جنت کی تلاش ... ایک معجزاتی ناول جو ہر گزرتے وقت کے ساتھ بڑا ہوتا جا رہا ہے

جنت کی تلاش ... ایک معجزاتی ناول جو ہر گزرتے وقت کے ساتھ بڑا ہوتا جا رہا ہے

مسافر گھر سے نکلا تو اس کی آنکھوں میں ایک ہی خواب کا پرتو تھا کہ وہ کسی نامعلوم سمت کی طرف جائے اور کسی اوجھل حُسن کے پیکر اور اس کے رنگ وبومیں خود کو فراموش کر دے۔ کسی منجمد پہاڑ سے کو ئی مجسمہ تراشے اور اسے لاکر سب کے سامنے رکھ دے۔ اس کی زنبیل میں لاحاصل تمناؤں کی کتھا تھی۔ جاوداں رنگ و آہنگ کی تصویریں تھیں اور لبوں پر کسی سرمست نغمے کی گنگناہٹ تھی۔ وہ نکل پڑا۔ اس نے اپنے وطن کی جنت ارضی پر قدم رکھا۔ پرندوں کی چہچہاہٹ۔ خوشبوؤں کے قافلے۔آبشاروں کی ترنم ریز سرگوشیاں۔ بنجر پہاڑو ں کا حُسن اور وادیوں کی ہریالی اس کے سامنے تھی۔ ندیاں، جھیلیں اور پھولوں کی فصلیں، رنگ ہی رنگ چہار سُو،خاموشی میں کو ئی نغمہ سنائی دیتا تھا....جنت کی تلاش کا سفر آغاز ہوچکا تھا۔


                           مجھے کئی بار میرے ایک قریبی دوست اور سینئر صحافی چوہدری ذوالفقار علی نے کہا کہ رحیم گُل کا ناول ”جنت کی تلاش“ ضرور پڑھو۔ چوہدری ذوافقار علی ایک مولائی آدمی ہے اس نے لاہور پریس کلب میں مٹی کے ڈھیر پر ایک گلستان آباد کیا ہے اور پھر اس چمن کے ایک کونے پر اپنے خیال کے مطابق ایک ”مچ گیلری“بنائی ہے۔ جہاں ہم نوا اور ہم خیال آتے ہیں نغمہ و موسیقی کی محفلیں جماتے ہیں،حرف و صوت کی باتیں کرتے ہیں۔میں نے سوچا وہ مجھے کوئی ’موت کا منظر‘اور ’مرنے کے بعد کیا ہوگا‘ٹائپ کتاب پڑھانا چاہتا ہے۔ کئی برس دبے پاؤں گزر گئے میں اس کی فرمائش پوری نہ کر سکا ایک دن جب کچھ کتب خریدنے کا ارادہ کیا تو طاق نسیا ں میں رکھا ہوا نام ”جنت کی تلاش“ یاد آگیا۔ سو سید انیس سے فرمائش کی اور وہ بازار سے میرے لیے یہ ناول خرید لایا۔ میں نے رحیم گُل کے اس ناول سے اپنی تنہائی کو آباد کیا ہے۔ بلاشبہ یہ ایک شاندار ناول ہے جو میری نظروں سے اوجھل رہا۔ میں نے ناول کے خالق رحیم گُل کے بارے میں کچھ جانا۔ یہ صاحب اسلوب ادیب 1924میں شکر درہ کوہاٹ میں پیدا ہوا۔ گرایجویشن کر نے کے بعد برٹش آرمی میں شامل ہو گیا اور دوسری جنگ عظیم کے دوران برما کے محاذ پر جنگ میں حصہ لیا۔ جنگ ختم ہو ئی تو رحیم گُل نے لاہور میں سکونت اختیار کی۔ لاہور ثقافتی سرگرمیوں کا مرکز تھا ۔یہاں انہوں نے مختلف جرائد کے لیے لکھنا شروع کیا.کہانیاں لکھیں ناول لکھے۔فلمی اسکرپٹ لکھے اور تقریباً آٹھ فلموں کی کہانیاں اور مکالمے لکھے کچھ فلمیں پروڈیوس اور ڈائریکٹ بھی کیں۔ ستر کی دہا ئی آغاز میں ان کا ناول ”جنت کی تلاش“ شائع ہو ا جو انہوں نے چھ سال میں مکمل کیا تھا۔ ان کا اس ناول کے حوالے سے کہنا تھا کہ ”میں نے جو کچھ اس زمین پر پایا وہی آپ کو لوٹا رہا ہو ں۔ انسان سے انسان کی نفرت کی مذمت کر تا ہو ں۔ ”جنت کی تلاش“ ایک بے چین روح کا سفر ہے۔ جس کے لیے میں نے ٹرین، ہوائی جہاز، گھوڑوں اور کبھی پیدل سفر کیا ہے۔ ہر منظر کو اپنی روح میں سمویا ہے۔ ایک چٹان سے ایک مجسمہ تراشا ہے۔ اور اسے ایک کہانی کی صورت بیان کر دیا ہے۔ ناول کا انتساب کچھ یو ں ہے


