پاکستان میں بڑھتی فرقہ واریت، اور تکفیر کی خوفناک روایت

پاکستان میں بڑھتی فرقہ واریت، اور تکفیر کی خوفناک روایت
اس سال یومِ عاشور کے موقع پر موبائل فون سروس ایک مرتبہ پھر بند کر دی گئی۔ گو کہ یہ فیصلہ پہلی مرتبہ ملک میں دہشتگردی کے عروج کے دور میں سابق وزیر داخلہ رحمان ملک نے کیا تھا لیکن اس کے بعد سے یہ وطیرہ بن چکا ہے، ماسوائے مسلم لیگ ن کے دور کے چند سالوں کے جب چودھری نثار علی خان وزیرِ داخلہ تھے۔ دہشتگردی کے خلاف یہ حربہ کس حد تک کارگر ہوتا ہے، اس بارے میں ماہرین مختلف آرا رکھتے ہیں۔ یوں تو اس برس یومِ عاشور بالعموم پر امن انداز میں گزرا لیکن بہاولنگر میں ایک دھماکے میں کم از کم تین افراد قتل جب کہ 50 زخمی ہو گئے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ایک ایسا خطہ جہاں شیعہ سنی رواداری کی صدیوں پرانی ریت چلی آ رہی ہے، وہاں اس معاملے پر گذشتہ چند دہائیوں سے اس قدر خون کیوں بہہ رہا ہے؟

مذہبی منافرت اور فرقہ واریت پاکستان کے دو ایسے مسائل ہیں جن کے باعث اس ملک نے بے انتہا کشت و خون دیکھا ہے۔ اس سے بھی زیادہ افسوسناک امر یہ ہے کہ یہ معاملہ کہیں تھمنے میں نہیں آ رہا۔ یہ مذہبی منافرت تحریر و تقریر کے ذریعے عموماً مذہبی علما ہی کی جانب سے پھیلائی جا رہی ہوتی ہے اور کبھی اس کی زد میں خود یہ 'علما' بھی آ جاتے ہیں۔

غیر مسلموں کی اقلیتوں کی تو بات چھوڑیے، مسلمانوں کا سب سے بڑا اقلیتی فرقہ، اہل تشیع، مذہبی منافرت اور دہشتگردی کی زد میں رہا ہے۔

محرم 2020 کے لرزہ خیز واقعات

پاکستان میں گذشتہ برس ایک فرقہ وارانہ تصادم کی سی کیفیت موجود تھی جسے میڈیا نے کور کرنے کی نہ تو کوئی کوشش کی اور نہ ہی اس پر اربابِ اختیار نے واقعتاً کوئی کارروائی کرنے کا ارادہ بھی کیا۔ پولیس کے انتہائی اعلیٰ عہدیداروں سے بھی سوال ہوتا تو وہ کہتے کہ یہ چند روز کی بات ہے، آہستہ آہستہ خود ہی سب ٹھیک ہو جائے گا۔ لیکن معاملہ اتنا سادہ نہیں تھا۔

درجنوں کی تعداد میں اہل تشیع کے خلاف توہینِ مذہب کے پرچے درج کروائے گئے، ان کے علما، ذاکرین اور عام شہریوں کی گرفتاریاں عمل میں لائی گئیں۔ کراچی میں لاکھوں کی تعداد میں ایک مجمع جمع ہوا جس میں نہ صرف کافر، کافر کے نعرے لگائے گئے بلکہ اس دوران ایک امام بارگاہ کے باہر بھی مشتعل افراد نے پتھراؤ کیا۔ کراچی اور ملک کے دیگر شہروں میں یکایک دیواریں شیعہ مخالف نعروں سے بھری جانے لگیں۔ ملک کے دارالحکومت اسلام آباد میں بھی ہزاروں کی تعداد میں ایک درجن سے زائد سنی جماعتوں کی ایک تنظیم نے ریلی نکالی۔ متحدہ سنی کونسل نامی اس تنظیم نے ابتداً ایک دھرنے  کی کال دے رکھی تھی لیکن پھر شہری انتظامیہ سے کچھ بات چیت کے بعد 17 ستمبر کو ایک ریلی منعقد کی گئی۔ اس ریلی میں بھی نفرت انگیز تقاریر کی گئیں۔ ایک بار پھر کافر، کافر کے نعرے لگائے گئے۔ تاہم، مجمع اپنی ریلی مکمل کرنے کے بعد خود ہی منتشر ہو گیا۔

