• آن لائن اشتہاری ٹیرف
  • رابطہ کریں
  • ہمارے بارے میں
  • ہمارے لئے لکھیں
  • نیا دور انگریزی میں
بدھ, مارچ 29, 2023
نیا دور
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English
No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English
No Result
View All Result
نیا دور
No Result
View All Result

خاندانی رویے، ملازمت پیشہ خواتین کی جہد مسلسل

صنفی کرداروں کے حوالے سے معاشرے کا ایک زاویہ نظر ہے جس کے باعث بیٹیوں کا گھر کی مالی ذمہ داریوں میں اشتراک قابل قبول نہیں ہے۔ اسی سوچ کے پیش نظر ماں باپ کو بھی خوف ستاتا ہے کہ اگر ان کی بیٹی کام کرے گی تو لوگ یہ تصور کریں گے کہ وہ اپنی بیٹی کی کمائی کھا رہے ہیں جو ان کے لئے رسوائی کا باعث بنے گا۔

حرا سعید فاروقی by حرا سعید فاروقی
فروری 21, 2022
in فیچر
32 1
0
خاندانی رویے، ملازمت پیشہ خواتین کی جہد مسلسل
38
SHARES
182
VIEWS
Share on FacebookShare on TwitterShare on Whatsapp

ہمارے قدامت پسند معاشرے میں ہر لڑکی اپنی زندگی میں ایک مرتبہ “رشتہ پریڈ” کے ایک تکلیف دہ مرحلے سے ضرور گزرتی ہے۔ اس دوران جن جملوں، نظروں اور رویوں کا سامنا وہ کرتی ہیں وہ ان کی خود اعتمادی کو ریزہ ریزہ کر دیتے ہیں۔

ایسے ہی ایک چشم کشا تجربے سے میں بھی گزری تھی۔ اس دوران ایک فیملی سے ملاقات ہوئی۔ لڑکے کی والدہ اپنے اعلیٰ تعلیم یافتہ بیٹے کے لئے ایک گھریلو لڑکی کی تلاش میں تھیں اور یہی وہ بنیادی وجہ تھی کہ میں انکے طے کردہ معیار پر پورا بالکل بھی نہیں اترتی تھی۔

RelatedPosts

چین پاکستان اقتصادی راہداری میں کوئلے کی واپسی

چین نے 2 ارب ڈالرز قرض کی ادائیگی رول اوور کر دی: وزیر خزانہ

Load More

لیکن حیرت انگیز بات یہ تھی کہ یہ بات جانتے ہوئے بھی کہ میں ملازمت پیشہ ہوں ،وہ میرے گھر میں موجود تھیں۔ میرے والد نے میرا تعارف کرواتے ہوئے جب انہیں میرے پڑھنے، لکھنے، مطالعہ کرنے کے شوق اور شادی کے بعد ملازمت جاری رکھنے کے ارادے کے بارے میں بتایا تو ناگواری کے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے خاتون کا کہنا تھا “اچھی بات ہے لڑکیاں جب تک فارغ ہیں تو ضرور جو چاہیں کریں۔”

انہوں نے میرے جذبے اور بنیادی ضرورت کو میرے فارغ اوقات کا مشغلہ بنا کر اسے لڑکیوں کے لئے ایک غیر ضروری کام قرار دے دیا۔ مجھے ان کی بات سن کر تعجب نہیں ہوا کیوںکہ یہ کسی فرد کی نہیں، معاشرے کی عام سوچ ہے جس کی عکاسی وہ ایک خاتون کر رہی تھیں۔

لڑکیاں اپنے گھر والوں، رشتہ داروں، دوستوں، آفس کالیگز سب سے ایسے جملے اور نصیحتیں کئی بار سنتی ہیں جس میں انہیں یہ پیغام دیا جا رہا ہوتا ہے کہ ان کی قابلیت اور پیشہ ورانہ عزائم اور اہداف اہمیت نہیں رکھتے بلکہ یہ وہ عوامل ہو سکتے ہیں جن کے باعث وہ ازدواجی خوشیوں سے محروم رہیں گی۔

ملازمت تو بہت دور کی بات ہے لڑکیوں کی اعلیٰ تعلیم ہی اب بھی بیشتر گھرانوں میں اہم نہیں سمجھی جاتی۔ تاہم کچھ لوگ ہیں جو لڑکیوں کے لئے تعلیم کی اہمیت کو قبول کرتے ہیں لیکن وہ اس لئے کیونکہ لوگوں میں یہ شعور آتا جا رہا ہے کہ اس کے اثرات آنے والی نسلوں کی بہتر تربیت کرنے میں مددگار ثابت ہوں گے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ عورت کی تعلیم آنے والی نسلوں کو سنوار دیتی ہے۔ لیکن اس بات کو بھی تسلیم کرنا چاہیے کہ عورت کی اپنی ایک ذات بھی ہے اور تعلیم حاصل کرنا اس کا بنیادی حق ہے۔

