• آن لائن اشتہاری ٹیرف
  • رابطہ کریں
  • ہمارے بارے میں
  • ہمارے لئے لکھیں
  • نیا دور انگریزی میں
جمعہ, مارچ 24, 2023
نیا دور
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English
No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English
No Result
View All Result
نیا دور
No Result
View All Result

25 جولائی 2018 سے 25 جولائی 2020: الیکشن میں سلیکشن اور ‘ان ایکشن’ کی کہانی

نیا دور by نیا دور
جولائی 25, 2020
in جمہوریت, سیاست, فیچر
7 0
0
25 جولائی 2018 سے 25 جولائی 2020: الیکشن میں سلیکشن اور ‘ان ایکشن’ کی کہانی
39
VIEWS
Share on FacebookShare on TwitterShare on Whatsapp

2018 کے انتخابات کے نتیجے میں جو حکومت آئی، اس کے سربراہ کو اس کے مخالفین ’Selected‘ پکارتے ہیں، اور اس لفظ سے حکومت اتنا چڑ گئی کہ 23 جون 2019 کو ہونے والے پارلیمنٹ کے اجلاس کے دوران ایک موقع پر ہری پور سے پاکستان تحریکِ انصاف کے رہنما عمر ایوب خان اتنے بھڑک اٹھے کہ انہوں نے قومی اسمبلی میں وزیر اعظم کے لئے اس لفظ کے استعمال پر ہی پابندی لگانے کا مطالبہ کر ڈالا۔ اور ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری جو اس وقت اجلاس کی صدارت کر رہے تھے، بھی اپنے پارٹی قائد کے لئے اس لفظ کے بار بار استعمال کے باعث اتنے تنگ آ چکے تھے کہ انہوں نے اس مطالبے کو تسلیم کرتے ہوئے اعلان کیا کہ آج کے بعد اسمبلی میں اس لفظ کے استعمال پر پابندی ہو گی۔

یہ لفظ وزیر اعظم عمران خان کے لئے پہلی مرتبہ الیکشن 2018 کے بعد قومی اسمبلی کے پہلے اجلاس میں استعمال کیا گیا جہاں پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری نے عمران خان کو وزیر اعظم بننے کی مبارکباد دیتے ہوئے انہیں ’selected‘ کہہ کر پکارا تھا۔ لیکن ایسا کیوں کہا گیا؟

RelatedPosts

فاسٹ باؤلر کے نو بالز اور بیٹسمین کے ہاتھوں پٹائی، مزید فاؤل پلے کیا تو کھیل سے آؤٹ

وطن عزیز پاکستان میں پارلیمانی جمہوریت کا مستقبل

Load More

جولائی 2017 میں حکمران جماعت مسلم لیگ نواز کے سربراہ اور اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کو پانامہ لیکس کے سامنے آنے کے بعد چلنے والے کیس میں نااہل قرار دیا گیا تو مسلم لیگ نواز کی جانب سے یہ بیانیہ بنایا گیا کہ نواز شریف کو نکالنے کی وجہ ان کی مالی کرپشن نہیں بلکہ ان کا سول بالادستی کا نظریہ ہے۔

مسلم لیگ نواز نے ’ووٹ کو عزت دو‘ کا نعرہ اپنایا اور اس دوران بار بار یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ ان کا مقابلہ اپوزیشن سے نہیں بلکہ ملک کی طاقتور اسٹیبلشمنٹ سے ہے۔ نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے اس دوران لندن میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کا مقابلہ عمران خان سے نہیں بلکہ کسی اور سے ہے۔ اسی طرح خود نواز شریف نے 2 مئی 2018 کو صادق آباد میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمارا مقابلہ کسی آصف زرداری یا عمران خان سے نہیں، بلکہ ایک خلائی مخلوق سے ہے۔