اس تنظیم میں نہ صرف سکہ بند دیوبندی اور اہلحدیث جماعتوں کی بڑی تعداد موجود تھی بلکہ اس میں ایسی جماعتیں بھی شامل تھیں جو پاکستان کے قانون کے مطابق کالعدم قرار دی جا چکی تھیں۔ اور ایسی سیاسی جماعتیں بھی موجود تھیں جو کہ پاکستان کی پارلیمانی سیاست میں گذشتہ کئی دہائیوں سے اہم ترین کردار ادا کر رہی ہیں۔ ان میں پروفیسر ساجد میر کی مرکزی جمعیت اہلحدیث بھی شامل تھی، مولانا فضل الرحمٰن کی جمعیت علمائے اسلام بھی اور سمیع الحق مرحوم کے نام سے بنی جمعیت علمائے اسلام (س) بھی اس اتحاد کا حصہ تھی۔ جی ہاں، وہی سمیع الحق جن کے مدرسہ اکوڑا خٹک کو گذشتہ پانچ سالہ حکومت کے دوران پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت نے 57 کروڑ روپے عطا کیے تھے۔

لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ سب جماعتیں اچانک اتنی متحرک کیسے ہو گئیں؟ کچھ سکیورٹی اداروں کے اہلکاروں اور افسران کا خیال ہے کہ یہ معمول کی کارروائی تھی۔ ہر سال محرم میں کچھ ایسے واقعات پیش آتے ہیں اور پھر کچھ دنوں میں خودبخود دب جاتے ہیں۔ ان کا ماننا تھا کہ تھوڑے دن یہ وقتی ابال بھی بیٹھ جائے گا۔ حکومت کی تو بات اور ہوتی ہے، کچھ تجزیہ کاروں نے بھی اس میں سے بیرونی ہاتھ تلاش کر لیا۔ شیخ رشید صاحب نے فرمایا کہ اس کے پیچھے بھارتی ہاتھ تھا، لیکن خود کو واقفانِ حال ظاہر کرنے والے سعودی عرب اور ایران کے درمیان پراکسی لڑائی کی طرف بھی اشارہ کرتے تھے۔ محرم بھی انہی دنوں میں آ گیا، یہ ایک محض اتفاق ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ 2020 میں توہینِ مذہب کے 200 کیسز رجسٹر ہوئے اور ان میں سے زیادہ تر میں ملزمان کے نام اہل تشیع ناموں سے ملتے جلتے تھے۔ یہ وثوق سے نہیں کہا جا سکتا کہ واقعتاً ان میں شیعہ کتنے تھے کیونکہ مکمل حقائق اخبارات اور میڈیا سامنے لانے میں خصوصی کاہلی برتتا ہے لیکن نیا دور سے بات کرتے ہوئے محقق محمد نفیس نے یہ تعداد 200 بتائی۔ اس پر مزید بات آگے چل کر۔

حقائق کو چھپانا یا ان سے انکار مسئلے کا حل نہیں۔ ملک کے کسی بھی کونے میں چلے جائیں، آپ کو شیعہ مکتبۂ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد کے لئے تکفیری جملے دیواروں پر لکھے ملیں گے۔ یہ نفرت کس کس انداز میں معاشرے میں اپنی جڑیں پھیلاتی ہے، اس کا محض اندازہ ہی لگایا جا سکتا ہے۔ کوہاٹ یونیورسٹی واقعہ اس کی ایک مثال ہے کہ جہاں سنی مسلمان بھائیوں نے مل کر شیعہ طالبِ علم کو پہلے بری طرح زد و کوب کیا اور پھر وائس چانسلر پر دباؤ ڈال کر اس کو جامعہ سے ہی نکلوا دیا۔ الزام یہ تھا کہ اس نوجوان نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہما کی شان میں فیسبک پر اس سے کوئی تین ماہ قبل گستاخی کی تھی۔ یہ نوجوان صحتِ جرم سے صاف انکار کرتا ہے۔ پولیس نے اسے گرفتار کیا تھا لیکن چند روز بعد اسے ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔ رہائی تو مل گئی لیکن اس نوجوان کی زندگی تباہ کر دی گئی کیونکہ ساتویں سمسٹر کا یہ طالبِ علم اپنی یونیورسٹی سے التجا کرتا رہا کہ اس کی جان کو خطرہ ہے، اسے کلاس میں حاضری سے استثنا دے دیا جائے لیکن جواب موصول نہ ہوا۔ بالآخر یہ خود یونیورسٹی پہنچا تو اس پر اگلے ہی روز پھر حملہ ہو گیا۔ اس کا کہنا ہے کہ اس کی تصاویر انٹرنیٹ پر ایسے پھیلا دی گئی ہیں کہ اب یہ کسی اور یونیورسٹی تو کیا اپنے گھر بھی جائے گا تو اس کو جان سے مار دیا جائے گا۔ وزیر اعظم عمران خان کے معاونِ خصوصی برائے مذہبی ہم آہنگی مولانا طاہر اشرفی نے سجاگ ویب سائٹ سے بات کرتے ہوئے کوہاٹ یونیورسٹی واقعے کی مذمت کی تھی۔

