• آن لائن اشتہاری ٹیرف
  • رابطہ کریں
  • ہمارے بارے میں
  • ہمارے لئے لکھیں
  • نیا دور انگریزی میں
جمعہ, مارچ 24, 2023
نیا دور
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English
No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English
No Result
View All Result
نیا دور
No Result
View All Result

‘گوادر کو حق دو’ تحریک کی سرگرم کارکن ماسی زینب بلوچ

ماسی زینب بلوچ کا کہنا ہے کہ وہ اپنے حقوق اور معاش کے لیے نکلے ہیں، اس میں مرد اور عورت کی تفریق کیسی؟ وہ کہتی ہیں کہ "بلوچ خواتین کی مزاحمت میں ایک بہت بڑی تاریخ ہے ہم یہ یقین دلاتے ہیں کہ ہم پیچھے ہٹنے والوں میں سے نہیں ہیں۔ ہم اپنی روایات اور مزاحمت کو ایک ساتھ لے کر چل سکتے ہیں"

جاوید بلوچ by جاوید بلوچ
دسمبر 3, 2021
in فیچر
289 3
0
‘گوادر کو حق دو’ تحریک کی سرگرم کارکن ماسی زینب بلوچ
340
SHARES
1.6k
VIEWS
Share on FacebookShare on TwitterShare on Whatsapp

زینب بلوچ کو محلے والے ماسی زینی کہہ کر پکارتے ہیں، محلے میں کوئی بھی مسئلہ ہو، کہیں فوتگی یا خوشی، تو ماسی زینب سب سے پہلے پہنچ جاتی ہے کیونکہ زینب کے بقول یہ زندگی کس کام کی اگر کسی کے کام نہ آ سکو۔ لیکن ماسی زینب اس وقت اپنے محلے “مُلا بند” کے لوگوں کی ماسی نہیں بلکہ مکران و بلوچستان بھر کے لوگوں کے لیے ماسی زینی بن چکی ہیں۔ ان کی شہرت کی وجہ گوادر میں حالیہ عوامی تحریک ہے جس میں ماسی زینب بلوچ ایک رضا کار کے طورپر پچھلے اٹھارہ دنوں سے دھرنے پر بیٹھے مظاہرین کے لیے کھانا بنانے کے علاوہ، گوادر عوامی تحریک کی ایک سرگرم کارکن بلکہ اب ایک لیڈر بن چکی ہیں۔

RelatedPosts

گوادر حق دو تحریک پر جماعت اسلامی کے قبضے کیخلاف احتجاج

“حق دو تحریک” نے گوادر میں بلدیاتی انتخابات میں کامیابی کیسے حاصل کی؟

Load More

29 نومبر کو گوادر حق دو تحریک کی جانب سے ہزاروں خواتین نے ریلی نکالی۔ یہ احتجاجی ریلی بلوچستان میں خواتین کی اس تعداد میں باہر نکلنے کی وجہ سے اس ریلی کو تاریخی ریلی قرار دیا جارہا ہے۔ اس احتجاج میں زینب بلوچ نے پہلی دفعہ ہزاروں کے مجمعے سے خطاب کیا جس میں انھوں نے ریاست سے مخاطب ہوکر کہا کہ اب ظلم بند کرو، ہمارا معاشی استحصال کرنے سے باز آجاؤ، ہمارے لاپتہ بچوں کو بازیاب کرو اور ڈرو اس دن سے جب ہم عورتیں سروں پر کفن باندھ کر نکلیں گی۔

ماسی زینب بلوچ کے انٹریو کے لیے جب ہم ان کے محلے میں گئے کہ کسی سے ان کے گھر کا پتہ پوچھ لیں، اتنے میں وہ خود ایک ہاتھ میں پلاسٹک کی تھلیاں اور دوسرے ہاتھ میں ایک بوتل ڈیزل لیے گلی میں جارہی تھیں۔ وہ ابھی تندور گرم کرنے جارہی ہیں کیونکہ نماز عصر کے بعد وہ دھرنے کے مظاہرین کے لیے روٹیاں لگائیں گی۔ زینب بلوچ نے نیا دور سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انھیں اس قدر مجبور کیا گیا ہے کہ اب وہ مزاحمت کر رہی ہیں۔

