• آن لائن اشتہاری ٹیرف
  • رابطہ کریں
  • ہمارے بارے میں
  • ہمارے لئے لکھیں
  • نیا دور انگریزی میں
پیر, جنوری 30, 2023
نیا دور
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English
No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English
No Result
View All Result
نیا دور
No Result
View All Result

بیگم با اختیار: ’عورت کا جو تصور ڈپٹی نذیر چھوڑ گئے بیگم بااختیار اسکے برعکس ہیں‘

محمد شہزاد by محمد شہزاد
فروری 16, 2021
in افسانہ, خواتین, سماج, فیچر
7 0
0
بیگم با اختیار: ’عورت کا جو تصور ڈپٹی نذیر چھوڑ گئے بیگم بااختیار اسکے برعکس ہیں‘
40
VIEWS
Share on FacebookShare on TwitterShare on Whatsapp

عورت کا جو تصور ڈپٹی نذیر چھوڑ گئے بیگم بااختیار اسکے برعکس ہیں۔ شکر ہے آج وہ ہمارے بیچ نہیں ورنہ بیگم کا انداز زندگی انہیں خود سوزی پر مجبور کر دیتا۔

ڈپٹی صاحب نے اپنی تصانیف میں اس بات کا بڑھ چڑھ کر پرچار کیا کہ بیٹیوں کے والدین انہیں محض کھانا بنانے، جھاڑو، ٹاکی پونچا، سلائی کڑھائی بُنائی، کپڑے دھونے، ہر سال بچہ پیدا کرنے، شوہر کے گھر آنےپراسکے پیر دبانے، وظیفہ زوجیت کے لئے ہر گھڑی تیار رہنے، ساس سسر کی خدمت جی حضوری کرنے وغیرہ وغیرہ کے فن میں جنکے لئے اصطلاح “امورِ خانہ داری” گھڑی گئی یکتا کریں، ورنہ انہیں طلاق ہووے ہی ہووے۔

RelatedPosts

اتنا جھوٹ بولوں گا کہ اور خطرناک ہو جاؤں گا

‘آصف زرداری نے عمران کی گرفتاری رکوا رکھی تھی، اب یہ دروازہ بھی بند ہو گیا’

Load More

بیگم کے والد مرحوم (جنکا نام بھی اتفاق سے “نذیر” ہی تھا)نے ڈپٹی صاحب کی تمام تصانیف کا بغور مطالعہ کرنے کے بعد انہیں “ڈسٹ بن برد” کیا اور ان کی تعلیمات کے برعکس بیٹی کی پرورش کی۔ نتیجتاً بیگم نے جلد ہی ڈپٹی صاحب کو غلط ثابت کر دیا۔

بیگم کتنی بڑی افسر ہیں یہ انکے دفتر کے کمرے کا حجم دیکھ کر معلوم پڑے گا۔ پورے بیس کنال پر ہے۔ ہوئی نہ حیرانی! ایک نہیں ڈھیر سارے کمروں میں۔ یہ لیپ ٹاپ لیکر جس کمرے میں گھس جاویں وہی دفتر بن جاوے۔ اب آپ سوچیں کونسا دفتر بیس کنال پر ہووے۔ بھئی یہ انکا گھر ہے۔ زیادہ تر دفتری معاملات ادھر ہی نمٹائے جاتے ہیں۔ نگوڑا انٹر نیٹ جو آ گیا ہے!

دفتر بھی جاتی ہیں اگر اہم میٹنگ ہو۔ مگر دفتر کا کمرہ انکے پاوڈر روم سے بھی چھوٹا ہے۔ چونکہ افسر بڑی ہیں اور دکھنا بھی مصروف چاہیے۔ جگہ دائیں بائیں کھلی ہو تو فائلیں، کتابیں پھیلانے کا لطف بھی آتا ہے۔

گھر سے کام کرنے میں سہولت رہتی ہے۔ اور بذریعہ انٹرنیٹ محمود و ایاز کو گاجر یا چھڑی سے حسب لیاقت نوازا بھی جا سکتا ہے۔ محمود سے باس اور ایاز سے ماتحت مراد ہیں۔

