تحریکِ لبیک پر PTI اور شیخ رشید کا مؤقف: 2017 بمقابلہ 2021

تحریکِ لبیک پر PTI اور شیخ رشید کا مؤقف: 2017 بمقابلہ 2021
آج سے ٹھیک چار برس قبل جب 2017 میں ووٹوں کی خاطر کالعدم تحریک لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) ختمِ نبوتﷺ کے نعرے کو لے کر مسلم لیگ ن کی حکومت کے خلاف سڑکوں پر نکلی تھی تو تحریکِ انصاف نے نہ صرف اس کی بھرپور حمایت کی تھی بلکہ اس کے تمام تر بیانیے کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہوئے پورا الیکشن انہی نکات پر لڑا تھا جن کا پرچار تحریکِ لبیک کر رہی تھی۔ آج وہ بیانات اور اقدامات جو TLP کی حمایت میں دیے یا کیے گئے، وہ پی ٹی آئی کے اپنے ہی گلے پڑ چکے ہیں۔ ماضی میں اس پرتشدد گروہ کا اسلام کے نام پر دم بھرنے والوں نے اس سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کا اعلان کر دیا ہے۔ فواد چودھری آج کہتے ہیں کسی مائی کے لعل میں اتنی جرات نہیں کہ پاکستانی ریاست کو چیلنج کر سکے۔ وہ یہ بھول رہے ہیں کہ اس وقت بھی ریاستِ پاکستان کے ہی اہم ترین جزو یعنی اس کے قانون ساز ستون پارلیمان کے ایک فیصلے کے خلاف یہ لوگ سڑکوں پر آئے تھے لیکن تب فواد چودھری کے ساتھی کہاں کھڑے تھے؟

عوام جانتے ہیں کہ پی ٹی آئی نے 2018 کے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کا ووٹ بینک توڑنے کے لئے ختم نبوتﷺ کا حساس معاملہ بار بار اٹھایا۔ ان دنوں تحریک اںصاف کے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے تواتر کے ساتھ (ن) لیگ پر جو الزامات عائد کیے گئے ان میں یہ معاملہ اولین تھا۔

اس کے برعکس عمران خان کو صادق اور امین قرار دیتے ہوئے، مدینہ جیسی فلاحی ریاست بنانے، بدعنوان اور کرپٹ افراد کا کڑا احتساب اور سانحہ ماڈل ٹاؤن کے شہیدوں کو انصاف کی فراہمی کا چورن بار بار بیچا گیا۔ اور مخالفین کو ختمِ نبوتﷺ کا 'غدار' قرار دیا گیا۔



کراچی پی ٹی آئی کی ٹکٹ پر رکن قومی اسمبلی منتخب ہونے والے عامر لیاقت حسین اور موجودہ وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید احمد کی انتخابی مہم کی بنیاد ہی ختم نبوتﷺ تھی۔ اس وقت کے انتخابی نعروں اور بینرز کو دیکھا جائے تو ان پر دونوں حضرات کو مجاہدِ ختم نبوتﷺ اور سفیرِ ناموس رسالتﷺ کے القابات سے نوازا گیا تھا۔





پنجاب کی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد کی الیکشن کمپین میں بھی ہمیں یہی صورتحال دیکھنے کو ملتی ہے۔ لاہور کے حلقہ این اے 120 سے انتخابات میں حصہ لینے والی ڈاکٹر یاسمین راشد کے انتخابی بینرز پر تحریر تھا کہ اے مسلمانوں جاگو اور پی ٹی آئی کو ووٹ دے کر انصاف کرو۔ آپ عاشق رسول ﷺ ممتاز قادری (شہید) کو پھانسی دینے والے کو ووٹ دے کر اللہ کو کیا جواب دو گے۔





انتخابات سے ایک سال قبل 2017ء میں جب انتخابی حلف نامے میں ترمیم کا معاملہ اٹھا تو اس وقت کی مسلم لیگ (ن) کی حکومت پر شدید تنقید کی گئی۔ تمام سیاسی پارٹیوں نے محسوس کیا کہ اس معاملے کو چھیڑنا ہی نہیں چاہیے تھا۔ اس وقت وزیر قانون زاہد حامد کو اپنے عہدے سے ہاتھ دھونا پڑے تھے۔

اس معاملے پر نارووال میں مذہبی جماعت کے کارکنوں نے جب احسن اقبال کے دفتر کا گھیراؤ کیا تو پی ٹی آئی رہنما ابرار الحق نے اس کی بھرپور حمایت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ختم نبوتﷺ کی شق کو حلف نامے میں سے حذف کرنے کے معاملے پر احسن اقبال کے آفس کے سامنے دھرنا دینے والے افراد پر تشدد کی پرزور مذمت کرتا ہوں۔ انہوں نے مطالبہ کیا تھا کہ لیگی حکومت ان لوگوں کی بات سنے کیونکہ ان کی ڈیمانڈ بہت ہی جائز ہیں۔ انہوں نے یہاں تک کہا کہ موجودہ حکومت اپنی آخرت خراب کرنے پر تلی ہے۔



