• آن لائن اشتہاری ٹیرف
  • رابطہ کریں
  • ہمارے بارے میں
  • ہمارے لئے لکھیں
  • نیا دور انگریزی میں
اتوار, جنوری 29, 2023
نیا دور
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English
No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English
No Result
View All Result
نیا دور
No Result
View All Result

عاصمہ جہانگیر کی یادیں، قسط 6: پاکستان میں آخری آمریت کے خلاف پہلی اینٹ

فاروق طارق by فاروق طارق
نومبر 16, 2019
in جمہوریت, زیادہ مقبول, فیچر
8 0
1
عاصمہ جہانگیر  کی یادیں، قسط 6: پاکستان میں آخری آمریت کے خلاف پہلی اینٹ
43
VIEWS
Share on FacebookShare on TwitterShare on Whatsapp

عاصمہ  جہانگیر کسی بھی ایشو پر پہل لینے، اس کی حکمت عملی تیار کرنے اور اسے عملی شکل دینے میں کمال حیثیت رکھتی تھیں۔

یہ جون 2000 کی بات ہے، میں عاصمہ جہانگیر سے ملنے ان کے آفس گیا۔ مشرف آمریت کو ٹیک اوور کیے ابھی ایک سال بھی نہ گزرا تھا۔ ہم جائنٹ ایکشن کمیٹی فار پیپلز رائیٹس میں اکٹھے تھے۔ یہ سماجی تنظیموں و تحریکوں، سیاسی جماعتوں اور ٹریڈ یونینوں کا ایک مشترکہ پلیٹ فارم تھا۔ عاصمہ جہانگیر اس پلیٹ فارم کی روح رواں تھیں۔

RelatedPosts

جنرل باجوہ کی توسیع؟ کابینہ کمیٹی کی آرمی ایکٹ میں ترمیم، ‘دوبارہ تقرر’ کی جگہ ‘برقرار’ لکھنے کی تجویز

حکومت پاک فوج اور افسر کے خلاف ہتک عزت پر قانونی کارروائی کرے: آئی ایس پی آر

Load More

فوجی آمریت کی کسی صورت بھی حمایت نہ کریں گے

مشرف آمریت کے اقتدار سنبھالنے کے وقت اس کمیٹی کے اجلاسوں میں گرما گرم بحثوں کے بعد یہ طے پا گیا تھا کہ ہم فوجی آمریت کی کسی صورت بھی حمایت نہ کریں گے اور اس کے خاتمہ کی جدوجہد میں پیش پیش ہوں گے۔


یہ بھی پرھیے: عاصمہ جہانگیر کی یادیں، قسط 4: مہر عبدالستار سے ملاقات


یہ وہ وقت تھا جب بڑی سیاسی جماعتوں میں بھی اس آمریت بارے کنفوژن پائی جاتی تھی، مسلم لیگ نواز کا ایک دھڑا ٹوٹ گیا تھا اور وہ چودھری شجاعت کی قیادت میں  مشرف آمریت سے ملنے کے لئے ہر وقت ہاتھ پاؤں مار رہا تھا۔

‘ان سب کو اکٹھا کرتے ہیں۔ کن کو؟ ان سب کو’

عاصمہ جہانگیر کے آفس جاتے ہی ملاقات  میں ان سے کہا کہ 12 اکتوبر 2000 کو آمریت کے اقتدار سنبھالنے کا ایک سال پورا ہو گا۔ ہمیں اس روز کچھ کرنا چاہیے۔ یہ آئیڈیا ان کے ذہن میں کلک کر گیا۔ “بالکل بالکل، کچھ کرتے ہیں”؛ سوچ بچار ہونے لگی؛ اس روز سیمینار کا بھی سوچا گیا۔ پھر کہنے لگیں، ان سب کو اکٹھا کرتے ہیں۔ کن کو؟ میں نے پوچھا ان سب کو؛ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ نواز، جمہوری پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی اور باقیوں کو بھی؛ طے ہوا کہ 12 اکتوبر 2000 کو آمریت کے ایک سال پر لاہور پریس کلب میں ایک سیمینار کرتے ہیں اور سب کو آمریت مخالفت میں جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔

آئیڈیا برا نہ تھا۔ سوچا اس پر دوبارہ ملتے ہیں اور ایک اور اجلاس کرتے ہیں۔ اسی ہفتے انہوں نے مجھے دوبارہ بلایا تو عابد ساقی ایڈووکیٹ بھی موجود تھے۔ بس یہ کمیٹی ہے، کمیٹی فار ریسٹوریشن آف ڈیموکریسی ( کمیٹی برائے بحالی جمہوریت) یہ تین رکنی کمیٹی بن گئی۔

عاصمہ جہانگیر  کی یہ اچھی عادت تھی کہ کسی بات پر رضامندی ہے تو کام اسی وقت شروع ہو جاتا تھا۔ لسٹ بنائی گئی۔ طے کیا گیا کہ ان تمام جماعتوں کو بلایا جائے جو آمریت کی کھل کر مخالفت کر رہی ہیں۔

فوجیوں  کے درمیان فوج کی مخالفت

میرا تعلق اس وقت لیبر پارٹی سے تھا جس روز مشرف نے اقتدار سنبھالا، مجھے فاروق سلہریا کا فون آیا۔ کہ میاں نواز شریف نے جنرل مشرف کو برطرف کر دیا ہے، وہ ابھی پاکستان اترا نہیں ہے، جہاز میں ہی ہے، یہ خبر ٹی وی پر چل رہی ہے، آپکی کیا رائے ہے؟ میں چالیس ایبٹ روڈ لاہور پر دفتر میں تھا، شام کا وقت تھا، فاروق سلہریا جنگ کے دفتر کے سامنے ایک فلیٹ میں رہتا تھا۔ میں نے کہا ٹی وی آن رکھو؛ ابھی فوجی جرنیلوں کا ردعمل ہو گا، اس کے بعد کوئی مؤقف رکھیں گے۔ تھوڑی دیر بعد اس کا فون آیا کہ ٹی وی بند ہو گیا ہے، آف ائیر ہے، میں نے کہا ردعمل آ گیا ہے، فوجی ٹیک اوور ہو رہا ہے۔ یہ تمہیں کیسے معلوم ہے؟ فاروق پوچھنے لگا۔ میں نے کہا تین فوجی آمریتیں بھگتا چکے ہیں، کچھ اندازے ہو گئے ہیں۔ اسے کہا کہ فوری دفتر آ جاؤ

ہم لاہور ٹی وی سٹیشن کے تقریباً سامنے ہی دفتر میں تھے کہ ایک ساتھی کو باہر بھیجا اور کہا دیکھو کیا ٹی وی کے سامنے فوجی ٹرک آئے ہیں؟ فاروق بھی آگیا تھا اور فوجی ٹرک بھی ٹی وی سٹیشن کو گھیرے ہوئے تھے۔

بس کام شروع تھا۔ ہم نے آپس میں کچھ گفتگو کی اور طے کیا کہ آمریت کی کسی بہانے اور کسی جواز پر بھی بھی حمایت نہ کی جائے گی۔

اسی رات، میں دھرم پورہ گھر سے رات دس بجے کے قریب موٹر سائیکل پر روزنامہ جنگ اور نوائےوقت اخبار کے لئے ہاتھ سے لکھی آمریت مخالف ایک مختصر پریس ریلیز دینے نکلا تو ہر طرف فوجی ہی فوجی تھے ابھی مشرف نے خطاب “میرے ہم وطنو” کرنا تھا، ڈرتے ڈرتے پریس ریلیز کو چھپائے ہوئے دونوں کے دفتر میں یہ پریس ریلیز دے آیا۔

صبح جنگ اخبار کے اندرونی صفحات پر ایک چار لائن والی خبر لگی تھی۔ “لیبر پارٹی کی جانب سے مارشل لگانے کی مخالفت”۔ کریٹیکل پیریڈ میں دو چار لائینیں بھی چھپ جائیں تو پڑھی جاتی ہیں۔ اور ہم تو تاریخ میں اپنا نام رقم کرانے کے چکروں میں، کہ ہم نے وقت پر ہی فوجی آمریت کی مخالفت کی تھی، یہ رسک لیا تھا کہ رات فوجی ٹرکوں کے بیچوں بیچ گزرتے ان کی مخالفت پر مبنی خبر دینے اخبارات کے دفاتر پہنچے تھے۔