یہ واقعہ نومبر 2020 میں پیش آیا۔ لیکن جس فیسبک پوسٹ کی بات کی گئی، یہ اگست 2020 کی تھی۔ یعنی محرم الحرام کے مہینے کی جس کے شروع ہونے سے محض ایک ہفتہ قبل تحفظِ بنیادِ اسلام بل پنجاب اسمبلی نے بے دھیانی میں پاس کر دیا۔ گو کہ اسے بعد میں روک دیا گیا لیکن تب تک تیر کمان سے نکل چکا تھا۔

محقق ڈاکٹر حمزہ ابراہیم کا کہنا ہے کہ جب سے سائبر کرائم لاء میں توہین مذہب کی شقیں ڈالی گئی ہیں، متعدد نوجوان زندگیاں جیلوں میں ضائع ہو رہی ہیں۔ 2020 میں پنجاب اسمبلی نے شیعہ عقیدے کو جرم بنایا تو اگرچہ وہ قانون اہل تشیع کے احتجاج کے بعد نافذ نہیں کیا گیا لیکن اس سے شہ پا کر علما نے ان کے خلاف تقریریں کیں اور جب انہوں نے ردعمل دیا تو جلسے ہونے لگے۔ اس کے ساتھ ساتھ شیعوں کے قتل کے واقعات بڑھنے لگے۔ انہوں نے کہا کہ "پچھلے محرم میں دس کے قریب بے گناہ شیعہ قتل ہو گئے تھے۔"

تحفظِ بنیادِ اسلام بل یا منافرت کا نیا پیکیج؟

اگر فرقہ وارانہ درجہ حرارت میں گذشتہ برس آنے والی تیزی پر غور کیا جائے تو نظر یہی آتا ہے کہ اس سب کی شروعات جولائی 2020 میں منظر عام پر آنے والے تحفظِ بنیادِ اسلام بل سے ہوئی۔ اس بل میں فرقہ وارانہ جھگڑے کی بنیاد رکھنے کی کوشش یوں کی گئی کہ چند ایسے صحابہ کرامؓ جو اہل تشیع کے یہاں متنازع مانے جاتے ہیں، ان کے لئے لازم قرار دے دیا گیا کہ نام کے ساتھ رضی اللہ عنہ لگایا جائے، انہیں صحابی رسولؐ مانا جائے۔ اسی طرح اہلبیتؑ کے ساتھ علیہ السلام لگانے پر بھی اس بل کی رو سے پابندی عائد کی جانا تھی۔ یعنی اہل تشیع کے لئے لازم تھا کہ وہ اہلبیتؑ کے لئے علیہ السلام کی جگہ رضی اللہ عنہ لگائیں۔

(یہ ایک بہت پرانی مذہبی بحث ہے۔ اہل سنت کے بہت سے ائمہ ماضی میں اہلبیت کے ساتھ علیہ السلام لگانے پر مختلف اعتراض اٹھا چکے ہیں۔ مثلاً بریلوی مکتبہ فکر کے بانی امام احمد رضا خان بریلوی لکھتے ہیں کہ یہ پیغمبروں کے لئے ہی مختص ہونا چاہیے۔ اہل تشیع کا ماننا ہے کہ ان کے ساتھ علیہ السلام اس لئے لگایا جاتا ہے کہ یہ معصوم عن الخطا ہیں، بالکل ایسے ہی جیسے اللہ کے پیغمبر اور انبیا علیہم السلام خطا سے پاک ہوتے ہیں، لہٰذا ان کے ساتھ علیہ السلام لگایا جاتا ہے جب کہ دیگر صحابہؓ کے ساتھ رضی اللہ عنہ یعنی 'اللہ ان سے راضی ہو' کا لاحقہ لگایا جاتا ہے۔)

اس کے علاوہ اس بل میں کہا گیا تھا کہ رسول اکرمؐ کی چار بیٹیاں ہیں۔ اہل تشیع کا اس پر اعتراض تھا کہ یہ بالواسطہ انداز میں ہم سے منوایا جا رہا ہے کہ نبیؐ کی چار بیٹیاں تھیں۔

( اہل تشیع کا ماننا ہے کہ رسول اکرمؐ کی صرف ایک بیٹی حضرت فاطمہؑ تھیں جب کہ باقی بیٹیاں ان کی نہیں بلکہ حضرت خدیجہؑ کی بہن کی بیٹیاں تھیں جنہیں حضرت خدیجہؑ نے پالا تھا۔ یہ تاریخ سے زیادہ عقیدے کی بات ہے۔ اب ثابت کیسے ہو؟ ایک کی کتاب کو دوسرا نہیں مانتا۔)