غرضیکہ اس الیکشن سے قبل مسلم لیگ نواز کی جانب سے یہ بیانیہ بنا دیا گیا کہ اس کی مقبولیت کم کرنے کے لئے اسٹیبلشمنٹ نے نواز شریف کو اقتدار سے نکالا ہے اور اب عمران خان اس کے آلہ کار ہیں۔ اس میں کس حد تک حقیقت تھی، یہ تو خدا ہی بہتر جانتا ہے لیکن اس کے بعد جو بھی مسلم لیگی امیدوار پارٹی چھوڑ کر پاکستان تحریک انصاف میں شامل ہوتا، اسے نواز لیگ کی جانب سے اسٹیبلشمنٹ کی کارستانی بتایا جاتا۔ انتخابات کے دن پولنگ سٹیشنز پر پاک فوج کی بڑی تعداد میں موجودگی، میڈیا نمائندوں کو پولنگ سٹیشینز کے اندر جا کر حالات کا جائزہ لینے میں رکاوٹوں اور رات کے وقت نادرا کا RTS نظام بند ہونے کے باعث اس تاثر کو تقویت ملی کہ دال میں کچھ کالا ہے۔

اس سب کے نتیجے میں عمران خان کی جیت کو یوں کہا جائے کہ رنگ میں بھنگ ڈالنے میں اپوزیشن کو خوب مدد ملی تو بے جا نہ ہوگا۔ الیکشن کی رات کو ہی پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے ایک پریس کانفرنس کی گئی جس میں سندھ کے مختلف پولنگ سٹیشنز پر ان کے پولنگ ایجنٹس کو پولنگ سٹیشنز سے باہر بھیجے جانے، انہیں فارم 45 نہ دینے اور انتخابات کے نتائج روکنے اور تبدیل کرنے کی شکایات کی گئیں۔ اسی اثنا میں خبر آئی کہ پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری لیاری سے الیکشن ہار گئے ہیں۔ کچھ ہی دیر بعد Human Rights Commission of Pakistan کی طرف سے بھی پریس کانفرنس کی گئی جس میں انتخابات کی شفافیت پر سوالات اٹھائے گئے۔ مسلم لیگ نواز کی جانب سے بھی ایک پریس کانفرنس کی گئی جس میں انہی مسائل کو میڈیا کے سامنے رکھا گیا۔

تاہم، رات دیر گئے نتائج بالآخر دوبارہ سے آنا شروع ہو گئے۔ RTS سسٹم تو دوبارہ چالو نہ ہو سکا، لہٰذا پریزائڈنگ اور ریٹرننگ آفیسرز ہاتھ سے ہی کاغذوں پر نتائج لکھ کر دینے پر مجبور تھے۔ کئی گھنٹوں تک یہ تماشہ جاری رہا۔ اس دوران ایسی خبریں بھی آئیں کہ گراؤنڈ پر موجود رپورٹرز کے پاس الیکشن نتائج نہیں ہیں لیکن ان کے چینلز پر الیکشن نتائج نشر کیے جا رہے ہیں۔

بالآخر الیکشن کے نتائج مکمل ہوئے تو سامنے آیا کہ پاکستان تحریک انصاف 116 نشستوں کے ساتھ ملک کی سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری تھی جب کہ مسلم لیگ نواز دوسرے اور پاکستان پیپلز پارٹی تیسرے نمبر پر رہی۔ پنجاب میں مسلم لیگ اور پی ٹی آئی نے برابر نشستیں حاصل کیں لیکن وفاق میں حکومت چونکہ تحریک انصاف کی بننے جا رہی تھی، اس لئے غالب امکان یہی تھا کہ پنجاب میں بھی آزاد امیدوار پی ٹی آئی میں جانا پسند کریں گے۔ اور وہی ہوا۔

الیکشن نتائج مکمل ہوئے تو ملک بھر میں دھاندلی کا شور مچ گیا۔ سب سے زیادہ بلند آواز مولانا فضل الرحمٰن کی تھی جو ڈیرہ اسماعیل خان سے اپنی آبائی نشستیں بھی تحریک انصاف کے امیدواروں سے ہار گئے۔ جمعیت علمائے اسلام کا خیبر پختونخوا سے تقریباً صفایا ہو گیا لیکن بلوچستان میں پارٹی کچھ نشستوں پر کامیاب رہی۔ مسلم لیگ نواز کے صدر شہباز شریف نے الزام لگایا کہ ان انتخابات میں تاریخ کی بدترین دھاندلی کی گئی۔ متعدد حلقوں میں دوبارہ گنتی کی درخواستیں دی گئیں اور کئی جگہ احتجاج بھی ہوئے۔