بیگم سچ بات بلا خوف و خطر کہنے کی عادی ہیں مگر سفارتی انداز میں۔ مثلاً اگر وہ اپنی خواب گاہ میں جمورا صاحب (شوہر نامدار) کے ہمراہ ہیں اور سونا چاہتی ہیں۔ مگر جمورا صاحب کتاب پڑھ رہے ہیں اور سونے کے موڈ میں ہر گز نہیں ہیں تو یہ کچھ ایسے مخاطب ہونگی: “آپ تھک گئے ہونگے۔ رات بھی کافی بیت چکی ہے۔ اب سو جائیں!”

جمورا صاحب سدا کے سادے۔ خوش ہو جاتے ہیں بیگم کی دردمندی پر۔ مگر بلا کے غیر سفارتی اور غیر پارلیمانی انسان ہیں۔ جھٹ سے کہتے ہیں: “نہیں بیگم میں بالکل تھکا ہوا نہیں۔ سو فیصد تروتازہ ہوں!”

“ابے تجھے عزت راس نہیں آتی۔ میں تھکی ہوئی ہو۔ چل لائیٹ آف کر اور سو جا۔ اور اگر اتنا ہی شوق ہے پڑھنے کا تو گلی میں کھمبے پر سپیشل بلب لگا ہوا ہے۔ اسکے نیچے بیٹھ کر پڑھ!” بیگم کی سلیس زبان جمورا صاحب فی الفور سمجھ کر باہر نکل جاتے ہیں۔

گھر سے کام کرنے میں مگر ایک قباحت رہتی ہے۔ بچے کرونا وائرس کی بدولت اسکول والا ادھم بھی گھر ہی مچائے رکھنے پر مجبور ہیں۔ چونکہ یہ ہر لمحے کسی نہ کسی تخلیقی عمل (جسے انگریزی میں بیوروکریٹک بھی کہتے ہیں) سے گذر رہی ہوتی ہیں، بچوں کا شور بے ہنگم انکی یکسوئی  کا تیا پائنچہ کر دیتا ہے۔ مجبور ہو کر یہ علی الاصبح قریب دوپہر دو بجے دفتر کی راہ لیتی ہیں۔

جمورا صاحب اعلی پائے کے صحافی، ادیب و شاعر ہیں جنکے یو ٹیوب پر لاکھوں پرستار ہیں۔ بیگم کا ماننا ہے یہ پرستار ان ہی کی پیدوار ہیں۔گذشتہ پندرہ سال رات دن ایک کر کے جعلی اکاؤنٹ بنا بنا کر انہوں نے اپنی لمبی چوڑی فالونگ تخلیق کی ہے۔ سچ کیا ہے یہ تو اللہ ہی جانتا ہے۔ بہرحال یہ ملکی غیر ملکی سطح پر جانے پہچانے جاتے ہیں اور کچھ کمائی بھی کر ہی لیتے ہیں جس سے بیگم کی کم از کم ایک لپ اسٹک تو آ ہی جاتی ہے۔

جب بیگم شکر دوپہر (اپنے تئیں صبح کاذب) بچوں کے شور سے گھبرا کر دفتر جاتی ہیں تو جمورا صاحب بھنا کر کہتے ہیں: “یہ ای میل لکھنا پڑھنا کب سے تخلیقی کام ہو گیا۔ مجھے دیکھو۔ غزل، نظم، کہانی، افسانہ، ناول، تحقیقاتی مراسلے اور جانے کیا کیا چوبیس گھنٹے کے مسلسل شور شرابے میں رقم کر دیتا ہوں۔ پھر بھی وقت مل جائے تو طبلہ بھی بجا لیتا ہوں۔ اگر غالب یا شیکسپیر میری جگہ ہوتے تو قلم چھوڑ کر قلفی بیچ رہے ہوتے۔ اس پر بیگم کہتی ہیں قلفی ہی بیچتے تو کیا اچھا ہوتا۔ اس کام میں زیادہ پیسہ ہے اور مغز ماری صفر۔ مجھے دیکھو ایک ایک ای میل لکھ کر لاکھوں کماتی ہوں۔

