شاعری کی تند و تیز بارش میں شیخ ایاز کا بھیگتا اُڑتا قرطاس و قلم

شاعری کی تند و تیز بارش میں شیخ ایاز کا بھیگتا اُڑتا قرطاس و قلم
شیخ ایاز کا حقیقی نام شیخ مبارک علی تھا، انھوں نے 2 مارچ 1923 کو سندھ کے قدیم شہر شکار پور میں جنم لیا۔ اُن کے والد کا نام شیخ غلام حسین تھا اور دادا شیخ عبدالحکیم شیخ کہلاتے تھے۔ اُن کا شمار شکار پور کے معززین میں ہوتا تھا اور اُنہی کے نام کی نسبت سے اُن کے محلے کو بھی شیخ مُحلہ کہا جاتا تھا۔ شیخ ایاز سندھی ادبی سنگت کے بانیوں میں سے تھے۔ وہ انجمنِ ترقی پسند مصنفین کے ساتھ بھی وابستہ رہے۔ تقسیم کے بعد اُن کا پاکستان رائٹرز گلڈ اور جی ایم سید کی قائم کردہ بزم صوفیائے سندھ سے بھی گہرا تعلق رہا۔ 1950 مین ایل ایل بی کا امتحان پاس کرنے کے بعد وکالت کا شعبہ اختیار کیا اور سکھر میں فوجداری مقدمات میں مہارت حاصل کی اور ایک بڑے وکیل بن کر اُبھرے۔

شیخ ایاز کے ادبی سفر میں برصغیر کی نامور شخصیات ساتھ رہیں جن میں سجاد ظہیر، منشی پریم چند، کیفی اعظمی، ساحر لدھیانوی، اور فیض احمد فیض شامل تھے۔

شیخ ایاز کی شاعری کے سندھی سے اردو میں منظوم تراجم بھی ہوئے جن میں ایک نمایاں نام فہمیدہ ریاض کا ہے جنہوں نے اُن کی سندھی شاعری سے ایک منظوم ترجمہ “حلقہ میری زنجیر کا“ کے عنوان سے کیا، جس کی اشاعت 1974 میں ہوئی۔ اُن کی شاعری کے مزید تراجم اردو، سرائیکی، پنجابی، فرانسیسی، جرمن اور انگریزی زبانوں میں بھی ہوئے۔ 1955 میں ون یونٹ کے خلاف عملی جدوجہد کی اور سندھ بھر میں اُن کا کلام ہر سیاسی اجتماع میں پڑھا گیا جو عوام کو امید اور حوصلہ دیتا رہا۔ اُن کی ایک سندھی نثری کتاب ( جے کاک ککوریا کا پڑی) پر ایوبی آمریت کے دور میں پابندی لگائی گئی، جو ایوبی آمریت کے اختتام کے بعد ہی اُٹھ پائی۔

شیخ ایاز نے 1976 تک وکالت کا سلسلہ جاری رکھا پھر 13 جنوری 1976 کو وزیر اعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو نے انہیں سندھ یونیورسٹی کا وائس چانسلر مقرر کیا۔ انہوں نے سندھ یونیورسٹی میں قائم انسٹی ٹیوٹ آف سندھیالوجی کی ترقی کے لیے بڑا کام کیا۔

شیخ ایاز اپنے عہد کی تاریخ کے سب سے نمایاں ادب شناس شاعر اور تخلیقی نثرنگار تھے۔ شیخ ایاز کو اپنی زندگی میں ہی سندھ میں بے پنہاں پذیرائی حاصل ہوئی۔ ہمارے یہاں ذرائع ابلاغ کے بیشتر ادارے جس غلط بیانی کے بل بوتے پر پنپتے رہے تھے وہاں آمریت کے اُس طویل دور میں شیخ ایاز نے اشارے اور کنائے یا تشبیہ اور استعارے کے بجائے بھگت سنگھ تختہ دار جیسا ڈرامہ لکھا۔ شیخ ایاز کی شاعری اپنی دھرتی اور عالمی ادبی جدوجہد کی عکاس رہی۔ ان کی شاعری فنکارانہ مہارت اور قومی دردمندی کی علامت بن کر اُبھری۔

