ارطغرل سے احسان اللہ احسان تک، 2020 میں نیا دور پر سب سے زیادہ پڑھے جانے والے 7 مضامین

ارطغرل سے احسان اللہ احسان تک، 2020 میں نیا دور پر سب سے زیادہ پڑھے جانے والے 7 مضامین
سال 2020 میں کرونا جیسی عالمی وبا نے جہاں دنیا بھر کو اپنے گھیرے میں لیا وہیں اس کے بعد سے مابعد کرونا کی دنیا کے نئے خیالات بھی ابھرے۔ کورونا لاک ڈاؤن کے باعث جہاں بہت سے شہری گھروں میں مقید ہو کر رہ گئے وہیں بہت سے لوگوں کو پڑھنے اور اکیلے میں کچھ نیا کرنے کا موقع بھی ملا۔ ایسے میں نیا دور نے نئے دور کے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ذریعے اپنے قارئین کو اپنے ساتھ  جوڑے رکھا۔ نیا دور کے یو ٹیوب، ٹوئیٹر اور فیس بک لائیو سیشنز کو سامعین کی طرف سے خوب سراہا گیا۔ اسی دوران بہت سے قارئین نیا دور کے اس سفر میں شامل ہوئے۔ یقیناً 2020 نیا دور کے لئے کامیابیوں کا سال رہا اور اس میں نیا دور کی ٹیم اور قارئین کی محبتوں کا بے پناہ عمل دخل ہے۔

نیا دور نے ملک کے اہم سیاسی، سماجی، معاشی، معاشرتی اور مذہبی موضوعات کو نئے زاویوں سے پیش کرنے کی کوشش کی۔ وہ مسائل جو مرکزی دھارے کے میڈیا پر کسی وجہ سے موضوع بحث نہیں بنتے، نیا دور نے ان موضوعات کو کھل کر اپنے قارئین تک پہنچایا۔ اسی لئے سب سے زیادہ پڑھے جانے والے مضامین میں بھی موضواعات کا تنوع نظر آتا ہے۔ ذیل میں 2020 میں نیا دور اردو پر سب سے زیادہ پڑھے جانے والے مضامین میں سے چند شیئر کیے جا رہے ہیں۔

1) تاریخی شواہد کے مطابق ارتغرل بت پرست غیر مسلم تھے؟



ترک ڈرامہ سیریز اطغرل غازی کو پاکستان میں خوب سراہا گیا اور وزیر اعظم پاکستان عمران خان کی طرف سے ٹوئٹر پر جاری بیان میں کہا گیا کہ مسلم تاریخ کو سمجھنے کے لئے اس سیریز کو ضرور دیکھا جائے۔ اس بنا پر اس ڈرامے کا سال بھر بے پناہ چرچا رہا اور خاص کر لاک ڈاؤن کے دوران یہ ڈرامہ زبان زد عام رہا۔ تاہم، نیا دور نے اس ڈرامے اور اس کے مرکزی کراد پر ایک تحقیقاتی مضمون شائع کیا جس میں حقائق اور ریفرنسز کی روشنی میں یہ سوال اٹھایا گیا کہ آیا حقیقی ارطغرل غازی مسلمان بھی تھے یا نہیں۔ زیادہ تر مقالوں اور کتب کے مطابق ارطغرل مسلمان نہیں بلکہ ایک بت پرست غیر مسلم تھے۔

2) پیغمبروں کی تشبیہات سے ’ہمیشہ رہنے والا چاند‘ تک، کس صحافی نے کس سپہ سالار کو کن خطابات سے نوازا



نیا دور کا یہ پڑھا جانے والا مضمون بھی بھر پور تاریخی حقائق پر مشتمل ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ پاکستانی فوج کے سپہ سالاروں کو کن خطابات سے نوازا گیا اور ان کی مداح سرائی کن شخصیات نے کیسے کیسے الفاظ میں کی۔ اس مضمون کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس میں کالعدم جماعت الدعوۃ کے اہم رہنما امیر حمزہ نے جنرل راحیل شریف اور جنرل قمر جاوید باجوہ کے ناموں کی مذہبی تشریحات بیان کرتے ہوئے ان کی تعریفوں کے پل باندھ دیے اور مذہبی دلائل کے ساتھ ان کی مداح سرائی کی۔ ساتھ ہی ساتھ ماضی میں بھی جنرل ضیاالحق کی مدحت بیان کرتے ہوئے اس وقت کے اخباروں کی جانب غیر آئینی طور پر مسلط ہوئے حکمران کی طرز حکمرانی کی مذہبی تاویلیں پیش کی گئیں۔

3) لاہور پولیس چیف عمر شیخ نے زیادتی کا شکار ہونے والی خاتون کو ہی واقعہ کا ذمہ دار قرار دے دیا



ستمبر 2020 میں لاہور سیالکوٹ موٹروے پر ایک انتہائی افسوس ناک اور خوفنات واقعہ پیش آیا جب ایک عورت کو ڈاکوؤں نے اس کے بچوں کے سامنے  زیادتی کا نشانہ بنایا۔ اس وقت سی سی پی او لاہور عمر شیخ نے روزنامہ دنیا کو انٹرویو دیتے ہوئے وکٹم بلیمنگ کا مظاہرہ کیا اور اس عورت کے ساتھ ہوئے ظلم کا ذمہ دار بھی اسی کو قرار دے دیا۔ نیا دور نے ان کے اس غیر ذمہ دارانہ بیان کو سمجھتے ہوئے ان کے اس رویے کو بے نقاب کیا جس کی وجہ سے انہیں معذرت بھی کرنا پڑی۔ ساتھ ہی ساتھ عوام نے اس غیر ذمہ دارانہ بیان پر انہیں آڑے ہاتھوں لیا۔ تاہم، اس بیان پر معذرت کے باوجود وہ اپنے رویے کی وجہ سے ہمیشہ خبروں میں رہتے ہیں۔

