• آن لائن اشتہاری ٹیرف
  • رابطہ کریں
  • ہمارے بارے میں
  • ہمارے لئے لکھیں
  • نیا دور انگریزی میں
بدھ, فروری 8, 2023
نیا دور
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English
No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English
No Result
View All Result
نیا دور
No Result
View All Result

عاصمہ جہانگیر کی یادیں، قسط 9: غائب عورت ڈھونڈ کر رہوں گی

فاروق طارق by فاروق طارق
نومبر 16, 2019
in جمہوریت, زیادہ مقبول, فیچر
5 0
1
عاصمہ جہانگیر کی یادیں، قسط 9: غائب عورت ڈھونڈ کر رہوں گی
28
VIEWS
Share on FacebookShare on TwitterShare on Whatsapp

یوسف بلوچ ہمارے سینیئر ٹریڈ یونین رہنما ہیں۔ ان کے پاس ایک فرد آیا اور کہا کہ میری بہن قتل کر دی گئی ہے، اس کا بیٹا بھی غائب ہے۔ بلوچ صاحب نے مجھے رابطہ کیا، ہم نے اس کی مدد کی ٹھان لی اور پھر عاصمہ جہانگیر سے رابطہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ اس لڑکی کی ماں اور بھائی کو ہمارے پاس بھیج دو۔

جائنٹ ایکشن کمیٹی فارپیپلز رائٹس (JAC) عاصمہ جہانگیر کی فیورٹ تنظیم تھی۔ یہ مئی 2017 کے آخری دنوں کی بات ہے کہ اس تنظیم کا ایک ہنگامی اجلاس عاصمہ جہانگیر کے گلبرگ لاہور میں ان کے نئے آفس میں بلایا گیا۔ یہ وہ وقت تھا جب مسلم لیگی حکومت این جی اوز کے پیچھے پڑی ہوئی تھی۔ دو سماجی تنظیموں پر پابندی لگانے کے احکامات کو عاصمہ جہانگیر کامیابی کے ساتھ لاہور ہائی کورٹ سے واپس کرا چکی تھیں۔ اجلاس میں سماجی تنظیموں بارے بحث کے بعد عاصمہ نے کہا کہ ایک اور ایمرجنسی مسئلہ ہے اگر آپ اس کو سننا چاہیں اور اس میں مدد کرنا چاہیں تو اچھا ہے۔ سب نے فوری کہا کیوں نہیں۔

RelatedPosts

جنرل باجوہ کی توسیع؟ کابینہ کمیٹی کی آرمی ایکٹ میں ترمیم، ‘دوبارہ تقرر’ کی جگہ ‘برقرار’ لکھنے کی تجویز

حکومت پاک فوج اور افسر کے خلاف ہتک عزت پر قانونی کارروائی کرے: آئی ایس پی آر

Load More

یہ بھی پڑھیے: عاصمہ جہانگیر کی یادیں، قسط 8: جنوبی ایشیا میں امن کی ایک اور کوشش


‘میری بیٹی کو قتل کر دیا گیا ہے۔ اس کا بیٹا چھین لیا گیا ہے’

عاصمہ جہانگیر نے اپنے دفتر میں موجود ایک چھوٹے قد کی بوڑھی عورت جس سے چلنا بھی مشکل تھا کو بلایا اور کہا اب بتاؤ کیا ہوا ہے؟ سب آئے ہوئے ہیں۔

عاصمہ جہانگیر کو یہ مہارت حاصل تھی کہ وہ اپنے ساتھیوں کو پوری عزت دیتی تھیں۔ ان کی اہمیت کو اجاگر کرتی تھیں اور گروپ کی صورت میں کام کرنے کو ترجیح دیتی تھیں۔

“میری بیٹی کو قتل کر دیا گیا ہے۔ اس کا بیٹا چھین لیا گیا ہے، بیٹی کا کچھ معلوم نہیں کہ اس کو کب اور کس طرح قتل کیا گیا۔ وہ پاورفل شخصیت ہے۔”