اس بل کے ذریعے اہل تشیع کے معتقدات کے کھلے عام پرچار پر ایک طرح سے پابندی لگائی جا رہی تھی۔ نہ صرف ان کے لئے یہ سب کہنا لازم قرار دیا جا رہا تھا بلکہ ان پر لازم تھا کہ ان کی کتب میں بھی اس بل کی پابندی کی جائے اور کوئی کتاب جو نئی چھپے اس میں ان اصولوں کا خیال رکھا جائے۔

سونے پہ سہاگہ یہ کہ بل کو سپیکر صوبائی اسمبلی پنجاب چودھری پرویز الٰہی کے متحرک کردار کے باعث ایک ہی دن میں تمام جماعتوں نے پاس بھی کر دیا۔ یہاں تک کہ اسمبلی میں موجود اپوزیشن اور شیعہ ارکان نے بھی اس کو پڑھنےکا تردد نہیں کیا۔ حالانکہ سوشل میڈیا پر اس سے پہلے ہی بحث جاری تھی۔

اس بل کے پاس ہونے کے فوراً بعد اسمبلی کے رکن معاویہ اعظم طارق، جو کہ لشکرِ جھنگوی کے سابق رہنما اعظم طارق کے صاحبزادے ہیں، اپنے والد کی قبر پر گئے، اس پر اس بل کو رکھا اور دعا کے لئے ہاتھ اٹھا لیے۔ اس ویڈیو میں سنا جا سکتا ہے کہ معاویہ اعظم طارق نے کہا کہ انہوں نے اس بل کے ذریعے اپنے والد کا مشن مکمل کر دیا۔

اسی طرح اہلحدیث مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے ہشام الٰہی ظہیر کی بھی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی جس میں وہ اس بل کے پاس ہونے پر پرویز الٰہی کی تعریف کر رہے ہیں اور معاویہ اعظم طارق کو اس کا کریڈٹ دے رہے ہیں۔



بل پاس ہوا تو ظاہر ہے کہ اہل تشیع کی طرف سے اس پر شدید رد عمل آیا۔ لاہور میں ایک پریس کانفرنس میں اہل تشیع کے متعدد رہنماؤں نے بھرپور طریقے سے اس بل کے خلاف آواز اٹھائی۔ انہوں نے اپنا مؤقف میڈیا کے سامنے رکھا اور کہا کہ وہ اپنی کتب تبدیل نہیں کر سکتے، نہ ہی اپنے معتقدات کو چھوڑنے کے لئے تیار ہیں۔ اس موقع پر مجلس وحدت المسلمین سے تعلق رکھنے والے ایک صاحب نے کہا کہ یہ بل علما سے کسی بھی قسم کی مشاورت کے بغیر آیا ہے۔ انہوں نے واضح انداز میں کہا کہ گورنر پنجاب چودھری سرور اس بل پر دستخط نہ کریں ورنہ اس کے سنگین نتائج نکل سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم جنگِ جمل اور جنگِ صفین پر بات کرتے ہیں، ہمارے نزدیک ان دونوں جنگوں میں حضرت علیؑ حق پر ہیں، اس پر بات ہوگی تو تنقید بھی ہوگی۔ بل کے مطابق تنقید کی بھی اجازت نہیں ہے۔



تحریکِ لبیک، اور بریلوی انتہا پسندی

یہاں ایک نئے کھلاڑی نے اس کھیل میں انٹری دی۔ بریلوی مکتبۂ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد کو عموماً شیعہ مخالف نہیں سمجھا جاتا۔ معروف عالمِ دین انجینیئر محمد علی مرزا کے مطابق ناصبیت (یعنی بغضِ علیؑ اور اہلبیتؑ) بریلویت کا مزاج نہیں ہے۔ لیکن یہاں تحریک لبیک پاکستان سے تعلق رکھنے والے علامہ اشرف آصف جلالی نے ایک ویڈیو خطاب کے دوران باغِ فدک کا مسئلہ چھیڑ دیا۔ یہ تو طے ہے کہ باغِ فدک کا مسئلہ ہمیشہ سے اہلسنت اور اہل تشیع میں موضوعِ بحث رہا ہے۔ سنی حضرت ابوبکرؓ کے فیصلے کو درست سمجھتے ہیں جب کہ اہل تشیع کے نزدیک بی بی فاطمہؑ کا باغِ فدک پر دعویٰ درست تھا۔ تاہم، اہلسنت کی جانب سے بی بی فاطمہؑ کے اس معاملے میں کردار پر تنقید کرنا عام نہیں۔ خصوصاً صوفی اور بریلوی سنیوں میں تو اس کا رواج قطعاً نہیں ہے۔ لیکن اشرف آصف جلالی نے کیا کہا، سنیے:



ظاہر ہے کہ یہ ایک جملہ معترضہ تھا۔ اس پر اہل تشیع کی جانب سے جو رد عمل آیا، اس کی بعد میں بات کرتے ہیں۔ ذرا دیکھیے کہ اہلسنت کی جانب سے اس جملے پر کس قدر شدید رد عمل کا اظہار کیا گیا۔

https://www.youtube.com/watch?v=-C6ci3ipTW4

دوسری جانب پیر عرفان شاہ مشہدی جنہیں اشرف آصف جلالی چند سال پہلے تک اپنا پیر و مرشد کہا کرتے تھے نے بھی ان پر کڑی تنقید کی۔ بلکہ گالیاں تک دیں۔ اس پر اشرف جلالی کے ماننے والوں کی جانب سے تنقید کی گئی۔ لیکن یاد رہے کہ ماضی میں عرفان شاہ مشہدی کی ایسی بدزبانی کا نشانہ اور بھی بہت سے لوگ رہے ہیں اور ہمیشہ ان کی اس عادت کا دفاع انہی حضرات کی جانب سے کیا جاتا رہا ہے۔

لیکن دوسری طرف اہل تشیع ذاکر آصف علوی کا بیان اس سے کہیں زیادہ سخت تھا۔ انہوں نے اشرف آصف جلالی کی باتوں کا جواب دیتے ہوئے اسلام آباد میں منعقدہ ایک مجلس کے دوران باغِ فدک کے مسئلے کو چھیڑا اور حضرت فاطمہؑ کے حق کو ثابت کرتے کرتے یہ تک کہہ گئے کہ حق کا انکار کرنے والا کفر پر ہوتا ہے۔

یہی وہ جملہ تھا جس نے یکایک ملک میں وبال کھڑا کر دیا۔ اہل تشیع علما میں سے کئی آصف علوی کے خیالات سے برأت کا بھی اعلان کرتے رہے۔ شیخ محسن علی نجفی نے علما و ذاکرین کانفرنس 2020 سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس شخص پر اہل تشیع کے علما نے پابندی لگوائی تھی، آپ نے اس پر سے پابندی ہٹوائی، آپ نے اس کو اسلام آباد میں مجلس کروا کے دی، اس نے آپ کے مطلب کی باتیں کہیں اور آپ نے پھر اس کو پاسپورٹ دے کر ملک سے باہر بھیج دیا۔ یہاں انہوں نے کس کو ’آپ‘ کہہ کر مخاطب کیا یہ تو واضح نہیں لیکن ان کا اشارہ یقیناً کسی سازش کی طرف تھا۔

https://www.youtube.com/watch?v=s7JNkldPBbk

اسی دوران چینل 24 پر پڑھی گئی ایک زیارت میں حضرت معاویہؓ اور حضرت ابوسفیانؐ پر عربی میں پڑھی جانے والی کوئی چیز ٹی وی پر براہِ راست دکھا دی گئی، جس کے بعد تمام سنی جماعتیں یکسوئی کے ساتھ توہینِ مذہب سے متعلق قوانین کو متحرک کرنے میں جٹ گئیں اور ساتھ ہی ریلیوں کا انعقاد بھی شروع ہو گیا۔

پاکستان میں یہ مباحث اور توہین و کفر کے فتوے کوئی نئی بات نہیں۔ لیکن 2020 میں یہ تعداد، اور ریلیوں میں شامل شرکا کی تعداد حقیقتاً بے حد زیادہ رہی۔ ایک نئی چیز جو یہاں سامنے آئی وہ بریلوی مکتبۂ فکر کے علما کا اس معاملے میں کود پڑنا تھا۔ بریلوی پاکستان کی کل آبادی کا قریب 50 فیصد اور چند سرویز کے مطابق 60 فیصد ہیں۔ ان کی جانب سے عموماً اس معاملے پر سیاست نہیں کی جاتی۔ لیکن اشرف آصف جلالی کا یوں سامنے آنا اور بعد ازاں تحریک لبیک پاکستان کا راولپنڈی میں احتجاج یہ ثابت کرتا ہے کہ ملک کی آبادی کا سب سے بڑا یہ حصہ بھی فرقہ وارانہ سیاست میں متحرک ہو سکتا ہے اور آنے والے سالوں میں اس رجحان میں مزید اضافہ دیکھنے میں آئے تو حیرت نہیں ہونی چاہیے۔

نفرت انگیز تقاریر کی ممانعت پہ عمل نہ ہو سکا

حکومتِ پاکستان نے 2014 میں اے پی ایس پشاور پر ہوئے حملے کے بعد ایک عدد نیشنل ایکشن پلان ترتیب دیا تھا۔ آج سات سال بعد اس کے چند بنیادی نکات کی صورتحال ذرا دیکھ لیتے ہیں۔

