• آن لائن اشتہاری ٹیرف
  • رابطہ کریں
  • ہمارے بارے میں
  • ہمارے لئے لکھیں
  • نیا دور انگریزی میں
بدھ, مارچ 29, 2023
نیا دور
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English
No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English
No Result
View All Result
نیا دور
No Result
View All Result

سیاست نوے کی دہائی میں، قسط 2: بس 20 ماہ کی حکومت

عبدالمجید عابد by عبدالمجید عابد
ستمبر 30, 2021
in سیاست, فیچر
7 0
0
سیاست نوے کی دہائی میں، قسط 2: بس 20 ماہ کی حکومت
37
VIEWS
Share on FacebookShare on TwitterShare on Whatsapp

دس اپریل 1986 کو پیپیلز پارٹی کی رہنما، بینظیر بھٹو دو برس کی جلاوطنی کے بعد لاہور پہنچیں اور ان کا والہانہ استقبال کیا گیا۔

جونیجو حکومت کی برطرفی

RelatedPosts

جنرل باجوہ کی توسیع؟ کابینہ کمیٹی کی آرمی ایکٹ میں ترمیم، ‘دوبارہ تقرر’ کی جگہ ‘برقرار’ لکھنے کی تجویز

حکومت پاک فوج اور افسر کے خلاف ہتک عزت پر قانونی کارروائی کرے: آئی ایس پی آر

Load More

29 مئی 1988 کو جنرل ضیا نے غیر جماعتی انتخابات کی بنیاد پر قائم محمد خان جونیجو حکومت برطرف کر دی۔ اگست 1988ء میں ضیا کی ہلاکت کے بعد جونیجو صاحب نے عدالت عظمیٰ سے درخواست کی کہ ان کی حکومت بحال کی جائے کیونکہ اسے غیر قانونی طریقے سے ہٹایا گیا تھا۔ اس اثنا میں فوج کے سربراہ اسلم بیگ نے لاہور پریس کلب میں یہ بیان دیا کہ اگر سپریم کورٹ کے ججوں نے جونیجو حکومت کو بحال کیا تو اس فیصلے کے نتیجے میں ’پیدا ہونے والی صورت حال‘ کے ذمہ دار وہ خود ہوں گے۔ معاملہ بہر حال زیادہ آگے نہیں بڑھا اور عدالت نے تازہ انتخابات کا حکم دے دیا (اسلم بیگ صاحب کو سپریم کورٹ نے سنہ 1994 میں توہین عدالت کے الزام میں طلب کیا تو انہوں نے عدالت میں جواب دیا کہ ’میں اس عدالت کے آگے جواب دہ نہیں ہوں‘)۔ انتخابات میں ووٹ ڈالنے کے لئے قومی شناختی کارڈ ہونا لازم قرار دیا گیا، جو دراصل پیپلز پارٹی کو طاقت میں آنے سے روکنے کی کوشش تھی۔ بینظیر صاحبہ کے مطابق شناختی کارڈوں کو دھاندلی کے لئے استعمال کیا جا رہا تھا۔ پیپلز پارٹی نے اس فیصلے کو عدالت میں چیلنج کیا اور لاہور ہائی کورٹ نے ان کے حق میں فیصلہ کیا لیکن سپریم کورٹ نے شناختی کارڈوں کی حمایت میں فیصلہ دیا۔

پیپلز پارٹی کے خلاف دھاندلی قبل از انتخابات

اسی طرح حسین حقانی صاحب کے زیر نگرانی نصرت بھٹو اور بینظیر بھٹو کے خلاف بدنامی کی مہم شروع کی گئی اور ان کی تصاویر کو مسخ کر کے پمفلٹ جہاز کے ذریعے بڑے شہروں پر گرائے گئے۔ پیپلز پارٹی کو اس کے روایتی انتخابی نشان یعنی تلوار سے محروم کر دیا گیا اور تیر کا نشان عطا کیا گیا۔

اپوزیشن میں جنرل حمید گل کا بنایا ’اسلامی جمہوی اتحاد‘ دراصل ذوالفقار علی بھٹو مخالف ’پاکستان قومی اتحاد‘ کا ایک نیا روپ تھا۔

ان تمام اقدامات کے باوجود بینظیر صاحبہ کی جماعت وفاقی انتخابات میں کامیاب ٹھہری۔ ان انتخابات میں حیران کن طور پر 54 آزاد امیدوار قومی اسمبلی کے انتخابات میں کامیاب ہوئے (یا کروائے گئے)۔