سفید وحشی میں گلّاں صدیق کی روح میں رچ بس گئی تھی۔ جب صدیق کبھی کبھار گلّاں کو کشتی میں سیر کراتا تو وہ بادبان چڑھا کر کشتی کو ہوا کے رخ پر چھوڑ دیتا اور گلّاں کے سامنے بیٹھ کر گانے لگتا تو اُس کی سانسوں میں رچی مچھلیوں کے ٹوکریوں کی باس دھیرے دھیرے سوندھی سوندھی خوشبو میں بدل جاتی۔ پوری کائنات طلسماتی ہوجاتی اور آسمان میں ستاروں کی جگمگ، دور منوڑے کی بتیوں کی جھل مل سے مل کر عجیب سا سماں پیدا کرتی۔ لیکن صدیق کے دل کا خلا کبھی پر نہ ہوتا۔  گلّاں کا باپ سیپیاں بیچتا تھا جس سے چار پانچ آنے بمشکل کمائی ہوتی تھی۔ پھر ان چار پانچ آنوں سے پورے گھر کا گذر بسر کیسے ہوتا۔ اُس نے گلّاں کو اس پیشے کے لیے مجبور کیا ہوگا۔ صدیق گہری سوچ میں غرق ہوگیا تھا۔ صدیق نے گورے افسر کو گلّاں کے باپ سے تکرار کرتے دیکھ لیا تھا۔

فائیو روپیز، ناٹ مور، گورے نے غصے سے کہا۔

نہیں گورے صاحب پانچ نہیں دس، گلّاں کے باپ نے جواب دیا۔

صدیق کا دماغ گھوم گیا اور اُس نے گورے پر چاقو سے وار کردیا اور سفید وحشی مچھلی کی طرح تڑپنے لگا۔

اُس نے جیل میں پڑے بہت دیر تک وفا اور بے وفائی کی صلیب پر گلٌاں کے تصور کو ٹانگے رکھا۔

جب آخری بار وہ اُس سے ملنے آئی تھی تب اس نے ہتھکڑیوں کی ضرب سے گلٌاں کا سر پھوڑنا چاہا تھا لیکن گلٌاں کی نم آنکھوں نے غیرت کے جھوٹے جذبے کو مات دے دی تھی۔

شیخ ایاز نفاست، خلوص، ہمدردی، سچائی اور دکھ کی گہرائی سے خوب شناسائی رکھتے تھے۔ ویسے تو سندھی میں جدید افسانہ نویسی کا موجد جمال ابڑو کو مانا جاتا ہے لیکن شیخ ایاز کے سب افسانے اُتنے ہی معتبر ہیں جتنی کہ اُن کی پرگداز، منظم، مضطرب اور اپنی دھرتی کے دکھوں اور خوشیوں سے اُگنے والی شاعری۔ شیخ ایاز نے کئی اور افسانے لکھے جن میں شرابی، ہنس مکھ، چار ایکڑ زمین اور مشیر نامہ سرِفہرست ہیں۔ شیخ ایاز کی ایک سندھی نظم کا اردو ترجمہ حمایت علی شاعر نے کچھ اس طرح کیا۔

نظم

عقاب اپنے نشیمن کی طرف لوٹ رہا ہے

وہ کوہسار کھیرتھر کی چوٹیوں پر کئی باراُڑا تھا

کئی بار اُس کے پروں نے سنگلاخ چٹانوں پر سایہ کیا تھا

کئی بار اس نے تپتی ہوئی دھرتی کی فضائے آتشیں سے نفرت کی تھی

اور جلتے ہوئے سورج کو خشمگیں نگاہوں سے دیکھا تھا

کئی بار اس نے سانپوں پر جھپٹ کر انہیں اپنے پنجوں سے چیر ڈالا تھا

اس سارے وقت میں اسے یاد بھی نہ تھا کہ اس کا کوئی نشیمن بھی ہے

عقاب تھکتے تو نہیں ہیں۔ عقاب بوڑھے بھی نہیں ہوتے

ہاں! یہ اور بات ہے کہ سورج ڈوب رہا ہے

اور عقاب اپنے نشیمن کے طرف لوٹ رہا ہے

اُن پے شاعری موسلادھار بارش کی طرح برستی تھی اور اس بارش کی فراوانی سے جو اُجلے اُجلے پھول کھلتے تھے، ان سب میں اپنی دھرتی سے پیار اور تمام عالم کے لئے امن کا پیغام پنہاں ہوتا تھا۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ شیخ ایاز کوئی تخیلِ محض کی دیدہ وری اور دانشوری  کے قائل نہیں تھے اُن کے یہاں ناانصافیوں اور مظالم کے خلاف تند و تیز احتجاج بھی پایا جاتا ہے۔ شیخ ایاز کی شاعری نسلی نفرت اور تعصب سے پاک ہے وہ اپنا اظہار محبت، سادگی اور پُرکاری سے کرتے ہیں۔ اُن کی شاعری صوفیانہ اُٹھان کے ساتھ ساتھ سندھ کے لئے صدیوں تک گونجتا نعرہ بھی ہے۔

