مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے: پاکستان میں احمدی قبرستان مذہبی شدت پسندوں کے نشانے پر

مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے: پاکستان میں احمدی قبرستان مذہبی شدت پسندوں کے نشانے پر
دنیا کے کسی بھی ملک میں اقلیتیں مشکلات سے گزرتی ہیں ہیں لیکن پاکستان میں مذہبی اقلیت ہونا خوفناک حد تک مشکل ہے اور پھر احمدی برادری سے تعلق ہونا تو سیدھا سیدھا موت کا نسخہ۔ کوئی دن گزرتا نہیں کہ ملک خداداد میں احمدیوں کے خلاف ظلم و ستم کی نئی کہانی منظر عام پر نہ آتی ہے۔ کبھی کسی احمدی کی مذہبی منافرت کی بنیاد پر جان لے لی جاتی ہے تو کبھی ان کی عبادتگاہوں یا پھر مذہبی عقیدت سے منسلک مقامات کی بے حرمتی سامنے آتی ہے۔ جب کہ احمدی برادری کو اپنی تعداد کے بل بوتے پر کسی بھی احتساب سے بالا لامتناہی نفرت کا نشانہ بنانے کے لئے آسان ترین حربہ احمدی کمیونٹی کی قبروں کی بے حرمتی ہوا کرتا ہے۔

احمدی برادری کے اس دنیا سے گزر جانے والے افراد جن کے پاس زندگی میں تو اس ملک خداداد میں اپنے وجود سے متعلق اولین شناخت کا حق بھی نہیں تھا وہ مرنے کے بعد بھی مذہبی منافرت کا نشانہ بنتے ہیں اور ان کے پیاروں کی زندگیاں مزید اذیت ناک بنائی جاتی ہیں۔

اب  احمدی کمیونٹی کی جانب سے شائع کردہ ایک رپورٹ میں ایسے واقعات کا احاطہ کیا گیا ہے جن میں احمدی قبرستانوں میں مبینہ طور پر سرکاری اہلکاروں کی مکمل حمایت اور مدد کے ساتھ شدت پسند مذہبی حلقوں نے تباہی پھیلائی اور قبروں کو مسخ کیا۔

نظارت امور عامہ محکمہ انسانی حقوق صدر انجمن احمدیہ ربوہ کی اس استدعایہ رپورٹ میں موجود گیارہ واقعات کہ جن کو تفصیلاً بیان کیا گیا ہے وہ ان واقعات کا عشر عشیر بھی بھی نہیں جو کہ  سوشل میڈیا کے حلقے میں بھی رپورٹ نہیں ہوتے اور ایسے جو کہ رپورٹ تو ہوئے ہیں لیکن انہیں اس رپورٹ میں شامل نہیں کیا گیا۔

ان میں سرفہرست ہے شاہ مسکین قبرستان شیخوپورہ کا معاملہ جہاں تین مقامی مذہبی علما اور تین پولیس کے اہلکاروں نے گذشتہ سال دسمبر میں دورہ کیا اور دو روز بعد احمدی برادری کے مقامی سربراہ کو پولیس سٹیشن فیض آباد بلایا گیا۔ یہ طے پایا کہ قانون کی خلاف ورزی نہیں ہوگی۔ تاہم، پھر بھی اگلے چند روز میں 40 کے قریب قبروں کے منارے تباہ کیے گئے اور دیگر قبروں کو نقصان پہنچایا گیا۔

ڈیرہ کھنا چکوال میں پیش آئے واقعے میں بھی دو قبروں کی بے حرمتی کی گئی جو کہ کلر کہار تھانے کی حدود میں ہوا تھا۔ گوجرہ کی حدود میں حال ہی میں ایک اور واقعہ ڈھیرو کے مقام پر پیش آیا جس میں احمدی کمیونٹی کی قبروں پر لکھے گئے کلمات پر سیمنٹ کر دیا گیا۔