اقتدار سے پہلے سمجھوتہ

ضیا دور کے ایک قانون کے مطابق صدر کو یہ اختیار حاصل تھا کہ وہ مقننہ کے کسی بھی رکن کو وزیر اعظم کےعہدے کے لئے نامزد کر سکتا ہے، البتہ اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لینا بھی ضروری ٹھہرایا گیا۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے قومی اسمبلی کی 207 نشستوں میں سے 93 پر کامیابی حاصل کی جبکہ اسلامی جمہوری اتحاد نے 55 نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ اتحاد کے سربراہ نواز شریف نے انتخابات سے اگلے روز حکومت بنانے کا اعلان کیا۔ اقتداری اونٹ کی کروٹ کا فیصلہ صدر غلام اسحاق خان کے ہاتھ میں تھا۔

غلام اسحاق خان سدا بہار حکومت میں

بالآخر صدر صاحب نے محترمہ بینظیر کی جماعت کو اس شرط پر اقتدار منتقل کیا کہ وہ صدارتی انتخابات میں غلام اسحاق خان کو ووٹ دیں گے۔ صدارتی انتخاب میں پیپلز پارٹی ارکان نے ایم آر ڈی (MRD) تحریک کے دوران اپنے حلیف نوابزادہ نصراللہ خان پر اسحاق خان کو فوقیت دی۔ غلام اسحاق خان پاکستان افسر شاہی کے نشیب وفراز سے گزر کر اقتدار کے ایوان تک پہنچے تھے۔ ایوب خان دور میں وہ واپڈا کے محکمے میں تعینات کیے گئے، بعدازاں انہیں وزارت مالیات اور بینک دولت پاکستان میں اعلیٰ درجے کی ذمہ داریاں سونپی گئیں۔ بقول وجاہت مسعود ’1950 کی دہائی میں جو کردار اسکندر مرزا کو ملا، 1980 کے عشرے میں اسی نوعیت کے کچھ نالے غلام اسحاق خان کے سپرد ہوئے تھے۔ رپورٹ پٹواری مفصل (لفِ ہذا) سے معلوم پڑتا ہے کہ یہ نالے بطریق احسن دم ہوئے۔ جن ملکوں میں عوامی تائید کے بغیر حکمرانی کا طور جڑ پکڑ لے، وہاں ایک نہ ایک ایسا کردار پیدا ہو جاتا ہے جسے سدا بہار سمجھا جاتا ہے۔ اقتدار جس روپ میں بھی رونمائی دے، یہ کسی خوشنما تِل کی صورت رخِ انور کی رونق بڑھاتے رہتے ہیں۔ روس میں یہ اعزاز گریمکو کو حاصل تھا۔ پاکستان میں یہ منصب غلام اسحاق خان کو ملا۔’

حکومت کن شرائط پر ملی اور بچانے کے لئے کیا کیا جتن ہوئے

بینظیر صاحبہ کو پہلی حکومت کے دوران ‘مقتدر حلقوں’ کی جانب سے مطلع کر دیا گیا تھا کہ دفاع اور خارجی معاملات، خاص طور پر پاکستان کے جوہری پروگرام میں مداخلت نہ کی جائے، اور انہی شرائط پر اقتدار منتقل کیا گیا۔

اس دور حکومت میں پنجاب اور بلوچستان میں اپوزیشن کی جماعتیں برسر اقتدار تھیں اور ان حکومتوں کو برطرف کرنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی۔ پنجاب میں اپنی وزارت خطرے میں دیکھ کر نواز شریف صاحب اسمبلی کے آزاد نمائندوں اور اپنی جماعت کے چند افراد کو چھانگا مانگا لے گئے تھے اور ان سے وفاداری کاحلف لیا گیا تھا۔

نواز شریف ‘پنجاب کا جی ایم سید’

وزارت عظمیٰ حاصل کرنے کے بعد اپنی پہلی پریس کانفرنس میں بینظیر صاحبہ نےنواز شریف کو ‘پنجاب کا جی ایم سید’ قرار دیا۔ انہوں نے پنجاب کی صوبائی حکومت کو غیر مستحکم کرنے کے لئے اپنی جماعت کے سیکرٹری جنرل، ٹکا خان کو صوبائی گورنر کا عہدہ عطا کیا۔