اپنے کنبے کی بہتر دیکھ بھال کے ساتھ ساتھ اس کے اپنی شناخت قائم کرنے کے لئے بھی کچھ خواب اور مقاصد ہو سکتے ہیں۔ اس کے برعکس کیریئر بنانے کی خواہش مردوں کے لیے تعریف اور خواتین کے اوپر تنقید کا باعث بنتی ہے۔

لڑکیاں اگر اپنے کام سے لگائو رکھیں، معاشی طور پر مستحکم ہوں، اور فیصلہ سازی کی صلاحیت بھی رکھتی ہوں تو ان کو سراہا نہیں جاتا بلکہ اپنے گھر والے بھی ان کے مستقبل کے حوالے سے تشویش کا شکار رہتے ہیں۔ کیوںکہ وہ سوچتے ہیں کہ یہ تمام چیزیں رشتوں میں رکاوٹ کا باعث بنیں گی اوراگر شادی ہو بھی گئی تو تعلیم یافتہ اور بااختیار لڑکیاں شوہر اور سسرال والوں کی تابعدار نہیں ہوں گی۔

صنفی کرداروں کے حوالے سے معاشرے کا ایک زاویہ نظر ہے جس کے باعث بیٹیوں کا گھر کی مالی ذمہ داریوں میں اشتراک قابل قبول نہیں ہے۔ اسی سوچ کے پیش نظر ماں باپ کو بھی خوف ستاتا ہے کہ اگر ان کی بیٹی کام کرے گی تو لوگ یہ تصور کریں گے کہ وہ اپنی بیٹی کی کمائی کھا رہے ہیں جو ان کے لئے رسوائی کا باعث بنے گا۔

بیٹے کی ماں اس کی پہلی تنخواہ سے لایا ہوا ایک جوڑا بھی شان سے زیب تن کرتی اور لوگوں کو بتاتی ہے لیکن بیٹی کے والدین یہ وضاحتیں دیتے رہتے ہیں کہ محض شوق پورا کرنے یا وقت گزاری کے لئے ان کی بیٹی نوکری کررہی ہے۔

اولاد کے کام سے والدین کا سربلند ہو تو اولاد کو دنیا فتح کرنے کا حوصلہ ملتا ہے۔ لیکن جب بیٹیوں کی ملازمت والدین کے لئے رسوائی کا باعث بن جائے تو یہ ان کے حوصلے پست کر دیتا ہے۔

چونکہ والدین کے الفاظ اور رویے ہی ہر عمر میں اولاد کی اپنے بارے میں رائے بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، اسی لئے جب گھر سے لڑکیوں کی صلاحیتوں اور مہارتوں کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے تو وہ ان کی شخصیت کو شدید متاثر کرتا ہے۔ وہ احساس کمتری میں مبتلا ہو جاتی ہیں، اپنی صلاحیتوں پر ان کا بھروسہ کم ہو جاتا ہے، اپنے ہی کام سے غیر مطمئن رہتی ہیں۔

زندگی کی یہ پہلی جنگ جب اپنے ہی گھر والوں سے لڑنی پڑتی ہے تو اکثر جھنجلاہٹ اور چڑچڑاپن بھی لڑکیوں کے مزاج کا حصہ بن جاتا ہے۔ انہیں لوگوں اور سماج کے معیار کے مطابق قابل قبول بنانے کے لئے جو طرز عمل اختیار کیا جاتا ہے، وہ ان کے اندر خوف بھر دیتا ہے۔

انہیں ہر دم بدنامی اور تنہا رہ جانے کے خوف کا احساس دلایا جاتا ہے۔ گھر سے عدم تعاون کے باعث وہ نئے تجربات سے گریز کرنے لگتی ہیں۔ آگے بڑھنے کی امید اور جذبہ آہستہ آہستہ دم توڑنے لگتا ہے اور ایک وقت پر آکر معاشرتی اصولوں کے آگے ہتھیار ڈال دیتی ہیں۔

اس طرح استحصال کا آغاز گھر سے ہی ہو جاتا ہے جس کے بعد سماجی منظوری حاصل کرنے کی ایک ایسی عادت ان میں جنم لے لیتی ہے جس کے باعث وہ اپنی ذات کو فوقیت دینا چھوڑ دیتی ہیں اور ان کا فلسفہ خوشی ہمیشہ کے لئے بس دوسروں کی توثیق سے منسوب ہو کر رہ جاتا ہے۔

