پاکستان میں بیت الخلا سے محروم ایک کروڑ 60 لاکھ لوگوں کا المیہ

پاکستان میں بیت الخلا سے محروم ایک کروڑ 60 لاکھ لوگوں کا المیہ
پاکستان میں آج بھی 4 کروڑ 40 لاکھ ایسے افراد ہیں جنہیں ہاتھ دھونے کا یا تو شعور نہیں یا صابن کی سہولت میسر نہیں ہے، جس کے نتیجے میں سالانہ چار کروڑ افراد ڈائریا کا شکار ہوتے ہیں جبکہ پانچ سال سے کم عمر کے انیس ہزار پانچ سو بچے اسہال کی وجہ سے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔
43 فیصد بچے ہاتھ نہ دھونے کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بیماریوں کی وجہ سے سکولوں سے غیر حاضر رہتے ہیں۔ اسی طرح ملک میں ایک کروڑ ساٹھ لاکھ ایسے افراد بھی ہیں جنہیں بیت الخلا کی بنیادی سہولت ہی میسر نہیں ہے۔
یہ افراد کھلی جگہوں پر اپنی رفع حاجت پوری کرتے ہیں۔ چھ کروڑ ساٹھ لاکھ ایسے بھی شہری ہیں جنہیں بیت الخلا کی مناسب سہولت میسر نہیں ہے۔ پاکستان میں صحت، صفائی اور پینے کے پانی پر کام کرنے والی مختلف آرگنائزیشنز کی رپورٹ کا جائزہ لینے کے بعد حیران کن انکشافات سامنے آئے ہیں۔
پائیدار ترقی کے اہداف چھ کے مطابق پینے کے صاف پانی کی تمام شہریوں کو فراہمی، رفع حاجت کیلئے مناسب بندوبست اور ہاتھ دھونے کی عادات اور سہولیات فراہم کرنے کیلئے 2030ء تک تمام اقدامات کوعملی شکل دینا ہے لیکن پاکستان میں مقامی حکومتوں کے عدم تسلسل، کمزور ڈھانچے اور دور درزا علاقوں میں آگاھی مہم اور عام شہری کے پاس وسائل نہ ہونے کے باعث پائیدار ترقی کے اہداف کو مکمل کرنا ممکن نظر نہیں آتا۔
اس امکانی عدم تکمیل کے دو پہلو ہیں ایک پالیسیز پر عملدرآمد کی سست رفتاری اور دوسری فنڈز کی عدم فراہمی ہے۔ دنیا بھر میں پانی، صفائی اور حفظان صحت پر کام کرنے والے ادارے جائنٹ مانیٹرنگ پروگرام ( جے ایم پی) کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں نوے فیصد شہریوں کو کہیں اچھے تو کہیں آلودہ پینے کے پانی کی سہولت تو حاصل ہے لیکن دو کروڑ 17 لاکھ ایسے افراد بھی ہیں جن کو یہ سہولت ابھی بھی حاصل نہیں ہے۔
رپورٹ کے مطابق جو پانی 90 فیصد آبادی کو میسر ہے اس میں سے بیشتر علاقوں میں یہ پانی آلودہ ہوتا ہے۔ اگر پاکستان پائیدار ترقی کے اہداف 6 کے تحت اس مسئلے کو حل کرنے کی کوششیں جاری رکھے تب بھی 2030 تک اس میں دو فیصد ہی اضافہ ہوگا۔ مزید بہتری کے امکانات نہیں ہیں۔
2030 تک اگر پاکستان اپنی کوششوں میں 7 گنا اضافہ کرے تو سو فیصد ہدف حاصل کر سکتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں گھروں میں بیت الخلا کی بنیادی سہولت صرف 68 فیصد شہریوں کو حاصل ہے جبکہ 6 کروڑ 98 لاکھ شہریوں کو ایک طے شدہ معیار کے بیت الخلا کی بنیادی سہولت میسر نہیں ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایک کروڑ ساٹھ لاکھ ایسے بھی لوگ ہیں جو رفع حاجت کیلئے کھلے میدان استعمال کرتے ہیں اور ان میں خواتین کی انتہائی کمزور پوزیشن ہے اور انہیں کھلے میدانوں میں رفع حاجت کے دوران انہیں سنگین مسائل کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔
کھلی جگہوں کو رفع حاجت کیلئے استعمال کرنے کے بعد ہاتھ نہ دھونے سے مختلف بیماریاں جنم لیتی ہیں جس پر ان لوگوں کو اپنے علاج کیلئے ایک بڑی رقم خرچ کرنی پڑتی ہے۔
حکومت کو پائیدار ترقی کے اہداف میں اس معاملے کو حل کرنے کیلئے اپنی کوششیں ڈیڑھ گنا بڑھانا ہونگی، بصورت دیگر پاکستان اپنا عالمی اداروں کے ساتھ دستخط کردہ معاہدہ پورا نہیں کرسکے گا۔
سٹینڈرڈ چارٹرڈ کی 2020 کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کو پائیدار ترقی کے اہداف کے تحت صرف پینے کے پانی،صفائی اور حفظان صحت شعبے میں 40 ارب ڈالر درکار ہیں، اور ان میں سے اگر مختلف سرمایہ کار چار ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کریں تو ایک طرف وہ منافعہ بھی حاصل کرسکتے ہیں اور دوسری جانب مسئلے کے حل میں بھی پیش رفت بھی ہوسکتی ہے۔
