فلسفہ محبت: 'معیشت پسند دنیا میں اب محبت کے مطلب یکسر بدل چکے'

فلسفہ محبت: 'معیشت پسند دنیا میں اب محبت کے مطلب یکسر بدل چکے'
عدالتوں  کے باہر لگے ترازو کا غیر متوازن پلڑا انسانی معاشرہ میں جاری عدل کے نظام کوبخوبی ظاہر کرتا ہے جس کے ایک پلڑے میں معاشرہ محبت کو رکھتا ہے اور دوسرے میں معیشت کو. گندم کھانے کا شوق آدم کوجنت سے خاکی زمین پر لانے کا سبب بنا،کمہار جس نے مٹی کے پتلے کو بنایا ہر طرح سے چھان پھٹک کر نین نقش  سنوارے پھر بھی کچھ کمی سی محسوس ہوتی رہی  تو بہت سوچ بچار کے بعد ننھی سی لَو روشن کر کے پتلے کے جسم کے کسی حصے میں چھپا دی اس لو میں قوس قزح کے رنگ بھر کر پتلے کو دنیا میں مقدر کی تلاش کو بھیج دیا۔

اپنی تکمیل کررہا ہوں میں
ورنہ تجھ سے تو مجھ کو پیار نہیں

فیض تکمیل ذات کی خاطر لَو بھڑکا کر شعلہ بناتے ہیں تو معیشت بھی دبے پاٶں کہیں سے آن ٹپکتی ہے،گندم جنت سے بے دخلی کا سبب بنی کسی چور کی طرح ہمیشہ سے انسان کا پیچھا کرتی چلی آرہی ہے.جب بھی انسان پیٹ بھر کر روٹی کھانے کے قابل ہواتو ارد گرد کے ماحول کو تسخیر کرنا چاہاجو دنیا کے آخری انسان تک جاری رہے گا،جنگل کی زندگی سے شروع ہونے والا فتوحات کا سلسلہ بیل گاڑی سے جہاز تک جا پہنچا،فضا سے زمین کو دیکھنا الگ نوعیت کاانسانی تجربہ تھا،اب ترازو کے ایک پلڑے میں جہاز اور دوسرے میں محبت،جوں جوں ایجادات کی دنیا وسیع ہوتی گئی ایک پلڑا بھاری ہوتا چلا گیا۔

روٹی کی بھوک ناقابل شکست ہے اسی سے دنیا کی تمام رونقیں وابستہ ہیں مگر جب پیٹ بھرتا ہے تو دوسری اشتہاٸیں جنم لیتی ہیں۔ مکان بنتے ہیں سجتے ہیں پھر ان خوبصورت مکانوں کو مزید دیدہ زیب بنانے کے لیۓرشتے بنتے ہیں نۓ بندھن باندھے جاتے ہیں ،ان رشتوں کو محبت کا نام دیا جاتا ہے در حقیقت ایسا نہیں ہے.ایک عورت ایک مرد اور نیا بندھن یہ ہے محبت کی معراج؟

کمہار جس نےاپنی  چاہت پتلا کو نفاست عطا کرنے میں ظاہر کی اس چاہت کو رد کر کے گندم کی چاہت میں زمین پر آنے والا آدم چاہت کی نت نٸ شکلوں کی تلاش میں سر گرداں ہے اور ہر چاہت کچھ عرصہ گزرنے ک بعد رفو گری چاہتی ہے،مہنگے تحاٸف اور عمدہ طرز زندگی ترقی یافتہ دور کی معراج تصور ہوتی ہے اگر سچ میں یہی حاصل زندگی ہے تو سب کچھ پا لینے والا آدم اطمينان  کیوں نہیں پاتا؟

جب عمدہ طرز رہاٸش اور خوبصورت ساتھ نصیب ہوتو خوشی خوشی وقت گزارنا بہتر عمل ہےکیونکہ ”جو میسر ہے وہی خاص ہے''۔

محبت یا عشق کچھ اور چیز ہوتے ہیں اس رسکی کھیل میں ہائی کلاس یا غریب ریس لگا سکتے ہیں کیونکہ دونوں کے پاس”کھونے اور پانے“ کو بہت کچھ ہوتا ہے جبکہ مڈل کلاس صبح سے شام تک اسی غم میں گھلتی رہتی ہے کہ”ہمساۓ کیا کہیں گے “ یا رشتہ دار کون سے نقص نکالیں گے“  آج کل محبت فیشن بن چکا ہے اور ہر کوئی اس چکی میں پسنا قابل فخر سمجھتا ہے اور کامیابی کی شکل میں کوڑہ گھروں میں ادھ نوچی ننھی لاشیں نوحہ کناں نظر آتی ہیں یا safe sex کا طریقہ اختیار کیا جاتا ہے .کیا یہ محبت کا حاصل ہے؟

کسی کو پانا یا کھو دینا محبت کی دنیا میں کون سا درجہ رکھتا ہے ، محبت عورت اور مرد اس مثلث کے سوالوں کے جواب تا قیامت ادھار چلتے رہیں گے مگر ایک بات طے ہے کہ یہ ہر کسی کے بس کا روگ نہیں کچھ خاص لوگوں کی زندگی کا خاص حصہ ہوتی ہے کچھ مخصوص فضا ہوتی ہےجس میں انجانی رو یا کشش  وقوع پذیر ہوتی ہےجو انسانی عقل سے ماورا ہے۔

اگر ایسا نہ ہوتا تو صدیوں میں ہیر رانجھا،سوہنی مہنیوال،لیلی مجنوں صرف دو چار ہی کیوں ہوتےاور ان کی کہانی سنانے والا وارث شاہ یا لطیف بھٹائی بھی سینکڑوں ہوتے مگر ایسا نہیں ہے کیونکہ دنیا معیشت کے بغیر ادھوری ہے جیب میں پیسہ ہے تو سب کچھ بکاو ہے،کمہار کی محبت کہیں کھو چکی ہےاس دوڑ میں شامل فریقین دوڑ کے اصول و ضوابط بالائے طاق رکھ چکے ہیں اور ادھوری خوشی اور پورے غم سے تشکیل پانے والی شخصیات خواب نگر کی زینت بن چکی ہیں.فریقین کی منتہائے زندگی ایک دوسرے کے ساتھ کے بجاۓ پر آساٸش زندگی ٹھہرا ہے مگر اضطراب ہنوز قاٸم ہے” جانے کس چیز کی کمی سی ہے“  والا حال ہر طرف موجود ہے ،اقبال شاٸد ایسے ہی کسی موقع کے لیۓ کہہ گئے ہیں۔

خدا تجھے کسی طوفان سے آشنا کردے
ترے بحر کی موجوں میں تلاطم نہیں ہے