سنہ 1989 میں اندرون سندھ کے حالات بہت کشیدہ ہو چکے تھے اور امن و امان کی بگڑتی صورت حال کی ایک وجہ جی ایم سید کی ’سندھو دیش‘ تحریک تھی۔ جی ایم سید کے پیرو کاروں نے سندھ کے مختلف مقامات پر ہنگامہ برپا کیا اور ایک موقعے پر سکھر ائیر پورٹ پر قبضہ کر لیا۔ اسی دوران ممتاز بھٹو کی سربراہی میں سرائیکی صوبے کی تحریک بھی شروع ہوئی۔ صوبہ سندھ میں امن وامان پر قابو پانے کے لئے فوج کی مداخلت ضروری ہو گئی اور وزیراعظم کے احکامات پر فوج نے صوبے میں آپریشن شروع کیا۔

ارکان اسمبلی سازشوں سے دور

اسمبلی میں واضح برتری نہ ہونے کے باعث پیپلز پارٹی حکومت مسلسل خطروں کا شکار رہی۔ اسمبلی کی تشکیل کو ایک سال بھی نہیں گزرا تھا کہ وزیر اعظم صاحبہ کے خلاف عدم اعتماد کی قرارداد پیش کرنے کا شوشہ اٹھا۔ مرکز میں حکمران جماعت کی حلیف عوامی نیشنل پارٹی اور مہاجر قومی موومنٹ نے پیپلز پارٹی سے قطع تعلقی اختیار کر لی۔ قرارداد عدم اعتماد سے قبل اپنی جماعت کے ارکان اسمبلی کو محلاتی سازشوں سے دور کرنے کیلئے محترمہ نے فضائیہ کے طیاروں میں اپنے ایک سو (100) ارکان اسمبلی کو منگورہ، سوات، بھیج دیا۔ قرارداد عدم اعتماد کامیاب نہ ہو سکی اور حکومت کو اس معرکے میں فتح حاصل ہوئی۔

شہری سندھ قابو سے باہر

1990 میں صوبہ سندھ میں حالات نازک موڑ پر پہنچ چکے تھے۔ پیپلز پارٹی کے طلبہ ونگ اور مہاجر پارٹی کے کارکنان کے درمیان اغوا کنندگان کے تبادلے چل رہے تھے۔ بینظیرصاحبہ نے 1988 میں حکومت ملتے ہی فوجی عدالتوں کے فیصلوں کو کالعدم قرار دیتے ہوئے سینکڑوں سیاسی ارکان کو رہا کر دیا تھا۔ ان اسیران میں سب افراد بے قصور نہیں تھے اور ان کی رہائی کے باعث امن وامان کی صورت حال خراب ہوئی۔ وزیر اعظم نے فوج کو طلب کرنے سے اجتناب کیا کیونکہ وہ اپنے بنیادی حلقے میں فوج کی مداخلت برداشت نہیں کر سکتی تھیں۔ مئی 1990 میں سندھ حکومت نے حیدرآباد میں کرفیو نافذ کر دیا۔ حیدر آباد قلعے سے خواتین اور مرد قرآن اٹھائے نکل پڑے۔ پولیس نے ان پر گولی چلا دی اور فسادات کے نتیجے میں ستر (70) افراد مارے گئے۔ پولیس کے مطابق ان افراد کے عقب میں بندوقوں والے لوگ موجود تھے جبکہ مہاجروں کے مطابق نہتی عورتوں پر گولی چلائی گئی۔ اس واقعے کے رد عمل کے طور پر کراچی میں بھی فساد پھیلا اور دو سو سے زیادہ لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اس موقع پر صدر نے فوج کو طلب کیا۔

