نوجوان کی دہشتگردی کو شکست دینے کی داستان: ضلع مہمند کے ایک کچے مکان میں قائم مشال لائبریری

نوجوان کی دہشتگردی کو شکست دینے کی داستان: ضلع مہمند کے ایک کچے مکان میں قائم مشال لائبریری
 

مجھے اپنی سرزمین سے بہت پیار ہے مگر جب میں نے دیکھا کہ نہ صرف ہمارے تعلیمی ادارے تباہ اور بند ہورہے ہیں بلکہ اس کے ساتھ نوجوان عسکریت پسند تحریکوں میں شامل ہوکر زندگیاں داؤ پر لگارہے ہیں تو یہ حالات مجھے صدمے سے دوچار کرنے لگے۔  میں نے فیصلہ کیا کہ میں نوجوانوں کے ہاتھ میں کتاب دونگا اور تشدد اور دہشت گردی کو کتاب کی طاقت سے شکست دونگا۔  یہی وہ وجہ تھی کہ میں نے اپنے کچے گھر میں لائبریری شروع کی۔ آغاز میں تو اس لائبریری میں صرف سو کے لگ بھگ کتابیں تھی مگر اب کتابوں کی تعداد ایک  ہزار سے زیادہ ہے. یہ کہانی نجیب اللہ مومند کی ہے جن کا تعلق قبائلی ضلع مہمند کے دور افتادہ علاقے سے ہے اور وہ اسلام آباد میں پیس اینڈ کنفلیکٹ سٹڈیز کے ایم فل کے طالب علم ہیں۔ .

انھوں نے نیا دور میڈیا سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جب میں نے لائبریری کے حوالے سے لوگوں سے بات چیت کی تو کوئی بھی میری حوصلہ افزائی نہیں کرتا تھا اور ہر کوئی میرے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرتا. انھوں نے کہا کہ میں نے یہ سوچا کہ چلو اگر کوئی میری حوصلہ افزائی نہیں کرتا تو کیوں نہ میں سرکاری افسران سے مدد لو. سرکاری افسران کی مدد کے لئے میں ضلع مہمند کے اس وقت کے پولیٹیکل ایجنٹ اور دیگر افسران کے پاس گیا تو انھوں نے مجھے سنجیدہ نہیں لیا اور میرا مذاق ہی اڑایا. وہ کہتے ہیں میں نے ہمت نہیں ہاری اور کئی بار ان کے دفاتر گیا مگر وہ مجھے گھنٹوں گھنٹوں انتظار میں بٹھاتے اور کئی بار تو ایسے بھی ہوا کہ انھوں نے مجھے دفتر سے نکال دیا.

وہ کہتے ہیں اس کے بعد مجھے اندازہ ہوا کہ یہ میری کوئی مدد نہیں کرسکتے۔  جس کے بعد میں نے سوشل میڈیا کا استعمال کیا اور لوگوں سے مدد کی درخواست کی۔  جس کے بعد مجھے لوگوں نے بہت ہمت دی اور نہ صرف میری ہمت باندھی بلکہ اس کے ساتھ ساتھ کتابیں بھی فراہم کی جو میرے لئے ایک خوش آئند بات تھی. وہ کہتے ہیں دہشتگردی کے خلاف جنگ میں قبائلی علاقوں میں 800سے زائد تعلیمی ادارے تباہ ہوچکے تھے اور ضلع مہمند میں یہ تعداد ایک سو تیس کے لگ بھگ ہے جس کا مجھے بہت دکھ ہوتا تھا اور میرے اندر ایک عجیب سی بے چینی تھی کہ اب کچھ کرنا ہے۔ 

نجیب اللہ کہتے ہیں کہ ایک کچے گھر میں میں نے یہ لائبریری کھول دی اور میں نے اس کا نام مشال لائبریری رکھ دیا جس کا مطلب روشنی ہے اور علم کی روشنی کی ہمیں بہت ضرورت تھی. وہ کہتے ہیں کہ میں ہمت کبھی نہیں ہارتا اور میں اس لائبریری کو اور وسعت دونگا. نجیب اللہ نے ایک سوال کے جواب پر کہا کہ میری امی جو پڑھی لکھی نہیں ہیں مگر گھر میں اگر کوئی اور نہ ہو اور کسی مہمان کی آمد ہو تو امی ان کے لئے لائبریری کھولتی ہے اور پھر پانی اور چائے بھی فراہم کرتی ہے۔

بین الاقوامی میڈیا سے وابستہ نجیب اللہ مومند کے بھائی شاہ نواز ترکزئی نے نیا دور میڈیا کو فون پر بتایا کہ نجیب اللہ بچپن سے کتابوں سے عشق کرتا تھا اس لئے انھوں نے آگے بھی پڑھائی جاری رکھی اور آج کل ایم فل کے آخری دنوں میں ہیں اور جلد ایم فل کی ڈگری پوری کرلیگا. وہ کہتے ہیں کہ گھر میں میں سب سے بڑا ہوں اس لئے میں بھائیوں کی ہمت باندھتا ہو اور نجیب کو بھی میں نے سپورٹ کیا اور آخر کار وہ لائبریری بنانے میں کامیاب ہوا جہاں درجنوں کی تعداد میں لوگ آکر کتابیں پڑھتے ہیں

نجیب اللہ نے مزید کہا کہ ہمارے علاقے میں سماجی روئیے ایسے ہیں کہ نوجوان لڑکیاں اور لڑکے ایک ساتھ نہیں بیٹھ سکتے تو اب میں خواتین کے لئے الگ لائبریری بناؤنگا اور مشال کی روشنی کا سفر جاری رہے گا. وہ کہتے ہیں ہمارے ہاں کتاب خریدنے اور پڑھنے کا رجحان بہت کم ہے اس لئے میں نے ایک ڈیجیٹل لائبریری پر کام شروع کیا ہے اور جلد ہی یہ کوشش بھی عملی ہوجائے گی۔

 

عبداللہ مومند اسلام آباد میں رہائش پذیر ایک تحقیقاتی صحافی ہیں۔