عاصمہ کا ایک فون ہی کافی ہوتا تھا

عاصمہ جہانگیر کے ساتھ دوسرے ساتھیوں پر مشتمل جائنٹ ایکشن کمیٹی نے بھی اسی ہفتے فوجی آمریت کی مخالفت کر دی تھی۔

اب عاصمہ جہانگیر فون کر رہی تھیں تمام رہنماؤں کو اور میں، عابد ساقی لسٹ پر ٹک کر رہے تھے کہ یہ بھی کنفرم ہے اور وہ بھی۔ عاصمہ کی جمہوریت کریڈیبیلٹی اتنی مضبوط تھی کہ تمام بڑے رہنما ان کی بڑی قدر کرتے تھے۔ ان کا ایک فون ہی ان کو کافی ہوتا تھا کسی ایک ایشو پر رائے دینے کے لئے۔ سبھی رہنما متفق ہوتے گئے کہ اس روز شرکت کریں گے۔

لاہور پریس کلب آڈیٹوریم میں بمشکل کوئی دو سو افراد ہی سما سکتے ہیں۔ طے پایا کہ باہر بڑی سکرین پر اندر کی کارروائی دکھائی جائے گی۔

اس وقت شاہد بابو ہماری شناخت پریس کے انچارج تھے۔ ان کی پارٹنر کمال کی آرٹسٹ تھیں۔ وہ نیشنل کالج آف آرٹس کی گریجویٹ تھیں۔ شاہد بابو میرے یونیورسٹی دور کے دوست تھے، این ایس او کے رہنماؤں میں تھے۔ شاہد کو میں نے کہا کہ پریس کلب کے ہال میں آمریت مخالف ڈیزایننگ کی جائے، ایک پوری دیوار کی جانب کچھ بنایا جائے۔ اس کے لئے ان کی اہلیہ نے دن رات کام کیا۔

70 کی دہائی کا آرٹ کام آ گیا

12 اکتوبر 2000 سے ایک روز قبل اس ہال کو اس طرح سجایا گیا جیسے ہم 70 کی دہائی میں آرٹ کے ذریعے اپنا انقلابی پیغام پہنچاتے تھے۔ ایک کلچر تھا، آرٹ کے طالب علم سوشلسٹ نظریات پر مبنی اتنے خوبصورت پوسٹرز ہاتھ سے بناتے اور لکھتے تھے کہ اس نظریہ کی طرف جانے کو دل خود بخود کرتا تھا۔

امین فہیم، بابا نصراللہ خان، جاوید ہاشمی، محمود اچکزئی، حاصل بزنجو، اسفند یار ولی خان، جہانگیر بدر، عبدالمجید کانجو، افراسیاب خٹک، چودھری نثار، اقبال ظفر جھگڑا، منظور گیلانی اور دیگر سبھی نےشرکت کی یقین دہانی کرائی ہوئی تھی۔

12 اکتوبر کی صبح میری پارٹنر شہناز اقبال نے کہا کہ ہسپتال لے چلو، وہ امید سے تھیں۔ میں انہیں عمارہسپتال لے گیا۔ وہیں ڈاکٹرز نے انہیں فوری داخل کر لیا اور مجھے کہا کہ آج ہی بچے کی پیدائش متوقع ہے۔ انہیں لیبر روم میں لے گئے۔ میں نے عاصمہ جہانگیر کو فون کر کے صورتحال بتائی تو انہوں نے مجھے سختی سے منع کیا پریس کلب آنے کو اور کہا شہناز کا خیال رکھو، اور باقی  ہم سب سنبھال لیں گے۔ خبردار جو تم اپنی بیوی کو چھوڑ کر اس سیمینار میں آئے۔ آخر وہ خود ماں تھیں اور ایسی صورتحال سے بخوبی اگاہ تھیں کہ والد کا وہاں رہنا کتنا اہم ہے۔

