’جانِ پُر سوز‘ اور محسن علی آرزوؔ:ایک مختصر تعارف، آخری اقساط

  ’جانِ پُر سوز‘ اور محسن علی آرزوؔ:ایک مختصر تعارف، آخری اقساط
 

محسن کی شاہکار نظم جو انہوں نے ایک ایسے موضوع پر کہی ہے جو ایک کی توجہ کا مرکز بنتا ہے۔ بچے، جوان، بوڑھے، مرد وزن سبھی ایک سی ارادت اور عقیدت کا اظہار کرتے ہیں۔یہ موضوع جو سرحدوں کا تابع نہیں، رنگ ونسل کا محتاج نہیں، مذہب و مسلک کا پابند نہیں اور نہ ہی جنسی تفریق کا قائل ہے۔یہ موضوع ایک ایسی ہستی سے متعلق جس سے ہر انسانی جان محبت بھی کرتی ہے اور ادب واحترام بھی، میری مراد ”ماں“ کی ہستی سے ہے۔ محسن علی نے اس ”ماں“ کے عنوان سے جو نظم لکھی ہے وہ دل کو مو لینے والی ہے۔اس نظم کا ایک بندنذرِ قارئین کیا جارہا ہے۔

جس کوخالق نے محبت کی اجازت دی ہے

جس کے رشتے نے تعلق کو عقیدت دی ہے

جس کی ممتا نے گھرانوں کو سجاوٹ دی ہے

جس کی تعلیم نے قوموں کو قیادت دی ہے

جس کے قد موں میں ہے جننت، وہ حقیقت ماں ہے

جس سے ملتا ہے خدا، ہاں! وہ عبادت ماں ہے

مذکورہ بالا نظم اس لیے بھی اہمیت کی حامل ہے کہ اسے امسال(2020)کے یومِ امہات کے موقع پر بھارت کے معروف گلوکار نے نہ صرف گایا بلکہ اس کی ویڈیو گرافی بھی کی گئی ہے۔یوں محسن علی نے اس نظم کے ذریعے ہر بیٹے کی آوازبن کر ”ماں“ کو خراجِ تحسین پیش کیا ہے جس پر وہ داد وتحسین کے حق دار ہیں۔

محسن آرزوؔ نے ایک دہائی سے زائد عرصہ آسٹریلیا میں گزارا ہے جس سے ان کا اشیاء کو دیکھنے کا زاویہ وسیع ہوا ہے اور وہ دورِ حاضر کے معاشرہ سے بخوبی واقف ہیں۔آج ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ وہ سراب کے پیچھے دوڑ رہا ہے۔حقیقت کی تلخیوں کا سامنا کرنا انتہائی دشوار ہورہا ہے اور ردِ عمل کے طور پرزندگی گھٹن کی شکار ہے،اس کی رنگینی ماند پڑ رہی ہے اور رونق ناپید ہورہی ہے۔تصنع، بناوٹ  اورریاکاری ایسے تلخ حقائق ہیں جن سے مفر ممکن نہیں؛ اس کے باوجود محسن کی کی ”ایک خواہش“ ہے کہ:

ایک خواہش کہ شب گزیدہ ہے

جس کے لفظوں کی لرزہ خیزی پر

آہ پر، اور غم انگیزی پر

زیست کا اعتبار قائم ہے

ایک خواہش کہ جس کا حاصل کُل

دولتِ قرب اور وصال نہیں

زیست بہ صورتِ جمال نہیں

ہاں مگر بے خودی جو دائم ہے

نظم ”آگہی“ میں محسن نے پیدائش سے سفرِ عدم تک کو نہایت خوب صورتی قلم بند کیا ہے۔ نظم ایک ردھم اور تسلسل کے ساتھ آگے بڑھتی جاتی ہے اور اختتام پر پہنچ کر محسن آرزوؔ کی یہ”آگہی“ ایک عذاب بن کر انہیں تڑپانے لگتی ہے تو وہ پکار اٹھتے ہیں:

