قومیں یوں ہی نہیں بنتیں

قومیں یوں ہی نہیں بنتیں
قومیں یوں ہی نہیں بنتیں۔ یہ جملہ آپ لوگوں نے اپنی زندگیوں میں درجنوں مرتبہ سن رکھا ہوگا۔ جن لوگوں کے رشتہ دار پاکستان سے دور رہتے ہیں، ان کے لئے تو دوہری مشکل ہے۔ کیونکہ حسن نثار کو تو آپ میوٹ بھی کر سکتے ہیں۔ حسن نثار اور آپ کے امریکہ یا یورپ کے کسی ملک میں مقیم ماموں یا چاچو دونوں کا تجزیہ ہے کہ یہ قومیں اس لئے ترقی کر گئیں کہ یہ کسی جگہ پر جاتے ہوئے دروازے کے باہر لائن بناتی ہیں۔ آپ کسی میوزیم میں جا رہے ہوں یا چڑیا گھر میں، قصائی کی دکان پر ہوں یا کسی بڑے سے مال میں، چونکہ یہ قومیں لائن بناتی ہیں، یہ عظیم ہیں۔ ان کی عظمت کی کنجی یہی ہے۔ "بھئی بس میں چڑھتے ہوئے لائن بنا لیتے ہیں، مجال ہے جو کوئی دھکم پیل ہو۔ قومیں یوں ہی نہیں بنتیں"۔

واشنگٹن ڈی سی پہنچے تو دیکھا کہ یہ بات حرف بہ حرف درست ہے۔ یہاں لائن ہر جگہ بنتی ہے۔ کوئی توڑنے کی اول تو کوشش نہیں کرتا، ضرورت محسوس نہیں کرتا، اور اگر کوئی توڑے تو اسے فوراً منع کیا جاتا ہے۔ دکاندار خود کہہ دیتا ہے کہ آپ لائن میں آئیے ورنہ آپ کو ہم آپ کا کوئی کام نہیں کر سکتے۔



ہوٹل پہنچے، نہائے دھوئے۔ باہر نکلے تو منفی 4 ڈگری درجہ حرارت تھا اور ساتھ لکھا آ رہا تھا کہ "feels like -13" کیونکہ ہوا انتہائی تیز اور برفانی حد تک ٹھنڈی تھی۔ یہاں اکثر ریستوران ایسے ہیں کہ بار بھی ساتھ ہی ہے۔ جی چاہے تو کھانا کھائیے، جی چاہے تو کچھ پی پی لیجیے۔ اور چاہیں تو دونوں کیجیے۔

لڑکے، لڑکیاں موسیقی کی دھن پر تھرک رہے ہیں اور کوئی کسی کو تنگ نہیں کر رہا۔ رات کے 12 بجے ہیں مگر خواتین سڑکوں پر پیدل پھر رہی ہیں، کوئی کام سے آ رہی ہے، کوئی اپنی سہیلی کے ساتھ کھانا کھا کر واپس آ رہی ہے، کوئی بار میں کھڑی ہے، ناچ رہی ہے، مجال ہے جو کوئی ان کو گھور کر دیکھ رہا ہو، کوئی ان پر آوازے کس رہا ہو، کوئی انہیں ہراساں کرنے کی کوشش کر رہا ہو۔ سب اپنی دھن میں مگن ہیں۔

لیکن آج تک آپ کو آپ کے ماموں یا قوم کے خود ساختہ چاچوں نے یہ نہیں بتایا ہوگا کہ یہاں خواتین کو ہراساں نہیں کیا جاتا، وہ خود کو محفوظ تصور کرتی ہیں کیونکہ وہ یہ بھی جانتی ہیں کہ اگر کسی نے ان کو تنگ کیا بھی تو وہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مدد حاصل کر سکتی ہیں اور وہ ان کی مدد کریں گے، ان کی مشکل سے کوئی فائدہ اٹھانے کی کوشش نہیں کریں گے۔ "قومیں یوں ہی نہیں بنتیں" والے جملے میں کبھی خواتین کے احترام کا ذکر نہیں ہوا ہوگا۔