وہ اپنی آرزوئوں کا گلا گھونٹ کر معاشرے کی نظروں میں مثالی تو بن جاتی ہیں لیکن یہ تمام صورتحال ان کی نفسیاتی صحت کو شدید متاثر کرتی ہے اور وہ ایک کمزور شخصیت کے ساتھ گھٹ گھٹ کر زندگی گزارتی ہیں۔

غور طلب بات یہ ہے کہ اگر آج آپ اپنی بہن بیٹیوں سے ان کی ذاتی ترقی سے متعلق اہم فیصلے کا اختیار چھین لیں گے تو کیا وہ ان کے لئے آنے والی زندگی میں آسودگی کی ضمانت ہوگا؟

اور اگر نہیں تو کیا آپ ایسا محض سماجی دبائو کے باعث کر رہے ہیں؟ اگر ہاں تو یہ کیسی سماجی بندشیں ہیں جو آپ کو اس طرح جکڑے ہوئے ہیں کہ نہ چاہتے ہوئے بھی آپ اپنوں کے خواب چھین لینے پر مجبور ہو گئے ہیں؟

والدین بھی غور کریں کہ وہ اپنی بیٹیوں کو تمام تر محبت اور شفقت دینے کے باوجود ان کی خود اعتمادی پر جو ضرب لگا رہے ہیں وہ ان کی ساری زندگی کو کس قدر متاثر کرے گا۔

اولاد کی مضبوط شخصیت کی تعمیر میں والدین کا کردار سب سے اہم ہوتا ہے، اس لئے والدین کو چاہیے کہ وہ معاشرتی اقدار اور روایات کے آگے شکست تسلیم کرنے کے بجائے ڈٹ کر ان کا مقابلہ کریں۔

اپنی بیٹیوں کی حوصلہ افزائی کریں تا کہ وہ کبھی بھی معاشرے اور خاندان کے ہاتھوں استحصال کا شکار نہ ہوں۔ اپنے پیروں پر کھڑی ہو سکیں، خود اعتماد، باوقار اور خوددار بن سکیں۔ اپنے فیصلے کرنے کی صلاحیت رکھتی ہوں۔ سماجی، سیاسی اور معاشی ترقی کی مختلف سرگرمیوں میں بھی بھرپور حصہ لیں۔

اگر آپ بھی صحیح معنوں میں اپنی بہن بیٹیوں کی حقیقی خوشی اور اطمینان کے خواہشمند ہیں تو ان کے خوابوں پر پہرا ڈالنے کے بجائے انہیں ہر دم یہ احساس دلائیں کہ آپ ان کی حمایت میں کھڑے ہیں۔

خواتین کو اپنے حقوق کی تربیت اپنے گھر سے ملنی چاہیے اور یہ شعور بھی کہ اس دنیا میں سب سے پہلے اگر کچھ اہم ہے تو وہ ہے ان کی اپنی ذات جس سے متعلق ہر فیصلہ کرنے کا اختیار صرف اور صرف ان کے پاس ہے اور اس کی تکمیل کسی اور سے منسوب نہیں جس کے لئے انہیں اپنے خوابوں کو قربان کرنے کی ضرورت ہو۔

Tags: Familyfemalespakistanworking womenپاکستانخاندانی بندشیںگھریلو خواتینملازمت پیشہ خواتین
Previous Post

آغا ماجد اور نسیم وکی پر قاتلانہ حملہ کرنے والے ملزم گرفتار، گولیاں کیوں چلائیں؟ حیران کن وجہ بتا دی

Next Post

عورت مارچ ہر اس مظلوم عورت کے لئے امید کی کرن جو ہراساں ہو رہی ہے

حرا سعید فاروقی

حرا سعید فاروقی

حرا ایک میڈیا پروفیشنل اور لکھاری ہیں جو بنیادی طور پر سماجی مسائل بالخصوص خواتین کے مسائل پر قلم کشائی کرتی ہیں۔

Related Posts

انگریز سامراج کے خلاف آزادی کی جنگ لڑنے والا بھگت سنگھ ہمارا ہیرو کیوں نہیں بن سکا؟

انگریز سامراج کے خلاف آزادی کی جنگ لڑنے والا بھگت سنگھ ہمارا ہیرو کیوں نہیں بن سکا؟

by خضر حیات
مارچ 25, 2023
0

آج 23 مارچ کا دن ہے اور اسے ہم قرار داد پاکستان کے حوالے سے یاد کرتے ہیں۔ 1940 میں اسی روز...