سفر کا مقصد و حاصل نظر میں آتا نہیں

بھنور ہے زیست تو ساحل نظر میں آتا نہیں

کوئی تو مجھ کو حقیقت شناسیاں دے دے

شعور و فہم کی باہم نشانیاں دے دے

میں آرزوؔ یہ سہوں کیسے آگہی کا عذاب

کہ جیسے آگ لگی ہو کہیں پہ زیرِ آب

نظم”حالاتِ حاضرہ“ میں محسن آرزوؔ کو              تنہائی کا شدت سے احساس ہے اور وہ یہ خیال کرتا ہے کہ انسان اپنے سائے سے بھی خوف کھاتا ہے۔کبھی اسے اخلاقی اقدار کی کمی ستانے لگتی ہے تو کبھی جدید مغربی مادی تہذیب کے زیرِ اثر پنپنے والی نئی ثقافت کا خوف آگھیرتا ہے تو لفظ اس کے خیالات لبادہ اوڑ کر کچھ یوں صفحہئ قرطاس پر بکھر جاتے ہیں۔

اس دور پریشاں میں ہر سمت ہے تنہائی

انسان سے ڈرتی ہے انسان کی پرچھائی

ہر سمت اندھیرا ہے ہر اوڑ اداسی ہے

نہ سر پہ دوپٹہ ہے نہ ہاتھ میں راکھی ہے

محسن علی آرزو ؔ کی شاعری کے مطالعے سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ شاعر کے خیالات نہ صرف پختہ ہیں بلکہ شستہ بھی ہیں۔بایں ہمہ وہ کہیں کہیں قنوطیت کا شکار نظر آتے ہیں لیکن یہ یاسیت دائمی نہیں بلکہ عارضی ہے تاہم اس یاسیت کا تعلق ان کی وطنِ مولود سے محبت کی وجہ سے ہے کیونکہ جب وہ اپنے شہر کراچی کو دہشت وبربریت کا شکار دیکھتے ہیں تو قنوطیت کے سیاہ بادل انہیں اپنے پنجوں میں جکڑ لیتے ہیں؛لیکن وہ جلد ہی اس چنگل سے باہر نکل کر رجائیت کا دامن تھام لیتے ہیں۔دیکھیے ایک نظم میں کراچی کی حالتِ سوزاں پرنوحہ کناں ہیں:

آج فضا خاموش کیوں ہے؟

درختوں پہ جو رونق تھی

ہواؤں میں جو بادل تھے

گلابوں میں جو شبنم تھی

فضاؤں میں جو ہلچل تھی۔۔۔کہاں ہے؟

کہاں ہے؟

کہاں ہے؟

کہاں ہے؟

”احساسِ محرومی“میں آرزوؔ کے یہاں مایوسی اس قدر گہری ہے کہ وہ اس سے کسی طور اپنے آپ کو جدا نہیں کرسکتا۔ اس کی نظریں خوشی کی ایک جھلک تک دیکھنے کو ترستی ہیں۔دیکھیے ان احساسات کا کس خوب صورتی اظہار کیا ہے۔

خوشی کی ایک جھلک کو نظر ترستی ہے

غموں کی دھوپ میرے راستوں میں پھیلی ہے

کسی نظر میں نظاروں کا کوئی نام نہیں

میرے چمن میں بہاروں کا کوئی نام نہیں

قدم دیارِ مسرّت سے آشنا ہی نہیں

ذہن خیالِ مسرت کو جانتا ہی نہیں

آسماں پہ کوئی اُمید کا بادل بھی نہیں

میری کشتی کے لیے دور کا ساحل بھی نہیں

محسن آرزو ؔ کے دل میں وطن کی بے پناہ محبت ہے۔یہی وجہ ہے کہ جب ”پردیس“میں انہیں وطن کی یاد ستاتی ہے تو لفظ ان کے دلی جذبات کا عکاس بن کر کچھ یوں صفحہئ قرطاس پر بکھر جاتے ہیں:

چلتے چلتے ہوا کے سائے دل میرا مرجھائے

یاد وطن کی آئے مجھ کو یاد وطن کی آئے

ہنستی ہنستی آنکھوں سے اِک آنسو چھلکا جائے

بارش کے اجلے پانی میں تن من دھلتا جائے

وقت کے پچھلے پہر کی کروٹ نیند اڑا لے جائے

جن گلیوں میں بچپن گزرا انکی یاد ستائے

وطن کی یاد کے ساتھ ساتھ محسن علی آرزوؔکو اپنا بچپن یاد آتا ہے تو وہ بے قرارہو جاتے ہیں اوراپنے”بچپن کے حسین لمحے“یاد کرکے ان کے لوٹ آنے کی تمنا کرتے ہیں۔ذیل میں چھوٹی بحر کے پانچ مصرعوں میں آرزوؔ کا مدعا ملاحظہ کیجیے۔

وہ لمحے امیدیں ہیں

اے کاش کہ بر آئیں

سب رنج مٹا جائیں

اک روز یہ چپکے سے

بچپن میرا لے آئیں

مذکورہ بالانظموں کے علاوہ”تبصرہئ شہید“،”حاصل“،”خواہش“،”تجزیہ“،”فیصلہ“،”شبنمی وفا“،”خواب وصال“،”نوجوانی کا خواب“، ”آنسو“،”ناریل“،”احساسِ محرومی“، ”میں خیالِ شبِ تنہائی ہوں“،”خواب سراب“ اور حالاتِ حاضرہ وغیرہ بھی قابل ذکر نظمیں ہیں۔

محسن آرزوؔ کی شاعری میں کلاسیکی رچاؤ،جدت و ندرت،فنی سلیقہ مندی،سلاست وسادگی جیسی خصوصیات موجود ہیں جن کی بدولت ان کی شاعری محض لفظوں کا ہیر پھیر نہیں بلکہ مقصدیت کی طرف گامزن معلوم ہوتی ہے۔محسن آرزو ؔ کا کلام اپنے زمانہ اور ماحول سے سچی وابستگی اور زندگی کی حقیقی صداقت کا اظہار ہے، جسے بجاطور پر ان کی شاعری کی پہچان کہا جاسکتا ہے۔

محسن علی آرزوؔ کی نظموں کی طرح غزلیں بھی معیاری ہیں۔اس کی غزلوں کا ایک مخصوص وصف طنزیاتی عنصر ہے۔ان کے لیے انسانوں کی ایک دوسرے سے دوری،محبت کی کمی اور تفرقہ بازی تکلیف دہ ہے۔ دیکھئے آج کے بے ضمیر،خود غرض اور مفاد پرست معاشرہ پر انہوں نے کس اچھوتے انداز میں چوٹ کی ہے۔

نیرنگء دنیا میں محبت کی کمی ہے!

نہ درد کی قیمت ہے، نہ آنکھوں میں نمی ہے

خانقاہ میں ملی ہے مجھے مد ہوش شریعت

ساقی تیرے مے خانے میں کیا کوئی ولی ہے

مذہب نہیں اب قوم کی پہچان کا باعث

ملّت کئی اقسام کے نعروں میں بٹی ہے

انسان اشرف المخلوقات ہے اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اسے سربستہ رازوں تک رسائی دی ہے۔وہ اپنی عقل وفہم کے ادراک سے مشکل سے مشکل اور پچیدہ سے پچیدہ مسائل کا حل نکالنے کی صلاحیت اور قدرت رکھتا ہے۔محسن نے انسان کے اسی وصف کو اپنی ایک غزل میں بیان کیا ہے۔

دلِ مومن خداوندا! تجھے پہچان سکتا ہے

یہ پُتلا خاک کا ہر اِک حقیقت جان سکتا ہے

 

 