ان انتخابات میں 30 قومی اسمبلی کے حلقے ایسے تھے جن میں جیتنے والے امیدوار اور دوسرے نمبر پر رہنے والے امیدوار کے ووٹوں کی تعداد میں فرق اس حلقے میں مسترد شدہ ووٹوں کے مقابلے میں کم تھا۔ حیرت انگیز طور پر ان 30 میں سے دو نشستیں وزیر اعظم عمران خان کی تھیں جو کہ ایک ہی الیکشن میں پانچ نشستوں سے جیت کر نیا ریکارڈ قائم کر چکے تھے۔ ان میں سے ایک سیٹ لاہور کی این اے 131 تھی جہاں انہوں نے مسلم لیگ نواز کے سینیئر رہنما خواجہ سعد رفیق کو 680 ووٹوں سے شکست دی جب کہ اس حلقے میں مسترد شدہ ووٹوں کی تعداد 2835 تھی۔ ان کا دوسرا حلقہ جہاں سے جیت کا مارجن مسترد شدہ ووٹوں سے کم تھا وہ خیبر پختونخوا میں بنوں کا حلقہ تھا جہاں متحدہ مجلس عمل کے اکرم خان پر ان کی برتری 7002 ووٹوں کی تھی جب کہ اس حلقے میں مسترد شدہ ووٹوں کی تعداد 7356 تھی۔

سندھ میں جی ڈی اے کی فہمیدہ مرزا نے پیپلز پارٹی کے مولا بخش چانڈیو کو 860 ووٹوں سے شکست دی تو یہاں دس ہزار سے زائد ووٹ مسترد ہوئے تھے۔ جی ڈی اے کا بھی تحریک انصاف کے ساتھ اتحاد تھا۔ جیکب آباد میں محمد میاں سومرو نے پیپلز پارٹی کے اعجاز خان جاکھرانی کو 5398 ووٹوں سے شکست دی تو یہاں مسترد شدوہ ووٹوں کی تعداد 13 ہزار 660 تھی۔ ایسی ہی صورتحال سندھ کی کم از کم تین اور پنجاب کی پانچ نشستوں پر دیکھنے میں آئی۔

کراچی سے پاکستان تحریک انصاف کے فیصل واؤڈا نے مسلم لیگ نواز کے صدر شہباز شریف کو این اے 249 سے شکست دی تو یہاں بھی جیت کا مارجن مسترد شدہ ووٹوں سے کہیں کم تھا۔ پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو زرداری لیاری سے شکست کھا گئے۔ ایسا نہیں تھا کہ تمام ایسی نشستوں پر تحریک انصاف ہی جیتی ہو۔ بلکہ تحریک انصاف کی ایسی نشستوں پر جیت کی شرح اس کی جیتی ہوئی کل نشستوں کے تقریباً برابر ہی تھی۔ لیکن اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے فاتح جماعت کے بارے میں یہی بیانیہ بنانے کی کوشش کی گئی کہ انتخابات میں دھاندلی ہوئی ہے اور اس کا فائدہ پی ٹی آئی کو پہنچا ہے۔

سونے پہ سہاگہ یہ ہوا کہ کچھ نشستوں پر چیف جسٹس آف پاکستان کی جانب سے دوبارہ گنتی کو رکوا دیا گیا۔ ان میں سے دو نشستیں تحریک انصاف اور مسلم لیگ نواز کے سربراہان کی تھیں۔ خواجہ سعد رفیق نے لاہور ہائی کورٹ میں دوبارہ گنتی کی درخواست دی جو کہ قبول بھی ہو گئی لیکن عمران خان نے سپریم کورٹ سے اس پر حکم امتناع کی درخواست کی جو کہ قبول کر لی گئی۔ دوسری جانب مسلم لیگ نواز کے صدر شہباز شریف نے فیصل واؤڈا سے شکست کو سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کیا اور دوبارہ گنتی کی درخواست دی۔ سندھ ہائی کورٹ نے اس نشست کا نتیجہ دینے سے روک دیا تو ایک بار پھر سپریم کورٹ میں درخواست دائر ہوئی اور سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے نتائج کے اعلان کی اجازت دے دی۔