اس کا ایک نکتہ یہ تھا کہ مذہبی منافرت پر مبنی تقاریر پر پابندی ہوگی، ایسے تمام اخبارات اور جرائد کے خلاف کارروائی کی جائے گی جن پر ایسا مواد شائع ہوگا۔ ان تقاریر پر پابندی کتنی رہی، یہ تو آپ اوپر موجود ویڈیوز میں دیکھ ہی چکے ہیں۔ یہ تمام 'علما' اس وقت بھی کھلے عام اپنے عقائد کا پرچار کرنے کے لئے آزاد ہیں۔

دہشتگردوں کی فنڈنگ کے ذرائع مفقود کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ اس سے کتنا فائدہ ہوا، آپ ان ویڈیوز اور تصاویر سے اندازہ لگا سکتے ہیں جو آپ اوپر دیکھ چکے ہیں۔ البتہ ڈاکٹر عاصم حسین و دیگر کے خلاف سیاسی مقاصد کے لئے اس نکتے کا بھرپور استعمال کیا گیا۔

کالعدم تنظیموں کو نئے ناموں سے کام کرنے کی اجازت نہ دینے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ 2020 میں کراچی کی سڑکوں پر نکلنے والے لاکھوں کے مجمعے میں یہ تنظیمیں اپنے اصلی ناموں کے ساتھ بھی موجود تھیں، نقلی کی ضرورت ہی پیش نہیں آئی۔

یہ اعلان کیا گیا تھا کہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا پر انتہا پسندوں کو کوئی جگہ نہیں دی جائے گی۔ اوریا مقبول جان اب بھی ٹی وی پر پروگرام کرتے ہیں۔ یہ خادم رضوی کو بھی ایک عظیم مفکر خیال کرتے ہیں اور طالبان کی فتح پر جشن ہے کہ تھمنے میں نہیں آتا۔

سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ کو مذہبی منافرت پھیلانے کے لئے استعمال کی روک تھام کی جانی تھی۔ یہ کوہاٹ یونیورسٹی کا شیعہ نوجوان جس کا اوپر ذکر کیا گیا، اس کے خلاف پوری کمپیں ہی انٹرنیٹ پر چلی۔ کسی ایک بھی شخص کے خلاف کارروائی ہوئی؟ عدالت نے تو آج تک اس نوجوان کو کوئی سزا نہیں سنائی، اس پر حملہ کرنے والے آج بھی دندناتے پھرتے ہیں۔ ان میں سے ایک شخص حکومتی جماعت کی طلبہ تنظیم انصاف سٹوڈنٹس فیڈریشن کا صدر تھا۔ اس نے سجاگ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ شخص میرے سامنے آ جاتا تو اسے یونیورسٹی سے زندہ باہر نہ جانے دیتا۔ کیا اس کے خلاف کوئی کارروائی ہوئی؟ جواب آپ جانتے ہیں۔

ایسے عناصر جو فرقہ واریت پھیلانے میں مصروف تھے ان کی بیخ کنی کی جانا تھی۔ فرقہ واریت تو بدستور پھیل رہی ہے۔ البتہ درجنوں کی تعداد میں شیعہ حضرات پر توہینِ مذہب کے پرچے درج کر لیے گئے۔

کمرشل میڈیا کا مذہبی منافرت پھیلانے میں کردار

میڈیا پر مذہبی منافرت پھیلانے کی اجازت نہ دینا بھی نیشنل ایکشن پلان کا ایک اہم نکتہ تھا۔ ذرا بول ٹی وی کا یہ کلپ دیکھیے:

https://www.youtube.com/watch?v=t084aVgg3JQ

پیمرا نے اس کے خلاف کارروائی کے لئے یقیناً کوشش کی ہوگی۔ پیمرا کی سنتا کون ہے؟

اب ذرا یہ ڈاکٹر عامر لیاقت کے پرورگرام کو دیکھ لیجئے۔ یہ حکومتی جماعت کے ایم این اے ہیں۔ اور یہ پروگرام میں اس حد تک آگ لگانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ ایک موقع پر خود عالمِ دین نے کہہ دیا کہ میں آگ پر پانی چھڑکنے کی کوشش کر رہا ہوں، آپ پٹرول سستا دیکھ کر آگ بھڑکا رہے ہیں۔

https://www.youtube.com/watch?v=O_2cqzE5oII

یاد رہے کہ ماضی میں ڈاکٹر عامر لیاقت اے پی ایس پشاور حملے کو 'احمدیوں کی سازش' قرار دے چکے ہیں۔

'اصل مسئلہ تکفیر کا ہے'