یہاں صدارتی محل بھی ہے۔ دنیا کے سب سے طاقتور ملک کا صدر اسی شہر سے اپنے ملک اور دنیا پر حکومت کرتا ہے۔ لیکن اس کی مجبوری ہے کہ اس کے اوپر چیک رکھنے کے لئے بھی ایک سینیٹ ہے جو اس کو کسی کام سے روک سکتی ہے۔ یہ صدارتی محل وہائٹ ہاؤس کہلاتا ہے۔ اس کے سامنے پارک ہے جہاں لوگ گھومنے پھرنے بھی آتے ہیں۔ یہیں احتجاج بھی ہوتے ہیں۔ ایک احتجاجی کیمپ ایسا بھی ہے جو 1960 کی دہائی سے ایٹم بم کے خلاف موجود ہے۔ تاریخ میں اسے دو مرتبہ مجبوراً ہٹانا پڑا۔

احتجاج کے لئے اجازت لینا پڑتی ہے اور اگر ایک مرتبہ احتجاج ختم ہو گیا تو اجازت بھی ختم۔ یہ کیمپ دونوں مرتبہ شدید موسمی حالات کی وجہ سے ہٹانا پڑا۔ کیمپ ہٹانے سے مراد یہ ہے کہ اس کیمپ میں ایک بھی احتجاجی موجود نہ رہا۔ اور انتظامیہ نے موقع غنیمت جانتے ہوئے فوری طور پر اس کیمپ کو یہاں سے ہٹا دیا۔ لیکن ملک بھر میں اتنا شدید احتجاج ہوا کہ اسے واپس لگانا پڑا۔ کیونکہ کوئی جمہوریت احتجاج کے حق کے بنا ممکن نہیں۔ "قومیں یوں ہی نہیں بنتیں"۔

صدارتی محل سے کچھ ہی فاصلے پر کیپیٹل ہل عمارت ہے۔ اس کے ہجے capitol ہیں، capital نہیں۔ کیونکہ یہ روم میں موجود ایک پہاڑی کے نام پر رکھا گیا ہے۔ روم کیوں؟ کیونکہ روم ہی میں جمہوریت کی بنیادیں رکھی گئی تھیں۔ اور یہی پہاڑ کیوں؟ کیونکہ روم میں واقع Capitolium یا Capitoline Hill ناقابلِ تسخیر تصور کی جاتی تھی اور اس کو ہمیشگی یا eternity کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ تو واشنگٹن ڈی سی کی وہ عمارت جہاں کانگریس ہے، جو ملک کی تمام ریاستوں کی نمائندہ کانگریس ہے۔ وہ عمارت جہاں سینیٹ ہے جو صدر کے فیصلے کو بھی رد کر سکتی ہے، اس کی حیثیت رومی Capitoline Hill کی سی ہے۔ ہمیشہ رہنے والی۔ "قومیں یوں ہی نہیں بنتیں"۔