مری سے شاہد خاقان عباسی اور لیاری سے بلاول بھٹو زرداری کی شکست نے بھی بہت سے سوالات کو جنم دیا۔ شاہد خاقان عباسی کے حلقے میں ووٹوں کی دوبارہ گنتی متعدد رپورٹس کے مطابق زبردستی رکوائی گئی۔ ایک موقع پر مسلم لیگ ن کے کارکنان کی جانب سے مری کچہری کا گھیراؤ بھی کر لیا گیا تھا جس کے بعد مری شہر میں خاصہ تناؤ کا ماحول رہا لیکن پھر یہ دوبارہ گنتی ہو ہی نہیں سکی اور شاہد خاقان عباسی نے اس پر مزید قانونی کارروائی کرنے سے انکار کر دیا۔ بعد ازاں وہ این اے 124 سے حمزہ شہباز کی چھوڑی ہوئی نشست سے منتخب ہو کر قومی اسمبلی میں پہنچے لیکن گذشتہ دو سال میں سات ماہ جیل میں بھی گزار چکے ہیں۔

متحدہ اپوزیشن نے انتخابات کے بعد اسلام آباد میں احتجاج کرنے کا اعلان کیا لیکن ان کی ریلی انتہائی مایوس کن رہی۔ اس کے بعد ایک اے پی سی بلائی گئی جس میں مولانا فضل الرحمٰن کی جانب سے شدید مخالفت کے باوجود دونوں بڑی جماعتوں نے قومی اسمبلی میں جانے اور حلف اٹھانے کا فیصلہ کیا۔ ان جماعتوں نے انتخابات کے خلاف ایک وائٹ پیپر جاری کرنے کا بھی اعلان کیا تھا لیکن دو سال گزر جانے کے باوجود ایسا کوئی وائٹ پیپر منظر عام پر نہیں آ سکا۔ اور بالآخر وزیر اعظم عمران خان کو ’Selected‘ کہنے پر ہی اکتفا کرتے ہوئے موجودہ اسمبلیوں کو قبول کر لیا گیا۔

Tags: الیکشن 2018تحریک انصاف کی حکومتسیاستنا اہلیوزیر اعظم عمران خان
Previous Post

پی آئی اے طیارہ حادثہ: میرے بیٹے کو خراب جہاز اڑانے کو دیا گیا تھا

Next Post

مولانا فضل الرحمٰن کے بھائی کی کراچی میں بطور ڈی سی تعیناتی کیسے ہوئی؟: ‘مولانا نے آصف زرداری سے سفارش کی؟’

نیا دور

نیا دور

Related Posts

انگریز سامراج کے خلاف آزادی کی جنگ لڑنے والا بھگت سنگھ ہمارا ہیرو کیوں نہیں بن سکا؟

انگریز سامراج کے خلاف آزادی کی جنگ لڑنے والا بھگت سنگھ ہمارا ہیرو کیوں نہیں بن سکا؟

by خضر حیات
مارچ 23, 2023
0

آج 23 مارچ کا دن ہے اور اسے ہم قرار داد پاکستان کے حوالے سے یاد کرتے ہیں۔ 1940 میں اسی روز...

گورنر جنرل غلام محمد جنہوں نے سیاست میں فوجی اور عدالتی مداخلت کی بنیاد رکھی

گورنر جنرل غلام محمد جنہوں نے سیاست میں فوجی اور عدالتی مداخلت کی بنیاد رکھی

by خضر حیات
مارچ 21, 2023
0

پاکستان کی تاریخ میں کئی ڈرامائی کردار آئے اور عجیب و غریب کرتب دکھا کر منظر عام سے ہٹتے چلے گئے۔ انہی...