”انسانی عظمت کے نام...میں سولزے نیسٹن کو بیسویں صدی کا ضمیر کہتاہوں“


یہ کہانی مانسہرہ کے ڈاک بنگلے سے شروع ہوتی ہے.....عاطف ایرانی النسل لڑکا، جس کی ماں بچپن میں ہی فوت ہو جاتی ہے اور اس کے باپ نے  ایک پاکستانی لڑکی سے  شادی کر لی تھی،جس کے بطن سے اس کی بہن امتل پید ا ہو ئی۔ جسے وہ ایک لمحے کے لیے بھی اپنی آنکھوں سے اوجھل نہیں ہو نے دیتا تھا۔ اس کا باپ دونوں بہن بھائیوں کے لیے لاکھوں کی جائیداد چھوڑ کر مرا تھا۔ دونوں نے ایم اے کر رکھا تھا۔


کہانی کا تیسرا کردار وسیم ہے....جس کی کہانی عاطف سے ملتی جلتی ہے....اس کا باپ بھی لاکھوں کی جائیداد چھو ڑ کر مرا تھا۔وہ چار بہن بھائی ہیں۔ ایک بھائی نے کسی طوائف کے کو ٹھے پر پناہ لی اور خود کو شراب میں ڈبو لیا۔ باقی بھائی بھی اپنا حصہ لے کر اپنے اپنے دھندوں میں الجھ گئے۔ وسیم تعلیم یافتہ ہے اسے سیاحت کا شوق ہے اور وہ بھی اس سفر پر چل پڑتا ہے جس کے بارے میں وہ برسوں سے سوچ رہا ہے۔


عاطف کی بہن اُمتل شعوری سطح سے بہت زیادہ باشعور ہے۔ اس کی غیر معمولی ذہانت کے سامنے ذہین سے ذہین ترین شخص بھی خود کو بے بس پاتا ہے۔ وہ من موجی لڑکی ہے۔.....عاطف....وسیم اور اُمتل جنت کی تلاش کے تین بنیادی کردار ہیں۔ جن کا آپس میں تعارف مانسہرہ کے ڈاک بنگلے میں ہوتا ہے۔ اب اس ناول کے کرداروں کے خیالات اور ان کی گفت و شنید اور سوچ و فکر کے کچھ پہلو جو آشکار ہو تے ہیں کچھ اس طرح جیسے فطرت ان کے سامنے اپنے راز واشگاف کر تی ہے۔ وسیم امتل کے خدوخال کا جائزہ لیتا ہے۔اس کی آنکھیں آڈرے ہیپ برن، ملکہ فرخ دیبا اور شہزادی ثروت کے چہروں پر دیکھی ہیں۔