4) جسٹس قاضی فائر عیسیٰ کی اہلیہ نے منی ٹریل دکھا دی، جسٹس عمر عطا بندیال کا جج ارشد ملک کیس کا حوالہ



نیا دور کے سال 2020 میں سب سے زیادہ پڑھے جانے والے مضامین میں صحافی اسد طور کا سپریم کورٹ میں جاری ایک اہم کیس کی سماعت پر مبنی مضمون بھی شامل ہے۔ یہ کیس اس لئے اہم ہے کیونکہ اس میں سپریم کورٹ کے سینیئر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ایک صدارتی ریفرنس پر سپریم جوڈیشل کونسل نے اپنے ساتھی جج کے کیس کی سماعت کی۔ اس کیس میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور ان کی اہلیہ کے خلاف آمدن سے زائد اثاثوں کا ریفرنس دائر کیا گیا۔ اس مضمون میں صحافی اسد طور نے اس اہم سماعت کا احوال قلمبند کیا جس میں قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ سرینا عیسیٰ نے عدالت کو تمام ثبوت فراہم کیے اور بالآخر عدالت نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس کالعدم قرار دے دیا۔

5) رحمان ملک نے مجھے ریپ کیا، یوسف رضا گیلانی اور مخدوم شہاب الدین نے تشدد کیا: سنتھیا رچی



نیا دور کی ایک اور خبر جس نے قارئین کو دنگ کر دیا وہ امریکی شہری سنتھیا رچی کے ان الزمات پر مبنی تھی جو انہوں نے سابق وزیر داخلہ رحمان ملک اور سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی سمیت پیپلز پارٹی کی شہید لیڈر بینظیر بھٹو پر لگائے۔ سنتھیا رچی نے ایک بیان میں الزام عائد کیا کہ رحمان ملک نے انہیں ریپ کیا اور یوسف رضا گیلانی اور مخدوم شہاب الدین نے ان پر تشدد کیا۔ ساتھ ہی ساتھ سنتھیا رچی نے بینظیر بھٹو پو بھی بیہودہ الزامات عائد کرتے ہوئے کہا کہ بینظیر بھٹو بھی خواتین کا ریپ کروایا کرتی تھیں۔ اس بیان کے بعد سنتھیا رچی اور پیپلز پارٹی کے درمیان جنگ چھڑ گئی جس کے بعد پارٹی کی جانب سے ان الزامات کو جھوٹا قرار دیتے ہوئے رد کر دیا گیا۔

6) سوشل میڈیا پر احسان اللہ احسان اور حکومتِ پاکستان کے درمیان مبینہ معاہدے کی تفصیلات سامنے آ گئیں



تحریک طالبان کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان کو پاکستانی سکیورٹی اداروں کی جانب سے گرفتار کیا گیا مگر وہ حکومتی تحویل سے نکلنے میں کامیاب ہو گیا۔ گذشتہ برس فروری میں ایک فیس بک پوسٹ کے ذریعے ایک مبینہ دستاویز منظر عام پر آئی جس کے تحت احسان اللہ احسان اور حکومت کے درمیان 6 شقوں پر مبنی ایک معاہدہ طے پایا تھا۔ حکومت یا سکیورٹی اداروں کی جانب سے اس معاہدے کی توثیق نہیں کی گئی۔ اس مبینہ بڑی خبر کو بھی نیا دور کے قارئین کی جانب سے بہت پڑھا گیا ور اس پر ایک بحث بھی شروع ہوگئی۔

7) آیت اللہ خامنہ ای کی ’اجتہادی غلطی‘ ایران کے لئے عذاب بن گئی۔ پاکستان کے لئے سبق کیا؟



رواں برس کرونا وائرس نے دنیا بھر میں تو تباہی پھیری ہی لیکن ایران ان ابتدائی ممالک میں سے تھا جہاں ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کی جانیں گئیں۔ ایرانی کابینہ کے بھی بہت سے ارکان کو کرونا کی وبا نے آ لیا۔ ابتدا میں جب یہ وائرس پاکستان پہنچا تو اس کا الزام بھی بہت سے لوگوں نے ایران پر ہی دھرنے کی کوشش کی تھی۔ اس حوالے سے ڈاکٹر حمزہ ابراہیم نے ایک مضمون کے ذریعے آیت اللہ خامنہ ای کی اجتہادی غلطی کا تنقیدی جائزہ لیا اور ایران میں خود ساختہ علما اور حکما کی سائنسی معاملات پر عجیب و غریب توجیہات کے ذریعے بلاوجہ مداخلت کو بے نقاب کیا جس نے ہزاروں لوگوں کی جانیں لیں۔ تاہم، اس مضمون پر ایک گروہ کی جانب سے طرح طرح کے اعتراضات اٹھائے گئے۔ مضمون میں دیے گئے کسی ایک بھی لفظ کو دلائل کی روشنی میں رد کرنے کی کوشش تک نہیں کی گئی، نہ ہی کسی فارسی کے بیان کے اردو ترجمے میں کسی قسم کی غلطی کی نشاندہی کی گئی۔ نیا دور کو عدالتی کارروائی کی دھمکیاں دی گئیں اور ادارتی ٹیم کو براہِ راست دھمکایا گیا، جس کے بعد اس مضمون کو نیا دور کی ویب سائٹ سے ہٹانا ہماری مجبوری بن گئی۔ تاہم، یہ مضمون اب بھی متعدد ویب سائٹس پر موجود ہے اور آج تک بھی اس میں سامنے لائے گئے حقائق کو چیلنج نہیں کیا جا سکا۔