محقق ڈاکٹر عائشہ صدیقہ کا کہنا ہے کہ "اصل مسئلہ تکفیر ہی کا ہے۔ یہ کام پہلے احمدیوں سے شروع ہوا جنہیں 1974 میں ہی کافر قرار دے دیا گیا تھا۔ یہ تصور کہ آپ کسی کو مذہب کے دائرے سے باہر نکالنے پر قدرت رکھتے ہیں تمام مسائل کی جڑ ہے"۔

1990 کی دہائی میں جب پاکستان میں فرقہ وارانہ لڑائی عروج پر تھی، ایسے بہت سے گروہ سامنے آئے جنہوں نے اس ہتھیار کو اپنے مخالفین کے خلاف بے دریغ استعمال کیا۔ عائشہ صدیقہ کے مطابق "سپاہ صحابہ کے مولانا اعظم طارق جو کہ ماضی میں تین مرتبہ جھنگ سے قومی اسمبلی کے رکن بھی رہے ہیں، اہل تشیع کے ساتھ بھی احمدیوں والا سلوک کر کے انہیں پارلیمان سے کافر دلوانا چاہتے تھے۔ 1979 میں انقلابِ ایران کے بعد یہ تمام گروپس متحرک ہوئے تھے کیونکہ اس کے حوالے سے ایک بے چینی موجود تھی۔"

عائشہ صدیقہ نے اعظم طارق کا ذکر کیا۔ انہی کے صاحبزادے معاویہ اعظم طارق ہیں۔ اعظم طارق کو 2003 میں اسلام آباد کے پاس موٹروے پر قتل کر دیا گیا تھا۔ ان کی نمازِ جنازہ لال مسجد کے خطیب عبدالرشید غازی نے پڑھائی تھی جنہیں 2007 میں لال مسجد آپریشن کے دوران قتل کیا گیا۔

نیا دور سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر صدیقہ کا کہنا تھا کہ اس معاملے میں اکثریتی فرقے کی باقی فرقوں پر غالب آنے کی خواہش ایک بہت بڑا عنصر ہے۔ "جب آپ تعداد میں دوسروں سے زیادہ ہوں۔ مثلاً پاکستان میں حنفی سنیوں کی اکثریت ہے تو یہاں دیگر فرقوں کو دبانے کی خواہش ایک بہت اہم عامل ہے اور تکفیر کا ہتھیار ایسے گروہ کے ہاتھ میں انتہائی خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔"

لیکن اکثریت کے جبر کی بات کی جائے تو یہ نہیں بھولا جا سکتا کہ جہاں ان تمام معاملات میں توہینِ مذہب کا قانون لاگو ہوتا ہے، بہت سے واقعات ایسے بھی ہیں جہاں پولیس اہلکار خود اپنی مدعیت میں یہ مقدمات درج کرواتے ہیں۔ توہینِ مذہب کے قوانین پر گہری نظر رکھنے والے محقق محمد نفیس کے ایک حالیہ مضمون کے مطابق گذشتہ 14 سالوں میں پاکستان میں 1318 توہینِ مذہب کے مقدمات درج ہو چکے ہیں جن میں سے 92 خود پولیس والوں نے درج کروائے۔

قومی اخبارات کی خاموشی

نیا دور اردو سے بات کرتے ہوئے محمد نفیس کا کہنا تھا کہ 2020 میں پاکستان میں 200 کے قریب مقدمات کا دعویٰ کیا جاتا ہے لیکن ان کی مکمل تفصیلات سامنے نہیں آ رہیں۔ اخبارات میں اگر خبر موجود ہو تو کیس کے مکمل حقائق جانے جا سکتے ہیں لیکن نظر یہ آ رہا ہے کہ اخبارات میں ان خبروں کو رپورٹ نہیں کیا جا رہا۔ "آپ اندازہ ہی لگا سکتے ہیں کہ اس بندے کا نام یہ ہے تو یہ غالباً مسیحی ہوگا، یہ شاید شیعہ ہو، اس کے نام سے سنّی لگ رہا ہے لیکن جب تک آپ کے پاس ایف آئی آر کی کاپی موجود نہ ہو، مکمل حقائق جاننا ممکن نہیں ہوتا۔ اور اخبارات میں رپورٹنگ نہ ہونے کی وجہ سے کسی بھی کیس کے متعلق تحقیق کرنا کارِ محال ہے"۔

پولیس کے کردار کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایسے متعدد کیسز ہیں جہاں پولیس والے خود مقدمہ درج کرواتے ہیں جب کہ دو کیسز ایسے بھی ہیں جن میں پولیس اہلکار نے خود ہی ملزمان کو قتل بھی کر دیا۔