امتل کہتی ہے کہ ”میں روپیہ تو نہیں ہوں کہ آپ مجھے چھین لیں گے اور بازار میں اسے خرچ کر سکیں گے میں ایک ٹھوس وجود ہوں ایک ٹھوس تحریک ہوں۔میں اپنی مرضی سے تو سب دے سکتی ہوں مگر طاقت اور زبردستی سے آپ کچھ حاصل نہیں کر سکیں گے۔ وہ اٹھائیس برس کی ہے، وسیم کی عمر بھی اس کے برابر ہے۔ وہ کہتی ہے یہی فریب نظر ہے۔زندگی ہر پل دھوکہ دیتی ہے  پچھلے لمحوں کی یاد اور آنے والے لمحوں کا انتظار سب بے کار باتیں ہیں۔ جو لمحہ گزر رہا ہے وہی حیات ہے۔ زندگی....زبان کی لذت اور بوسے کی لذت کے سوا اس میں رکھا ہی کیا ہے اور پھر یہ دونوں لذتیں بھی عارضی ہیں۔ ایک عرصے بعد یہ اپنی اہمیت کھو دیتی ہیں۔ اس کے علاوہ اس دنیا میں کیا ہے، دھوکہ، فریب، جھوٹ، نفرت......انسان نہ کبھی انسان کے کام آیا نہ آئے گا۔ یہ چاند پر اترے گا کیونکہ زمین پر اس کے لیے اب کوئی کشش باقی نہیں ہے “


ایک اور مکالمہ اُمتل کی زبانی


بے چارہ انسان......انسانی تاریخ کا خام مال ہے۔ جس طرح انجن کو ایندھن کی ضرورت ہو تی ہے۔ فیکٹریوں اور کارخانوں کو خام مال کی۔ جب پروڈکشن ہوتی ہے اور مال تیار ہوکر باہر نکلتا ہے۔ اس طرح انسان بھی کاروبار حیات کے لیے خام مال کا کام دیتا ہے۔کبھی تاج شاہی کے لیے اس کے کشتوں کے پشتے لگ جاتے ہیں۔ کبھی جمہوریت کے لیے لاکھوں کی تعداد میں کٹ مرتا ہے اور کبھی بالشویزم کے مرتا اور زندہ درگور ہو جاتا ہے۔ ہر ازم ایک فیکٹری ہے جس کے لیے انسانی خون درکار ہوتا ہے۔ انسان تاریخ کے ہر دور میں خام مال کی طرح استعمال ہوا ہے۔“


”مذہب نے انسان میں تفرقہ ڈالا ہے۔ کارل مارکس نے اسے اور زیادہ پھیلا دیا۔اس نے روٹی کا انتظام تو کر دیا مگر روح کی آزادی چھین لی۔“


ساڑھے چار سو صفحات پر مشتمل یہ ناول جس بے ساختگی سے آغاز ہوتا ہے اسی بے ساختگی سے اس کا اختتام ہوجاتا ہے۔امتل کو ئی پراسرار کردار نہیں ہے وہ ایک ردعمل ہے مگر اپنے شعور کی بلند ترین سطح پر وہ انسان،سماج اور رشتوں کے تانوں بانوں میں الجھی ہوئی ایک ناگزیر حقیقت جو وہ سمجھنا اور سمجھانا چاہتی ہے۔


یہاں مجھے شمس الرحمٰن فاروقی کے ناول ”کئی چاند تھے سرِآسمان“کی وزیر بیگم کا کردار یاد آتا ہے جو بقول اپنے ’اپنی مرضی کی عورت‘ہے۔منٹو کے افسانوں کی عورتیں....موذیل،ممی،ستارہ دیوی،تمام کی تمام شعلہ جوالہ..زندگی سے نبرد آزما،راجندر سنگھ بیدی کے افسانوں کی عورت لاجونتی، اور دیگر البتہ جب ہم فن وادب کے علاوہ بھی کچھ تاریخ کے کچھ نمایاں نسوانی کردار دیکھتے ہیں تو داستان زیست کے کچھ انوکھے رنگ دکھائی دیتے ہیں....جہانگیر کی مہروملکہ نور جہاں اور ملکہ ترنم نورجہاں،میناکماری،مدھوبالا ہر کہانی ایک الگ افسانہ۔


