگتی رہے گی۔

RelatedPosts

تیری محفل میں لیکن ہم نہ ہوں گے

Load More

ڈاکٹر صاحب بہت اچھے مقرر تھے اور ان کا یہ جادو دوران لیکچر ان کے علم کے ساتھ سر چڑھ کر بولتا۔ انگریزی ہو یا اردو لفظ موتیوں کی طرح ان کے منہ سے جھڑتے۔ معلوم ایسے ہوتا تھا جیسے ڈاکٹر صاحب امریکہ سے علم ابلاغیات کا سمندر اپنے سینے میں اتار لائے ہیں۔ دوران کلاس فقرے چست کرنے پر انہیں ملکہ حاصل تھا۔ جو طالب علم بھی یہ بتا دیتا کہ وہ روایتی لاہوری ناشتہ یا لسی پی کر آیا ہے یا کلاس میں سوتا ہوأ پایا جاتا تو ڈاکٹر صاحب کا خوراک کے ذریعے ہماری قومی سستی پر لیکچر سننے کے قابل ہوتا۔ غالبأ یہی وہ مشترکہ بات تھی جس کی وجہ سے ڈاکٹر صاحب مجھے پسند کرنے لگ گئے کیونکہ میں دوران لیکچر ایسا لقمہ دیتا کہ سب ہنس پڑتے اور ڈاکٹر صاحب بھی ہمیشہ محظوظ ہوتے اور بعض اوقات تو جان بوجھ کر مجھے چھیڑ دیتے۔

بہت دوستوں کی طرح مجھے بھی زعم ہے کہ میں ان کا سب سے لاڈلا شاگرد تھا۔ ایک دفعہ انہوں نے برملا کہا کہ میں اتنے عرصہ سے پڑھا رہا ہوں لیکن اس سے زیادہ ذہین شاگرد ابھی تک نہیں ملا اور ساتھ ہی کہہ ڈالا لیکن اس کا جرنلزم کینٹین پر ہوتا ہے، کلاس میں نہیں۔ میرے اور ڈاکٹر مغیث صاحب کے نظریات میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ وہ شاید ماضی میں اسلامی جمعیت طلبہ سے منسلک رہے اور ہم جیسے لیفٹ کی سیاست کرتے یونیورسٹی میں پہنچے تھے لیکن انہوں نے کبھی اس نظریاتی اختلاف کو درخور اعتنا نہ جانا۔

گاڑی پر ڈپارٹمنٹ آتے اور اگر میں نظر آ جاتا تو گاڑی اوپر چڑھا کر ڈرانے کی کوشش ضرور کرتے۔ ایک تقریب میں ایم فل کے طالب علم نے ڈاکٹر صاحب کو ازراہ مذاق کہا کہ سر یہ آپ کے اتنا کیوں قریب ہے تو انہوں نے ترنت جواب دیا کہ یہ ایک بہت اچھا دشمن یا دوست ہو سکتا ہے، اس کے ہاں درمیانی راستہ کوئی نہیں۔ میں چونکہ کمزور آدمی ہوں اس لئے اس سے دوستی کر لی۔ میں نے فوراً استاد محترم کے گھٹنوں کو ہاتھ لگا کر کہا سر گنہگار کر کے نہ ماریں۔ ہوسٹل کی ایک تقریب میں سلیم طاہر کے یہ اشعار میرے نام کر کے سنائے اور میلہ لوٹ لیا

ہمیں معلوم ہے کیا دست حنائی دے گا
فصل بوئیں گے وفا کی وہ جدائی دے گا
آنکھ نیلم بدن شیشہ اور دل پتھر کا
کون اپنے شاہکار میں اتنی صفائی دے گا