 

جانِ پُر سوز‘ اور محسن علی آرزوؔ:ایک مختصر تعارف۔۔۔آخری قسط

 

 

 

 

 

غزلوں کایہ سلسلہ جیسے جیسے آگے بڑھتا ہے۔محسن کے اندر کا جاندار شاعر سامنے آتا جاتا ہے۔ایک غزل میں انہوں نے اسد اللہ غالب ؔ کی ایک مشہورِ زمانہ غزل کے مضمون کو ایک نئے انداز میں پیش کیا ہے۔غالب ؔ نے کہا تھا:

کوئی ویرانی سی ویرانی ہے

دشت کو دیکھ کے گھر یاد آیا

سو یہی حالت ہمیں آرزوؔ کے یہاں بھی دیکھنے کو ملتی ہے؛ لیکن فرق یہ ہے کہ غالبؔ کو اپنا گھر دشت وصحرا لگتا تھا جب کہ آرزو ؔجس دشتِ تنہائی میں سامانِ زندگی کرر ہے ہیں وہ ان کے لیے تو نہیں؛ لیکن محبوب کے لیے ایک ویرانے کی تصویر کشی کررہاہے، جس پرمحبوب انگشت بدنداں ہو کراستفہام کرتاہے۔

وہ میرے گھر میں جو آئے تو ٹِھٹھک کر بولے

کیسی ویرانی ہے؟ کیا کوئی یہاں رہتا ہے!

پھر استفہام سے نکل کر محسن آرزوؔدل سے نکلنے والے نغموں کی طرف چل نکلتے ہیں اور برملا پکار اٹھتے ہیں کہ:

جانِ پُر سوز سے افکار کا مجمعہ نِکلا

سازِ دل سے جو لہو چیرتا نغمہ نکلا

وحشتِ جاں سے ہوئے خار مغیلاں گلقند

دشت کی ریت پہ جاناں تیرا چہرہ نکلا

سرخرو ہو گئی مخلوق کی ہر نوع لیکن

سب خطاؤں کی وجہ خاک کا پتلا نکلا

نہ کسی نے کبھی امید بندھائی میری

نہ کوئی شہرِ ستم گر میں شناسا نکلا

دشمنی میں بھی تو اسلوب نبھائے اُس نے

میرا قاتل ہی مجھے جان سے پیارا نکلا

محسن آرزوؔ کی غزلوں میں تشبیہہ اور استعارے کا استعمال بھی قابل ِ توجہ ہے۔ایک جگہ انہوں نے محبوب کے لیے چاند کی تشبیہہ استعمال کی ہے۔وہ محبوب سے اپنے تعلق کو اجاگر کرتے ہوئے کہتے ہیں:

آنکھوں کی پتلیوں نے سمیٹا تھا عکسِ یار!

اور پھر وہ چاند سا میرے دل میں اُتر گیا

وطن سے محبت کا جذبہ محسن آرزوؔ کی نظموں کے ساتھ ساتھ غزلوں میں بھی ابھر کر سامنے آتا ہے۔وہ نہ صرف وطن سے محبت کا

اظہارکرتے ہیں بلکہ ملتِ اسلامیہ کے دوام کی بات بھی کرتے ہیں اور اس کے لیے اسلاف کے نقشِ قدم پر چلنے کی تلقین کرتے ہیں۔ دیکھیے درج ذیل اشعار میں اسی مضمون کو خوبصورت انداز میں بیان کیا ہے۔                                                                                                                                                                                   تجھ پہ ہے قرض تیرے دیس کے ہر ذرے کا

باندھ لے سر پہ کفن' جہد کے اسرار میں چل

 

گر ہے خواہش کہ ملے ملتِ مسلم کو دوام

آرزو ؔاپنے ہی اسلاف کے کردار میں چل

ایک اور غزل میں شاعرکو اس بات کا اافسوس ہے کہ وہ کچھ کرنا چاہتا تھا وہ نہیں کر سکا۔اسی طرح ایک اور غزل میں شاعرسفر میں ہے لیکن منزل، مقصود نظر نہیں آتی گویا کسی مقصد کا متلاشی نظر آتا ہے۔

تاریک زندگی میں اجالا نہ کر سکے

ہم آرزو کی شمع فروزاں نہ کر سکے

مجھ کو منزل نظر نہیں آتی!