وہائٹ ہاؤس کے سامنے موجود ایکڑوں پر محیط پارک میں بہت سے مجسمے کھڑے کیے گئے ہیں۔ کوئی جرنیل ہے جو فرانس میں 1790 میں کمانڈر تھا۔ کوئی اور جرنیل ہے جو Prussian Empire کی آزادی کی جنگ لڑا تھا۔ کوئی جنگجو ہے جو کو ایک خاتون تلوار پکڑا رہی ہے۔ یہ اس خاتون کا اظہارِ تشکر ہے کہ اس جرنیل نے اپنی قوم کے لئے ہتھیار اٹھائے اور اس میں بسنے والے خاندانوں کو محفوظ بنایا۔ ہم نے اپنے گائیڈ سے پوچھا کہ یہ پروشیا، فرانس وغیرہ کے جرنیل یہاں کیوں؟ اس نے بتایا کہ یہ سب اپنے اپنے ملکوں میں آزادی کی جنگیں لڑے ہیں۔ ہم ایک ایسا ملک ہیں جس نے نوآبادیاتی نظام سے آزادی حاصل کی ہے۔ ان میں سے بہت سے ایسے ہیں جو امریکہ کی آزادی سے بھی پہلے کسی زمانے میں اپنی آزادی کی جنگیں لڑے تھے۔ ہم نے یہاں ان تمام لوگوں کی شان میں مجسمے بنا رکھے ہیں جو دنیا کے کسی بھی خطے میں آزادی کی جنگ لڑ رہے تھے۔ "قومیں یوں ہی نہیں بنتیں"۔

کیپیٹل ہل عمارت میں ایک کمرہ ہے جہاں ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی تمام ریاستوں نے اپنے اپنے مجسمے لا کر رکھے ہیں۔ اور یہ ہر طرح کے مجسمے ہیں۔ کسی ریاست کی سب سے بڑی تجارت اگر پولٹری ہے تو یہاں مجسمہ شاید ایک ہاتھ میں مرغی اور دوسرے میں انڈے لیے کھڑا ہوگا۔ یہ مجسمے اپنی اپنی ریاست کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ اور ان میں بے پناہ تنوع ہے۔ کوئی زبردستی نہیں کہ ریاستوں کو ایک مخصوص قسم کے مجسمے ہی بنانے ہیں۔ یہ تنوع ہی ان ریاستوں کے اتحاد کی اصل وجہ ہے۔ "قومیں یوں ہی نہیں بنتیں"۔

یہاں امریکہ کی جنگِ آزادی کے ہیرو اور آزاد امریکہ کے پہلے صدر تھامس جیفرسن کا ایک مجسمہ بھی ہے۔ مائیکل اینجلو کی شہرۂ آفاق تصویر جس میں آدمؑ کو خدا سے علم لیتے ہوئے دکھایا گیا ہے، اس کی طرز پر تھامس جیفرسن کی ایک انگلی آسمان کی طرف ہے۔ گویا وہ خدا سے آدمؑ کی طرح ہدایات لے رہے ہیں۔ ان کے دوسرے ہاتھ میں امریکی آئین ہے، گویا یہی وہ مقدس دستاویز ہے جو خدا نے ان کو بطور ہدایت بخشی۔ "قومیں یوں ہی نہیں بنتیں"۔

