ہیر کے بعد رانجھا بھی نہ رہا

ہیر کے بعد رانجھا بھی نہ رہا
خوبرو اور پر کشش اعجاز درانی نے سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ کبھی اداکار بنیں گے۔ دو پروڈیوسرز کے درمیان ہونے والے دن و رات مقابلے نے انہیں ایسا اداکار بنایا، جو جب جب سکرین پرجلوہ افروز ہوتے تو صنف نازک کے دل ان کے خوبرو اور پرکشش شخصیت کو دیکھ کر دھڑکنا بھول جاتے۔ جلال پور جٹاں میں آنکھ کھولنے والے اعجاز درانی نے بہترین تعلیم کے لیے 1956 میں لاہور کے دیال سنگھ کالج کا رخ کیا تو مقصد صرف یہ تھا کہ پڑھ لکھ کر سرکاری عہدہ سنبھالا جائے۔ فرصت ملتی تو کالج کے قریب ریسٹورنٹ میں شام کی چائے پینے اور یار دوستوں کے ساتھ گپ شپ لگانے پہنچ جاتے۔ یہ وہ ریسٹورنٹ تھا جہاں فلمی شخصیات کی بیٹھک بھی لگا کرتی۔ اُس روز بھی وہ دوستوں کے ساتھ سنگت جما رہے تھے کہ ہدایتکار منشی دل کے اسسٹنٹ سے ملاقات ہو گئی۔ جنہوں نے ان کی پروقار شخصیت کو دیکھ کر فلم میں کام کرنے کی پیش کش کی تو ابتدا میں اعجاز درانی تذبذب کا شکار تھے۔ پہلے تو کچھ سمجھ نہیں آیا لیکن دوستوں کے اصرار پر سوچا کہ یہ تجربہ بھی کر کے دیکھ لیتے ہیں۔ یوں اعجاز درانی کو پہلی بار فلم ’حمیدہ‘ میں معمولی سا کردار صبیحہ خانم کے بھائی کا ملا، جو زندگی کی بازی ہار جاتا ہے۔

اعجاز درانی کو یہ کردار محض حسن اتفاق سے ہی ملا تھا کیونکہ اُس زمانے میں ایک ہی موضوع پر دو پروڈیوسرز الگ الگ فلمیں بنا رہے تھے۔ دونوں میں زبردست مقابلہ تھا۔ کوشش یہ تھی کہ کسی طرح آندھی طوفان کی طرح فلم مکمل کر کے سنیما گھروں کی زینت بنائی جائے۔ ایک طرف ہدایتکار منشی دل کی ’حمیدہ‘ تھی تو دوسری جانب ہدایتکار لقمان کی ’لخت جگر‘۔ اب یہ ہدایتکار منشی لال ہی تھے جنہیں مرکزی کردار کے لیے تو اداکار مل گئے تھے لیکن چھوٹے موٹے کرداروں کے لئے وہ پریشان تھے۔ جو ملتا اسے فلم میں شامل کر لیا جاتا۔ کیونکہ ان کی توجہ کا مرکز ہیرو اور ہیروئن تھے۔ دوسرے ہدایتکار پر سبقت لے جانے کی اس جنگ نے ان کے اسسٹنٹ کو اُس ریسٹورنٹ تک پہنچایا جہاں اعجاز درانی یار دوستوں کے ساتھ محفلیں جمائے بیٹھے تھے۔ اب اسے ایک اور اتفاق ہی کہا جا سکتا ہے کہ دونوں فلموں کے ہیرو سنتوش کمار کے ہوتے ہوئے ’حمیدہ‘ نے ’لخت جگر‘ سے زیادہ کامیابی اپنے دامن میں سیمیٹی۔ مختصر سے کردار میں اعجاز درانی کی اداکاری کا معیار عروج پر رہا اورپیشہ ور اداکار نہ ہوتے ہوئے وہ پذیرائی حاصل کر گئے۔ خود کو بڑی سکرین پر دیکھنے کے بعد اعجاز کے اندر اور فنکاری کا شوق پروان چڑھا لیکن پھر ’مرزا صاحباں‘ میں مہمان اداکار بن کر پردہ سیمیں پر نظر آئے۔