گورنر جنرل غلام محمد جنہوں نے سیاست میں فوجی اور عدالتی مداخلت کی بنیاد رکھی

گورنر جنرل غلام محمد جنہوں نے سیاست میں فوجی اور عدالتی مداخلت کی بنیاد رکھی

by خضر حیات
مارچ 21, 2023
0

پاکستان کی تاریخ میں کئی ڈرامائی کردار آئے اور عجیب و غریب کرتب دکھا کر منظر عام سے ہٹتے چلے گئے۔ انہی...

Load More
Next Post
عورت مارچ ہر اس مظلوم عورت کے لئے امید کی کرن جو ہراساں ہو رہی ہے

عورت مارچ ہر اس مظلوم عورت کے لئے امید کی کرن جو ہراساں ہو رہی ہے

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تلاش کریں

No Result
View All Result

ایڈیٹر کی پسند

ہائبرڈ دور میں صحافت پر حملے؛ ذمہ دار عمران خان یا جنرل باجوہ؟ (پارٹ 1)

ہائبرڈ دور میں صحافت پر حملے؛ ذمہ دار عمران خان یا جنرل باجوہ؟ (پارٹ 1)

by شاہد میتلا
مارچ 22, 2023
1

...

معاشی لحاظ سے پاکستان کس طرح خود انحصاری حاصل کر سکتا ہے؟

معاشی لحاظ سے پاکستان کس طرح خود انحصاری حاصل کر سکتا ہے؟

by ہارون خواجہ
مارچ 18, 2023
1

...

عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین جاری کھیل آخری مرحلے میں داخل ہو چکا؟

عمران خان اور اسٹیبلشمنٹ کے مابین جاری کھیل آخری مرحلے میں داخل ہو چکا؟

by رضا رومی
مارچ 20, 2023
0

...

توشہ خانہ فہرست شریف خاندان میں دراڑ نہیں، شاہد خاقان کی علیحدگی کا اعلان ہے

توشہ خانہ فہرست شریف خاندان میں دراڑ نہیں، شاہد خاقان کی علیحدگی کا اعلان ہے

by مزمل سہروردی
مارچ 15, 2023
1

...

جنرل فیض حمید

نواز شریف کو نکالنے کے ‘پروجیکٹ’ میں باجوہ اور فیض کے علاوہ بھی جرنیل شامل تھے، اسد طور نے نام بتا دیے

by نیا دور
مارچ 14, 2023
0

...

Newsletter

ہماری مدد کریں

ٹویٹس - NayaDaur Urdu

نیا دور کے صفِ اوّل کے مصنفین

پیٹر جیکب
پیٹر جیکب
View Posts →
حسن مجتبیٰ
حسن مجتبیٰ
View Posts →
عرفان صدیقی
عرفان صدیقی
View Posts →
نجم سیٹھی
نجم سیٹھی
View Posts →
نبیلہ فیروز
نبیلہ فیروز
View Posts →
محمد شہزاد
محمد شہزاد
View Posts →
توصیف احمد خان
توصیف احمد خان
View Posts →
رفعت اللہ اورکزئی
رفعت اللہ اورکزئی
View Posts →
فوزیہ یزدانی
فوزیہ یزدانی
View Posts →
حسنین جمیل
حسنین جمیل
View Posts →
مرتضیٰ سولنگی
مرتضیٰ سولنگی
View Posts →
اسد علی طور
اسد علی طور
View Posts →
ادریس بابر
ادریس بابر
View Posts →
رضا رومی
رضا رومی
View Posts →
علی وارثی
علی وارثی
View Posts →

This message is only visible to admins.
Problem displaying Facebook posts.
Click to show error
Error: Server configuration issue

خبریں، تازہ خبریں

  • All
  • انٹرٹینمنٹ
  • سیاست
  • ثقافت
کم از کم اجرت 20 ہزار، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ: بجٹ 2021 پیش کر دیا گیا

اقتدار کے ایوانوں سے جلد کسی ‘بڑی چھٹی’ کا امکان ہے؟

اکتوبر 31, 2021
ہمیں نفرت اور مذہب کے بیوپاریوں کی نہیں، دھانی اور دھونی جیسے ہیروز کی ضرورت ہے

ہمیں نفرت اور مذہب کے بیوپاریوں کی نہیں، دھانی اور دھونی جیسے ہیروز کی ضرورت ہے

اکتوبر 27, 2021
بد ترین کارکردگی پر الیکشن نہیں جیتا جاسکتا، صرف ای وی ایم کے ذریعے جیتا جاسکتا ہے

ای وی ایم اور انتخابات: ‘خان صاحب سمندر پار پاکستانیوں کے ووٹ لینے کے لیئے بے تاب ہیں’

اکتوبر 24, 2021

Naya Daur © All Rights Reserved

No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English

Naya Daur © All Rights Reserved

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password?

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In