کرپشن کے الزامات

حکومتی سطح پر کرپشن بڑھ گئی اور کروڑوں روپے کے قرضے حکومتی وزرا اور ان کے رشتہ داروں کو نوازے گئے۔ بینظیر صاحبہ نے اپنی والدہ نصرت بھٹو کو بےمحکمہ وزیر جبکہ اپنے سسر حاکم علی زرداری کو اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا سربراہ مقرر کیا۔ سیاسی مخالفین کے کاروبار کو نقصان پہنچانے کا رواج بھی اسی دور میں شروع ہوا۔ شریف خاندان کی اتفاق فاونڈری کو نقصان پہنچانے کے لئے پاکستان ریلوے کو حکم دیا گیا کہ سکریپ کراچی سے لاہور نہ پہنچنے دیا جائے۔ اس نقصان کے باعث اتفاق فاؤنڈری کو تین ہزار کے قریب ملازم فارغ کرنے پڑے۔ صدر غلام اسحاق خان نے حکومت بننے کے بیس ماہ بعد اس کو کرپشن، اقرباپروری، نااہلی،عدلیہ اور سینیٹ توہین کے ضمن میں آٹھویں ترمیم کے تحت برطرف کر دیا۔

غلام اسحاق خان کی جانب سے بنائے گئے مقدمات

صدر کی جانب سے بینظیر صاحبہ کے خلاف کرپشن کے چھے ریفرنس دائر کیے گئے (صدر کو یہ اختیار ضیا دور میں دیا گیا تھا)۔ پہلا ریفرنس خفیہ فنڈ میں خورد برد سے متعلق تھا۔ اس ریفرنس میں دی گئی معلومات کے مطابق بینظیر صاحبہ نے دو کروڑ روپے اپنے آپ کو دیے، تین کروڑ نصیر اللہ بابر، ایک کروڑ ملک وارث، ڈیڑھ کروڑ آفتاب شیر پاؤ، ایک کروڑ حنیف خان، چالیس لاکھ محب اللہ شاہ اور چھبیس لاکھ ناہید خان کو دیے گئے۔ دوسرے ریفرنس کے مطابق اسلام آباد میں 287 ایکڑ زمین ایک جعلی کمپنی کو ہوٹل بنانے کی مد میں دی گئی۔ تیسرا ریفرنس مرکزی حکومت کے خلاف پاک فضائیہ کے جہاز استعمال کرنے سے متعلق تھا اور ان جہازوں پر صوبائی اسمبلی کے ارکان سوار تھے جن کو قراراداد عدم اعتماد کے لیے خریدا گیا تھا۔ چوتھا ریفرنس ایل پی جی گیس کے لائسنس اپنے قریبی دوستوں اور رشتے داروں کو دینے سے متعلق تھا۔ پانچواں ریفرنس خام روئی کے معاہدے کے بارے میں تھا جس کی بدولت سرکاری خزانے کو دس کروڑ روپے کا خسارہ اٹھانا پڑا اور چھٹا ریفرنس دو سو کروڑ ڈالر کے قرضوں کی خورد برد کے بارے میں تھا جو اصل میں KESC کو مشاورت دینے کی مد میں حاصل کیے گئے تھے۔

6 اگست 1990 کو صدر غلام اسحاق خان نے قومی اسمبلی کو برطرف کرنے کاحکم جاری کیا۔ اس حکم نامے کو لاہور ہائی کورٹ اور سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا لیکن دونوں عدالتوں نے صدر کے حق میں فیصلہ دیا۔ لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں استدعا کی گئی لیکن ملک کی اعلیٰ ترین عدالت نے فیصلہ برقرار رکھا۔

Tags: 1988 میں پیپلز پارٹی حکومتبینظیر بھٹو کی حکومتصدر غلام اسحاق خانعبدالمجید عابدنیا دور
Previous Post

عسکری وزیر اعلیٰ اور مشرف کی وطن واپسی

Next Post

سندھ کے گمشدہ لوگ

عبدالمجید عابد

عبدالمجید عابد

Related Posts

انگریز سامراج کے خلاف آزادی کی جنگ لڑنے والا بھگت سنگھ ہمارا ہیرو کیوں نہیں بن سکا؟

انگریز سامراج کے خلاف آزادی کی جنگ لڑنے والا بھگت سنگھ ہمارا ہیرو کیوں نہیں بن سکا؟

by خضر حیات
مارچ 25, 2023
0

آج 23 مارچ کا دن ہے اور اسے ہم قرار داد پاکستان کے حوالے سے یاد کرتے ہیں۔ 1940 میں اسی روز...

گورنر جنرل غلام محمد جنہوں نے سیاست میں فوجی اور عدالتی مداخلت کی بنیاد رکھی

گورنر جنرل غلام محمد جنہوں نے سیاست میں فوجی اور عدالتی مداخلت کی بنیاد رکھی

by خضر حیات
مارچ 21, 2023
0

پاکستان کی تاریخ میں کئی ڈرامائی کردار آئے اور عجیب و غریب کرتب دکھا کر منظر عام سے ہٹتے چلے گئے۔ انہی...