ہم سب ہکہ بکہ رہ گئے، میں نے کہا کہ ماں جی پوری تفصیل بتائیں۔

‘میری بیٹی تلی ہوئی تھی اس شخص سے شادی کے لئے’

اس عورت نے کہا کہ ہم لاہور کے رہنے والے ہیں۔ عام لوگ ہیں۔ میری بیٹی ایک ٹیچر تھی۔ پھر ایک وکیل صاحب نے اس کو اپنے دفتر میں رکھ لیا۔ وہ ساٹھ سال سے اوپرکے ہوں گے، شادی شدہ تھے، چند مہینوں میں اس نے میری بیٹی کو اپنی دوسری شادی کے لئے آمادہ کر لیا۔ میں نے اپنے بیٹے سمیت اس تجویز کی مخالفت کی، مگر بیٹی کو اس نے معلوم نہیں کیا پٹی پڑھائی تھی؟ وہ کہنے لگی مجھے وہ نیا گھر لے دیں گے، علیحدہ رکھیں گے، ماہانہ رقم دیں گے۔ پھر ان دونوں نے نکاح کر لیا۔ اور میری بیٹی تلی ہوئی تھی اس شخص سے شادی کے لئے، دونوں نے کچھ لوگوں کی موجودگی میں نکاح کر لیا۔ میری بیٹی کے ہاں اس وکیل سے ایک بیٹا پیدا ہوا۔ اس وکیل کی اپنی پہلی بیوی سے صرف لڑکیاں ہی تھیں۔ اب میری بیٹی نے اصرار کیا کہ اس کو علیحدہ گھر لے کر دیا جائے، جو وکیل صاحب نے بہ امر مجبوری لے دیا۔ تیس ہزار روپے مہینہ بھی لگا دیا۔ میری بیٹی کی فرمائشوں کو وکیل صاحب بلیک میلنگ سمجھنے لگے اور اسے ٹھکانے لگانے کا منصوبہ بنا لیا۔ ایک دفعہ مری میں اسے پہاڑ سے دھکا دیا اور اسے مرا سمجھ کر چھوڑ کر چلے گئے، مگر اس کی جان بچ گئی، اب میری بیٹی کا کوئی پتہ نہیں۔ مجھے شک ہے کہ بیٹا چھین کر اسے مار دیا گیا ہے۔

اپنے ہی حمایتی کے خلاف مقدمہ

ہم سب انتہائی حیرانی سے اس ماں کی کہانی سن رہے تھے۔ عاصمہ جی نے کہا، ایشو یہ ہے کہ یہ وکیل منتخب ممبر بار کونسل ہیں، ایک سینیئر وکیل ہیں، میں تو یہ ایشو اٹھانا چاہتی ہوں۔ ہائی کورٹ میں جا کر اس وکیل کے خلاف پٹیشن دائر کرنا چاہتی ہوں۔ ایک عورت کو مارا گیا ہے، بچہ غائب ہے۔ مجھے آپ سب کی مدد چاہیے۔

اس عورت کو باہر بھیج کر عاصمہ جی سے پوچھا کیا یہ عورت قابل اعتبار ہے، کیا اپنے بیان سے مکر تو نہیں جائے گی۔ عاصمہ جی نے کہا مجھے یقین ہے یہ ماں سچ بول رہی ہے، پھر دیکھیں گے کہ کیا ہوتا ہے۔

اس عورت کے پاس نہ تو بیٹی کا شناختی کارڈ تھا اور نہ ہی نکاح نامہ، پھر بھی عاصمہ جی نے ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کر دی۔ اپنے ہی ایک کولیگ کے خلاف؛ اور وہ بھی کسی موقع پرستی کا اظہار کیے بغیر۔

وہ وکیلوں کے سب سے بڑے دھڑے کی رہنما تھیں۔ یہ وکیل صاحب بھی انہی کے دھڑے کی حمایت کرتے رہے ہیں۔ انہوں نے اس کا بھی خیال نہ کیا کہ اس ایکشن سے ووٹ ٹوٹیں گے، وہ تو ایک مظلوم عورت کی ہرصورت مدد کرنا چاہتی تھیں۔

