• آن لائن اشتہاری ٹیرف
  • رابطہ کریں
  • ہمارے بارے میں
  • ہمارے لئے لکھیں
  • نیا دور انگریزی میں
پیر, اگست 15, 2022
نیا دور
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • عوام کی آواز
  • Click here for English
No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • عوام کی آواز
  • Click here for English
No Result
View All Result
نیا دور
No Result
View All Result

شاعری کی تند و تیز بارش میں شیخ ایاز کا بھیگتا اُڑتا قرطاس و قلم

راجا مسرور حسن by راجا مسرور حسن
جولائی 8, 2020
in ادب, تعلیم, شخصیت, فیچر, کتاب
29 0
0
شاعری کی تند و تیز بارش میں شیخ ایاز کا بھیگتا اُڑتا قرطاس و قلم
34
SHARES
161
VIEWS
Share on FacebookShare on TwitterShare on Whatsapp

شیخ ایاز کا حقیقی نام شیخ مبارک علی تھا، انھوں نے 2 مارچ 1923 کو سندھ کے قدیم شہر شکار پور میں جنم لیا۔ اُن کے والد کا نام شیخ غلام حسین تھا اور دادا شیخ عبدالحکیم شیخ کہلاتے تھے۔ اُن کا شمار شکار پور کے معززین میں ہوتا تھا اور اُنہی کے نام کی نسبت سے اُن کے محلے کو بھی شیخ مُحلہ کہا جاتا تھا۔ شیخ ایاز سندھی ادبی سنگت کے بانیوں میں سے تھے۔ وہ انجمنِ ترقی پسند مصنفین کے ساتھ بھی وابستہ رہے۔ تقسیم کے بعد اُن کا پاکستان رائٹرز گلڈ اور جی ایم سید کی قائم کردہ بزم صوفیائے سندھ سے بھی گہرا تعلق رہا۔ 1950 مین ایل ایل بی کا امتحان پاس کرنے کے بعد وکالت کا شعبہ اختیار کیا اور سکھر میں فوجداری مقدمات میں مہارت حاصل کی اور ایک بڑے وکیل بن کر اُبھرے۔

شیخ ایاز کے ادبی سفر میں برصغیر کی نامور شخصیات ساتھ رہیں جن میں سجاد ظہیر، منشی پریم چند، کیفی اعظمی، ساحر لدھیانوی، اور فیض احمد فیض شامل تھے۔

RelatedPosts

‘عجب آزاد مرد تھا’، رشید مصباح جنہیں ہم سے بچھڑے دو سال ہو چلے!

فرخ سہیل گوئندی کا سفرنامہ’ میں ہوں جہاں گرد’، اردو ادب میں ایک بہترین اضافہ

Load More

شیخ ایاز کی شاعری کے سندھی سے اردو میں منظوم تراجم بھی ہوئے جن میں ایک نمایاں نام فہمیدہ ریاض کا ہے جنہوں نے اُن کی سندھی شاعری سے ایک منظوم ترجمہ “حلقہ میری زنجیر کا“ کے عنوان سے کیا، جس کی اشاعت 1974 میں ہوئی۔ اُن کی شاعری کے مزید تراجم اردو، سرائیکی، پنجابی، فرانسیسی، جرمن اور انگریزی زبانوں میں بھی ہوئے۔ 1955 میں ون یونٹ کے خلاف عملی جدوجہد کی اور سندھ بھر میں اُن کا کلام ہر سیاسی اجتماع میں پڑھا گیا جو عوام کو امید اور حوصلہ دیتا رہا۔ اُن کی ایک سندھی نثری کتاب ( جے کاک ککوریا کا پڑی) پر ایوبی آمریت کے دور میں پابندی لگائی گئی، جو ایوبی آمریت کے اختتام کے بعد ہی اُٹھ پائی۔

شیخ ایاز نے 1976 تک وکالت کا سلسلہ جاری رکھا پھر 13 جنوری 1976 کو وزیر اعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو نے انہیں سندھ یونیورسٹی کا وائس چانسلر مقرر کیا۔ انہوں نے سندھ یونیورسٹی میں قائم انسٹی ٹیوٹ آف سندھیالوجی کی ترقی کے لیے بڑا کام کیا۔