شیخ ایاز نے اپنے شعر کی ابتدا اردو سے کی۔ ان کے اردو کلام میں "حلقہ میری زنجیر کا"، "نیل کنٹھ اور نیم کے پتے" اور "بوئے گل نالہ دل" شامل ہیں۔ "بوئے گل نالہ دل" میں ان کی اردو نظمیں، کچھ غزلیں اوروہ نظمیں بھی شامل ہیں جوکہ ان کے اپنے سندھی کلام کا ترجمہ ہیں۔ یہ ترجمہ بھی انھوں نے خود ہی کیا تھا البتہ اس مجموعہ کلام کی ترتیب نامور ادیب آفاق صدیقی نے کی تھی جب کہ دوسرا مجموعہ کلام کف گل فروش کے نام سے شائع ہوا۔

ایاز کے دیگر تخلیقی کمالات میں سے ایک کمال سندھی شاعری کے عظیم کلاسیکی شاعر شاہ عبداللطیف بھٹائی کے کلام کو اردو میں ترجمہ کرنا تھا۔ کسی بھی شاعر کے کلام کو منظوم ترجمہ کرنا قدر مشکل کام ہے یہ شیخ ایاز کی شاعرانہ بصیرت تھی کہ وہ اس کام کو بھی بخوبی نبھا پائے۔ ان کا ارادہ شاہ لطیف کی حیات و افکار پر ناول لکھنے کا بھی تھا مگر یہ کام ان کی زندگی میں تکمیل نہ پا سکا۔

سُر مارئی کے کچھ بیت نقل ہیں:

دن وطن سے الگ جو گذرے ہیں

اُن پہ تہمت دھریں گے تھر والے

جیسی آئی تھی ویسی جاؤں گی

ورنہ نفرت کریں گے تھر والے

کس سے پوچھوں یہاں ہے کون اپنا

جانے اُن بے کسوں پہ کیا گذری

کل وہاں بجلیوں کی یورش تھی

رات بھر مارؤں پہ کیا گذری

ان کا سندھی زبان میں ایک اور بہترین کام یہ بھی رہا کہ انہوں نے منظوم ڈرامے بھی تخلیق کیے، شیخ ایازکا کمال یہ بھی ہے کہ انھوں نے سندھی و اردو دونوں زبانوں میں شاعری کی اور دونوں زبانوں کے ساتھ انصاف کیا اور اپنے کلام میں کسی زبان کو دوسری زبان پر ترجیح نہیں دی۔ شیخ ایاز کی پوری زندگی ایک وژن کے تعاقب میں گذری وہ اپنے بین الاقوامی نظریات کے باوجود ایک مظلوم قومیت کے شاعر تھے۔

انہوں نے ایک طویل نظم کراچی کے گرداب لکھی جس میں انہوں نے صنعتی تہذیب اور اس کے مسائل کو بیان کیا ہے اور مشینی دور میں کچلے ہوئے انسان کی ذہنی اذیتوں کی تصویر کشی کی گئی ہے۔

شیخ ایاز نے دعائیں بھی لکھی جن میں انہوں نے اُن انسانوں کے لیے دعا مانگی جن کے چولھے پر کچھ پک رہا تھا اور بھو کے بچے اس کے گرداگرد بیٹھے ہوئے تھے اور اُن کے لیے جو خوابِ مدہوش میں اس عارضی زندگی سے لاتعلق ہو کر سو رہے تھے اور اُن انسانوں کے لیے جو جنگ و جدل میں غرق ہو کر خونِ رائیگاں میں مشغول رہتے ہیں اور ان کے لئے دعا مانگی جو حق و بصیرت کے طلبگار تھے۔

شیخ ایاز نے لکھا کہ :

مجھے طاقت دے کہ میں ہر درخت کو نیند سے بیدار کرکے کہوں کے اُٹھو اپنی شبنم سے وضو کرو، یہ وقتِ دعا ہے، اس وقت جو بھی دعا مانگی جائے گی اسے ساری کائنات سنے گی۔

شیخ ایاز کی ادبی خدمات کے اعتراف میں 23 مارچ 1994 کو آپ کو ملک کےسب سے بڑے ادبی ایوارڈ "ہلالِ امتیاز" اور 16 اکتوبر 1994 کو "فیض احمد فیض ایوارڈ" سے نوازا گیا۔ آپ دل کی تکلیف کے باعث 74 برس کی عمر میں  28 دسمبر 1997 کو کراچی میں انتقال کر گئے اور وصیت کے مطابق انہیں بھٹ شاہ میں سپرد خاک کیا گیا۔