بیگم دفتر اور یہ بچوں کی آیا بن جاتے ہیں۔ بیچ میں اگر سکوں کے چند پل میسر ہو جائیں تو لکھنا پڑھنا شروع کر دیتےہیں۔ اسی دوران ان کو رہ رہ کر  یہ خیال بھی ستاتا ہے کہ کیوں نہ ڈپٹی صاحب کی تخلیق کردہ عورت سے شادی کی۔ ورکنگ لیڈی وہ بھی ہائی پروفائل ایک وبال جاں سے کم نہیں۔ پر یہ ان کی لو میرج تھی۔ دراصل انہیں بیگم نے ہی پروپوز کیا تھا اور یہ ساری عمر اسی زعم میں رہے کہ دیکھو ایک معمولی رائٹر کی شان۔ اتنی بڑی وی آئی پی ورکنگ لیڈی خود انکے حلقہ زوجیت میں داخل ہوئی۔ سادے تھے سمجھ نہ سکے کہ بیگم کو ایک عدد فرمانبردار نوکر جسے تنخواہ بھی نہ دینا پڑے شوہر کی شکل میں درکار تھا۔

رات آٹھ یا نو کے درمیاں جمورا صاحب کسی تخلیقی عمل میں غرق ہونگے کہ ان کی سوچوں کا سلسلہ یکدم بیگم صاحبہ کی گاڑی کے چنگھاڑے ہوئے ہارن کے بھاگوں ٹوٹ جاوے گا۔ یہ بات بتانا بھول گیا کہ انہیں نوکر نہیں ملتا باوجود یہ کہ یہ تنخواہ بہت اچھی دیتے ہیں۔ اسی وجہ سے بیگم نے ان سے شادی رچائی کہ آنٹرے پری نیور تھے۔ نو سے پانچ نوکری کی ذلت سے پاک۔ کیوں نہ انہیں نئی قسم کی ذلت سے دوچار کیا جائے شوہر کے رول میں خانساماں، گیٹ کیپر، مالی، وغیرہ کا بھی کردار جمع کر کے۔

یہ بیگم کے سب ہی کچھ تھے سوائے ڈرائیورکے کیونکہ بیگم کو ڈرائیونگ سے عشق تھا۔ گاڑی کو کسی لڑاکا طیارے کی طرح بغیر لائسنس بنا کاغذات اسطرح اڑاتیں کہ جمورا صاحب کا دم ہی نکل جاوے۔ اگر یہ رفتار کم کرنے کی درخواست کرتے تو فرماتیں کاہے کو فکر کرتے ہو جی آپ تو بیمہ شدہ ہیں۔

ایک دفعہ بیگم نے لال بتی والا اشارہ توڑا۔ انسپیکٹر تھا۔ بیگم نے اسے گاڑی کی چابی تھمائی اور کہا کہ نہ تو انکے پاس لائسنس ہے اور نہ ہی گاڑی کے کاغذات۔ گاڑی آفیشل ہے۔ بند کر دیجئے۔ مجھے کریم کروا دیں۔ ان کہ دیدہ دلیری نے انسپیکڑ کے چھکے چھڑا دیے۔ چابی بیگم کو تھما یہ جا وہ جا!

اب یہ بھنا کر موٹی سی گالی دھرپدی انگ میں دل ہی دل میں اپنے آپ کو دیکرپیر پٹختے جاتے ہیں گیٹ کھولنے۔ ابھی لاونج تک ہی پہنچے ہونگے کہ بیگم کا فون آتا ہے اور ساتھ ہی ہارن دوبارہ چنگھاڑتا ہے۔ یہ دل ہی دل میں کہتے ہیں: ‘بہت ہی بے صبری عورت ہے!’