شیخ ایاز اپنے عہد کی تاریخ کے سب سے نمایاں ادب شناس شاعر اور تخلیقی نثرنگار تھے۔ شیخ ایاز کو اپنی زندگی میں ہی سندھ میں بے پنہاں پذیرائی حاصل ہوئی۔ ہمارے یہاں ذرائع ابلاغ کے بیشتر ادارے جس غلط بیانی کے بل بوتے پر پنپتے رہے تھے وہاں آمریت کے اُس طویل دور میں شیخ ایاز نے اشارے اور کنائے یا تشبیہ اور استعارے کے بجائے بھگت سنگھ تختہ دار جیسا ڈرامہ لکھا۔ شیخ ایاز کی شاعری اپنی دھرتی اور عالمی ادبی جدوجہد کی عکاس رہی۔ ان کی شاعری فنکارانہ مہارت اور قومی دردمندی کی علامت بن کر اُبھری۔

سفید وحشی میں گلّاں صدیق کی روح میں رچ بس گئی تھی۔ جب صدیق کبھی کبھار گلّاں کو کشتی میں سیر کراتا تو وہ بادبان چڑھا کر کشتی کو ہوا کے رخ پر چھوڑ دیتا اور گلّاں کے سامنے بیٹھ کر گانے لگتا تو اُس کی سانسوں میں رچی مچھلیوں کے ٹوکریوں کی باس دھیرے دھیرے سوندھی سوندھی خوشبو میں بدل جاتی۔ پوری کائنات طلسماتی ہوجاتی اور آسمان میں ستاروں کی جگمگ، دور منوڑے کی بتیوں کی جھل مل سے مل کر عجیب سا سماں پیدا کرتی۔ لیکن صدیق کے دل کا خلا کبھی پر نہ ہوتا۔  گلّاں کا باپ سیپیاں بیچتا تھا جس سے چار پانچ آنے بمشکل کمائی ہوتی تھی۔ پھر ان چار پانچ آنوں سے پورے گھر کا گذر بسر کیسے ہوتا۔ اُس نے گلّاں کو اس پیشے کے لیے مجبور کیا ہوگا۔ صدیق گہری سوچ میں غرق ہوگیا تھا۔ صدیق نے گورے افسر کو گلّاں کے باپ سے تکرار کرتے دیکھ لیا تھا۔

فائیو روپیز، ناٹ مور، گورے نے غصے سے کہا۔

نہیں گورے صاحب پانچ نہیں دس، گلّاں کے باپ نے جواب دیا۔

صدیق کا دماغ گھوم گیا اور اُس نے گورے پر چاقو سے وار کردیا اور سفید وحشی مچھلی کی طرح تڑپنے لگا۔

اُس نے جیل میں پڑے بہت دیر تک وفا اور بے وفائی کی صلیب پر گلٌاں کے تصور کو ٹانگے رکھا۔

جب آخری بار وہ اُس سے ملنے آئی تھی تب اس نے ہتھکڑیوں کی ضرب سے گلٌاں کا سر پھوڑنا چاہا تھا لیکن گلٌاں کی نم آنکھوں نے غیرت کے جھوٹے جذبے کو مات دے دی تھی۔

شیخ ایاز نفاست، خلوص، ہمدردی، سچائی اور دکھ کی گہرائی سے خوب شناسائی رکھتے تھے۔ ویسے تو سندھی میں جدید افسانہ نویسی کا موجد جمال ابڑو کو مانا جاتا ہے لیکن شیخ ایاز کے سب افسانے اُتنے ہی معتبر ہیں جتنی کہ اُن کی پرگداز، منظم، مضطرب اور اپنی دھرتی کے دکھوں اور خوشیوں سے اُگنے والی شاعری۔ شیخ ایاز نے کئی اور افسانے لکھے جن میں شرابی، ہنس مکھ، چار ایکڑ زمین اور مشیر نامہ سرِفہرست ہیں۔ شیخ ایاز کی ایک سندھی نظم کا اردو ترجمہ حمایت علی شاعر نے کچھ اس طرح کیا۔

