'گوادر کو حق دو' تحریک کی سرگرم کارکن ماسی زینب بلوچ

'گوادر کو حق دو' تحریک کی سرگرم کارکن ماسی زینب بلوچ
زینب بلوچ کو محلے والے ماسی زینی کہہ کر پکارتے ہیں، محلے میں کوئی بھی مسئلہ ہو، کہیں فوتگی یا خوشی، تو ماسی زینب سب سے پہلے پہنچ جاتی ہے کیونکہ زینب کے بقول یہ زندگی کس کام کی اگر کسی کے کام نہ آ سکو۔ لیکن ماسی زینب اس وقت اپنے محلے "مُلا بند" کے لوگوں کی ماسی نہیں بلکہ مکران و بلوچستان بھر کے لوگوں کے لیے ماسی زینی بن چکی ہیں۔ ان کی شہرت کی وجہ گوادر میں حالیہ عوامی تحریک ہے جس میں ماسی زینب بلوچ ایک رضا کار کے طورپر پچھلے اٹھارہ دنوں سے دھرنے پر بیٹھے مظاہرین کے لیے کھانا بنانے کے علاوہ، گوادر عوامی تحریک کی ایک سرگرم کارکن بلکہ اب ایک لیڈر بن چکی ہیں۔



29 نومبر کو گوادر حق دو تحریک کی جانب سے ہزاروں خواتین نے ریلی نکالی۔ یہ احتجاجی ریلی بلوچستان میں خواتین کی اس تعداد میں باہر نکلنے کی وجہ سے اس ریلی کو تاریخی ریلی قرار دیا جارہا ہے۔ اس احتجاج میں زینب بلوچ نے پہلی دفعہ ہزاروں کے مجمعے سے خطاب کیا جس میں انھوں نے ریاست سے مخاطب ہوکر کہا کہ اب ظلم بند کرو، ہمارا معاشی استحصال کرنے سے باز آجاؤ، ہمارے لاپتہ بچوں کو بازیاب کرو اور ڈرو اس دن سے جب ہم عورتیں سروں پر کفن باندھ کر نکلیں گی۔



ماسی زینب بلوچ کے انٹریو کے لیے جب ہم ان کے محلے میں گئے کہ کسی سے ان کے گھر کا پتہ پوچھ لیں، اتنے میں وہ خود ایک ہاتھ میں پلاسٹک کی تھلیاں اور دوسرے ہاتھ میں ایک بوتل ڈیزل لیے گلی میں جارہی تھیں۔ وہ ابھی تندور گرم کرنے جارہی ہیں کیونکہ نماز عصر کے بعد وہ دھرنے کے مظاہرین کے لیے روٹیاں لگائیں گی۔ زینب بلوچ نے نیا دور سے بات کرتے ہوئے کہا کہ انھیں اس قدر مجبور کیا گیا ہے کہ اب وہ مزاحمت کر رہی ہیں۔

اس سوال کے جواب میں کہ ان کی کیا مجبوریاں ہیں؟ وہ کہتی ہیں کہ "ریاست اور ہمارے نام نہاد نمائندگان پچھلے ستر سالوں سے ہمارا استحصال کر رہے ہیں، ہمیں تعلیم، صحت اور روزگار تو پہلے سے نہیں دیے جاتے تھے مگر اب ہمارے اپنے آبائی پیشہ ماہی گیری پر بھی قدغنیں لگا دی گئی ہیں، ہفتوں تک ہمارے گھروں میں فاقہ ہوتا ہے کیونکہ سمندری ڈاکوؤں نے ہمارے سمندر کو تاراج کیا ہے"

زینب بلوچ کو اب یہ بات ایک مذاق لگتی ہے کہ گوادر ترقی کر رہا ہے اور انھیں سی پیک کا نام سن کر ایسا لگتا ہے جیسے کوئی ان کے زخموں پر نمک چڑھک رہا ہو کیونکہ ان کے گھروں کے چولہے بُجھ چکے ہیں، سمندر بانج بن چکا ہے اور وہ بدحالی کی زندگی گزار رہے ہیں۔

ماسی زینب کہتی ہے کہ ہم بھی اپنی نئی نسل اور بچوں کو پڑھانا چاہتے ہیں لیکن اگر روزگار ہی نہیں ہوگا تو بھوکے بچے کیا پڑھیں گے؟

زینب سے جب پوچھا گیا کہ وہ خواتین کی ریلی میں کیوں شریک ہوئیں؟ وہ کہتی ہیں کہ"ہم حمل جیہند کی ماؤں میں سے ہیں، مزاحمت تو ہمارے خون میں ہے مگر مردوں کو یہ گوارہ نہیں تھا کہ ہم بھی نکلیں، آج جب وہ اٹھارہ دنوں سے سردی پر دن رات دھرنہ دیے ہوئے ہیں تو ہمیں کیسے گوارہ ہو کہ ہم گھروں میں سکون کے ساتھ رہ سکیں؟ جب حمل نے طاقت ور پرتگیزیوں سے شکست تسلیم کرنے کی بجائے شہید ہوکر ہمارے ساحل و سمندر کی حفاظت کی تو ہم ٹرالر مافیا کے خلاف خاموش کیوں رہیں؟ ہم بولیں گے، مزاحمت کریں گے اور وقت آنے پر دوپٹوں کے اوپر کفن بھی باندھ کر نکلیں گے"