Load More
Next Post
مولانا فضل الرحمٰن کے بھائی کی کراچی میں بطور ڈی سی تعیناتی کیسے ہوئی؟: ‘مولانا نے آصف زرداری سے سفارش کی؟’

مولانا فضل الرحمٰن کے بھائی کی کراچی میں بطور ڈی سی تعیناتی کیسے ہوئی؟: 'مولانا نے آصف زرداری سے سفارش کی؟'

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تلاش کریں

No Result
View All Result

ایڈیٹر کی پسند

ہائبرڈ دور میں صحافت پر حملے؛ ذمہ دار عمران خان یا جنرل باجوہ؟ (پارٹ 1)

ہائبرڈ دور میں صحافت پر حملے؛ ذمہ دار عمران خان یا جنرل باجوہ؟ (پارٹ 1)

by شاہد میتلا
مارچ 22, 2023
1

...

معاشی لحاظ سے پاکستان کس طرح خود انحصاری حاصل کر سکتا ہے؟

معاشی لحاظ سے پاکستان کس طرح خود انحصاری حاصل کر سکتا ہے؟

by ہارون خواجہ
مارچ 18, 2023
1

...

عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین جاری کھیل آخری مرحلے میں داخل ہو چکا؟

عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین جاری کھیل آخری مرحلے میں داخل ہو چکا؟

by رضا رومی
مارچ 20, 2023
0

...

توشہ خانہ فہرست شریف خاندان میں دراڑ نہیں، شاہد خاقان کی علیحدگی کا اعلان ہے

توشہ خانہ فہرست شریف خاندان میں دراڑ نہیں، شاہد خاقان کی علیحدگی کا اعلان ہے

by مزمل سہروردی
مارچ 15, 2023
0

...

جنرل فیض حمید

نواز شریف کو نکالنے کے ‘پروجیکٹ’ میں باجوہ اور فیض کے علاوہ بھی جرنیل شامل تھے، اسد طور نے نام بتا دیے

by نیا دور
مارچ 14, 2023
0

...

Newsletter

ہماری مدد کریں

ٹویٹس - NayaDaur Urdu

نیا دور کے صفِ اوّل کے مصنفین

پیٹر جیکب
پیٹر جیکب
View Posts →
حسن مجتبیٰ
حسن مجتبیٰ
View Posts →
عرفان صدیقی
عرفان صدیقی
View Posts →
نجم سیٹھی
نجم سیٹھی
View Posts →
نبیلہ فیروز
نبیلہ فیروز
View Posts →
محمد شہزاد
محمد شہزاد
View Posts →
توصیف احمد خان
توصیف احمد خان
View Posts →
رفعت اللہ اورکزئی
رفعت اللہ اورکزئی
View Posts →
فوزیہ یزدانی
فوزیہ یزدانی
View Posts →
حسنین جمیل
حسنین جمیل
View Posts →
مرتضیٰ سولنگی
مرتضیٰ سولنگی
View Posts →
اسد علی طور
اسد علی طور
View Posts →
ادریس بابر
ادریس بابر
View Posts →
رضا رومی
رضا رومی
View Posts →
علی وارثی
علی وارثی
View Posts →

This message is only visible to admins.
Problem displaying Facebook posts.
Click to show error
Error: Server configuration issue

خبریں، تازہ خبریں

  • All
  • انٹرٹینمنٹ
  • سیاست
  • ثقافت
کم از کم اجرت 20 ہزار، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ: بجٹ 2021 پیش کر دیا گیا

اقتدار کے ایوانوں سے جلد کسی ‘بڑی چھٹی’ کا امکان ہے؟

اکتوبر 31, 2021
ہمیں نفرت اور مذہب کے بیوپاریوں کی نہیں، دھانی اور دھونی جیسے ہیروز کی ضرورت ہے

ہمیں نفرت اور مذہب کے بیوپاریوں کی نہیں، دھانی اور دھونی جیسے ہیروز کی ضرورت ہے

اکتوبر 27, 2021
بد ترین کارکردگی پر الیکشن نہیں جیتا جاسکتا، صرف ای وی ایم کے ذریعے جیتا جاسکتا ہے

ای وی ایم اور انتخابات: ‘خان صاحب سمندر پار پاکستانیوں کے ووٹ لینے کے لیئے بے تاب ہیں’

اکتوبر 24, 2021

Naya Daur © All Rights Reserved

No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English

Naya Daur © All Rights Reserved

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password?

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In