اس سوال کے جواب میں کہ ان کی کیا مجبوریاں ہیں؟ وہ کہتی ہیں کہ “ریاست اور ہمارے نام نہاد نمائندگان پچھلے ستر سالوں سے ہمارا استحصال کر رہے ہیں، ہمیں تعلیم، صحت اور روزگار تو پہلے سے نہیں دیے جاتے تھے مگر اب ہمارے اپنے آبائی پیشہ ماہی گیری پر بھی قدغنیں لگا دی گئی ہیں، ہفتوں تک ہمارے گھروں میں فاقہ ہوتا ہے کیونکہ سمندری ڈاکوؤں نے ہمارے سمندر کو تاراج کیا ہے”

زینب بلوچ کو اب یہ بات ایک مذاق لگتی ہے کہ گوادر ترقی کر رہا ہے اور انھیں سی پیک کا نام سن کر ایسا لگتا ہے جیسے کوئی ان کے زخموں پر نمک چڑھک رہا ہو کیونکہ ان کے گھروں کے چولہے بُجھ چکے ہیں، سمندر بانج بن چکا ہے اور وہ بدحالی کی زندگی گزار رہے ہیں۔

ماسی زینب کہتی ہے کہ ہم بھی اپنی نئی نسل اور بچوں کو پڑھانا چاہتے ہیں لیکن اگر روزگار ہی نہیں ہوگا تو بھوکے بچے کیا پڑھیں گے؟

زینب سے جب پوچھا گیا کہ وہ خواتین کی ریلی میں کیوں شریک ہوئیں؟ وہ کہتی ہیں کہ”ہم حمل جیہند کی ماؤں میں سے ہیں، مزاحمت تو ہمارے خون میں ہے مگر مردوں کو یہ گوارہ نہیں تھا کہ ہم بھی نکلیں، آج جب وہ اٹھارہ دنوں سے سردی پر دن رات دھرنہ دیے ہوئے ہیں تو ہمیں کیسے گوارہ ہو کہ ہم گھروں میں سکون کے ساتھ رہ سکیں؟ جب حمل نے طاقت ور پرتگیزیوں سے شکست تسلیم کرنے کی بجائے شہید ہوکر ہمارے ساحل و سمندر کی حفاظت کی تو ہم ٹرالر مافیا کے خلاف خاموش کیوں رہیں؟ ہم بولیں گے، مزاحمت کریں گے اور وقت آنے پر دوپٹوں کے اوپر کفن بھی باندھ کر نکلیں گے”

زینب بلوچ سے گفتگو کے دوران پتہ چلا کہ نہ صرف وہ ایک مزاحمت کار و سرگرم سماجی کارکن ہیں بلکہ وہ ایک شاعرہ بھی ہیں حالانکہ انھوں نے اسکول نہیں پڑھا ہے۔ انھوں نے اس عوامی تحریک کے سربراہ مولانا ہدایت الرحمٰن کے نام ایک نظم بھی کہی، وہ کہتی ہیں کہ

مولانا! دعا ترا بی بی فاطمہ گون بات
زور ترا حضرت ءِ علی مان بات
تو مہ بج کہ بجگی بھادرے نہ ئے
مڑاھے اتکگ انت ریش زنوک ءَ تئی
اے مہ بنت ساھگ بگیر ءِ کوش ءَ تئی
تو ھما کشتی یے حضرت ءِ نوح یے
تو لُڈ ئے لُڈ ئے تو نہ بُڈ ئے
مئے ماتانی دعا ترا گون انت
ترجمہ:
مولانا! بی بی فاطمہ کی دعائیں اور حضرت علی کی طاقت تمھارے ساتھ ہو
پیچھے نہ ہٹنا کہ یہ اب تمھاری بہادری پر عیب ہے
بڑی ناز سے نکلی ہیں یہ داڑھی یہ اب تمھاری موت تک تمھاری آبرو بن کر ساتھ رہیں گے
تم حضرت نوح کی کشتی کی طرح موجوں کا مقابلہ کروگے
ہم ماؤں کی دعائیں تمھارے ساتھ ہیں
(اگر اس نظم کے ترجمے میں کوتاہی یا کمی ہوئی ہو تو زینب بلوچ سے معذرت)

دوہفتوں سے زیادہ ہوگئے ہیں کہ جب سے زینب بلوچ دھرنے کے شرکاء کے لیے کھانا بناتی ہیں۔ ان کے بقول کچھ لوگوں نے کہا ہے کہ یہ لوگ اب تھک چکے ہیں لیکن ان کے حوصلے اب بھی بلند ہیں۔

