'جب طالبان نے ہمارے اساتذہ کو دھمکیاں دیں کہ اگر لڑکیوں کی تعلیم جاری رکھی تو نتائج بھگتنا پڑیں گے'

'جب طالبان نے ہمارے اساتذہ کو دھمکیاں دیں کہ اگر لڑکیوں کی تعلیم جاری رکھی تو نتائج بھگتنا پڑیں گے'
"یہ میرے لیے اپنے آبائی گاوٴں سوات سے جڑے رہنے کا ایک ذریعہ ہے، سوات جسے میں اکثر اپنے خوابوں میں دیکھتی ہوں،" خانزہ گل نے اپنی سوات کی دستکاری کی رنگین چیزیں دکھاتے ہوئے کہا۔ اسکی آنکھوں میں اداسی مگر ہونٹوں پہ مسکراہٹ تھی۔

خانزہ گل سے میری ملاقات ایک باہمی دوست کے توسط سے ہوئی۔ وہ اپنی سوات کی دستکاری کی اشیاء کو آن لائن متعارف کرانے کے لیے کچھ پیشہ ورانہ مدد چاہتی تھی۔

مگر ایسی کیا چیز تھی جو 22سالہ خانزہ کو لاہور لے آئی جبکہ وہ اپنے علاقے سوات کو اس قدر یاد کرتی تھی، میں پوچھے بنا نہ رہ سکی۔

"یہ ایک بہت لمبی داستان ہے۔ جنگ کی داستان، دہشتگردی کی داستان، تنازعات کی داستان، اپنے وطن سے نکالے جانے کی داستان" خانزہ نے اپنی بھراتی ہوئی آواز پر قابو پانے کی کوشش کی۔

خانزہ لاہور کے شمالی حصے میں ایک کپڑے کی فیکٹری میں کام کرتی ہے۔ اس کا آبائی گاوٴں وادی سوات کے ہیڈکوارٹر مینگورہ کے دامن میں واقع ہے۔ آخری بار وہ 2018 میں ایک دن کے سفر پر وہاں گئی تھی۔ وہ ایک مقامی باغ کے مالک کے گھر پیدا ہوئی تھی۔ اس نے اپنی زندگی کے 10 سال اپنے بھائی اور والدین کے ساتھ اس علاقے میں گزارے تھے۔ وہ اپریل 2009 کو یاد کرتی ہے۔ طوفان سے پہلے والے سکون کو، وادی سوات موسم بہار کے پھولوں سے مہک رہی تھی، لیکن سیاحوں نے ابھی تک وہاں آنا شروع نہیں کیا تھا۔

"میں گاؤں کے پرائمری سکول میں پانچویں جماعت میں پڑھتی تھی۔ میرے بہت سے دوست تھے جن کے نام مجھے آج تک یاد ہیں۔ مجھے اپنے تمام اساتذہ بہت پسند تھے، خاص طور پر مس افشاں یوسفزئی۔ انہوں نے ہمارے لیے سکول کو دوسرے گھر کی طرح بنا دیا تھا۔ ہمیں سکول جانا اس قدر پسند تھا کہ چھٹیوں اور خاص طور پر سردیوں کی طویل تعطیلات سے جان جاتی تھی۔ اگرچہ ہم سب ایک ہی بستی میں رہتے تھے اور ایک دوسرے سے مل سکتے تھے مگر سکول کی طرح طویل وقت ساتھ نہیں گزار سکتے تھے،" خانزہ گل پرجوش انداز میں بتا رہی تھی۔ اس کے اس جوش نے ہمیں بھی پرجوش کردیا تھا۔

سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا۔ زندگی حسین اور پرسکون تھی مگر یہ سکون دائمی نہ تھا۔ پہلی بار 2007میں خانزہ نے قریبی شہر مینگورہ میں طالبان اور فوجی موجودگی کے بارے میں سنا تھا۔