بطور وارڈن ہوسٹل بھی ان کے انداز اپنے ہم عصروں سے مختلف تھے۔ اپنے ہوسٹل کے طلبہ کو بہترین سہولیات فراہم کرنا اور وہاں صفائی ستھرائی کو بہترین توجہ دینا ان کا نصب العین معلوم ہوتا تھا۔ ہفتہ میں ایک دو دن ضرور ہوسٹل آتے اور زیادہ تر محترم ملک نصراللہ صاحب کے ساتھ گپ شپ کرتے نظر آتے۔ میں نے انہیں کبھی رات کو طالب علموں کے کمروں پر چھاپے مارتے نہیں دیکھا لیکن مجھے یہ شرف حاصل ہے کہ وہ میرے کمرے میں دو تین دفعہ کافی پینے ضرور آئے یا ہوسٹل گیٹ سے ہی کافی یا چائے کا حکم جاری کر دیتے۔ یہ شرف بھی اسی خادم کو حاصل تھا کہ جب دل چاہا ان کے گھر چلا جاتا اور نفیس کراکری میں چائے پی کر گھر کی یاد تازہ کر لیتا۔ بعض لوگوں کے لئے یہ بات حیران کن ہو گی کہ استاد محترم منت سماجت کے باوجود ہمیشہ گیٹ تک رخصت کرنے آتے۔

ہوسٹل میں اچھے انتظامات کے حوالے سے وہ بہت فکر مند رہتے اور اس حوالے سے بہت سارے لطیفے بھی بنتے رہتے۔

ایک دن اطلاع ملی کہ ہوسٹل میں لا کالج کے طلبہ نے اس لئے کھانے کا بائیکاٹ کر دیا ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے میس انتظامیہ کو حکم دیا کہ وہ کھانے میں گھی کی بجائے خوردنی تیل کا استعمال کریں۔ ظاہر ہے بہت مضحکہ خیز مطالبہ تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے ہوسٹل کے طلبہ کو اکٹھا کر کے انتہائی پراثر تقریر کی جس کا لب لباب یہ تھا کہ آپ کے والدین نے آپ لوگوں کو امانت کے طور پر میرے سپرد کیا ہے اس لئے میرا حق بنتا ہے کہ میں آپ کو صحت مند خوراک مہیا کروں جس کو یہ سب پسند نہیں وہ کسی اور ہوسٹل میں چلا جائے۔

انہوں نے ہوسٹل کے گراؤنڈ کو بہت صاف ستھرا رکھا ہوا تھا۔ ایک دن لڑکے وہاں بیٹھے مالٹے کھا کر وہاں چھلکے پھینک رہے تھے۔ ڈاکٹر صاحب گراؤنڈ میں پہنچے اور چھلکے خود اٹھانے شروع کر دیے۔ لڑکوں نے ان کی طرف دیکھا تو انہوں نے رسانیت سے کہا، آپ کھاتے رہیں۔ یہ کام میرے ذمہ ہے۔ بس اس دن کے بعد کسی نے گراؤنڈ میں ایسی حرکت کی کوشش نہ کی۔ اس طرح ایک دن دھوبی کی دکان تین دنوں کے لئے اس وجہ سے بند ہو گئی کہ اس کی دکان کی میں مکڑی نے جالا بنایا ہوأ تھا۔ انہی اقدامات کی وجہ سے یہ ہوسٹل یونیورسٹی کا سب سے صاف ستھرا ہوسٹل تھا۔

دوران تعلیم اور بعد میں ڈاکٹر صاحب نے مجھے نوکری کے لئے درجنوں سفارشی رقعے لکھ کر دیے۔ کئی لوگوں کو فون بھی کیا لیکن ایسا واقعہ بھی ہوأ جس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ اپنے شاگردوں کی طبیعت کو کس طرح جانتے تھے۔ ہوا یوں کہ ایک سرکاری ادارے میں اٹھارویں گریڈ کی عارضی نوکری کا اشتہار دیکھ کر میں نے بھی درخواست دے دی۔ عمر اور تجربہ بہت کم ہونے کی وجہ سے امید نہ تھی کہ مجھے بلایا جائے گا لیکن آٹھ شارٹ لسٹ امیدواروں میں اپنا نام بھی شامل تھا۔ جب انٹرویو کے لئے بورڈ کے سامنے پیش ہوا تو ڈاکٹر مغیث صاحب بھی بورڈ میں موجود تھے۔ مجھے دیکھ کر بڑے حیران ہوئے اور سب کو بتایا کہ یہ میرا لاڈلا شاگرد ہے۔

