حجام کی دوکان میں لائبریری: 'اب گاہک اپنی باری کے لیئے ضد کرتے ہیں نہ غصہ، وہ مطالعہ کرتے ہیں'

حجام کی دوکان میں لائبریری: 'اب گاہک اپنی باری کے لیئے ضد کرتے ہیں نہ غصہ، وہ مطالعہ کرتے ہیں'
سرور بلوچ ایک حجام ہیں جن کے دکان میں اکثر بہت رش لگا رہتا ہے جہاں لوگ بال اور داڑھی وغیرہ بنوانے آتے ہیں۔ اکثر لوگ یا تو انتظار میں بیٹھ کر خوامخواہ کی گفتگو شروع کرتے تھے یا دوبارہ آنے کا کہہ کر چلے جاتے تھے۔ لیکن اب ایسا نہیں ہے کیونکہ لوگ انتظار کے وقت کتابیں پڑھتے ہیں بلکہ بعض لوگ تو مطالعہ میں مگن ہوکر اپنی باری بھی دوسروں کو خوشی خوشی دیتے ہیں۔ سرور بلوچ کے مطابق اب ان کے کسٹمرز غصہ نہیں کرتے اور نہ ہی اپنی باری کے لیئے ضد کرتے ہیں۔

سرور بلوچ کی دکان پہلی ایسی دکان ہے جہاں لائبریری بھی قائم ہے۔ سرور بلوچ کہتے ہیں 'لوگ اب نا صرف بال بنانے یہاں آتے ہیں بلکہ مطالعہ کا لطف بھی اٹھاتے ہیں، لیکن جگہ کم ہے نہ زیادہ لوگ بیٹھ سکتے ہیں اور نہ ہی زیادہ کتابوں کی گنجائش ہے'


سرور بلوچ کے لیے یہ کتابیں جیوز گوادر نامی ادارے نے عطیہ کیئے ہیں۔ جیوز لائبریری کے ساتھ ساتھ ایک سماجی و ادبی ادارہ بھی ہے۔ جیوز کے بانی کے بی فراق کہتے ہیں کہ اس عمل کا مقصد کتب بینی کی کلچر کو فروغ دینا ہے۔ وہ کہتے ہیں 'ہم نے محسوس کیا ہے کہ انسان جس چیز سے زیادہ قریب ہوگا اسے اس قدر زیادہ چاہے گا۔ تو کتابوں کو ہر اس جگہ پر ہونی چاہیے جہاں عام لوگ بیٹھتے ہوں، انتظار کرتے ہوں اور جہاں اکثر جاتے ہوں'


معراج بلوچ پانچویں کا طالب علم ہے اور چھٹی کے بعد بال بنانے کے لیئے آیا ہے اور اس وقت ایک بلوچی رسالہ کا مطالعہ کررہا ہے۔ معراج کہتے ہیں ' میں اسکول سے چھٹی کرکے بال بنانے کے لیئے آیا تھا جب کتابوں کو دیکھا تو اپنی باری کی انتظار تک یہ رسالہ پڑھ رہا ہوں'


سرور بلوچ کے بقول اب ان کے کسٹمرز اپنی باری کے لیے ضد اور جلدی کرنے کو نہیں کہتے بلکہ اپنی باری آنے تک مطالعہ کرتے ہیں۔


کے بی فراق کہتے ہیں کہ اس عمل سے انھیں بہت حوصلہ افزائی ملی ہے۔ دوسرے شہروں پسنی، جیونی اور کراچی سے بھی دوستوں نے نا صرف اس عمل کو سرہا ہے بلکہ وہ بھی ایسے لائبریریوں کی قیام کے لیئے کوشش کررہے ہیں تاکہ کتاب پڑھنے کی کلچر معاشرے میں گھر کر جائے۔

لکھاری بلوچستان کے شہر گوادر سے تعلق رکھتے ہیں اور صحافت کے طالبعلم ہیں۔