جمہوری جماعتوں کے اتحاد کی بنیاد رکھنے کے وقت عبداللہ کی پیدائش

ہمارا بیٹا عبداللہ صاحب بالکل اس وقت تشریف لائے جب تین بجے اس اہم سیمینار کا آغاز ہونا تھا اور میں نے اس کو کنڈکٹ کرنا تھا۔ دونوں ماں بیٹا ٹھیک تھے، کوئی پیچیدگی بھی نہ ہوئی تھی۔

عبداللہ کے آنےکے تین گھنٹے بعد  اپنی پارٹنر کی اجازت سے جب میں پریس کلب پہنچا تو یہ پروگرام اختتام پذیر ہو رہا تھا۔ عاصمہ نے سٹیج پر بلا کر ماں بیٹے بارے پوچھا۔ اور کہا سب ٹھیک ہے، اچھی باتیں ہو رہی ہیں۔ یہ اکٹھے ہو جائیں گے۔ ان کے الائینس کی بنیادیں ہم نے رکھ دی ہیں، یہ آمریت مخالفت میں جڑ سکتے ہیں۔

اور یوں عاصمہ نے مشرّف کے خلاف مزاحمت کی بنیاد رکھ دی

بڑی پارٹیوں کے تمام اہم رہنما آئے ہوئے تھے۔ یہ آمریت مخالف پہلا بڑا اجتماع تھا۔ پریس کلب میں ہر طرف سیاسی جماعتوں کے کارکنان اکٹھے تھے۔ اندر تو تل دھرنے کو جگہ نہ تھی، باہر سکرین پر بھی بڑا رش تھا۔

ہم نے عملی طور پر الائنس فار ریسٹوریشن آف ڈیموکریسی (ARD) کی بنیاد رکھ دی تھی۔ صرف تین ماہ کے اند دسمبر 2000 میں آے آر ڈی بن گئی۔ سی آر ڈی کا نام تبدیل کر کے اسے سیاسی جماعتوں نے آے آر ڈی بنا لیا۔

اگرچہ پاکستانی جمہوری تاریخ عاصمہ کو جیلانی کیس کی وجہ سے زیادہ جانتی ہے جس میں وہ یحییٰ آمریت کے مارشل لاء کے خلاف سپریم کورٹ گئی تھیں۔ مگر یہ حقیقت ہے کہ ملک کی آخری فوجی آمریت کے خلاف سیاسی جماعتوں کو اکٹھا کرنے اور ان کو ایک پلیٹ فارم پر لانے کا سہرا بھی مرحومہ عاصمہ جہانگیر کو ہی جاتا ہے۔

Tags: اے آر ڈیعاصمہ جہانگیرعاصمہ جہانگیر کی یادیںفاروق طارقنیا دور
Previous Post

رمضان کا احترام – لیکن جبراًنہیں

Next Post

اصغر خان کیس

فاروق طارق

فاروق طارق

Related Posts

عمران خان پر تنقید کے بعد سوشل میڈیا ٹرولنگ نے قاسم علی شاہ کو رُلا دیا!

عمران خان پر تنقید کے بعد سوشل میڈیا ٹرولنگ نے قاسم علی شاہ کو رُلا دیا!

by خضر حیات
جنوری 26, 2023
0

قاسم علی شاہ 25 دسمبر 1980 کو گجرات میں پیدا ہوئے۔ تعلیم حاصل کرنے کے لئے لاہور آ گئے اور گلشن راوی...

کیپٹن صفدر کے ساتھ شادی سے نواز شریف کی سیاسی وارث تک؛ کیا مریم نواز بینظیر ثانی ہیں؟

کیپٹن صفدر کے ساتھ شادی سے نواز شریف کی سیاسی وارث تک؛ کیا مریم نواز بینظیر ثانی ہیں؟

by خضر حیات
جنوری 19, 2023
0

مریم نواز پاکستان کے سابق وزیر اعظم نواز شریف کی صاحبزادی ہیں۔ وہ 28 اکتوبر 1973 کو لاہور میں پیدا ہوئیں۔ انہوں...