زینب بلوچ سے گفتگو کے دوران پتہ چلا کہ نہ صرف وہ ایک مزاحمت کار و سرگرم سماجی کارکن ہیں بلکہ وہ ایک شاعرہ بھی ہیں حالانکہ انھوں نے اسکول نہیں پڑھا ہے۔ انھوں نے اس عوامی تحریک کے سربراہ مولانا ہدایت الرحمٰن کے نام ایک نظم بھی کہی، وہ کہتی ہیں کہ

مولانا! دعا ترا بی بی فاطمہ گون بات
زور ترا حضرت ءِ علی مان بات
تو مہ بج کہ بجگی بھادرے نہ ئے
مڑاھے اتکگ انت ریش زنوک ءَ تئی
اے مہ بنت ساھگ بگیر ءِ کوش ءَ تئی
تو ھما کشتی یے حضرت ءِ نوح یے
تو لُڈ ئے لُڈ ئے تو نہ بُڈ ئے
مئے ماتانی دعا ترا گون انت
ترجمہ:
مولانا! بی بی فاطمہ کی دعائیں اور حضرت علی کی طاقت تمھارے ساتھ ہو
پیچھے نہ ہٹنا کہ یہ اب تمھاری بہادری پر عیب ہے
بڑی ناز سے نکلی ہیں یہ داڑھی یہ اب تمھاری موت تک تمھاری آبرو بن کر ساتھ رہیں گے
تم حضرت نوح کی کشتی کی طرح موجوں کا مقابلہ کروگے
ہم ماؤں کی دعائیں تمھارے ساتھ ہیں
(اگر اس نظم کے ترجمے میں کوتاہی یا کمی ہوئی ہو تو زینب بلوچ سے معذرت)

دوہفتوں سے زیادہ ہوگئے ہیں کہ جب سے زینب بلوچ دھرنے کے شرکاء کے لیے کھانا بناتی ہیں۔ ان کے بقول کچھ لوگوں نے کہا ہے کہ یہ لوگ اب تھک چکے ہیں لیکن ان کے حوصلے اب بھی بلند ہیں۔

نماز عصر کے بعد وہ اب آٹا گھوندنے والی ہے، تندور بھی گرم ہورہا ہے اور اب تھوڑی دیر میں محلے کی دوسری عورتیں بھی ان کے گھر میں جمع ہونگی جہاں وہ روزانہ کم از کم ایک وقت میں اسی کلو آٹا گھوند کر روٹیاں لگاتی ہیں۔ زینب اس کام سے خوش ہیں کہ وہ کسی نا کسی طرح اس تحریک کا حصہ ہیں۔



زینب کہتی ہیں کہ یہ عقیدوں اور ایمان کی بات ہے۔ اگر نیتیں صاف ہوں تو کعبہ کا طواف بھی مرد اور عورتیں ساتھ ساتھ کرتے ہیں تو اس تحریک میں بھی وہ اپنے حقوق اور معاش کے لیے نکلے ہیں، اس میں مرد اور عورت کی تفریق کیسی؟ وہ کہتی ہیں کہ "بلوچ خواتین کی مزاحمت میں ایک بہت بڑی تاریخ ہے ہم یہ یقین دلاتے ہیں کہ ہم پیچھے ہٹنے والوں میں سے نہیں ہیں۔ ہم اپنی روایات اور مزاحمت کو ایک ساتھ لے کر چل سکتے ہیں"

زینب اب خوش ہیں کہ پچھلے کچھ دنوں سے اس تحریک کی وجہ سے ٹرالر مافیا ان کے سمندر سے کچھ دور نکل گئے تو ان کے ہاں معاشی خوش حالی کے آثار دکھنا شروع ہوگئے ہیں۔ ان کے بچے جب سمندر سے لوٹتے ہیں تو ان کے چہروں پر خوشی دیکھ کر انھیں بھی سکون ملتا ہے۔

ماسی زینب کہتی ہیں کہ اگر اسی طرح ہمیں ہماری سمندر ماتا میں روزگار حاصل کرنے دیا جائے تو ہمیں سرکار کے روزگار کی ضرورت بھی نہیں، اگر سمندر آباد رہے گا تو ہم ماہی گیر آباد رہیں گے۔ وہ کہتی ہیں کہ "اگر سمندر میں روزگار ہوگا تو ہمارے بچے منشیات اور مایوسی سے بچے رہیں گے۔ ہمیں کچھ نہیں چاہیے لیکن ہمیں یہ بھی برداشت نہیں کہ غیر مقامی ڈاکو بلا روک ٹوک آزادی کے ساتھ ہمارے سمندر کو تاراج کریں اور ہمارے بچے بھوکے سوئیں"

لکھاری بلوچستان کے شہر گوادر سے تعلق رکھتے ہیں اور صحافت کے طالبعلم ہیں۔