کتنی صدیوں سے چل رہا ہوں میں

زلف ِ محبوب کا تذکرہ ہر شاعر کے یہاں مل جاتا ہے اور محسن آرزوؔ بھی اس سے مبرا نہیں رہے۔ انہیں زلفِ محبوب کی طوالت تو بدلیوں کی مسافتوں سے بھی زیادہ لگتی ہے۔کبھی جرأت نے کہا تھا:

اس زلف پہ پھبتی شبِ دیجور کی سوجھی

حالانکہ وہ محرومیئ بینائی کا شکار تھے۔ اس کے باوجود جب انہوں نے یہ مصرع کہا اور انشا ء اللہ خاں سے دوسرے مصرعے کی فرمائش کی تو انشاء نے بے ساخطہ کہا:

اندھے کو اندھیرے میں بڑی دور کی سوجھی

اب محسن آرزو ؔ کے ہاں اسی مضمون کو دیکھییے،کہتے ہیں:

بدلیوں کی مسافتیں کیا ہیں

زلف تیری سفر میں رہتی ہے

دن گزرتا ہے تیری یادوں میں

رات عہدِ ہجر میں رہتی ہے

دیگر غزلوں میں بھی ان کی پروازِ تخیل کا مشاہدہ کیا جاسکتاہے۔ یہاں چند غزلوں سے مزید اشعاربطور نمونہ رقم کیے جارہے ہیں

اوربخوفِ طوالت کوئی تبصرہ نہیں کیا جارہا۔

 

ہوائے دور بہاراں کی آمد آمد ہے

صدائے زخمِ گریباں کی آمد آمد ہے

جو تیری دید صبح کی دلیل ہو جائے!

طوالتِ شبِ ہجراں قلیل ہو جائے

 

سحر پر لو نکلنے والی ہے

قید کی رات کٹنے والی ہے

اپنی خلوت سے پیار ہے مجھ کو

بزمِ تنہائی بسنے والی ہے

 

دیدہئ تر سے خواب کے رشتے

جیسے میرے اور آپ کے رشتے

گوہر زیست اور سیپ میں ہے

چشمِ پر نم اور آب کے رشتے

کِس طرح کب کہاں بنے کیسے

یہ حیات و  ممات کے رشتے

یہ یقیں ہے کبھی نہ ٹوٹیں گے

آرزوؔ اور سراب کے رشتے

 

یہ صبحِ نو کبھی اُس قوم پہ نازِل نہیں ہوتی

خُودی کو بیچ کر بچوں کو جو سُرخاب دیتی ہے

محسن آرزوؔ کے اس مجموعہئ کلام کی ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ انہوں نے اس میں صرف نظمیں اور غزلیں ہی شامل نہیں کیں بلکہ نثرِلطیف کے معنی خیز اور خوبصورت ٹکرے بھی شامل کیے ہیں۔ایک جگہ خاموشی کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے قبرستان اور اس کے

لوازمات کا سہارا لیا ہے،کہتے ہیں:

بڑے کہتے ہیں کہ خاموشی تو قبرستان میں ہوتی ہے۔

شاید مردے شور کو ناپسند کرتے ہوں۔

ہو سکتا ہے وہ زور کو اتنا  ناپسند  نہ کرتے ہوں

جتنا خاموشی کو پسند کرتے ہوں۔

چونکہ خاموشی قبرستان کی علامت ہے اس لیے ہر مردہ خاموش رہتا ہے۔

اور اپنے ساتھی کے لیے بھی یہی پسند کرتا ہے۔

گویا ہر مردہ شخص دوسرے کو مردگی کی علامت سے محروم نہیں کرنا چاہتا۔''

