اقبال کے مجسمے پر مرید اور قلندر کے درمیان دلچسپ مکالمہ: 'اس ملک میں پہلے کونسا کوئی کام متعلقہ افراد کر رہے ہیں؟'

اقبال کے مجسمے پر مرید اور قلندر کے درمیان دلچسپ مکالمہ: 'اس ملک میں پہلے کونسا کوئی کام متعلقہ افراد کر رہے ہیں؟'
قلندر اپنے لان میں مریدوں کے درمیاں بیٹھا چرس کے سوٹے لگا رہا تھا کہ اچانک اس کا منہ چڑھا مرید خاص چوہدری چول اٹھا اور بلند آواز میں چلانے لگا:  غضب ہو گیا حضرت

غضب ہو گیا!

اماں کو طلاق ہو گئی کیا؟ قلندر نے پوچھا

نہیں حجور وہ تو کب کی ہو چکی ۔ انہوں نے تو نیا خسم بھی کر لیا تھا اگلے ہی دن! چول بولا

ہیں! یہ کیسے؟ عدت پوری کئے بغیر؟ قلندر نے حیرانگی سے دریافت کیا۔

دراصل بے بے بہت ہوشیار تھی۔ نیا یار پہلے سے ہی انٹی میں رکھا ہوا تھا۔ ابے سے طلاق نامہ بیک ڈیٹ میں سائن کروا لیا تھا۔ چول بولا

حرام زادی چھپن چھری! قلندر زیر لب بڑبڑایا۔  پھر بلند آواز میں گویا ہوا:  ابے تو پھر کیا غضب ہوا!

حجور غلط مجسمہ بنا دیا غلط، چول بولا

ابے حرامزادے بات مکمل کیا کر۔ یہ پہلیاں نہ بجوایا  کر چھنال عورتوں کی طرح، قلندر اپنے مخصوص جلالی انداز میں بولا

حجور شاعر مشرق حضرت علامہ اقبال کا غلط مجسمہ بنا دیا۔ نہ صرف بنا دیا بلکہ چوک پر نصب بھی کر دیا۔ ایسا بھونڈا کہ علامہ تو کیا ان کی گرل فرینڈبھی نہ پہچان سکے کہ یہ کس یار کا مجسمہ ہے۔ چول نے اب کچھ تفصیل سے بیان داغا

اچھا بالے سیالکوٹی کا! قلندر پھر زیرلب بڑبڑایا۔ ایسا کرنا اسکی پرانی عادت تھی۔ ذرا دکھا تو!

چول نے فوراً اپنا سمارٹ فون نکالا اور قلندر کو مجسمے کے امیج دکھانے لگا۔

ابے کیا خرابی ہے اس میں۔ دور سے ہی پتہ چل رہا ہے کہ اپنا بالا سیالکوٹیا ہے ۔  قلندر بولا

حجور آپکی آنکھ تو قطرے میں دجلہ دیکھ لیوے ہے۔ چول خوشامدی انداز میں بولا۔

حرامزادے کتنی بار تجھے سمجھایا کہ چاپلوسی نہ کرا کر۔ قلندر نے ڈانتے ہوئے کہا۔  اس حرامزادے سوشل میڈیا کو بھی لمحہ بہ لمحہ نیا ٹنٹا کھولنے کی بیماری ہے۔

ابے سالوں میں تم سے چند سوال کرتا ہوں۔ جواب ایمانداری سے دینا۔ قلندر اب اپنے تمام مریدوں سے مخاطب تھا۔

ابے کیا  فتح علی کے  باگیشری  میں باگیشری نظر آتا ہے؟     کیا تاری کی درت میں کھڑا        نا  دھن دھن نا  محسوس ہوتا ہے؟  کیا  اقبال بانو سر سے نہیں اترتی تھی؟ کیا غلام علی درست تلفظ سے غزل گاتا تھا؟   کیا فیصل مسجد بناوٹ میں بدو کا خیمہ نہیں لگتی؟ کیا پروین شاکر یا کشور ناہید کی شاعری میں کوئی شاعری نظر آتی ہے؟    کیا اینکرمیں سوائے کتے کے موافق بھونکنے کے کچھ اور خوبی نظر آتی ہے؟  قلندر نے قلندرانہ انداز میں سوال کیا۔