ہائی کورٹ میں پہلی تاریخ پر میں بھی عدالت میں موجود تھا۔ جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے کئی دیگر ساتھیوں سمیت عاصمہ جی عدالت میں اس عورت سمیت پیش ہوئیں، اپنے چیمبر کی نور اعجاز، شبیر حسین، اسامہ ملک، میاں لیاقت اور دیگر کے ہمراہ، جج صاحب نے جواب طلبی نوٹس بھجوا دیے۔

میڈیا اس عورت کی مدد کرنے کی بجائے ملزم وکیل کے مؤقف کی حمایت کر رہا تھا

ہم اس عورت کو لے کر میڈیا کے سامنے پیش ہوئے۔ عاصمہ جی نے سختی سے کہا کہ میرے چیمبر کا کوئی وکیل میڈیا کے سامنے نہیں آئے گا۔ یہ عورت ہی بات کرے گی۔ اشاروں سے مجھے یہ کام کرنے کو کہا۔

میڈیا کے سامنے اس عورت نے اپنی داستان سنائی۔

اگلی تاریخ پر میں بیمار تھا، ساتھیوں کو عدالت پہنچنے کا کہا۔ رفعت مقصود اور دیگر عدالت میں موجود تھے۔ عدالت میں مخالف دھڑے نے کافی وکیل اکٹھے کیے ہوئے تھے۔ عاصمہ جی بھی موجود نہ تھیں۔ وہ برطانیہ میں ایک کانفرنس میں شرکت کے لئے گئی ہوئی تھیں۔

عدالت کے اندر عاصمہ جی کے خلاف نعرے بازی شروع ہو گئی۔ شبیر، نور اعجاز اور مسعود ملک کو عدالت کے اندر گالیاں دی گئیں، دھکے دیے گئے، ان پر حملہ کیا گیا۔ جج صاحب اٹھ کر اپنے چیمبر کے اندر چلے گئے۔ عدالت کے باہر وکیلوں کی نعرے بازی جاری تھی۔ بعد میں جج صاحب نے عاصمہ جہانگیر چیمبرز کے نوجوان وکیلوں کو اپنے چیمبرز کے ذریعے محفوظ راستہ دیا تاکہ وہ باہر جا سکیں۔

یہ خبر اب پاکستان کی خبر تھی۔ میڈیا اس عورت کی مدد کرنے کی بجائے ملزم وکیل کے مؤقف کی کسی حد تک حمایت کر رہا تھا۔ عاصمہ جی کے خلاف وکیلوں کا ایک گروہ ہر قسم کی اول فول کہہ رہا تھا۔

ماں جی اپنے بیان سے مکر گئیں

مجھے ڈینگی نے گھیرا ہوا تھا۔ بہت زیادہ بیمار تھا، جان کے لالے پڑے ہوئے تھے۔ کچھ زیادہ نہیں کر سکتا تھا۔ عاصمہ جی نے لندن سے واپسی پر رابطہ کیا۔ میری طبیعت کا حال چال پوچھا اور کہا آرام کرو میں ان کو بھگتتی ہوں۔ دوبارہ جیک کا اجلاس بلایا۔ سب کو موبلائز کیا۔ اور اگلی پیشی پر خود پیش ہوئیں۔ اس دوران عدالت میں سخت اقدامات کیے گئے، اور کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہ آیا۔

لیکن وہ ماں جی اپنے بیان سے مکر گئیں۔ ہمارا کیس کمزور ہو گیا۔ اور وہ خارج ہو گیا۔

عاصمہ جی کا فون آیا کہ مسئلہ ختم نہیں ہوا، عورت قتل ہوئی ہے، بچہ غائب ہے، ماں کمزور ہو گئی، بیان سے مکر گئی مگر عورت کو ڈھونڈنا ہے۔ تم تو بیمار ہو، ہم ایک اور پٹیشن کریں گے۔