اور

''لوگ کہتے ہیں کہ شور زندگی کی علامت ہے اس کے باوجود اکثر لوگ خاموشی

کو پسند کرتے ہیں۔ شاید یہ لوگ خاموشی کو اتنا پسند نہیں کرتے جتنا

شور کو پسند کرتے ہیں۔

ہر زندہ شخص شور کرتا ہے اور دوسروں کے شور کو ناپسند بھی کرتا ہے۔

گویا ہر زندگی کا حامل شخص، دوسرے کو زندگی کی علامت سے

محروم کرنے کا خواہاں ہے۔''

”جانِ پُرسوز‘‘کا اختتام بھی ایک نثرِ لطیف کے پارے سے کیا گیا ہے جس کا عنوان اختتام رکھا گیا ہے۔ملاحظہ کیجیے یہ نثرِ لطیف کا یہ ٹکڑا:

'' کبھی کبھی سورج کی کرنیں جب پھولوں پر پڑتی ہیں

تو پھولوں پر موجودشبنم اُن کی چمک دمک کا باعث بنتی ہے۔

چند ساعتوں کے بعد پھولوں کی خوبصورتی میں چاند لگا دینے والی شبنم،

ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اپنا وجود کھو دیتی ہے۔

اور شبنم کے فنا ہونے کی واحد وجہ سورج کی کرنیں ہوتی ہیں۔ ''

المختصر’جانِ پُرسوز‘‘میں شامل نظموں،غزلوں اورنثرلطیف کے مطالعے سے یہ بات بھی سامنے آتی ہے کہ محسن کی شاعری کا محور پاکیزہ ادب ہے اور وہ خود بھی ایک مخلص انسان ہیں اورمحبت و مروت کا پیکر ہیں۔میں ڈاکٹرمحمد محسن علی آرزوؔکو گزشتہ دو تین سال سے جانتا ہوں۔وہ ساؤتھ آسٹریلیاکی پہلی اورآسٹریلیا کی موثر و معتبر علمی وادبی اور ثقافتی تنظیم ”پاکستان-آسٹریلیا لٹریری فیڈریشن (پالف)کے

متحرک رکن ہیں اور پالف کے زیرِ اہتمام منعقدہ تقاریب میں باقاعدگی سے شرکت کرتے ہیں اور اپنے کلام سے حاضرین کو محظوظ کرتے ہیں۔میں سمجھتا ہوں کہ ان کی طب کے پیشے کے باوجود اردو سے اس قدر محبت میری ان کاوشوں کو تقویت دے گی جو میں یہاں اردو زبان و ادب کی ترویج واشاعت اور فروغ کے لیے پالف کے پلیٹ فارم سے کر رہاہوں۔

محسن آرزوؔ کا یہ پہلا مجموعہ کلام ہے جس میں وہ اچھے اور ابھرتے ہوئے شاعر کے طور پر سامنے آئے ہیں۔مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ آسٹریلیا کے انگلش ماحول میں اور طب جیسے اہم اور مصروف ترین پیشے سے تعلق کے باوجود ان کی اردو سے زبان وادب اور شاعری سے وابستگی پر وہ یقینا مبارک باد کے حق دار ٹھہرتے ہیں۔مجھے امیدِ واثق ہے کہ محسن آرزو ؔاپنے پروفیشن کے ساتھ انصاف کرنے کے ساتھ ساتھ اردو شاعری کو بھی کئی اور مجموعہ ہائے کلام سے نوازیں گے۔شنید ہے کہ ان کا دوسرا مجموعہئ کلام بھی تیاری کے مراحل میں ہے نیز وہ نثرلطیف کے علاوہ طنز ومزاح پراپنے مضامین بھی جمع کررہے ہیں جن کے جلد منصہ شہود پر آنے کی شنید ہے۔