نہیں ! نہیں! قلندر کے تمام مرید یک زبان بولے

تو پھر کاہے کا غضب ہو گیا جاہلوں؟  ابے جانتے نہیں کہ یہ مجسمہ کسی مستند مجسمہ ساز نے نہیں بلکہ چند مالیوں نے رضا کارانہ طور پر اپنے بالے کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے بنایا تھا۔ ایسے مالیوں کو تو تمغہ حسن کارکردگی سے نوازنا چاہیے۔ جس ملک کے مالی بھی مجسمہ ساز ہوں سوچوں کہ اس ملک کے مجسمہ ساز کیا ہونگے؟ قلندر فخر سے بولا۔

کافر ہونگے حجور، کافی! کیونکہ اسلام میں تصویر کشی اور مجسمہ سازی حرام ہے۔ جان ڈالنی پڑہتی ہے اللہ میاں کے آگے!  یہ قلندر کا ایک اور منہ چڑھا مرید اجی موٹا تھا۔

ابے طالبان کی اولاد  اب وہ دن گئے۔ وار آن ٹیرر ختم۔ اب تو طالبان سے بات چیت ہورہی ہے بلکہ میرے خاص مخبروں نے تو اطلاع دی ہے کہ ملا عمر ابھی زندہ ہے اور ان مالیوں سے رابطے میں ہے۔ بامیان کے بدھے جو طالبان نے توپوں کے دہانو ں سے اڑا دیے تھے اب ان کی مکمل بحالی کا کنٹریکٹ ان مالیوں کو مل چکا ہے۔ سنا ہے سرکا ر ان کے خلام محکمانہ کاروائی کرنے کو ہے کہ کیوں انہوں نے بلا اجازت اپنے بالے کو مجسمہ بنایا اور وہ بھی اتنا بھونڈا ۔ ویسے سرکا ر کو اس مجسمے کا علم اور اس کے بھونڈے ہونے کا ادراک بھی سوشل میڈیا کے توسط سے ہوا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ان مالیوں کے اففانستان چلے جانے سے مزید برین ڈرین ہو گا۔ قلندر خطیبانہ انداز میں بولا۔

 

لیکن حجور جس کا کام اسی کو ساجھے۔ مالی کا  کام تو بوٹے لگانا پانی دینا ہے۔ مجسمے بنانا تو نہیں۔ اجی موٹا بولا۔

ابے اس ملک میں کونسا کام صرف اسکے ماہر کے ہاتھوں پایہ تکمیل کو پہنچ رہا ہے۔ جب جنرل ملک چلا سکتے ہیں اور مداری ٹی وی چینلز تو مالی مجسمہ نہیں بنا سکتا؟ ابے میں بھی تو قلندر بنا بیٹھا ہوں تم ایسے جاہلوں کے بیچ۔ قلندر قدرے وضاحت سے بولا۔

واہ واہ حجور۔ آپ کو کسر نفسی سے کام لے رہے ہیں۔ آپ سچ مچ قلندر ہیں اور ایک سچا قلندر اور درویش ہی ہم اسے جاہلوں کے بیچ بیٹھ سکتا ہے۔ چول بولا۔

ابے حرامزادے کتنی بار تجھے سمجھایا ہے کہ میرے چاپلوسی نہ کیا کر!   چل بھنگ گھوٹ ۔ قلندر  نے کہا اور گود میں رکھا طبلہ بجانا شروع کر دیا۔ مرید پھر سے وا ہ واہ کا نعرہ بلند کرنے لگے۔

Contributor

محمد شہزاد اسلام آباد میں مقیم آزاد صحافی، محقق اور شاعر ہیں۔ انگریزی اور اردو دونوں زبانوں میں لکھتے ہیں۔ طبلہ اور کلاسیکی موسیقی سیکھتے ہیں۔ کھانا پکانے کا جنون رکھتے ہیں۔ ان سے اس ای میل Yamankalyan@gmail.com پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