اعجاز درانی کی اگلے دو تین سال تک جو فلمیں سنیما گھروں کی زینت بنیں، انہوں نے انہیں کوئی خاص کامیابی نہ دلائی۔ اس دوران وہ مینا شوری، شمیم آرا اور صبیحہ خانم تک کے ہیروز بنے لیکن نظر یہی آیا کہ کامیابی جیسے ان سے روٹھی ہوئی ہے۔ عین ممکن تھا کہ اعجاز تھک ہار کر فلم نگری چھوڑ جاتے لیکن 1959 میں مسرت نذیر کے ساتھ ان کی کامیاب فلم ’راز‘ نے جیسے ان کو شہرت اور مقبولیت کا وہ راستہ دکھایا جس کی راہ میں چلتے ہوئے وہ کامیاب اداکاروں کی صف میں آ کھڑے ہوئے۔ گمراہ اور سولہ آنے کے بعد اعجاز کی پہلی پنجابی زبان کی فلم ’سچے موتی‘ بھی پرستاروں کے لئے پیش کی گئی۔ اعجاز درانی اس دوران پاکستانی فلموں کے مستند اور کامیاب اداکار تصور کیے جانے لگے تھے، جو ملکہ ترنم کی اداؤں پر ایسے فدا ہوئے کہ ان سے بیاہ رچا لیا، تین صاحبزادیوں کے والد بنے لیکن لگ بھگ بارہ سال بعد یہ شادی طلاق پر ختم ہوئی۔

اعجاز درانی کی پہلی ڈائمنڈ جوبلی فلم ’زرقا‘ رہی۔ ریا ض شاہد کی اس تخلیق میں اعجاز درانی کی اداکاری نے ہر کسی کو متاثر کیا۔ فلم کے گیت اور کہانی تو آج بھی کلاسیک ہونے کا درجہ رکھتے ہیں۔ اعجاز کی ایک اور تخلیق ’انوارا‘ نے پلاٹنیم جوبلی کا ریکارڈ بنایا، لیکن جو شہرت اور کامیابی انہیں 1970 میں ریلیز ہونے والی مشہور لوک رومانی داستان پر مبنی کلاسک فلم ’ ہیر رانجھا‘ سے ملی وہ انہیں اور ممتاز بنا گئی۔ فردوس بیگم ہیر کے روپ میں تھیں تو اعجاز رانجھا کے، رومانی مکالمات اور گیتوں نے تو اعجاز اور فردوس بیگم کو اور قریب کر دیا۔

فردوس بیگم کے ساتھ ان کی جوڑی کو اس قدر پسند کیا گیا کہ بیشتر فلم ساز دونوں کو لے کر فلمیں بناتے۔ جبھی دونوں نے 37 فلموں میں پیار و محبت کی داستان دہرائی جو ان کی حقیقی زندگی میں بھی پیش آئی لیکن یہ شادی بھی علیحدگی پر ختم ہوئی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اعجاز نے 1967 میں بھی سپر ہٹ ’مرزا جٹ‘ میں فردوس کے ساتھ روایتی محبت بھری لوک کہانی میں کام کیا تھا۔ 1971 میں اعجاز درانی کی پروڈکشن کے تحت بننے والی ’دوستی‘ نے بھی سنیما گھروں میں تہلکہ مچا دیا۔ شبنم اور اعجاز پر فلمایا گیت ’آ رے آ رے دل کے سہارے‘ ہی نہیں ’چٹھی ذرا سیاں جی کے نام لکھ دے‘ زبان زد عام ہوئے۔ ’دوستی‘ نے ڈائمنڈ جوبلی مکمل کر کے اعجاز کی قدر و منزلت میں اضافہ کر دیا لیکن اور پھر ایک وقت ایسا بھی آیا جب اعجاز کی فلمیں ناکام ہونے لگیں۔ یہ وہ دور تھا جب پاکستانی فلموں پر گنڈاسہ کلچر حاوی ہونے لگا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ دھیرے دھیرے وہ فلمی دنیا سے کنارہ کشی اختیار کرتے چلے گئے۔ گذشتہ برس ان کی ’ہیر‘ دنیا سے منہ موڑ گئیں اور آج اُن کا رانجھا بھی۔