روشنی کی موت، اب کون قائداعظم کے اصل آدرش کی راہ دکھائے گا؟

روشنی کی موت، اب کون قائداعظم کے اصل آدرش کی راہ دکھائے گا؟
اس فقیر کو ناقابل یقین حد تک یہ فخر حاصل ہے کہ مجھے بیک وقت ایک ہی چھت کے نیچے ایسے اساتذہ نصیب ہوئے کہ جن سے کسی کو ایک دو بار ہی ملاقات کا شرف ملا تو وہ آج تک اس کو بھی پورے مزے سے بیان کرتا ہے۔

یہ فخر تو مجھے قدرت نے عطا کر دیا لیکن اب ان اساتذہ کا باری باری بچھڑ جانے کا غم بھی اسی ناچیز کو لاحق ہے۔ اپنی ذات میں انجمن ڈاکٹر مہدی حسن بھی ہمیں داغ مفارقت دے گئے۔

ڈاکٹر مہدی حسن کو صرف ایک معلم قرار دینا صریحاً زیادتی ہوگی۔ وہ ایک ہی وقت میں معلم، انسانی حقوق کے علمبردار، مورخ، محقق اور سب سے بڑھ کر ایک مفکر تھے۔

ان کی بدقسمتی صرف یہ رہی کہ وہ اس دیس کی چند حقیقی قد آور شخصیات میں سے تھے جہاں بونوں نے اپنا آسیب طاری کیا ہوا ہے اور وہاں ہر قد آور کو کو کاٹ کر ''نکو'' بنانے کا عمل جاری وساری ہے اور ڈاکٹر صاحب کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوتا رہا۔

سالہا سال ڈاکٹر صاحب کا شاگرد رہنے کی بنا پر میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ ڈاکٹر مہدی حسن آخری دم تک لڑتے رہے اور کوئی گروہ یا فرد انہیں اپنے نظریات سے ایک رتی بھی پیچھے نہیں ہٹا سکا۔

کجا یہ کہ انہیں بونا بنا دیا جاتا، وہ اس قوم کو اپنا قد بڑھانے پر زور دیتے اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ پنجاب یونیورسٹی دراصل ایک چھوٹا سا پاکستان ہے جس میں ہر رنگ، نسل اور زبان کے لوگ مل کر ایک گلدستہ ترتیب دیتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی بالکل پاکستان کی طرح کئی سالوں سے پنجاب یونیورسٹی پر ایک مخصوص گروہ نے قبضہ جما رکھا ہے۔

جامعہ پنجاب کے طلبہ ہوں یا اساتذہ انہیں ایک مخصوص خوف اور تشدد کی فضا میں اپنی تعلیمی سرگرمیوں کو انجام دینا ہوتا ہے۔ جماعت اسلامی اپنے طلبہ ونگ (اسلامی جمعیت طلبہ) اور اپنی پروفیسرز یونین کے ذریعے ضیاء الحق دور سے اس درسگاہ پر قابض ہے۔

طلبہ کا اغوا، ان پر تشدد، خواتین طلبہ کی ہراسانی اور اساتذہ کو ہراساں یا ان کی مار پیٹ، جامعہ پنجاب کا معمول ہے۔ شعبہ جرنلزم کی فضا باقی یونیورسٹی سے کسی حد تک مختلف سہی لیکن پھر بھی یہ جامعہ پنجاب کا ہی حصہ ہے۔

اس قوم کی بدقسمتی کی اس سے بڑی مثال کیا ہوگی کہ ڈاکٹر مہدی حسن جیسے مفکر سے کوئی روشنی حاصل کرنے کی بجائے انہیں ان پرتشدد گروہوں کے آگے تن تنہا پھینک دیا گیا۔

ان سے کوئی علمی یا نظریاتی رہنمائی لینے کی بجائے انہیں مسلسل تکلیف اور خوف میں مبتلا رکھنے کی کوشش کی گئی۔ پنجاب یونیورسٹی تو کیا ڈاکٹر مہدی حسن شعبہ صحافت میں بھی تنہا لیکن ایک توانا اور نڈر آواز کے ساتھ موجود تھے۔

مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ شعبہ صحافت میں نئے داخلے ہوتے ہی طلبہ کو غیر محسوس انداز سے یہ بتایا جاتا کہ وہ ڈاکٹر مہدی حسن سے دور رہیں کیونکہ ان کے خیالات "عین اسلامی" نہیں ہیں۔

ڈاکٹر صاحب پوری یونیورسٹی میں تنہا سہی لیکن آواز اتنی توانا، بات اتنی مدلل اور انہیں اپنے نظریات پر ایسا کامل یقین تھا کہ بڑے بڑے جغادری اس بظاہر نحیف شخص سے خوف کھاتے تھے۔

اتنے تنائو کے ماحول میں بھی ڈاکٹر صاحب کو نہ جھکتے دیکھا اور اور نہ نرم موقف لیتے بلکہ ایک تجاہل عارفانہ کے ساتھ مسکراتے ہوئے پائپ ہی سلگتے دیکھا۔

ڈیپارٹمنٹ کی ایک تقریب میں چیئرمین شعبہ صحافت نے اسلامی جمعیت طلبہ کے ایک ناظم کو جب اساتذہ کے ساتھ سٹیج پر بٹھایا تو ڈاکٹر صاحب اٹھ کھڑے ہوئے اور بڑی سختی سے استفسار کیا کہ اس شخص کا یہاں کیا کام ہے۔

مجھے یاد ہے اس سوال پر سب کی گھگھی بندھ گئی۔ کسی میں یہ ہمت نہیں تھی کہ ڈاکٹر صاحب کے سوال کا جواب دے سکے اور نہ ہی یہ جرات تھی کہ وہ علاقہ ناظم ٹائپ چیز کو سٹیج سے اتار سکے۔