انہی دنوں شیخ رشید کی بھی ویڈیو سوشل میڈیا پر خوب وائرل ہوئی جس میں انہوں نے کہا کہ میں حکومت کو آخری وارننگ دینا چاہتا ہوں ورنہ اس ملک میں ایسی تحریک چلے گی کہ حکمرانوں کو ان کی لوٹی ہوئی دولت بھی کام نہیں آئے گی۔



یہاں پر ہی بس نہیں ہوئی۔ 2018 ہی میں سیالکوٹ میں احمدیوں کی ایک عبادتگاہ گرائی گئی تو اس کے لئے لوگوں کو اکٹھا کر کے اس عمارت پر حملہ کرنے میں کلیدی کردار جس شخص نے ادا کیا وہ آج بھی سیالکوٹ کی سیٹ سے جموں کا الیکشن تحریکِ انصاف کی ٹکٹ پر لڑ کر اس وقت اسمبلی میں بیٹھا ہے۔



خود وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے متعدد مواقع پر اس معاملے کو اٹھایا اور اس سے سیاسی پوائنٹ سکورنگ کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ انہوں نے متعدد مرتبہ ختمِ نبوتﷺ کانفرنس سے خطاب کیا اور اس مسئلے کو بار بار اجاگر کیا۔ ان کے اس بیانیے سے تحریکِ لبیک ہی کو فائدہ ملا۔



شیخ رشید صاحب آج اس ماضی سے پیچھا چھڑانا چاہتے ہیں۔ وہ سرِ عام تحریکِ لبیک پاکستان سے اپنی قربتوں کا انکار کرتے پائے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہتے ہیں کہ وہ تو کبھی ان دھرنوں میں شامل ہی نہیں ہوئے۔ لیکن لوگ کہاں چھوڑتے ہیں؟ کیمرے کی آنکھ پر سب کچھ محفوظ اور سوشل میڈیا کے بعد یادداشتیں بھی لوگوں کی بہتر ہو گئی ہیں۔ ذرا یہ ویڈیو دیکھیے۔

https://twitter.com/tahirmughalpml2/status/1453374186244673538

وزیر اعظم عمران خان اس وقت اپوزیشن میں تھے تو کہتے تھے کہ انہوں نے اپنی پارٹی کے کارکنان کو بڑی مشکل سے روک رکھا ہے وگرنہ وہ تو بے تاب ہیں اس دھرنے میں شرکت کے لئے۔



وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی تو اتنے بے تاب ہوئے کہ اپنی جماعت کی پالیسی کو نظر انداز کرتے ہوئے تحریکِ لبیک کے دھرنے میں جا ہی بیٹھے۔



خود عمران خان کے مدح جو صحافت بھی کرتے ہیں، اس وقت تحریکِ لبیک کی شان میں کیا کیا قصیدے کہا کرتے تھے اور پھر ان کے بھی تیور بدلتے دنیا نے دیکھے۔

https://twitter.com/murtazasolangi/status/1453437075911548938

اور کیسے بھولا جا سکتا ہے ہمارے ریاستی اداروں کا کردار کہ جنہوں نے حکومتِ وقت کو ایک جتھے کے ساتھ برابر کر دیا جب یہ کہا کہ 'دونوں اطراف سے تشدد سے گریز کیا جائے'؟ جی ہاں، اس وقت کے ڈی جی آئی ایس پی آر کی یہ ٹوئیٹ ملاحظہ کیجیے۔



اور رینجرز سے ان میں پیسے تقسیم کروائے جا رہے تھے۔

https://twitter.com/SindhiDoctrine/status/1453414084486045696

ایسا نہیں کہ کوئی سمجھانے والا نہیں تھا۔ ملک بھر میں لوگ، سینیئر صحافی، تاریخ دان، تجزیہ کار اپوزیشن کو سمجھاتے رہے کہ مت کرو انہیں اس قدر طاقتور، یہ کل کو تمہارے سامنے بھی آئیں گے۔ لیکن اس وقت کی اپوزیشن کے سر پر بس ہر حال میں اقتدار حاصل کرنے کی دھن سوار تھی۔ مزمل سہروردی نے نیا دور کے پروگرام خبر سے آگے میں بات کرتے ہوئے آج کہا کہ ہاتھوں کی باندھی ہوئی دانتوں سے کھولنی پڑتی ہیں۔ آج حکومت کو وہ کھولنی پڑ رہی ہیں۔ آج اپوزیشن وہ سب نہیں کر رہی۔ لیکن امید ہی کی جا سکتی ہے کہ دوبارہ کبھی اپوزیشن میں ہوئی تو تحریکِ انصاف یہ سب نہیں کرے گی جو وہ ماضی میں کرتی رہی ہے۔