جب اس محکمے کے سیکرٹری نے ڈاکٹر مغیث صاحب کو یہ بتایا کہ مجھے آپ کا شاگرد بہت جونیئر ہونے کے باوجود پسند آیا ہے تو ڈاکٹر صاحب نے کہا لیکن میں اسے پاس نہیں کروں گا۔ میں پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اس طرح کی نوکری اس کا مزاج ہی نہیں۔ شام کو ڈاکٹر صاحب سے ملاقات ہوئی اور انٹرویو کے متعلق استفسار کیا تو انہوں نے برملا کہا یہ کلرکوں والا کام کوئی اور کر لے گا۔ یہ نوکری آپ کے لئے نہیں ہے۔

یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ ڈاکٹر مغیث صاحب کی وفات تک پاکستان میں ان سے بڑا ابلاغیات کا ماہر کوئی نہیں تھا اور اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ ہم قومی سطح پر ان کے معیار کا کوئی کام نہیں لے سکے۔ کچھ ہی عرصہ قبل ان سے سنٹرل پنجاب یونیورسٹی میں ملاقات ہوئی تو ایسے لگا جیسے ڈاکٹر صاحب کو نظر لگ گئی ہو۔ ان کا بہترین مقرر ہونا ان کے بہترین استاد ہونے کے لئے بہت مددگار تھا لیکن ان کی آواز بہت نحیف ہو گئی تھی بلکہ انہیں بولنے میں بھی تکلیف تھی۔ میرے اصرار پر برطانیہ سے آنے والے ایک ڈاکٹر کو دکھانے پر آمادگی ظاہر کی اور وقت لینے کا کہا لیکن جس دن کا وقت لیا، اس دن ڈاکٹر مغیث صاحب مصروف تھے اور بعد میں وہ ڈاکٹر صاحب باہر چلے گئے۔ اس کے بعد بھی دو دفعہ ان کے گھر جا کر سلام پیش کیا لیکن ان کی کمزور ہوتی آواز سے ہمیشہ دل کو ایک دھکا سا لگا۔ اسی لئے جب یہ سنا کہ وہ کرونا کا شکار ہو گئے تو دل بہت ڈر گیا تھا۔

ڈاکٹر صاحب کرکٹ کے ساتھ ساتھ عمران خان کو بھی بہت پسند کرتے تھے۔ بہت کم لوگوں کو علم ہوگا کہ عمران خان کی میڈیا پالیسی میں ان کا بہت عمل دخل تھا لیکن آہستہ آہستہ وہ بھی مایوس ہو رہے تھے۔ جب انہیں کرونا ہوا ہوگا تو مجھے یقین ہے کہ انہوں نے ضرور سوچا ہوگا کہ عمران تم سے اس حد تک نااہلی اور غفلت کی امید نہ تھی۔ آخرکار سب نے اللہ کے پاس جانا ہے لیکن ایک استاد اور محقق کا اس طرح چلے جانا نہ صرف ان کے شاگردوں بلکہ قوم کے لئے بھی المیہ ہے۔ دل سے بس یہی دعا نکلتی ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے دوسرے اساتذہ ڈاکٹر اے آر خالد، ڈاکٹر مہدی حسن، ڈاکٹر مجاہد منصوری اور ڈاکٹر شفیق جالندھری کو صحت سلامتی دے اور ان کا سایہ تادیر ہمارے سروں پر قائم رکھے۔