ناول ”جنت کی تلاش“ پاکستان میں موجود اس جنت کی منظر کشی ہے جس سے دنیا تو آگاہ ہے مگر ہم بے خبر ہیں۔رحیم گل نے حرف و آگہی کے پیکر تراشے ہیں۔کچھ یو ں پیکر تراشے ہیں کہ آنکھوں میں شبنم سی اترتی محسوس ہو تی ہے۔فطرت کے رنگ دل میں اترتے ہیں تو وادیوں کی ہوائیں چہروں سے ہم کنار ہوتی ہیں۔ٹھنڈے پانیوں کی لطافت روح میں اترتی ہے۔برفیلے جھونکے بدن کو سنساتے ہیں۔یہ سب رحیم گل کے لفظوں سے مترشح ہے، مگر رحیم گل نظر انداز کیسے ہوئے۔انہیں کسی اعزاز سے محروم کیوں رکھا گیا وہ کیوں پس منظر میں رہے۔اردو ناول نگاری کے باب میں ناول ”جنت کی تلاش“ایک منفرد ناول ہے۔رحیم گل کا انتقال ساٹھ سال کی عمر میں ہوا، وہ کسی بھی ادبی دھڑے بندی کے قائل نہیں تھے،سکہ بند ادیبوں اور نقادوں نے ان کی طرف دیکھنے کی زخمت گوارا نہ کی اور وہ خاموشی کے ساتھ اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔


ناول ”جنت کی تلاش“ایک سفرنامہ بھی ایک حقیقت بھی اور پاکستان کی گل پوش وادیوں کی سیر ہے،اگر ہماری سیاحت کے ٹھیکے دار اس ناول کواٹھالیں اور اسے ہر سیاح کے ہاتھ میں تھمادیں تو شاید سیاحت کو کچھ فائد ہو،اس ناول کا انگریزی میں ترجمہ ہونا بہت ضروری ہے،اسے تصاویر سے مزین کیا جائے اور بہت اچھی اشاعت ہونی چاہیے،


کوئی بھی بڑا اور سچا فن کار کسی بھی اعزاز کا محتاج نہیں ہو تا لیکن ہم دیکھتے ہی کہ ہر برس کیسے کیسے للو پنجوں کو ریاست تمغہ حسن کارکردگی سے نوازتی ہے مگر بہت سارے حقیقی فن کار اور شخصیات ان سے محروم رہتی ہیں۔رحیم گل بھی ان میں سے ایک ہیں،سعادت حسن منٹو کو ان کی موت کے برسوں بعد ریاست نے تسلیم کیا اور انہیں پرائیڈ آف پرفارمنس دیا گیا۔


ناول ’جنت کی تلاش‘ایک شاندار تخلیق ہے،میں رحیم گل کو سلام پیش کر تا ہوں اور چوہدری ذوالفقار کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ جن کی ترغیب پر یہ ناول میں نے پڑھا اور دیگر تشنگانِ ادب کو پڑھایا ہے۔


 

طاہر اصغر مصنف و صحافی ہیں ان کی دلچسپی کے موضوعات پروفائل اور آپ بیتی لکھنا ہے۔ وہ جالب بیتی اور منٹو فن و شخصیت کی کہانی کے مصنف ہیں۔ زیر طبع ناول ’’قصہ غوغا غٹرغوں‘‘ ہے ۔موسیقی اور ادب سے گہرا شغف رکھتے ہیں۔