جنوری 2021 کے ایک اہم واقعے میں ننکانہ صاحب کے علاقے کوٹ دیالداس میں ایک مقامی شخص کی درخواست پر احمدی عبادت گاہ پر تعمیر کردہ مینار کے خلاف پولیس حرکت میں آئی۔ پولیس کو بتایا گیا کہ یہ عبادت گاہ تو تیس برس قبل سے فعال ہے لیکن پولیس نے ایک نہ سنی اور پوری عبادت گاہ کو ہی مسمار کر دیا۔

تاری گری گوجرانوالہ کے واقعے میں جولائی 2020 میں درخواست گزار کے مطابق پولیس نے ہی احمدی قبرستان کے ساٹھ سے زائد کتبے گرا دیے تھے۔

جھنگ تھانہ صدر کی حدود میں بھی احمدی قبرستان کی قبروں کو نقصان پہنچایا گیا۔ جب کہ پریم کوٹ حافظ آباد میں احمدی عبادت گاہ کے صحن میں آویزاں کلمے کو زبردستی اتارا گیا۔

جنوری 2021 میں تھانہ شرقپور کی حدود میں احمدی قبروں کی بے حرمتی کی درخواست جع کرائی گئی۔ بجائے اس کے کہ پولیس اس پر عمل کرتی پولیس نے  شہری اسد اللہ کی درخواست بتاریخ 11 جنوری 2021 کو واپس احمدی کمیونٹی کے درجنوں افراد پر پرچہ درج کر دیا۔

تھانہ گوجرہ صدر میں احمدی قبرستان واقع علاقہ کاناں کونٹاں کے خلاف درخواست دی گئی جس میں مؤقف اپنایا گیا کہ ان قبروں پر اسلامی کلمات درج ہیں۔ تاہم یہ درخواست اب تک تھانے میں زیر التوا ہے۔

تھانہ مٹھا ٹوانہ کی حدود میں احمدیوں کی قبروں کی بے حرمتی کا واقعہ سامنے آیا۔ جب کہ ننکانہ صاحب میں پچاس سے زائد مقامی مذہبی شخصیات نے ایک احمدی شخص کی قبر کو مسخ کیا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ واقعات اس امر کی جانب  توجہ دلاتے ہیں کہ معاملات پر متعلقہ حکام کو فوری طور پر ایکشن لینے کی ضرورت ہے۔

یاد رہے کہ 27 جولائی 2020 کو پنجاب حکومت کے محکمہ داخلہ کو لکھے گئے ایک خط میں لاہور ہائی کورٹ بار اسوسی ایشن کی جانب سے گذارش کی گئی ہے کہ آئین کے آرٹیکل 260(3)(b)  کے مطابق احمدی غیر مسلم ہیں جب کہ قربانی سنتِ ابراہیمیؑ اور سنتِ محمدیؐ ہے جو کہ خاتم النبیینؐ ہیں لہٰذا قربانی کی رسم انہی شعائرِ اسلامی میں آتی ہے جن کو اپنانے کا آئین کے تحت احمدیوں کو حق نہیں ہے کیونکہ مسلمان گذشتہ 1400 سال سے یہ تہوار مناتے آ رہے ہیں اور احمدیوں کو آئین کے تحت پابند کیا گیا ہے کہ وہ کوئی بھی شعائرِ اسلامی اپنا نہیں سکتے۔

ایسے میں یہ کہنا بھی درست ہے کہ گذشتہ پانچ سالوں میں شدت پسند بریلوی اسلام تحریک لبیک کی صورت میں منظر عام پر آنے اور سیاسی مقاصد کے لئے اسے دی گئی سپورٹ کے بعد معاشرے میں موجود احمدیوں کے لئے تھوڑی بہت قبولیت بھی تیزی سے ختم ہوئی ہے جس امر کے یہ واقعات بھی شاہد ہیں۔