خیر گرتے پڑتے، مرتے کھپتے، ہانپتے کانپتے پسینے میں شرابور گیٹ تک پہنچتے ہیں۔ بیگم گاڑی سے اتر کر اندر داخل ہو جاتی ہیں۔ یہ ویلے کی طرح گاڑی اندر لے آتے ہیں۔ گاڑی میں سے سامان نکالتے ہیں اور ساتھ ہی چلانا شروع ہو جاتے ہیں۔ اب یہ ایسے بھی جمورے نہیں کہ بیگم کے سامنے چوبیس گھنٹے بھیگی بلی بنے رہیں۔ دماغ بھنوٹ ہو جاوے تو بیگم کی بھی طبیعت صاف کر دیتے۔ ویسے  بیگم کو ان کا یہ انداز بے حد پسند تھا مگر اندر ہی اندر۔ اوپر اوپر سے وہ اس انداز تکلم کی بھرپور مذمت کیا کرتی تھیں۔

“ارے آج پھر آپ دس بیس سیر نئی کتابیں لے آئیں۔ ہزاروں کی تعداد میں جو پہلے سے ہی گرد چاٹ رہی ہیں وہ تو پڑھ لیجئے۔” بیگم کے گھر میں قریب دو درجن کمرے ہیں۔ ایک درجن میں تو کتابوں نے ڈیرہ جمایا ہوا ہے۔ باقی کمرےجو رہائشی استعمال سے بچ گئے ان کے کپڑوں، جوتوں اور دیگر آرائش کے ساماں سے اٹا اٹ بھرے پڑے ہیں۔ بیگم کا لان کوئی پچیس کنال کا ہے۔ روز جمورے صاحب کو کہتی ہیں کہ آدھے پر کمرے ڈلوا دو۔ نت نئے برانڈ روز بروز متعارف ہو رہے ہیں۔ سیل لگ رہی ہے مگر گھر میں جگہ ہی نہیں رکھنے کی۔ جمورا صاحب بھی ہاں میں ہاں ملا کر سنی ان سنی کر دیتے۔

“اجی یہ کام کا لٹریچر ہے۔ وہ پھٹیچر نہیں جو آپ ٹنوں کے حساب سے روز لکھتے ہیں۔” بیگم تنک کر جواب دیتی ہیں۔

“کتابیں ضرور خریدیں مگر ردی اکھٹا کرنے کی غرض سے نہیں۔ پڑھتی تو آپ ہیں نہیں!”

“جب پڑھنے بیٹھتی ہوں تو آپ شکایت کرتے ہیں کہ ہر وقت کتابیں ہی پڑھتی رہتی ہوں۔ انسان بھی کسی حال میں خوش نہیں رہتا!”

چپ ہو جاتے ہیں یہ سوچ کر کہ جب آدم نہ سمجھا سکےحوا کو تو بندہ کیا بیچتا ہے!

“اچھا یہ ڈھیر سارے جوتے، ملبوسات، پرفیومز اور میک اپ کا سامان۔ یہ پھر لے آئیں آپ گاڑی بھر کے۔ اگر آپ دن میں دو بار بھی لباس تبدیل کریں تو رہتی زندگی تک یہ ہی نہیں ختم ہونیوالے جو آجکل چوہے کتر رہے ہیں۔”

“چوہے یوں کتر رہے ہیں کہ آپ مزید کمرے جو نہیں تعمیر کرواتے۔ جب اللہ نے دیا ہے تو کیوں نہ خرچ کروں؟ آپ جانتے نہیں کتنے گھروں کا چولہا جلتا ہے میری شاپنگ کی بدولت!”