ڈاکٹر صاحب پھر گویا ہوئے اگر آپ میں اس غیر متعلقہ شخص کو اٹھانے کی ہمت نہیں تو میں سٹیج پر بیٹھنے کی بجائے اپنے طلبہ کے ساتھ بیٹھنے کو ترجیح دوں گا اور پھر وہ ہم سب لوگوں کی تالیوں کی گونج میں ہمارے ساتھ آ کر بیٹھ گئے۔

یہ میرے جیسے طالب علموں کا ڈاکٹر مہدی حسن سے پہلا بالمشافہ واسطہ تھا۔ انہی دنوں ڈاکٹر صاحب سے منسوب یہ واقعہ بھی سننے کو ملا کہ جمعیت کی ایک ہڑتال کی کال کو ڈاکٹر صاحب نے ماننے سے انکار کر دیا اور لیکچر دینے پر اصرار کیا۔

تمام کلاس روم بند کر دئے گئے تو انہوں نے  باہر لان میں لیکچر دینا شروع کر دیا۔ دروغ بر گردن راوی آج کل کے ایک بڑے اینکر اور اس وقت جمیعت کے رکن نے ڈاکٹر صاحب پر پستول تان لیا تھا لیکن ڈاکٹر صاحب ایک لمحہ کیلئے بھی نہیں گھبرائے اور کلاس لیتے رہے اور آخرکار اس مشہور اینکر کو گھبرانا پڑ گیا۔

ڈاکٹر صاحب بلاشبہ برصغیر کی صحافتی اور سیاسی تاریخ کے بہت بڑے عالم تھے۔ ہمیں یہ بات انہوں نے سکھائی کہ تار تار کی گئی تاریخ میں سے سچ کیسے ڈھونڈنا ہے اور اسے جرات کے ساتھ کیسے بیان کرنا ہے۔

بس یہی وہ جرات رندانہ تھی کہ وہ ہمیشہ تنہا نظر آئے۔ انہیں یونیورسٹی کی گندی سیاست کے ذریعے چیئرمین شعبہ صحافت نہ بننے دیا گیا، حتیٰ کہ بے نظیر بھٹو کی حکومت نہ آتی تو شاید ڈاکٹر صاحب کا ڈاکٹریٹ کا مقالہ بھی منظور نہ ہو پاتا۔

میرے ذہن میں زمانہ طالب علمی سے ہی یہ سوال اٹھا کرتا تھا کہ ڈاکٹر صاحب جیسے تاریخ دان، محقق اور قلم نگار کو کیا ضرورت پڑی ہے کہ وہ اس طرح کی نوکری کریں اور ہر وقت جان ہتھیلی پر لئے پھریں۔

جب وہ بیکن ہاؤس انٹرنیشنل یونیورسٹی کے ڈین بنے تو تب جا کر معلوم ہوا کہ ڈاکٹر صاحب ان درس گاہوں سے ہی اگلی نسل تک سچ کی روشنی پہنچانے کیلئے ہمہ وقت مصروف رہتے ہیں۔

مذہبی جنونیت ہو یا ملک پر مسلط آمرانہ یا دائیں بازو کا ہائبرڈ نظام ڈاکٹر مہدی حسن کی ان سب سے نفرت مسلمہ تھی۔ کافی عرصہ سے ان کے ساتھ ملاقات نہیں ہوئی تھی لیکن مجھے یقین ہے وہ آخری دم تک ایک جمہوریت پسند سوشلسٹ تھے۔

ان کے ساتھ کے بہت سارے لوگ مختلف مفادات کی بنا پر سوشلزم سے توبہ تائب ہو چکے تھے یا جہاں فانی سے کوچ کر گئے تھے لیکن ڈاکٹر صاحب ایک آزاد جمہوری معاشرے کیلئے آخری دم تک لڑتے رہے۔

بلاشبہ وہ اس لشکر کے آخری قد آور سالار تھے اور بونوں کے ساتھ رہنے پر مجبور تھے۔ افسوس اس بات کا نہیں کہ ہم پر مسلط طبقہ ایک بڑے محقق، معلم اور تاریخ دان سے کچھ حاصل کرنے کی بجائے اس کے سچ کی آواز دبانے اور اس کی توانائی ضائع کرنے میں مشغول رہا۔

سات دہائیوں سے اس ملک پر مسلط طبقے کا طرہ امتیاز ہے کہ وہ اس قوم کے اصل راہبروں کو ولن بنا کر پیش کرتا ہے تاکہ بالشتیے ترقی پاتے رہیں لیکن زیادہ افسوس اس بات کا ہے قوم کو ہوش تب آتی ہے جب وہ اصل قومی ہیرو ضائع ہو چکا ہوتا ہے۔

ڈاکٹر مہدی حسن بھی انہی رہبروں میں سے ایک تھے۔ پتا نہیں کیوں ایسے لگتا ہے کہ عالمِ ارواح میں بھی پائپ سلگائے ہوئے بھی اس بات پر فکر مند ہوں گے کہ اب اس قوم کے بچوں کو کون سچ پڑھائے گا۔ کون بتائے گا کہ مذہبی جنونیت اس ملک کیلئے زہر قاتل ہے۔ کون بتائے گا کہ آزادی اظہار رائے اور جمہوریت اس ملک کو قائم رکھنے کیلئے کتنا ضروری ہے۔ اب کون بتائے گا کہ قائداعظم کے اصل آدرش کیا تھے۔ گیارہ اگست کی تقریر من وعن آج کی نوجوان نسل تک کون پہنچائے گا۔ پتا نہیں کیوں لگتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب بھی ہم سے مایوس ہو کر اس جہان فانی سے رخصت ہوئے ہیں۔