Load More
Next Post
اصغر خان کیس

اصغر خان کیس

Comments 1

  1. پنگ بیک: عاصمہ جہانگیر کی یادیں، قسط 7: یہ مجھے مارنے کا منصوبہ بنائے ہوئے ہیں - Naya Daur Urdu

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تلاش کریں

No Result
View All Result

ایڈیٹر کی پسند

Aamir Ghauri Nawaz Sharif

نواز شریف چوتھی مرتبہ وزیر اعظم بن سکتے ہیں؟

by عامر غوری
جنوری 27, 2023
0

...

عمران خان اسٹیبلشمنٹ کی ٹھکرائی ہوئی محبوبہ ہیں

عمران خان اسٹیبلشمنٹ کی ٹھکرائی ہوئی محبوبہ ہیں

by عاصم علی
جنوری 18, 2023
0

...

جنرل یحییٰ خان اور جنرل قمر باجوہ ایک ہی سکے کے دو رخ ثابت ہوئے

جنرل یحییٰ خان اور جنرل قمر باجوہ ایک ہی سکے کے دو رخ ثابت ہوئے

by طارق بشیر
جنوری 18, 2023
0

...

ایک اقلیتی حقوق کے کمیشن کی تشکیل کیسے بارآور ثابت ہو سکتی ہے؟

ایک اقلیتی حقوق کے کمیشن کی تشکیل کیسے بارآور ثابت ہو سکتی ہے؟

by پیٹر جیکب
جنوری 14, 2023
0

...

Ahmad Baloch Kathak dance

بلوچستان کا ایک غریب چرواہا جو بکریاں چراتے چراتے آرٹسٹ بن گیا

by ظریف رند
جنوری 6, 2023
0

...

Newsletter

ہماری مدد کریں

ٹویٹس - NayaDaur Urdu

نیا دور کے صفِ اوّل کے مصنفین

پیٹر جیکب
پیٹر جیکب
View Posts →
حسن مجتبیٰ
حسن مجتبیٰ
View Posts →
عرفان صدیقی
عرفان صدیقی
View Posts →
نجم سیٹھی
نجم سیٹھی
View Posts →
نبیلہ فیروز
نبیلہ فیروز
View Posts →
محمد شہزاد
محمد شہزاد
View Posts →
توصیف احمد خان
توصیف احمد خان
View Posts →
رفعت اللہ اورکزئی
رفعت اللہ اورکزئی
View Posts →
فوزیہ یزدانی
فوزیہ یزدانی
View Posts →
حسنین جمیل
حسنین جمیل
View Posts →
مرتضیٰ سولنگی
مرتضیٰ سولنگی
View Posts →
اسد علی طور
اسد علی طور
View Posts →
ادریس بابر
ادریس بابر
View Posts →
رضا رومی
رضا رومی
View Posts →
علی وارثی
علی وارثی
View Posts →

Cover for Naya Daur Urdu
64,514
Naya Daur Urdu

Naya Daur Urdu

پاکستان کی ثقافت اور تاریخ کو دیکھنے کا ایک نیا زاویہ

This message is only visible to admins.
Problem displaying Facebook posts.
Click to show error
Error: Server configuration issue

خبریں، تازہ خبریں

  • All
  • انٹرٹینمنٹ
  • سیاست
  • ثقافت
کم از کم اجرت 20 ہزار، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ: بجٹ 2021 پیش کر دیا گیا

اقتدار کے ایوانوں سے جلد کسی ‘بڑی چھٹی’ کا امکان ہے؟

اکتوبر 31, 2021
ہمیں نفرت اور مذہب کے بیوپاریوں کی نہیں، دھانی اور دھونی جیسے ہیروز کی ضرورت ہے

ہمیں نفرت اور مذہب کے بیوپاریوں کی نہیں، دھانی اور دھونی جیسے ہیروز کی ضرورت ہے

اکتوبر 27, 2021
بد ترین کارکردگی پر الیکشن نہیں جیتا جاسکتا، صرف ای وی ایم کے ذریعے جیتا جاسکتا ہے

ای وی ایم اور انتخابات: ‘خان صاحب سمندر پار پاکستانیوں کے ووٹ لینے کے لیئے بے تاب ہیں’

اکتوبر 24, 2021

Naya Daur © All Rights Reserved

No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English

Naya Daur © All Rights Reserved

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password?

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In