سید علی گیلانی مرحوم: کشمیر کی مزاحمتی سیاست کا مرد آہن

سید علی گیلانی مرحوم: کشمیر کی مزاحمتی سیاست کا مرد آہن
مقبوضہ سری نگر کشمیر کی آزادی کے لئے ساری زندگی جدوجہد کرنے والے حریت پسند رہنما سید علی گیلانی بدھ یکم ستمبر 2021 کی شام وفات پا گئے ہیں۔

کشمیر میڈیا سروس کے مطابق حریت رہنما عبدالحمید لون نے علی گیلانی کے انتقال کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ہے کہ تحریک آزادی کشمیر کے بانی رہنما اب ہم میں نہیں رہے۔ آج شب 10 بجے وہ اپنے گھر میں رحلت پا گئے ہیں۔ وہ گذشتہ کئی سال سے گھر پر نظر بند تھے۔

علی گیلانی کی زندگی پر اک نظر

سید علی شاہ گیلانی جموں و کشمیر کے سیاسی رہنما تھے۔ وہ انگریز راج کے دور میں 29 ستمبر 1929 کو پیدا ہوئے۔ ان کا تعلق ضلع بارہ مولہ کے قصبے سوپور سے تھا۔ وہ کشمیر کے پاکستان سے الحاق کے حامی تھے۔ بزرگ حریت رہنما سید علی گیلانی جماعت اسلامی جموں و کشمیر کے رکن رہے ہیں جب کہ انہوں نے جدوجہد آزادی کے لئے ایک الگ جماعت “تحریک حریت” بھی بنائی تھی جو کل جماعتی حریت کانفرنس کا حصہ ہے۔

بزرگ حریت رہنما سید علی گیلانی معروف عالمی مسلم فورم “رابطہ عالم اسلامی” کے بھی رکن تھے۔ حریت رہنما یہ رکنیت حاصل کرنے والے پہلے کشمیری حریت رہنما ہیں۔ ان سے قبل سید ابو الاعلیٰ مودودی اور سید ابو الحسن علی ندوی جیسی شخصیات برصغیر سے “رابطہ عالم اسلامی” فورم کی رکن رہ چکی ہیں۔ مجاہد آزادی ہونے کے ساتھ ساتھ وہ علم و ادب سے شغف رکھنے والی شخصیت بھی تھے اور علامہ اقبال کے بہت بڑے مداح تھے۔ انھوں نے اپنے دور اسیری کی یادداشتیں ایک کتاب کی صورت میں تحریر کیں جس کا نام “روداد قفس” ہے۔ اسی وجہ سے انہوں نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ بھارتی جیلوں میں گزارا۔ وہ اپنی وفات کے دوران بھی بھارتی نظر بندی میں تھے۔

سید علی گیلانی کی زندگی کے اواخر میں سیاست

ایک انتہائی حیرت انگیز پیش رفت میں کشمیری رہنما سید علی شاہ گیلانی نے آل پارٹیز حریت کانفرنس کے سربراہ کے عہدے سے گذشتہ سال استعفا دے دیا تھا۔

بھارتی اخبار ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق سید علی گیلانی نے عبداللہ گیلانی کو اپنا جانشین نامزد کیا۔

اخبار نے لکھا کہ ایک دہائی کے دوران بڑا عرصہ اپنے گھر میں نظر بند رہنے والے 90 سالہ بیمار بزرگ کشمیری رہنما نے ایک آڈیو پیغام میں کہا کہ: ’میں موجودہ صورتحال کے تناظر میں اپنے آپ کو مکمل طور پر حریت کانفرنس کی قیادت سے الگ کرتا ہوں اور ایک تفصیلی خط کے ذریعے اس فورم کے تمام حلقوں کو میرے فیصلے سے متعلق آگاہ کیا جا چکا ہے‘۔

سید علی گیلانی کے لئے نشان پاکستان

صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے حریت رہنما سید علی گیلانی کو نشان پاکستان سے نوازا۔

14 اگست 2020 کو ایوان صدر میں تقریب کے دوران صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے حریت رہنما سید علی گیلانی کو نشان پاکستان سے نوازا، حریت کانفرنس آزاد کشمیر شاخ نے سید علی گیلانی کے لئے نشان پاکستان وصول کیا، سيد علی گيلانی کو پاکستان کا سب سے بڑا اعزاز آزادی کے لئے بےمثال جدوجہد کے باعث ديا گيا۔

مقبوضہ کشمیر کے لوگوں کے حق خود ارادیت کے لئے سید علی گیلانی کی بے لوث اور مسلسل جدوجہد اور قربانیوں کو خراج تحسین پیش کیا گیا، ان کے غیر متزلزل عزم، جذبے، استقامت اور قیادت اور مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم، ظالمانہ اقدامات اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو بے نقاب کرنے میں ان کے کردار کو بھی اس موقع پر سراہا گیا۔

سید علی گیلانی کی یاد بطور ایک با اصول سیاستدان

سید علی گیلانی کے انتقال پر سابق وزیر اعلیٰ مقبوضہ کشمیر محبوبہ مفتی نے اظہار تعزیت کیا ہے اور کہا ہے کہ سید علی گیلانی ہمیشہ اپنے اصولوں پر کاربند رہے، اختلاف کے باوجود سید علی گیلانی کی ہمیشہ عزت کی۔

ایک لمبے عرصے تک سید علی گیلانی دنیا بھر میں کشمیر کی جدوجہدِ آزادی کی ایک علامت تھے۔ انہوں نے اپنی زندگی میں جہاں بے پناہ مصائب دیکھے، وہیں ان کی کشمیر کی آزادی کے ساتھ غیر متزلزل محبت کے باعث انہیں دنیا بھر میں آزادی کی جنگ لڑنے والوں کے لئے ایک استعارہ بنایا۔ یہاں تک کہ 2015 میں سید علی گیلانی نے سعودی عرب میں موجود اپنی بیمار بیٹی سے ملنے کے لئے پاسپورٹ کی درخواست دی تو اس درخواست کو یہ الزام لگا کر رد کر دیا گیا کہ انہوں نے nationality کا خانہ خالی چھوڑ دیا تھا، جس کی بنا پر ان کی پاسپورٹ کی درخواست 'نامکمل' قرار دے کر رد کی گئی۔ علی گیلانی نے اس وقت بھی میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ خود کو پیدائشی طور پر بھارتی شہری نہیں سمجھتے۔

سید علی گیلانی کے بعد کشمیر کی تحریکِ حریت ایک قدآور رہنما سے محروم ہو گئی ہے۔ گذشتہ کئی برس سے گھر پر نظربند ہونے کے باعث وہ سیاسی طور پر غیر فعال تھے لیکن ان کے جانے سے پیدا ہونے والا خلا بآسانی پر نہیں ہو سکے گا۔ سید علی گیلانی جس مقصد کے لئے جیے، اسی مقصد کے لئے سزا کاٹتے ہوئے اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ مگر آخری دم تک انہوں نے کشمیر پر بھارتی تسلط کو تسلیم نہ کیا۔ شاید ایسے ہی کسی موقع کے لئے فیض نے کہا تھا

کرو کچ جبیں یہ سرِ کفن میرے چارہ گر کو گماں نہ ہو
کہ غرورِ عشق کا بانکپن پسِ مرگ ہم نے بھلا دیا