“پر کریڈٹ کارڈ تو آپ اللہ میاں کا نہیں میرا استعمال کرتی ہیں! اس سے ہی سب کا چولہا جل رہا ہے” جمورا صاحب یاد دلاتے ہیں۔

“آپ کو بھی اللہ نے میرے طفیل ہی نوازا ہے۔ دولت عورت کی وجہ سے  ہی آتی ہے مرد کے پاس!” بیگم انہیں یاد دلاتی ہیں۔ خیر یہ چپ ہو جاتے ہیں۔

“کھانے میں کیا ہے؟” بیگم پوچھتی ہیں۔ “وہی ہے جو کل پکایا تھا۔” جمورا صاحب جواب دیتے ہیں۔ یہ بلا کے شیف ہیں۔ انتہائی ذائقے دار کھانا بناتے ہیں۔

“آپکو معلوم ہے میں روز روز ایک ہی کھانا نہیں کھا سکتی۔ مجھ سے دیوانہ وار محبت کا دعوی تو کرتے ہیں مگر تازہ کھانا نہیں بنا سکتے!”

بیگم کا شکوہ سن کر جمورا صاحب فون کر کے فوڈ پانڈہ سے تازہ کھانا جو دراصل باسی تواسی ہوتا ہے منگواتے ہیں جو بیگم شوق سے تناول فرماتی ہیں۔ پھر اسکے بعد ان سے کہتی ہیں کہ وہ بہت تھک گئی ہیں۔ آرام کرنا چاہتی ہیں۔ بچوں کو کھانا کھلا کر سلا دیجئے گا اور اگر صبح سکول جانا ہو تو اٹھ کر تیار کروا کے چھوڑ بھی آئیے گا۔ جمورا صاحب کہتے ہیں: “جی جناب!” اور ویسا ہی کرتے ہیں جیسا حکم صادر ہوا تھا۔ رات گئے ساڑھے تین بجے تک کام کرنے کے باوجود تمام امور خانہ داری احسن طریقے سے انجام دیتے ہیں بالکل ڈپٹی نذیر احمد کی اصغری کی طرح!

Previous Post

ملک میں مہنگائی کی شرح میں اضافہ: آٹے کے 20 کلو تھیلے کی قیمت میں 23 روپے سے زائد کا اضافہ

Next Post

سینیٹ الیکشنز: نیب کا خصوصی مانیٹرنگ سیل قائم، سینیٹ کے امیدواروں کا ‘ریکارڈ’ ‘چیک’ کرے گا

محمد شہزاد

محمد شہزاد

محمد شہزاد اسلام آباد میں مقیم آزاد صحافی، محقق اور شاعر ہیں۔ انگریزی اور اردو دونوں زبانوں میں لکھتے ہیں۔ طبلہ اور کلاسیکی موسیقی سیکھتے ہیں۔ کھانا پکانے کا جنون رکھتے ہیں۔ ان سے اس ای میل [email protected] پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

Related Posts

عمران خان پر تنقید کے بعد سوشل میڈیا ٹرولنگ نے قاسم علی شاہ کو رُلا دیا!

عمران خان پر تنقید کے بعد سوشل میڈیا ٹرولنگ نے قاسم علی شاہ کو رُلا دیا!

by خضر حیات
جنوری 26, 2023
0

قاسم علی شاہ 25 دسمبر 1980 کو گجرات میں پیدا ہوئے۔ تعلیم حاصل کرنے کے لئے لاہور آ گئے اور گلشن راوی...

کیپٹن صفدر کے ساتھ شادی سے نواز شریف کی سیاسی وارث تک؛ کیا مریم نواز بینظیر ثانی ہیں؟

کیپٹن صفدر کے ساتھ شادی سے نواز شریف کی سیاسی وارث تک؛ کیا مریم نواز بینظیر ثانی ہیں؟

by خضر حیات
جنوری 19, 2023
0

مریم نواز پاکستان کے سابق وزیر اعظم نواز شریف کی صاحبزادی ہیں۔ وہ 28 اکتوبر 1973 کو لاہور میں پیدا ہوئیں۔ انہوں...

Load More
Next Post
سینیٹ الیکشنز: نیب کا خصوصی مانیٹرنگ سیل قائم، سینیٹ کے امیدواروں کا ‘ریکارڈ’ ‘چیک’ کرے گا

سینیٹ الیکشنز: نیب کا خصوصی مانیٹرنگ سیل قائم، سینیٹ کے امیدواروں کا 'ریکارڈ' 'چیک' کرے گا

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تلاش کریں

No Result
View All Result

ایڈیٹر کی پسند

Aamir Ghauri Nawaz Sharif

نواز شریف چوتھی مرتبہ وزیر اعظم بن سکتے ہیں؟

by عامر غوری
جنوری 27, 2023
0

...