اسی شہر میں امریکہ کے 16ویں صدر ابراہم لنکن کی ایک یادگار Lincoln Memorial بھی ہے۔ ہمارے گائیڈ نے اس کو مندر کہا۔ اور یہ ایک قدیم یونانی مندر جیسا ہی دکھتا ہے۔ میں بھی اسے مندر ہی کہوں گا۔ درجنوں سیڑھیاں چڑھ کر آپ مندر میں پہنچیں تو سامنے ایک اونچی سی مچان پر ابراہم لنکن کا عظیم الشان مجسمہ ہے۔ دائیں ہاتھ ان کی ایک تاریخی تقریر دیوار میں کندا ہے اور بائیں طرف کی دیوار میں دوسری۔ بائیں طرف والی دیوار میں ان کی وہ تاریخی تقریر کندا ہے جو انہوں نے غلامی کے خلاف جنگ کے خاتمے پر ادا کی تھی۔ اس تقریر کا اختتام ان تاریخی الفاظ میں ہوتا ہے جنہیں دنیا بھر کی جمہوریتوں میں ایک مقدس کلمے کی حیثیت حاصل ہے۔ "and that government of the people, by the people, for the people, shall not perish from the earth"۔ اس شخص نے امریکہ کی تمام ریاستوں میں غلامی کے قوانین ختم کرنے کے لئے اپنے ملک کی سلامتی تک داؤ پر لگانے سے گریز نہیں کیا۔ مگر اس لعنت کو امریکہ بھر میں غیر قانونی کروا کر ہی دم لیا۔ ان لوگوں نے اس فاتح کی شان میں یہ 'مندر' بنایا ہے۔ لنکن کے مجسمے کو دیکھیے تو اس کے دائیں ہاتھ کی مٹھی بھنچی ہے۔ کیونکہ یہ ایک جنگ زدہ ملک کو جمہوریت کی طاقت سے چلا رہا تھا۔ لیکن چونکہ یہ خانہ جنگی تھی، وہ اپنے دشمن کو ختم نہیں کر سکتا تھا بلکہ اسے دشمن کو شکست دے کر دوبارہ اس کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانا تھا، تو اس کا دایاں ہاتھ کھلا ہے جیسے ابھی کوئی آئے تو یہ اس سے ہاتھ ملا سکتا ہے۔ اس کی دائیں ٹانگ بالکل پرسکون ہے کیونکہ یہ سفارتکاری سے اپنے دشمنوں کو قائل کر رہا ہے کہ وہ غلامی سے پاک امریکہ کا حصہ رہیں لیکن اس کی بائیں ٹانگ تقریباً پنجوں پر ہے کیونکہ اگر جنگ لڑنی پڑ جائے تو یہ اٹھ کھڑا ہونے کو بھی تیار ہے۔



اس مجسمے کے بالکل اوپر ایک کتبہ لکھا ہے۔ "اس مندر میں، ان لوگوں کے دلوں کی طرح جن کے تحفظ کے لئے اس نے وفاق کو بچایا، ابراہم لنکن کی یاد ہمیشہ ہمیشہ کے لئے مجسم ہو گئی"۔

اسی مندر کی سیڑھیوں پر 1963 میں مارٹن لتھر کنگ جونیئر نے اس تاریخی ملین مارچ سے خطاب کیا جو کہ حقیقتاً ملین مارچ تھا کہ امریکہ کی تمام ریاستوں سے لاکھوں کی تعداد میں سیاہ فام افراد اس کے ساتھ اپنے حقوق لینے چلے آئے تھے۔ یہیں اس نے مشہورِ زمانہ "I have a dream" والی تقریر کی تھی۔ سیڑھیوں پر ایک ٹائل کو اس کی تقریر کی یادگار کے طور پر محفوظ کر دیا گیا ہے۔ اس ٹائل پر اس کی تقریر کے یہ الفاظ اور تاریخ کندہ کر دی گئی ہے۔

“I HAVE A DREAM”
MARTIN LUTHER KING JR.
THE MARCH ON WASHINGTON
FOR JOBS AND FREEDOM
AUGUST 28, 1963
لیکن اس ٹائل کا ملنا تھوڑا مشکل ہے۔ یہاں سینکڑوں ٹائلز ہیں۔ تو آنے جانے والوں کے لئے یہ مخصوص ٹائل ڈھونڈنا کارِ محال ہے۔ ایکڑوں پر محیط اس عمارت اور اس کے احاطے میں آپ کو شاذ ہی کوئی کھاتا پیتا نظر آئے گا اور ریپر پھینکنے کا تو سوال ہی نہیں۔ لیکن یہ ایک ٹائل آپ کو ہمیشہ گیلی نظر آئے گی۔ کیونکہ آتے جاتے لوگ اپنے بعد آنے والوں کے لئے اس ٹائل پر کچھ پانی ڈال دیتے ہیں۔ تاکہ دور سے یہ ٹائل نمایاں ہو جائے اور قریب آ کر دیکھیں تو اس کے الفاظ پڑھنے والے کے لئے واضح ہو جائیں۔ "قومیں یوں ہی نہیں بنتیں"۔

ویب ایڈیٹر

علی وارثی نیا دور میڈیا کے ویب ایڈیٹر ہیں.