عائشہ صدیقہ کا کہنا ہے کہ پولیس اہلکاروں کا جانبدار ہونا عین ممکن ہے۔ اگر آپ توہینِ مذہب کے مقدمات دیکھیں تو آپ کو نظر آتا ہے کہ کون سی شقیں زیادہ تر استعمال ہوتی ہیں اور چونکہ ملک میں سنّی اکثریت ہے تو ظاہر ہے پولیس میں بھی اکثریت اسی جماعت کے لوگوں کی ہے۔ بعید از قیاس نہیں کہ وہ بہت سے معاملات میں ایسے واقعات کو نظر انداز کر دیتے ہوں جن میں شیعہ عقائد کے متعلق منافرت پھیلائی جا رہی ہو کیونکہ شیعہ مخالف پراپیگنڈا سے وہ خود بھی متاثر ہوتے ہیں۔

جسٹس جیلانی کے فیصلے پر عملدرآمد میں حکومتیں ناکام

محرم 2020 کے واقعات کے حوالے سے ایک اہم عنصر جس کا ذکر کیا جانا ضروری ہے وہ یہ کہ زیادہ تر مقدمات سوشل میڈیا پر پوسٹس دیکھ کر درج کیے گئے۔ جون 2014 میں جسٹس تصدق حسین جیلانی کی سربراہی میں تین رکنی بنچ نے پاکستانی اقلیتوں پر ہونے والے حملوں پر سو موٹو کیس کے فیصلے میں خصوصاً اس امر کا ذکر کیا تھا کہ سوشل میڈیا پر نفرت انگیز مواد پھیلایا جا رہا ہے۔ فیصلے میں ڈان اخبار کے 9 جون 2014 کے ایک اداریے کا حوالہ دیا گیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ بائٹس فار آل کی ایک تحقیق کے مطابق فیسبک اور ٹوئٹر پر 30 مشہور اکاؤنٹس پر شیعہ، احمدیوں، ہندوؤں، لامذہب افراد، یہودیوں اور خواتین کے خلاف بہت سا مواد موجود تھا۔ فیصلے میں خصوصی طور پر اس کی روک تھام کے لئے اقدامات اٹھانے کا حکم بھی دیا گیا تھا۔ لیکن نظر یہی آتا ہے کہ ریاست اس حکم کو ناقدین کے خلاف استعمال کرتی رہی اور عام طور پر اہل تشیع کے خلاف توہین کے مقدمات درج کرنا تو معمول ہے لیکن مذہبی منافرت پر مبنی بہت سا دوسرا مواد پولیس کی توجہ حاصل نہیں کر پاتا۔

جسٹس جیلانی کا فیصلہ ہو یا نیشنل ایکشن پلان میں دیے گئے نکات، یہ تو واضح ہے کہ اربابِ اقتدار و اختیار کو مسائل کا ادراک ہے۔ لیکن انہیں حل کرنے کی کوئی سعی کرتے یہ دکھائی نہیں دیتے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ معاشرے میں موجود ان نفرتوں اور قانون میں موجود کچھ مذہبی شقوں کو سیاسی مقاصد کی خاطر استعمال کیا جاتا ہے۔ جہاں ایک طرف ریاست کی یہ ذمہ داری ہے کہ ان جرائم کی روک تھام کرے، منافرت پر مبنی تقاریر و تحاریر پر بلا امتیاز کارروائی کرے، وہیں سیاسی جماعتوں اور ریاستی اداروں اور محکموں کو یہ بھی سمجھنا ہوگا کہ یہ آگ بجھائی نہ گئی تو کسی کا بھی گھر محفوظ نہیں رہے گا۔سرکاری محکموں سے ایسے عناصر کی بھی سکریننگ کرنے کی ضرورت ہے جو خود انتہا پسند نظریات رکھتے ہوں۔ تعلیمی نصاب میں بہتری کی ضرورت تھی لیکن یہاں بھی گنگا الٹی بہہ رہی ہے۔ سپریم کورٹ کے احکامات کو نظر انداز کیا جا رہا ہے جب کہ ریاستی ادارے اپنی ہی سفارش پر بنائے گئے نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد پر تیار نہیں۔ سیاسی جماعتیں چھوٹے چھوٹے سیاسی مقاصد کی خاطر تمام اعلیٰ اصولوں کو ایک لمحے میں تیاگنے کے لئے تیار ہو جاتی ہیں۔ ایسے میں دعا کے علاوہ اگر کوئی راستہ ہے تو وہ عوام کا اپنے حقوق کے لئے متحرک ہونا ہی ہے۔ ملک کی اکثریت فرقہ واریت، انتہا پسندی، دہشتگردی اور کافر، کافر کے نعروں سے تنگ ہے۔ جب تک یہ خاموش اکثریت نفرت پھیلانے والے ان مٹھی بھر عناصر کے خلاف اکٹھے اور یکسو نہیں ہوں گے، حالات میں سدھار ممکن نہیں۔

ویب ایڈیٹر

علی وارثی نیا دور میڈیا کے ویب ایڈیٹر ہیں.