نظم

عقاب اپنے نشیمن کی طرف لوٹ رہا ہے

وہ کوہسار کھیرتھر کی چوٹیوں پر کئی باراُڑا تھا

کئی بار اُس کے پروں نے سنگلاخ چٹانوں پر سایہ کیا تھا

کئی بار اس نے تپتی ہوئی دھرتی کی فضائے آتشیں سے نفرت کی تھی

اور جلتے ہوئے سورج کو خشمگیں نگاہوں سے دیکھا تھا

کئی بار اس نے سانپوں پر جھپٹ کر انہیں اپنے پنجوں سے چیر ڈالا تھا

اس سارے وقت میں اسے یاد بھی نہ تھا کہ اس کا کوئی نشیمن بھی ہے

عقاب تھکتے تو نہیں ہیں۔ عقاب بوڑھے بھی نہیں ہوتے

ہاں! یہ اور بات ہے کہ سورج ڈوب رہا ہے

اور عقاب اپنے نشیمن کے طرف لوٹ رہا ہے

اُن پے شاعری موسلادھار بارش کی طرح برستی تھی اور اس بارش کی فراوانی سے جو اُجلے اُجلے پھول کھلتے تھے، ان سب میں اپنی دھرتی سے پیار اور تمام عالم کے لئے امن کا پیغام پنہاں ہوتا تھا۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ شیخ ایاز کوئی تخیلِ محض کی دیدہ وری اور دانشوری  کے قائل نہیں تھے اُن کے یہاں ناانصافیوں اور مظالم کے خلاف تند و تیز احتجاج بھی پایا جاتا ہے۔ شیخ ایاز کی شاعری نسلی نفرت اور تعصب سے پاک ہے وہ اپنا اظہار محبت، سادگی اور پُرکاری سے کرتے ہیں۔ اُن کی شاعری صوفیانہ اُٹھان کے ساتھ ساتھ سندھ کے لئے صدیوں تک گونجتا نعرہ بھی ہے۔

شیخ ایاز نے اپنے شعر کی ابتدا اردو سے کی۔ ان کے اردو کلام میں "حلقہ میری زنجیر کا”، "نیل کنٹھ اور نیم کے پتے” اور "بوئے گل نالہ دل” شامل ہیں۔ "بوئے گل نالہ دل” میں ان کی اردو نظمیں، کچھ غزلیں اوروہ نظمیں بھی شامل ہیں جوکہ ان کے اپنے سندھی کلام کا ترجمہ ہیں۔ یہ ترجمہ بھی انھوں نے خود ہی کیا تھا البتہ اس مجموعہ کلام کی ترتیب نامور ادیب آفاق صدیقی نے کی تھی جب کہ دوسرا مجموعہ کلام کف گل فروش کے نام سے شائع ہوا۔

ایاز کے دیگر تخلیقی کمالات میں سے ایک کمال سندھی شاعری کے عظیم کلاسیکی شاعر شاہ عبداللطیف بھٹائی کے کلام کو اردو میں ترجمہ کرنا تھا۔ کسی بھی شاعر کے کلام کو منظوم ترجمہ کرنا قدر مشکل کام ہے یہ شیخ ایاز کی شاعرانہ بصیرت تھی کہ وہ اس کام کو بھی بخوبی نبھا پائے۔ ان کا ارادہ شاہ لطیف کی حیات و افکار پر ناول لکھنے کا بھی تھا مگر یہ کام ان کی زندگی میں تکمیل نہ پا سکا۔

سُر مارئی کے کچھ بیت نقل ہیں:

دن وطن سے الگ جو گذرے ہیں

اُن پہ تہمت دھریں گے تھر والے

جیسی آئی تھی ویسی جاؤں گی

ورنہ نفرت کریں گے تھر والے

کس سے پوچھوں یہاں ہے کون اپنا

جانے اُن بے کسوں پہ کیا گذری

کل وہاں بجلیوں کی یورش تھی

رات بھر مارؤں پہ کیا گذری

ان کا سندھی زبان میں ایک اور بہترین کام یہ بھی رہا کہ انہوں نے منظوم ڈرامے بھی تخلیق کیے، شیخ ایازکا کمال یہ بھی ہے کہ انھوں نے سندھی و اردو دونوں زبانوں میں شاعری کی اور دونوں زبانوں کے ساتھ انصاف کیا اور اپنے کلام میں کسی زبان کو دوسری زبان پر ترجیح نہیں دی۔ شیخ ایاز کی پوری زندگی ایک وژن کے تعاقب میں گذری وہ اپنے بین الاقوامی نظریات کے باوجود ایک مظلوم قومیت کے شاعر تھے۔

انہوں نے ایک طویل نظم کراچی کے گرداب لکھی جس میں انہوں نے صنعتی تہذیب اور اس کے مسائل کو بیان کیا ہے اور مشینی دور میں کچلے ہوئے انسان کی ذہنی اذیتوں کی تصویر کشی کی گئی ہے۔