نماز عصر کے بعد وہ اب آٹا گھوندنے والی ہے، تندور بھی گرم ہورہا ہے اور اب تھوڑی دیر میں محلے کی دوسری عورتیں بھی ان کے گھر میں جمع ہونگی جہاں وہ روزانہ کم از کم ایک وقت میں اسی کلو آٹا گھوند کر روٹیاں لگاتی ہیں۔ زینب اس کام سے خوش ہیں کہ وہ کسی نا کسی طرح اس تحریک کا حصہ ہیں۔

زینب کہتی ہیں کہ یہ عقیدوں اور ایمان کی بات ہے۔ اگر نیتیں صاف ہوں تو کعبہ کا طواف بھی مرد اور عورتیں ساتھ ساتھ کرتے ہیں تو اس تحریک میں بھی وہ اپنے حقوق اور معاش کے لیے نکلے ہیں، اس میں مرد اور عورت کی تفریق کیسی؟ وہ کہتی ہیں کہ “بلوچ خواتین کی مزاحمت میں ایک بہت بڑی تاریخ ہے ہم یہ یقین دلاتے ہیں کہ ہم پیچھے ہٹنے والوں میں سے نہیں ہیں۔ ہم اپنی روایات اور مزاحمت کو ایک ساتھ لے کر چل سکتے ہیں”

زینب اب خوش ہیں کہ پچھلے کچھ دنوں سے اس تحریک کی وجہ سے ٹرالر مافیا ان کے سمندر سے کچھ دور نکل گئے تو ان کے ہاں معاشی خوش حالی کے آثار دکھنا شروع ہوگئے ہیں۔ ان کے بچے جب سمندر سے لوٹتے ہیں تو ان کے چہروں پر خوشی دیکھ کر انھیں بھی سکون ملتا ہے۔

ماسی زینب کہتی ہیں کہ اگر اسی طرح ہمیں ہماری سمندر ماتا میں روزگار حاصل کرنے دیا جائے تو ہمیں سرکار کے روزگار کی ضرورت بھی نہیں، اگر سمندر آباد رہے گا تو ہم ماہی گیر آباد رہیں گے۔ وہ کہتی ہیں کہ “اگر سمندر میں روزگار ہوگا تو ہمارے بچے منشیات اور مایوسی سے بچے رہیں گے۔ ہمیں کچھ نہیں چاہیے لیکن ہمیں یہ بھی برداشت نہیں کہ غیر مقامی ڈاکو بلا روک ٹوک آزادی کے ساتھ ہمارے سمندر کو تاراج کریں اور ہمارے بچے بھوکے سوئیں”

Tags: گوادر حقوق تحریکگوادر کو حق دوگودار کے باسیوں کا احتجاجماسی زینب بلوچمولانا ہدایت الرحمان
Previous Post

سموگ کا عذاب جھیل رہے لاہوریوں کیلئے خوشخبری، بارش کا امکان

Next Post

کیا دنیا میں کوئی تباہی ہونے والی ہے؟

جاوید بلوچ

جاوید بلوچ

لکھاری بلوچستان کے شہر گوادر سے تعلق رکھتے ہیں اور صحافت کے طالبعلم ہیں۔

Related Posts

انگریز سامراج کے خلاف آزادی کی جنگ لڑنے والا بھگت سنگھ ہمارا ہیرو کیوں نہیں بن سکا؟

انگریز سامراج کے خلاف آزادی کی جنگ لڑنے والا بھگت سنگھ ہمارا ہیرو کیوں نہیں بن سکا؟

by خضر حیات
مارچ 23, 2023
0

آج 23 مارچ کا دن ہے اور اسے ہم قرار داد پاکستان کے حوالے سے یاد کرتے ہیں۔ 1940 میں اسی روز...

گورنر جنرل غلام محمد جنہوں نے سیاست میں فوجی اور عدالتی مداخلت کی بنیاد رکھی

گورنر جنرل غلام محمد جنہوں نے سیاست میں فوجی اور عدالتی مداخلت کی بنیاد رکھی

by خضر حیات
مارچ 21, 2023
0

پاکستان کی تاریخ میں کئی ڈرامائی کردار آئے اور عجیب و غریب کرتب دکھا کر منظر عام سے ہٹتے چلے گئے۔ انہی...