"اس خبر نے ہمیں زیادہ پریشان نہیں کیا کیونکہ ہمارا گاؤں ایک پرامن علاقہ میں تھا۔ تاہم، 2009 کے آغاز تک سب کچھ یکسر بدل گیا۔ طالبان نے ہمارے گاؤں پر چھاپے مارنے شروع کر دیے تھے۔ وہ ہمارے اساتذہ کو دھمکیاں دیتے کہ اگر لڑکیوں کی تعلیم جاری رکھی تو نتائج بھگتنا پڑیں گے۔ ہمارے اساتذہ نے سکول آنا چھوڑ دیا تھا اور نتیجتاً ہمیں بھی گھر پر ہی رکنا پڑا۔ پھر ایک رات ہم نے دھماکے اور گولہ باری کی آوازیں سن کر گزاری۔ اگلی ہی صبح ہم مردان کے قریب بے گھر لوگوں کے کیمپ کے لیے اپنے گاؤں سے نکل گئے،" اس کے چہرے کے تاثرات پر اب جوش کی جگہ تکلیف نے لے لی تھی۔

"کیمپ کی زندگی بہت مشکل تھی، یہاں گھر جیسا بالکل محسوس نہیں ہوتا تھا۔ خیموں میں گنجائش سے زیادہ لوگ تھے۔ رہنے کا انتظام بھی اچھا نہ تھا۔ کیمپ ایریا میں سیکورٹی سخت تھی۔۔ وہاں موجود ہر خاندان کے پاس پورا دن رونے اور صرف رونے کی ٹھوس وجوہات تھیں۔ میرے سکول پر بھی بمباری کی گئی تھی، ہمارے کچھ پڑوسیوں کو بھی دہشت گردوں نے اٹھا لیا تھا۔ ہر طرف خوف کا عالم تھا۔ میں بھی اکثر روتی رہتی تھی،" اس نے بات کو جاری رکھا۔

لوگوں نے چھ ماہ کا عرصہ کیمپ میں گزارا۔ کس تکلیف اور مشکل کے ساتھ؟ یہ بس وہی جانتے ہیں۔ چھ ماہ بعد انہیں کیمپوں سے جانے کی اجازت دے دی گئی مگر زندگی کا پرانے ڈگر پہ آنا ممکن نہ تھا۔

"جب ہم گاؤں واپس پہنچے تو یہ بالکل پہلے جیسا نہ تھا۔ وہاں سب کچھ بالکل بدل گیا تھا۔ ہمارا باغ تباہ ہو چکا تھا۔ یہاں تک کہ ہمارا گھر بھی رہنے کے قابل نہیں رہا تھا۔ میرے ابو نے ایک مقامی مدرسے کے آدمی کو زمین بیچ دی اور ہمیں لاہور لے آئے۔ یہاں انہوں نے چائے کا ایک کھوکھا لگایا اور مجھے سلائی مرکز میں داخل کرادیا،" خانزہ گل نے آہ بھری۔

تب سے یہ لوگ لاہور میں ہی رہ رہے ہیں، یہاں نہ تو سوات والی رنگینیاں ہیں اور نہ ہی اپنے گھر والا سکون۔ سال میں ایک بار اپنے علاقے کو دیکھنے کے لیے جاتے ہیں۔

"میں لاہور میں اپنی سوات کی دستکاری کے ذریعے اچھا خاصا کما لیتی ہوں مگر میں اکثر سوچتی ہوں کہ جنگ نے کیسے میری زندگی بدل دی۔ میں اپنی تعلیم جاری نہ رکھ سکی۔ اگر ہم گاؤں میں ہوتے تو میں بہتر تعلیم یافتہ ہوتی۔"

مصنّفہ منٹ مرر سے وابسطہ ہیں۔ اس سے قبل دنیا نیوز، جی این این، دی نیشن اور ڈیلی ٹائمز کے ڈیجیٹل ڈیسک سے منسلک رہ چکی ہیں، سوشل ایشوز اور انٹرنیشنل ریلیشنز میں خاص دلچسپی رکھتی ہیں۔