میرا اب دل نہیں کرتا

میرا اب دل نہیں کرتا
 

میرا اب دل نہیں کرتا
جینے کو مچلنے کو

یونہی بے پر کی اڑانے کو
دل کو لبھانے کو

کوئی قصہ سنانے کو
میرا اب دل نہیں کرتا

یاروں کا زمانہ وہ
دل کا ٹھکانہ وہ

جہاں کچھ غم نہیں ہوتا
جہاں دل نم نہیں ہوتا

مگر اب جاں بھی جاؤ تو
بھلے سب کچھ بھی لاؤ تو

اب کچھ بھی نہیں ملتا
میرا اب دل نہیں کرتا

وہ محبت کا فسانہ بھی
جہاں دل میں تھی خواہش بھی

شناسا ہو تو ایسا ہو
سنہری شام جیسا ہو

خیالوں کا سکوں بن کر
خوابوں کا جنوں بن کر

کچھ ایسے وہ ملے ہم سے
کہ دکھ بھول جائیں سب

کچھ ایسے وہ سنے ہم سے
کہ سکھ گنگنائیں سب

کچھ اپنی بھی سنائے وہ
کہ دل کھول کر سن لیں

محبت کے وہ سب قصے
گلے شکووں کے سب جھگڑے

مگر کچھ کھو گیا جیسے
نجانے کیا ہوا، کیسے

کہ اب کچھ دل نہیں کرتا
میرا اب دل نہیں کرتا

‏موصوف صحافی ہیں ، جمہوری اقدار اور گرم چائے پر یقین رکھتے ہیں۔