Tags: ڈاکٹر مغیث الدینڈاکٹر مغیث شیخ
Previous Post

کرونا وائرس بحران کے دوران لال لال تحریک کا کردار

Next Post

3 ماہ بعد اینٹی باڈیز ختم: کیا کرونا سے صحتیاب ہونے والے افراد تین ماہ بعد پھر کرونا کا شکار ہو سکتے ہیں؟

توصیف احمد خان

توصیف احمد خان

Related Posts

Salman Iqbal

وہ 5 کیسز جن میں ARY کو برطانیہ میں پراپیگنڈا اور ہتک عزت کا مجرم ٹھہرایا گیا

by نیا دور
اگست 10, 2022
0

پی ٹی آئی رہنما شہباز گل کے فوج مخالف بیان کی وجہ سے اے آر وائے نیوز شدید مشکلات میں ہے۔ اس...

جدید مغربی طرزِ جمہوریت، انڈین نیشنل کانگرس اور متحدہ قومیت کی تشکیل کا نام نہاد فلسفہ

جدید مغربی طرزِ جمہوریت، انڈین نیشنل کانگرس اور متحدہ قومیت کی تشکیل کا نام نہاد فلسفہ

by کامران جیمز
اگست 10, 2022
0

آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کی شکست کے بعد انگریز پورے ہندوستان پر چھا گئے اور دیگر اقوام کے ساتھ ساتھ...

Load More
Next Post
تازہ طبی تحقیق میں کرونا وائرس کی علامات کئی ہفتوں تک برقرار رہنے کا انکشاف

3 ماہ بعد اینٹی باڈیز ختم: کیا کرونا سے صحتیاب ہونے والے افراد تین ماہ بعد پھر کرونا کا شکار ہو سکتے ہیں؟

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تلاش کریں

No Result
View All Result

ایڈیٹر کی پسند

Salman Iqbal

وہ 5 کیسز جن میں ARY کو برطانیہ میں پراپیگنڈا اور ہتک عزت کا مجرم ٹھہرایا گیا

by نیا دور
اگست 10, 2022
0

...

Asad Durrani

شہباز شریف کا ہاتھ عوام کی نبض پر نہیں تھا

by لیفٹینٹ جنرل (ر) اسد درانی
اگست 6, 2022
0

...

ملتان ضمنی انتخابات: تحریک انصاف کی موروثی سیاست کے خلاف جنگ بے نقاب

ملتان ضمنی انتخابات: تحریک انصاف کی موروثی سیاست کے خلاف جنگ بے نقاب

by سعد سعود
اگست 6, 2022
0

...

Imran Khan disqualification

عمران خان کے خلاف گھیرا تنگ ہو رہا ہے۔ معاملات منطقی انجام کی طرف بڑھنے لگے

by علی وارثی
اگست 4, 2022
0

...

Asif Ghafoor

‘The tea is fantastic’: لیفٹننٹ جنرل آصف غفور کے کریئر پر ایک نظر

by علی وارثی
اگست 3, 2022
0

...

میگزین

شاعری سے ٹی ٹی پی کمانڈر تک کا سفر کرنے والے عمر خالد خراسانی کون تھے؟

شاعری سے ٹی ٹی پی کمانڈر تک کا سفر کرنے والے عمر خالد خراسانی کون تھے؟

by عبداللہ مومند
اگست 8, 2022
0

...

سابق صدر آصف علی زرداری کے خلاف مشہور جھوٹے پروپیگنڈے

سابق صدر آصف علی زرداری کے خلاف مشہور جھوٹے پروپیگنڈے

by حسن نقوی
اگست 8, 2022
0

...

آمر سے لڑتے ہوئے جان دینے والا "وارث میر”

آمر سے لڑتے ہوئے جان دینے والا "وارث میر”

by بشیر ریاض
جولائی 11, 2022
0

...

Abdul Sattar Tari

عبدالستار تاری – جس کے پائے کا طبلہ نواز آج دنیا میں موجود نہیں

by محمد شہزاد
جولائی 7, 2022
1

...