Load More
Next Post
کیا دنیا میں کوئی تباہی ہونے والی ہے؟

کیا دنیا میں کوئی تباہی ہونے والی ہے؟

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تلاش کریں

No Result
View All Result

ایڈیٹر کی پسند

ہائبرڈ دور میں صحافت پر حملے؛ ذمہ دار عمران خان یا جنرل باجوہ؟ (پارٹ 1)

ہائبرڈ دور میں صحافت پر حملے؛ ذمہ دار عمران خان یا جنرل باجوہ؟ (پارٹ 1)

by شاہد میتلا
مارچ 22, 2023
1

...

معاشی لحاظ سے پاکستان کس طرح خود انحصاری حاصل کر سکتا ہے؟

معاشی لحاظ سے پاکستان کس طرح خود انحصاری حاصل کر سکتا ہے؟

by ہارون خواجہ
مارچ 18, 2023
1

...

عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین جاری کھیل آخری مرحلے میں داخل ہو چکا؟

عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین جاری کھیل آخری مرحلے میں داخل ہو چکا؟

by رضا رومی
مارچ 20, 2023
0

...

توشہ خانہ فہرست شریف خاندان میں دراڑ نہیں، شاہد خاقان کی علیحدگی کا اعلان ہے

توشہ خانہ فہرست شریف خاندان میں دراڑ نہیں، شاہد خاقان کی علیحدگی کا اعلان ہے

by مزمل سہروردی
مارچ 15, 2023
0

...

جنرل فیض حمید

نواز شریف کو نکالنے کے ‘پروجیکٹ’ میں باجوہ اور فیض کے علاوہ بھی جرنیل شامل تھے، اسد طور نے نام بتا دیے

by نیا دور
مارچ 14, 2023
0

...

Newsletter

ہماری مدد کریں

ٹویٹس - NayaDaur Urdu

نیا دور کے صفِ اوّل کے مصنفین

پیٹر جیکب
پیٹر جیکب
View Posts →
حسن مجتبیٰ
حسن مجتبیٰ
View Posts →
عرفان صدیقی
عرفان صدیقی
View Posts →
نجم سیٹھی
نجم سیٹھی
View Posts →
نبیلہ فیروز
نبیلہ فیروز
View Posts →
محمد شہزاد
محمد شہزاد
View Posts →
توصیف احمد خان
توصیف احمد خان
View Posts →
رفعت اللہ اورکزئی
رفعت اللہ اورکزئی
View Posts →
فوزیہ یزدانی
فوزیہ یزدانی
View Posts →
حسنین جمیل
حسنین جمیل
View Posts →
مرتضیٰ سولنگی
مرتضیٰ سولنگی
View Posts →
اسد علی طور
اسد علی طور
View Posts →
ادریس بابر
ادریس بابر
View Posts →
رضا رومی
رضا رومی
View Posts →
علی وارثی
علی وارثی
View Posts →

This message is only visible to admins.
Problem displaying Facebook posts.
Click to show error
Error: Server configuration issue

خبریں، تازہ خبریں

  • All
  • انٹرٹینمنٹ
  • سیاست
  • ثقافت
کم از کم اجرت 20 ہزار، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ: بجٹ 2021 پیش کر دیا گیا

اقتدار کے ایوانوں سے جلد کسی ‘بڑی چھٹی’ کا امکان ہے؟

اکتوبر 31, 2021
ہمیں نفرت اور مذہب کے بیوپاریوں کی نہیں، دھانی اور دھونی جیسے ہیروز کی ضرورت ہے

ہمیں نفرت اور مذہب کے بیوپاریوں کی نہیں، دھانی اور دھونی جیسے ہیروز کی ضرورت ہے

اکتوبر 27, 2021
بد ترین کارکردگی پر الیکشن نہیں جیتا جاسکتا، صرف ای وی ایم کے ذریعے جیتا جاسکتا ہے

ای وی ایم اور انتخابات: ‘خان صاحب سمندر پار پاکستانیوں کے ووٹ لینے کے لیئے بے تاب ہیں’

اکتوبر 24, 2021

Naya Daur © All Rights Reserved

No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English

Naya Daur © All Rights Reserved

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password?

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In