اس دفعہ یوسف بلوچ مدعی بنے کیونکہ وہی یہ کیس عاصمہ جی کے پاس لے کر گئے تھے۔ وہ عاصمہ جی کے دفتر گئے تو عاصمہ جی نے باہر آ کر ان کا استقبال کیا۔ وہ خوش تھیں کہ یوسف بلوچ اب مدعی بنے گا۔

وہ اسی لئے تو عاصمہ جہانگیر تھیں کہ وہ ذاتیات سے بالاتر تھیں

عدالت میں پٹیشن دائر کر دی گئی۔ پہلی پیشی پر وکیلوں کا ایک ہجوم پھر موجود تھا۔ خوش قسمتی سے اس دن بھی کوئی جسمانی حملہ نہ ہوا۔ بلوچ صاحب کے ہمراہ ہمارے دیگر ٹریڈ یونین رہنما عدالت میں تھے۔ ان کی جس حد تک ممکن ہو حفاظت کے لئے۔

ہماری یہ پٹیشن بھی خارج کر دی گئی۔ مگر غائب عورت کا کوئی پتہ نہیں چل رہا تھا۔ عاصمہ جی اب سپریم کورٹ چلی گئیں اس فیصلے کے خلاف، وہ ہار ماننے والوں میں سے نہ تھیں۔

دیکھیں یہ کوئی ان کا ذاتی مقدمہ نہ تھا، وہ آسانی سے پہلی دفعہ پٹیشن خارج ہونے پر خاموش ہو سکتی تھیں۔ مگر وہ اسی لئے تو عاصمہ جہانگیر تھیں کہ وہ ذاتیات سے بالاتر تھیں۔ مظلوم طبقات کا ساتھ دینا ذاتی بات سمجھتی تھیں۔

پھر فون آیا کہ یوسف بلوچ صاحب کو اب اسلام آباد آنا ہے سپریم کورٹ میں پہلی پیشی پر۔ بلوچ صاحب کے ساتھ خبیب جام کو تیار کیا کہ وہ جائیں۔ دونوں ایک دن پہلے اسلام آباد گئے، اگلے روز وہ عدالت میں پہنچے، پیشی ہوئی، اور مقدمہ ابھی بھی چل رہا ہے، اس عورت کا کوئی اتا پتہ نہیں۔ مگر عاصمہ جی اس غائب عورت کو ڈھونڈتے خود ہی ہم سے جدا ہو گئیں۔

Tags: عاصمہ جہانگیر کی یادیںفاروق طارقنیا دور
Previous Post

اب بس کیجئے می لارڈ

Next Post

ہزارہ برادری کی قیادت کا ہمہ کس کے سر بیٹھے گا؟

فاروق طارق

فاروق طارق

Related Posts

سوات: سیلاب کی وجہ سے ٹراؤٹ فش کے کاروبار کو 1ارب 35 کروڑ روپے کا نقصان

سوات: سیلاب کی وجہ سے ٹراؤٹ فش کے کاروبار کو 1ارب 35 کروڑ روپے کا نقصان

by شہزاد نوید
فروری 8, 2023
0

جس طرح ہر علاقہ اپنی کسی مخصوص سوغات کی وجہ سے دنیا بھر میں جانا جاتا ہے تو اسی طرح خیبر پختونخواہ...

سیلاب سے متاثر کسانوں کو ابھی تک معاوضہ نہیں مل سکا

سیلاب سے متاثر کسانوں کو ابھی تک معاوضہ نہیں مل سکا

by دی تھرڈ پول
فروری 7, 2023
0

پاکستان میں زیادہ تر کسان جن کی فصلیں گزشتہ سال کے تباہ کن سیلاب میں برباد ہو گئی تھیں، ان کے پاس...