Load More
Next Post
سندھ کے گمشدہ لوگ

سندھ کے گمشدہ لوگ

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تلاش کریں

No Result
View All Result

ایڈیٹر کی پسند

ہائبرڈ دور میں صحافت پر حملے؛ ذمہ دار عمران خان یا جنرل باجوہ؟ (پارٹ 1)

ہائبرڈ دور میں صحافت پر حملے؛ ذمہ دار عمران خان یا جنرل باجوہ؟ (پارٹ 1)

by شاہد میتلا
مارچ 22, 2023
1

...

معاشی لحاظ سے پاکستان کس طرح خود انحصاری حاصل کر سکتا ہے؟

معاشی لحاظ سے پاکستان کس طرح خود انحصاری حاصل کر سکتا ہے؟

by ہارون خواجہ
مارچ 18, 2023
1

...

عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین جاری کھیل آخری مرحلے میں داخل ہو چکا؟

عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین جاری کھیل آخری مرحلے میں داخل ہو چکا؟

by رضا رومی
مارچ 20, 2023
0

...

توشہ خانہ فہرست شریف خاندان میں دراڑ نہیں، شاہد خاقان کی علیحدگی کا اعلان ہے

توشہ خانہ فہرست شریف خاندان میں دراڑ نہیں، شاہد خاقان کی علیحدگی کا اعلان ہے

by مزمل سہروردی
مارچ 15, 2023
1

...

جنرل فیض حمید

نواز شریف کو نکالنے کے ‘پروجیکٹ’ میں باجوہ اور فیض کے علاوہ بھی جرنیل شامل تھے، اسد طور نے نام بتا دیے

by نیا دور
مارچ 14, 2023
0

...

Newsletter

ہماری مدد کریں

ٹویٹس - NayaDaur Urdu

نیا دور کے صفِ اوّل کے مصنفین

پیٹر جیکب
پیٹر جیکب
View Posts →
حسن مجتبیٰ
حسن مجتبیٰ
View Posts →
عرفان صدیقی
عرفان صدیقی
View Posts →
نجم سیٹھی
نجم سیٹھی
View Posts →
نبیلہ فیروز
نبیلہ فیروز
View Posts →
محمد شہزاد
محمد شہزاد
View Posts →
توصیف احمد خان
توصیف احمد خان
View Posts →
رفعت اللہ اورکزئی
رفعت اللہ اورکزئی
View Posts →
فوزیہ یزدانی
فوزیہ یزدانی
View Posts →
حسنین جمیل
حسنین جمیل
View Posts →
مرتضیٰ سولنگی
مرتضیٰ سولنگی
View Posts →
اسد علی طور
اسد علی طور
View Posts →
ادریس بابر
ادریس بابر
View Posts →
رضا رومی
رضا رومی
View Posts →
علی وارثی
علی وارثی
View Posts →

This message is only visible to admins.
Problem displaying Facebook posts.
Click to show error
Error: Server configuration issue

خبریں، تازہ خبریں

  • All
  • انٹرٹینمنٹ
  • سیاست
  • ثقافت
کم از کم اجرت 20 ہزار، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ: بجٹ 2021 پیش کر دیا گیا

اقتدار کے ایوانوں سے جلد کسی ‘بڑی چھٹی’ کا امکان ہے؟

اکتوبر 31, 2021
ہمیں نفرت اور مذہب کے بیوپاریوں کی نہیں، دھانی اور دھونی جیسے ہیروز کی ضرورت ہے

ہمیں نفرت اور مذہب کے بیوپاریوں کی نہیں، دھانی اور دھونی جیسے ہیروز کی ضرورت ہے

اکتوبر 27, 2021
بد ترین کارکردگی پر الیکشن نہیں جیتا جاسکتا، صرف ای وی ایم کے ذریعے جیتا جاسکتا ہے

ای وی ایم اور انتخابات: ‘خان صاحب سمندر پار پاکستانیوں کے ووٹ لینے کے لیئے بے تاب ہیں’

اکتوبر 24, 2021

Naya Daur © All Rights Reserved

No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English

Naya Daur © All Rights Reserved

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password?

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In