ایک تھا اکلویہ ، ایک ہے اکلویہ

ایک تھا اکلویہ ، ایک ہے اکلویہ

سنتے ہیں کہ مہا بھارت کے بہت بڑے بڑے کرداروں میں سے ایک عام سا اکلویہ بھی تھا ، ایک غریب سا ، بیچارہ سا ، عام انسان ، جس کو شوق ہوا تھا کھشتریوں کی طرح تیر بازی میں ماہر ہونے کا ، شوق کے لیے وہ پہنچا شاہی استاد دھروناچاریہ کے پاس ،جو کہ ارجن کا استاد تھا ، غریب نے درخواست کی ، کہ محترم مجھے بھی یہ فن سکھا دیجیے ، شاہی  استاد نے نخوت سے انکار کیا اوراپنے راہ ہو لیے


غریب کے دل سے ہنر سیکھنے کا ارمان نہ گیا تو  استاد کی ایک مورتی بنائی ، اس کے قدم چھوئے اور پھر لگا تیر اندازی سیکھنے ، کچھہی سالوں میں اس قدر بہترین تیرانداز ہو گیا کہ دور دور تک چرچا ہونے لگا


ایک غریب کی یہ عزت نہ تو شہزادہ ارجن سے برداشت ہوئی ( ان سے بہتر تیرانداز کوئی ہو بھی تو کیوں اور کیسے ) نہ ان کے استادمحترم سے ، یہ ڈر الگ سے تھا کہ اگر چیچڑے بھائی اس کو اپنی فوج میں شامل کر لیں تو پھر ارجن کو جو برتری اپنی تیر اندازی کی وجہسے حاصل ہے وہ بھی چھان جاۓ گی ، اس لیے دونوں استاد شاگرد جنگل میں جا پہنچے


اکلویہ سے پوچھا گیا تمہارا استاد کون ہے ، اکلویہ نے جواب دیا جناب آپ ہی ہیں ، تو جناب استاد اکڑ کر بولے تو گُرو دکشنا دو ( جب  استاد سے کچھ سیکھا جاتا تو جواب میں  استاد جو مانگتا وہ اسے دینا پڑتا تھا )  اکلویہ نے کہا ، مانگیں ، مجھے لمحے کی ہچکچاہٹ نہ ہو گیتو دھروناچاریہ نے  اکلویہ سے کہا کہ اپنے سیدھے ہاتھ کا انگوٹھا دے دو


اکلویہ نکلا ہر غریب کی طرح کا جذباتی ، انگوٹھا کاٹ کر پکڑا دیا اور روتا ہوا گمنامی کے اندھیروں میں ڈوب گیا


کبھی سوچتی ہوں ، اس نے ایک لمحے کو نہ سوچا کہ یہ ہنر اس کو کس مقام تک پہنچا سکتا تھا ، وہ تاریخ کے بھولے کردار کی بجائے تاریخ کا عنوان بھی تو ہو سکتا تھا مگر کیوں نا ہوا ۔


ایک ایسے  استاد کو خوش کرنے کو ، جو  استاد تھا ہی نہیں ، ایک ایسے پر اپنا ہنر وار دیا جس نے ہنر سکھانے سے صاف انکار کر دیاتھا ، کیا بےوقوفی تھی یہ ، کیسا جذباتی پن تھا یہ۔


پھر سوچتی ہوں اگر انکار کرتا تو کیا ہوتا ، کہیں خاموشی سے مارا جاتا ، بےنام لاش بن جاتا ، کہ شاہوں کو جو چاہیے ہو وہ تو وہ لیکررہتے ہیں


مہا بھارت تو کب کی ختم ہوچکی مگر جنگ کبھی ختم ہوتی ہے ، نہیں یہ تو زندگی کے ساتھ شروع ہوئی اور زندگی کے ساتھ ختم ہوگی ، کبھی کا اکلویہ کبھی کا ڈگلس ہوکا


شاید اس نے ٹھیک ہی فیصلہ کیا ہو گا کیونکہ اگر  اکلویہ اپنی مرضی سے اپنے ہنر سے دستبردار نہ ہوتا ، کیا اس کا ہنر بچ جاتا ، نہیں


بس پھر وہ انگوٹھا زور زبردستی سے کاٹ لیا جاتا یا پھر انکار کی پاداش میں وہ گردن ہی اتار دی جاتی ، اچھا کیا نا اس نے


کم از کم کہیں گمنامی میں دوبارہ زخمی ہاتھ سے مچھلیاں پکڑ اپنا اور گھر والوں کا پیٹ تو پالا ہو گا


اب شاہوں سے اکیلا کوئی کیسے ٹکرائے ، کیوں کوئی سولی چڑھ جائے؟


کون دیکھے گا کہ اس نے جو کیا بخوشیاستاد کے لیے کیا ، یا مجبوری میں ایک کھشتری کو خوش کیا


تاریخ نے جو جھوٹ کا حاشیہ چڑھا کر دیا ہم نے تو بس اسی کو سجدہ کیا


خود سوچیں آج بھی اگر کوئی اپنا سچ کا ہنر کمانے نکلے تو کیا ہوگا ، ایک نامعلوم معلم ہو گا ، ایک اغوا شدہ وکیل ہو گا ، بوری میں بند صحافی ہو گا ، وہ کاشانہ ہوم کی کائنات ہو گا ، جہاں اکلویہ مرضی سے انگلی نہ کاٹے گا وہاں جبر سے یہ سب ہو گا


تو بہتر ہے لب سیئں رکھیں ، انگوٹھے کاٹے رکھے ، رہی ہے بادشاہی ، رہے گی بادشاہی


تو اور میں ! ارے کو بھائی


اب عظمت سچائی میں نہیں عافیت خاموشی میں ہے پڑھاؤ کہ نیا دستور چلا ہے میرے وطن کی فضاؤں میں