شیخ ایاز نے دعائیں بھی لکھی جن میں انہوں نے اُن انسانوں کے لیے دعا مانگی جن کے چولھے پر کچھ پک رہا تھا اور بھو کے بچے اس کے گرداگرد بیٹھے ہوئے تھے اور اُن کے لیے جو خوابِ مدہوش میں اس عارضی زندگی سے لاتعلق ہو کر سو رہے تھے اور اُن انسانوں کے لیے جو جنگ و جدل میں غرق ہو کر خونِ رائیگاں میں مشغول رہتے ہیں اور ان کے لئے دعا مانگی جو حق و بصیرت کے طلبگار تھے۔

شیخ ایاز نے لکھا کہ :

مجھے طاقت دے کہ میں ہر درخت کو نیند سے بیدار کرکے کہوں کے اُٹھو اپنی شبنم سے وضو کرو، یہ وقتِ دعا ہے، اس وقت جو بھی دعا مانگی جائے گی اسے ساری کائنات سنے گی۔

شیخ ایاز کی ادبی خدمات کے اعتراف میں 23 مارچ 1994 کو آپ کو ملک کےسب سے بڑے ادبی ایوارڈ "ہلالِ امتیاز” اور 16 اکتوبر 1994 کو "فیض احمد فیض ایوارڈ” سے نوازا گیا۔ آپ دل کی تکلیف کے باعث 74 برس کی عمر میں  28 دسمبر 1997 کو کراچی میں انتقال کر گئے اور وصیت کے مطابق انہیں بھٹ شاہ میں سپرد خاک کیا گیا۔

Tags: ادبادب کی دنیااردو ادبسندھی ادبشاعریشیخ ایاز
Previous Post

کراچی سٹاک ایکسچینج پر دہشت گردی کی بزدلانہ کارروائی اور ہماری ذمہ داری

Next Post

لاہور: صحافی علی سلمان علوی بیوی کو قتل کرنے کے الزام میں گرفتار

راجا مسرور حسن

راجا مسرور حسن

Related Posts

کیا ہمارا ملک جناح کا پاکستان بن سکتا ہے؟

کیا ہمارا ملک جناح کا پاکستان بن سکتا ہے؟

by امجد نذیر
اگست 13, 2022
0

محمد علی جناح نے مسافرت بھری نگاہوں سے فاطمہ جناح کو دیکھا اور کہا: "فاطی، نہیں! جیتے رہنے میں اب میری کوئی...

نیا سامراج اور حقیقی آزادی کا خواب

نیا سامراج اور حقیقی آزادی کا خواب

by کامران جیمز
اگست 13, 2022
0

دوسری عالمی جنگ کے بعد نو آبادیاتی نظام تیزی سے دنیا کے مختلف خطوں سے بظاہر ختم ہوتا چلا گیا لیکن اس...

Load More
Next Post
لاہور: صحافی علی سلمان علوی بیوی کو  قتل کرنے کے الزام میں گرفتار

لاہور: صحافی علی سلمان علوی بیوی کو قتل کرنے کے الزام میں گرفتار

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تلاش کریں

No Result
View All Result

ایڈیٹر کی پسند

سلمان اقبال اور کچھ اینکرز نے مراعات کی خاطر ARY ملازمین کی نوکریاں داؤ پر لگا دیں

سلمان اقبال اور کچھ اینکرز نے مراعات کی خاطر ARY ملازمین کی نوکریاں داؤ پر لگا دیں

by عمر اظہر بھٹی
اگست 13, 2022
0

...

"آپ آزاد ہیں”، نوجوان قائداعظم محمد علی جناحؒ کے پاکستان کو واپس لیں

"آپ آزاد ہیں”، نوجوان قائداعظم محمد علی جناحؒ کے پاکستان کو واپس لیں

by عرفان رضا
اگست 13, 2022
0

...

سوات پر عسکریت پسندوں کے سائے: کیا جنت نظیر وادی سوات ایک بار پھر کشیدگی کی جانب گامزن ہے؟

سوات پر عسکریت پسندوں کے سائے: کیا جنت نظیر وادی سوات ایک بار پھر کشیدگی کی جانب گامزن ہے؟

by عبداللہ مومند
اگست 13, 2022
0

...

Salman Iqbal

وہ 5 کیسز جن میں ARY کو برطانیہ میں پراپیگنڈا اور ہتک عزت کا مجرم ٹھہرایا گیا

by نیا دور
اگست 10, 2022
0

...

Asad Durrani

شہباز شریف کا ہاتھ عوام کی نبض پر نہیں تھا

by لیفٹینٹ جنرل (ر) اسد درانی
اگست 6, 2022
0

...