عمران خان اسٹیبلشمنٹ کی ٹھکرائی ہوئی محبوبہ ہیں

عمران خان اسٹیبلشمنٹ کی ٹھکرائی ہوئی محبوبہ ہیں

by عاصم علی
جنوری 18, 2023
0

...

جنرل یحییٰ خان اور جنرل قمر باجوہ ایک ہی سکے کے دو رخ ثابت ہوئے

جنرل یحییٰ خان اور جنرل قمر باجوہ ایک ہی سکے کے دو رخ ثابت ہوئے

by طارق بشیر
جنوری 18, 2023
0

...

ایک اقلیتی حقوق کے کمیشن کی تشکیل کیسے بارآور ثابت ہو سکتی ہے؟

ایک اقلیتی حقوق کے کمیشن کی تشکیل کیسے بارآور ثابت ہو سکتی ہے؟

by پیٹر جیکب
جنوری 14, 2023
0

...

Ahmad Baloch Kathak dance

بلوچستان کا ایک غریب چرواہا جو بکریاں چراتے چراتے آرٹسٹ بن گیا

by ظریف رند
جنوری 6, 2023
0

...

Newsletter

ہماری مدد کریں

ٹویٹس - NayaDaur Urdu

نیا دور کے صفِ اوّل کے مصنفین

پیٹر جیکب
پیٹر جیکب
View Posts →
حسن مجتبیٰ
حسن مجتبیٰ
View Posts →
عرفان صدیقی
عرفان صدیقی
View Posts →
نجم سیٹھی
نجم سیٹھی
View Posts →
نبیلہ فیروز
نبیلہ فیروز
View Posts →
محمد شہزاد
محمد شہزاد
View Posts →
توصیف احمد خان
توصیف احمد خان
View Posts →
رفعت اللہ اورکزئی
رفعت اللہ اورکزئی
View Posts →
فوزیہ یزدانی
فوزیہ یزدانی
View Posts →
حسنین جمیل
حسنین جمیل
View Posts →
مرتضیٰ سولنگی
مرتضیٰ سولنگی
View Posts →
اسد علی طور
اسد علی طور
View Posts →
ادریس بابر
ادریس بابر
View Posts →
رضا رومی
رضا رومی
View Posts →
علی وارثی
علی وارثی
View Posts →

Cover for Naya Daur Urdu
64,514
Naya Daur Urdu

Naya Daur Urdu

پاکستان کی ثقافت اور تاریخ کو دیکھنے کا ایک نیا زاویہ

This message is only visible to admins.
Problem displaying Facebook posts.
Click to show error
Error: Server configuration issue

خبریں، تازہ خبریں

  • All
  • انٹرٹینمنٹ
  • سیاست
  • ثقافت
کم از کم اجرت 20 ہزار، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ: بجٹ 2021 پیش کر دیا گیا

اقتدار کے ایوانوں سے جلد کسی ‘بڑی چھٹی’ کا امکان ہے؟

اکتوبر 31, 2021
ہمیں نفرت اور مذہب کے بیوپاریوں کی نہیں، دھانی اور دھونی جیسے ہیروز کی ضرورت ہے

ہمیں نفرت اور مذہب کے بیوپاریوں کی نہیں، دھانی اور دھونی جیسے ہیروز کی ضرورت ہے

اکتوبر 27, 2021
بد ترین کارکردگی پر الیکشن نہیں جیتا جاسکتا، صرف ای وی ایم کے ذریعے جیتا جاسکتا ہے

ای وی ایم اور انتخابات: ‘خان صاحب سمندر پار پاکستانیوں کے ووٹ لینے کے لیئے بے تاب ہیں’

اکتوبر 24, 2021

Naya Daur © All Rights Reserved

No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English

Naya Daur © All Rights Reserved

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password?

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In