Load More
Next Post
ہزارہ برادری کی قیادت کا ہمہ کس کے سر بیٹھے گا؟

ہزارہ برادری کی قیادت کا ہمہ کس کے سر بیٹھے گا؟

Comments 1

  1. پنگ بیک: عاصمہ جہانگیر کی یادیں، قسط 10: بھٹہ مزدوروں کی آزادی جدوجہد

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تلاش کریں

No Result
View All Result

ایڈیٹر کی پسند

عمران خان، اور ان کے ارد گرد بیٹھے سیاسی آوارہ گردوں کی اصل حقیقت!

عمران خان، اور ان کے ارد گرد بیٹھے سیاسی آوارہ گردوں کی اصل حقیقت!

by عاصم علی
فروری 8, 2023
2

...

فیض حمید صاحب، سب اچھا نہیں ہے!

فیض حمید صاحب، سب اچھا نہیں ہے!

by عاصم علی
فروری 3, 2023
0

...

Aamir Ghauri Nawaz Sharif

نواز شریف چوتھی مرتبہ وزیر اعظم بن سکتے ہیں؟

by عامر غوری
جنوری 30, 2023
0

...

عمران خان اسٹیبلشمنٹ کی ٹھکرائی ہوئی محبوبہ ہیں

عمران خان اسٹیبلشمنٹ کی ٹھکرائی ہوئی محبوبہ ہیں

by عاصم علی
جنوری 18, 2023
1

...

جنرل یحییٰ خان اور جنرل قمر باجوہ ایک ہی سکے کے دو رخ ثابت ہوئے

جنرل یحییٰ خان اور جنرل قمر باجوہ ایک ہی سکے کے دو رخ ثابت ہوئے

by طارق بشیر
جنوری 18, 2023
0

...

Newsletter

ہماری مدد کریں

ٹویٹس - NayaDaur Urdu

نیا دور کے صفِ اوّل کے مصنفین

پیٹر جیکب
پیٹر جیکب
View Posts →
حسن مجتبیٰ
حسن مجتبیٰ
View Posts →
عرفان صدیقی
عرفان صدیقی
View Posts →
نجم سیٹھی
نجم سیٹھی
View Posts →
نبیلہ فیروز
نبیلہ فیروز
View Posts →
محمد شہزاد
محمد شہزاد
View Posts →
توصیف احمد خان
توصیف احمد خان
View Posts →
رفعت اللہ اورکزئی
رفعت اللہ اورکزئی
View Posts →
فوزیہ یزدانی
فوزیہ یزدانی
View Posts →
حسنین جمیل
حسنین جمیل
View Posts →
مرتضیٰ سولنگی
مرتضیٰ سولنگی
View Posts →
اسد علی طور
اسد علی طور
View Posts →
ادریس بابر
ادریس بابر
View Posts →
رضا رومی
رضا رومی
View Posts →
علی وارثی
علی وارثی
View Posts →

This message is only visible to admins.
Problem displaying Facebook posts.
Click to show error
Error: Server configuration issue

خبریں، تازہ خبریں

  • All
  • انٹرٹینمنٹ
  • سیاست
  • ثقافت
کم از کم اجرت 20 ہزار، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ: بجٹ 2021 پیش کر دیا گیا

اقتدار کے ایوانوں سے جلد کسی ‘بڑی چھٹی’ کا امکان ہے؟

اکتوبر 31, 2021
ہمیں نفرت اور مذہب کے بیوپاریوں کی نہیں، دھانی اور دھونی جیسے ہیروز کی ضرورت ہے

ہمیں نفرت اور مذہب کے بیوپاریوں کی نہیں، دھانی اور دھونی جیسے ہیروز کی ضرورت ہے

اکتوبر 27, 2021
بد ترین کارکردگی پر الیکشن نہیں جیتا جاسکتا، صرف ای وی ایم کے ذریعے جیتا جاسکتا ہے

ای وی ایم اور انتخابات: ‘خان صاحب سمندر پار پاکستانیوں کے ووٹ لینے کے لیئے بے تاب ہیں’

اکتوبر 24, 2021

Naya Daur © All Rights Reserved

No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English

Naya Daur © All Rights Reserved

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password?

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In