ہماری مدد کریں

ٹویٹس - NayaDaur Urdu

نیا دور کے صفِ اوّل کے مصنفین

پیٹر جیکب
پیٹر جیکب
View Posts →
حسن مجتبیٰ
حسن مجتبیٰ
View Posts →
عرفان صدیقی
عرفان صدیقی
View Posts →
نجم سیٹھی
نجم سیٹھی
View Posts →
نبیلہ فیروز
نبیلہ فیروز
View Posts →
توصیف احمد خان
توصیف احمد خان
View Posts →
رفعت اللہ اورکزئی
رفعت اللہ اورکزئی
View Posts →
فوزیہ یزدانی
فوزیہ یزدانی
View Posts →
مرتضیٰ سولنگی
مرتضیٰ سولنگی
View Posts →
اسد علی طور
اسد علی طور
View Posts →
ادریس بابر
ادریس بابر
View Posts →
رضا رومی
رضا رومی
View Posts →
علی وارثی
علی وارثی
View Posts →

Cover for Naya Daur Urdu
64,736
Naya Daur Urdu

Naya Daur Urdu

پاکستان کی ثقافت اور تاریخ کو دیکھنے کا ایک نیا زاویہ

Naya Daur Urdu

1 hour ago

Naya Daur Urdu
اے آر وائی کا ہم کیا دفاع کریں جب دفاع کریں لوگ آپ کا ماضی سامنے رکھتےہیں ہمارے سر شرم سے جھک جاتےہیں۔ ماضی میں ارشد شریف جو صحافیوں کے بارے میں پروگرام کرتے رہے ہیں ان کے بارے میں ابھی کسی نے ایک پروگرام بھی نہیں کیا اور وہ پشاور سے بھاگ گئے، مزمل سہروردی ... See MoreSee Less

Video

View on Facebook
· Share

Share on Facebook Share on Twitter Share on Linked In Share by Email

Naya Daur Urdu

1 hour ago

Naya Daur Urdu
دشمن مرے تے خوشی نہ کرئیے سجناں وی مر جاناوقت بدلنے میں دیر نہیں لگتی اور وقت بدل گیا ہے،باری اے آر وائی کی آگئی ہے۔ سب کہتے تھے عمران خان اور اے آر وائی کو کہ باری تمہاری بھی آئے گی اسٹیبلشمنٹ کے گھوڑے پر بیٹھ کر اتنی سواری نہ کرو۔ دوسروں کو اتنا دیوار سے نہ لگاو کہ کل تمہارے ساتھ کوئی کھڑا ہونے کو تیار نہ ہو، مزمل سہروردی ... See MoreSee Less

Video

View on Facebook
· Share

Share on Facebook Share on Twitter Share on Linked In Share by Email

خبریں، تازہ خبریں

  • All
  • انٹرٹینمنٹ
  • سیاست
  • ثقافت
کم از کم اجرت 20 ہزار، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ: بجٹ 2021 پیش کر دیا گیا

اقتدار کے ایوانوں سے جلد کسی ‘بڑی چھٹی’ کا امکان ہے؟

اکتوبر 31, 2021
ہمیں نفرت اور مذہب کے بیوپاریوں کی نہیں، دھانی اور دھونی جیسے ہیروز کی ضرورت ہے

ہمیں نفرت اور مذہب کے بیوپاریوں کی نہیں، دھانی اور دھونی جیسے ہیروز کی ضرورت ہے

اکتوبر 27, 2021
بد ترین کارکردگی پر الیکشن نہیں جیتا جاسکتا، صرف ای وی ایم کے ذریعے جیتا جاسکتا ہے

ای وی ایم اور انتخابات: ‘خان صاحب سمندر پار پاکستانیوں کے ووٹ لینے کے لیئے بے تاب ہیں’

اکتوبر 24, 2021

Naya Daur © All Rights Reserved

No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • عوام کی آواز
  • Click here for English

Naya Daur © All Rights Reserved

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password?

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In