میگزین

شاعری سے ٹی ٹی پی کمانڈر تک کا سفر کرنے والے عمر خالد خراسانی کون تھے؟

شاعری سے ٹی ٹی پی کمانڈر تک کا سفر کرنے والے عمر خالد خراسانی کون تھے؟

by عبداللہ مومند
اگست 8, 2022
0

...

سابق صدر آصف علی زرداری کے خلاف مشہور جھوٹے پروپیگنڈے

سابق صدر آصف علی زرداری کے خلاف مشہور جھوٹے پروپیگنڈے

by حسن نقوی
اگست 8, 2022
0

...

آمر سے لڑتے ہوئے جان دینے والا "وارث میر”

آمر سے لڑتے ہوئے جان دینے والا "وارث میر”

by بشیر ریاض
جولائی 11, 2022
0

...

Abdul Sattar Tari

عبدالستار تاری – جس کے پائے کا طبلہ نواز آج دنیا میں موجود نہیں

by محمد شہزاد
جولائی 7, 2022
1

...

ہماری مدد کریں

ٹویٹس - NayaDaur Urdu

نیا دور کے صفِ اوّل کے مصنفین

پیٹر جیکب
پیٹر جیکب
View Posts →
حسن مجتبیٰ
حسن مجتبیٰ
View Posts →
عرفان صدیقی
عرفان صدیقی
View Posts →
نجم سیٹھی
نجم سیٹھی
View Posts →
نبیلہ فیروز
نبیلہ فیروز
View Posts →
توصیف احمد خان
توصیف احمد خان
View Posts →
رفعت اللہ اورکزئی
رفعت اللہ اورکزئی
View Posts →
فوزیہ یزدانی
فوزیہ یزدانی
View Posts →
مرتضیٰ سولنگی
مرتضیٰ سولنگی
View Posts →
اسد علی طور
اسد علی طور
View Posts →
ادریس بابر
ادریس بابر
View Posts →
رضا رومی
رضا رومی
View Posts →
علی وارثی
علی وارثی
View Posts →

Cover for Naya Daur Urdu
64,742
Naya Daur Urdu

Naya Daur Urdu

پاکستان کی ثقافت اور تاریخ کو دیکھنے کا ایک نیا زاویہ

Naya Daur Urdu was live.

8 hours ago

Naya Daur Urdu
Why is PTI so popular among overseas Pakistanis?Why American-Pakistanis more interested in politics back home?Why Pakistani representation in local American politics so low?Adil Najam on #AzaadLabonKaySaath with Faraz Darvesh, Misbah Azam ... See MoreSee Less

Video

View on Facebook
· Share

Share on Facebook Share on Twitter Share on Linked In Share by Email

Naya Daur Urdu was live.

9 hours ago

Naya Daur Urdu
In this special transmission scholars Ilhan Niaz, Yaqub Bangash, Maryam S Khan and Ishtiaq Ahmad join Raza Rumi and Murtaza Solangi to discuss the 75 years of history and the state that emerged in 1947 struggles to build a ‘nation’ and resolve issues of identity, governance, democracy and education. ... See MoreSee Less

Video

View on Facebook
· Share

Share on Facebook Share on Twitter Share on Linked In Share by Email

خبریں، تازہ خبریں

  • All
  • انٹرٹینمنٹ
  • سیاست
  • ثقافت
کم از کم اجرت 20 ہزار، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ: بجٹ 2021 پیش کر دیا گیا

اقتدار کے ایوانوں سے جلد کسی ‘بڑی چھٹی’ کا امکان ہے؟

اکتوبر 31, 2021
ہمیں نفرت اور مذہب کے بیوپاریوں کی نہیں، دھانی اور دھونی جیسے ہیروز کی ضرورت ہے

ہمیں نفرت اور مذہب کے بیوپاریوں کی نہیں، دھانی اور دھونی جیسے ہیروز کی ضرورت ہے

اکتوبر 27, 2021
بد ترین کارکردگی پر الیکشن نہیں جیتا جاسکتا، صرف ای وی ایم کے ذریعے جیتا جاسکتا ہے

ای وی ایم اور انتخابات: ‘خان صاحب سمندر پار پاکستانیوں کے ووٹ لینے کے لیئے بے تاب ہیں’

اکتوبر 24, 2021

Naya Daur © All Rights Reserved

No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • عوام کی آواز
  • Click here for English

Naya Daur © All Rights Reserved

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password?

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In