نام کی غلامی بھی نا منظور: کینیڈا کی شاہراہ کا نام تبدیل

نام کی غلامی بھی نا منظور: کینیڈا کی شاہراہ کا نام تبدیل
کینیڈا کے شہر ٹورونٹو کے شہریوں نے شہر کے مرکزی تجارتی علاقے جسے ڈاون ٹاون کہا جاتا ہے میں واقع ایک سڑک کے نام پر اعتراض اٹھا دیا۔ قصہ یہ ہے کہ ڈنڈاس نام کی یہ سڑک روشنیوں سے جگمگاتی مرکزی پر رونق سیاحوں کی آماجگاہ اور کاروباری ڈسٹرکٹ کہلاتی ہے ، اور اس نام کو لے کر کافی عرصہ سے ایک بحث چھڑی ہوئی ہے ۔
بات یہ ہے کہ ڈنڈاس نامی ایک شخص تھا پر یہ بہت بات بہت قدیم اور تاریخی ہے ، اس شخص کے ساتھ کچھ تاریخی تلخ یادیں جڑی ہوئی ہیں جو شہر ٹورونٹو کے باسیوں کو کافی عرصہ سے پریشان کر رہی ہیں۔ وہ کیا یادیں ہیں اس پر بھی تاریخ کے اوراق پلٹ کے دیکھتے ہیں۔ لیکن شہری یہ چاہتے ہیں کہ کسی شخص کے نام کے ساتھ منسوب کرنے کا مطلب اس کی تاریخی اہمیت کو اجاگر کرنا مقصود ہوتا ہے ۔
شایدہینری ڈنڈاس نامی یہ شخص اس عقیدت و احترم کا حقدار نہیں ہے کہ اس کے نام سے کوئی بھی شے منسوب کی جائے، ویسے تو یہاں کوئین وکٹویہ، الزبیتھ، چارلس اور دیگر شاہی خاندانوں سے لے کر معروف سیاسی شخصیات ونسٹن چرچل ، پیئر سن ، ٹروڈو وغیرہ جیسی شخصیات کے ناموں کی بھی شہری تنصیبات شامل ہیں۔ پھر ڈنڈاس کے نام کو لے کر ہی آخر اتنے عرصہ کے بعد اعتراض کی نوبت کیوں پیش آرہی ہے۔
اس معاملے کا جائزہ لینے کے لئیے فوری طور پر شہر کی بلدیاتی کونسل کا اجلاس منعقد کیا گیا اور اس میں چوبیس اراکین میں سے سترہ نے یہ رائے دی کہ یہ نام تبدیل کردیا جائے گا۔

ٹورنٹو سٹی کونسل کی ایک دستاویز کے مطابق ، ہنری ڈنڈاس کا نام ہٹانے کی وجہ ان کا "متنازعہ تاریخی کردار" ہے۔
اس لئے ایک قرارداد کے ذریعے یہ طے کیا گیا کہ ٹورونٹو میں نو آبادیاتی دور کی اس گلی کا نام تبدیل کیا جائےگا۔ اس سلسلے میں ایک پیٹیشن کے ذریعے یہ درخواست دائر کی گئی کہ سڑک کا نام کسی ایسے شخص کے ساتھ منسوب نہ کیا جائے جس نے اپنے برطانوی راج کے دور ۱۷۹۰میں غلاموں کی تجارت کے خاتمے کی راہ میں روڑے اٹکا ئے اور غیر ضروری تاخیر کا سبب بنا۔
اٹھارویں صدی میں اس تاخیر کی وجہ سےپندرہ برس کے عرصہ میں مزیدپانچ لاکھ کے قریب سیاہ فام برطانوی راجوں میں غلام بنائے گئے اور ان کی خرید و فروخت ہوئی۔ٹورونٹو کے بلدیاتی نمائندوں نے اپنی قرارد اد میں واضح الفاظ میں کہا ہے کہ انسداد سیاہ فام نسل پرستی ، کا مقابلہ کرنے ، سچائی ، مفاہمت اور انصاف کو فروغ دینے اور جامع مساوات پر مبنی معاشرے کی تعمیر کے مشن کو آگے بڑھانے کے لئے ، اس نوعیت کے اقدام مددگار ثابت ہوں گے۔
واضح رہے کہ اگرچہ شہر ٹورونٹو کی کونسل نے تو یہ فیصلہ دے دیا ہے کہ کوئی بھی شہر کی سڑک ، عمارت، پارک یا ریلوے اسٹیشن ہینری ڈنڈاس کے نام سے منسوب نہیں کیا جائے گا اور ایک سال کے اندر عوامی رامہ سےنئے نام کو تجویزکر دیا جائے گا، تاہم ٹورونٹو کے گردو نواح کے بلدیات بھی کیا اس فیصلے کی روشنی میں ڈنڈاس کے نام کو ہٹانے کا ارادہ رکھتی ہیں یہ ابھی بھی ایک سوالیہ نشان ہے ۔
ٹورونٹو کے مئیر جان ٹوری کا کہنا ہے کہ اس شخص نے زندگی میں کبھی کینیڈا میں قدم نہیں رکھا اور ہم ہرگز اس کی کوئی عزت افزائی کر یں گے۔
اینڈریو لاک ہیڈ نامی شہری جس نے اس کام کا بیڑہ اٹھایا اور لوگوں کی توجہ اس جانب مبذول کروائی تھی، کہتے ہیں کہ یہ فیصلہ شہر میں سفید فام بالادستی اور نو آبادیاتی تشدد و غلامی کے خاتمے کی جانب ایک نمایاں پیش رفت ہے اور وہ اس سے مکمل اتفاق کرتے ہیں۔
یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ شہر کے مرکز میں واقع بہت سے کاروبار اب بھی اس نام سے وابستہ ہیں جنہیں اب تبدیل کرنا پڑے گا اور اس سلسلے میں شہر کی انتظامیہ نے ایک بجٹ مخصوص کیا ہے جس سے ان لوگوں کو مدد مل جائے گی۔
ناقدین نے اگرچہ اس بات پر اعتراض ضرور کیا کہ کرونا جیسے پینڈیمک کے دوران شہر کی بلدیہ اور اسکی کونسل ایک تاریخی معاملے کو لے کر بحث کرکے اپنے وقت کا ضیاں اور ٹیکس ادا کرنے والوں کا نقصان کر رہی ہے لیکن کونسلر مائیکل ٹامپسن کا کہنا ہے کہ تاریخ میں یہ نہیں یاد رہے گا کہ اس نام کی تبدیلی میں کیا اخراجات آئے بلکہ یہ بات یاد رہے گی کہ آیا ہم تاریخ کی درست جانب کھڑے ہوئے کہ نہیں کیونکہ یہاں ہماری انسان دوستی ساکھ داو پر لگی ہوئی ہے اور ہم نے یقینی طور پر ایک درست فیصلہ کیاہے۔ مئیر جان ٹوری کا بھی یہی کہنا تھا کہ آپ درست فیصلہ کرتے وقت کبھی غلط نہیں ہو سکتےاور ہمیں نام کی غلامی بھی منظور نہیں۔

انیس فاروقی کینیڈا میں مقیم ایک منجھے ہوئے صحافی، رائٹر اور شاعر ہیں۔ Tweets @anis_farooqui