اس سلسلے میں واٹر ایڈ پاکستان کے ہیڈ آف پالیسی اینڈ ایڈووکیسی نیاز احمد نے بتایا کہ پاکستان میں بہت ساری کمپنیاں اگر ملک کے دور دراز علاقوں میں پینے کے صاف پانی کی فراہمی کا کام شروع کریں تو ایک طرف انہیں سرمایہ کاری کے بعد مستقبل میں مستقل آمدنی شروع ہو جائے گی بلکہ ساتھ ساتھ ان کمپنیوں کے مختلف برانڈز جن میں صابن وغیرہ شامل ہیں ان کی ایک الگ مارکیٹ مل جائے گی، کیونکہ بیس فیصد آبادی ہاتھ دھونے کی سہولت سے محروم ہے اور کروڑوں کی تعداد میں صابن کے صارفین کی مارکیٹ پیدا ہوگی، اور روزگار کے بھی مواقع پیدا ہونگے۔ ان کا کہنا تھا کہ عام شہریوں کو ہاتھ دھونے کی سہولت فراہم کرنے کے نتیجے میں پاکستان 2027 تک ایس ڈی جیز کا یہ ہدف حاصل کر سکتا ہے۔ لیکن اگر اس سلسلے میں کوششوں کو مزید دگنا کردیا جائے تو 2024 تک یہ ہدف حاصل ہو جائے گا۔
دوسری جانب واٹر ایڈ کی رپورٹ کے مطابق صاف پانی کی عدم فراہمی،ہاتھ دھونے کی عدم سہولت کے نتیجے میں سالانہ 4 کروڑ افراد ڈائریا کا شکار ہو جاتے ہیں اور ان میں سے پانچ سال سے کم عمر کے ساڑھے 19 ہزار بچے موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔
اگر بہتر پانی کی فراہمی اور ہاتھ دھونے کی عادت ڈال دی جائے تو 21 فیصد اموات کو کم کیا جاسکتا ہے۔ جبکہ اگر چار کروڑ افراد ہاتھ دھونے کی عادت ڈال دیں تو ڈائریا میں 35 فیصد کمی ہو سکتی ہے۔
رپورٹ کے مطابق ملک کے دور دراز علاقوں کے 43 فیصد بچے اپنے سکولوں سے اس لئے غیر حاضر رہتے ہیں کہ رفع حاجت کے بعد ہاتھ نہ دھونے کے نتیجے میں ڈائریا سمیت مختلف امراض میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔
اس سلسلے میں واٹر ایڈ کے ہیڈ آف پالیسی اینڈ ایڈووکیسی نیاز احمد کا کہنا ہے کہ پاکستان کو دو ہزار تیس تک ان مسائل سے نکالنے کیلئے حکومت، سول سوسائٹی اور پرائیوٹ سیکٹر کو مل کر کام کرنا ہوگا، اس کے بغیر ہم ان اہداف کو مکمل نہیں کرسکتے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر مناسب بجٹ رکھ کر اس کو مکمل طور پر خرچ کیا جائے تو اہداف حاصل ہو سکتے ہیں۔ ان کے مطابق 2016 میں پاکستان کی قومی اسمبلی نے ایک متفقہ قرارداد پاس کرکے پائیدار ترقی کے اہداف کو عالمی نہیں بلکہ قومی ایجنڈا قرار دیا تھا۔ اس لئے قومی ایجنڈے کی تکمیل ضروری ہے۔
دوسری جانب انسانی حقوق کی وزارت کے پارلیمانی سیکرٹری لال چند مالھی نے بتایا کہ 73 سال بعد بھی ملک میں احتجاج ہو رہے ہیں کہ مقامی حکومتوں کا نظام کیسا ہونا چاہیے۔ کراچی میں احتجاج ہوا ہے جس میں ایک شخص کے ہلاک ہونے کی خبر ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن یہ دعویٰ کرتی ہیں کہ انہوں نے اٹھارویں ترمیم منظور کرائی لیکن اسی اٹھارویں ترمیم کا آرٹیکل 140 اے کہتا ہے کہ ہر صوبائی حکومت اس بات کی پابند ہوگی کہ وہ لوکل گورنمنٹ سسٹم نافذ کرے اور اس کے تحت مقامی حکومتوں کو مالی اور سیاسی اختیارات منتقل کرے، لیکن اس آرٹیکل کے ہوتے ہوئے ن لیگ اور پیپلز پارٹی نے اختیارات نیچے منتقل نہیں کئے۔ لال چند مالھی کے مطابق پینے کے پانی کی اہمیت کا اندازہ مجھ سے زیادہ کون کر سکتا ہے۔ میرا تعلق تھر سے ہے۔ ہاتھ دھونے کی بات تو دور، جینے کیلئے پینے کا پانی تک نہیں ملتا۔ میونسپل سروسز لوگوں کو نہیں مل رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہمارا مزاج یہ ہے کہ اختیارات نیچے تک منتقل نہیں کرنے، بات تو یہاں تک پہنچی ہے کہ ٹوائلٹ کے اختیارات بھی نیچے منتقل کرنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ اس سوچ کو ختم ہونا چاہیے، یہ اختیارات نچلی سطح تک منتقل ہونے چاہیں۔ جب تک ایسا نہیں ہوتا ہم ایس ڈی جیز 6 کے اہداف کو پورا کر پائیں گے نہ ہی جدید دنیا کے ساتھ چل پائیں گے۔

مصنف اسلام آباد میں مقیم سینیئر سیاسی رپورٹر ہیں۔ ملکی سیاست پر ان کے مضامین و تجزیے مختلف ویب سائٹس اور اخبارات میں شائع ہوتے رہتے ہیں۔