روس اور یوکرین کی جنگ میں عالمی طاقتوں کا کردار

روس اور یوکرین کی جنگ میں عالمی طاقتوں کا کردار
روس اور یوکرین کی جنگ زوروں پر جاری ہے۔ کوئی فریق بھی دوسرے کی شرائط ماننے کو تیار نہیں ہے۔ اس وقت تو بظاہر پوری دنیا ہی اس جنگ میں کسی نہ کسی واسطے سے فریق بنتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ مختلف ممالک سے نوجوانوں کی کچھ تعداد بھی اس جنگ میں حصہ لینے کے لئے رضاکارانہ طور پر شامل ہو رہی ہے۔ اس جنگ کو دیکھ کر اب سے کوئی چالیس برس قبل افغانستان اور سوویت یونین کی جنگ یاد آ گئی۔

اس جنگ میں سوویت یونین کے خلاف لڑنے والوں کو مجاہدین کہہ کر پکارا جاتا تھا اور ان مجاہدین کو سی آئی اے، سعودی، برطانوی انٹیلی جنس ایجنسیوں اور آئی ایس آئی کی بھرپور حمایت حاصل تھی۔ ان کو جدید اسلحہ فراہم کیا جاتا تھا تاکہ وہ سوویت یونین کے خلاف جہاد میں بھرپور حصہ لے سکیں۔ مجاہدین کی اچھی خاصی کھیپ پاکستان کے رستے ضیا دور میں افغانستان میں جاتی رہی۔ بالاخر ان کاوشوں کے نتیجہ میں 1991ء میں سوویت یونین کا شیرازہ بکھر گیا اور روس معرض وجود میں آیا۔

اب اگر آج دیکھا جائے تو لگتا ہے کہ یوکرین پر حملہ کرکے روس ایک اور افغانستان میں گھس چکا ہے جس کے وسائل بے شک افغانستان سے زیادہ ہیں مگر حالات ویسے ہی لگ رہے ہیں جہاں پر دوسرے ممالک سے جنگجو جنگ میں حصہ لینے کے لئے کود رہے ہیں، جہاں پر دوسرے ممالک کی ایجنسیاں اپنا کھیل کھیل رہی ہیں اور جہاں پر ہر طاقتور ملک بشمول روس اپنی بدمعاشی برقرار رکھنے کی کوشش کر رہا ہے۔

یہاں ایک اور بات قابل ذکر ہے کہ جہاں یوکرین کے حامی جنگجو میدان میں اتر رہے ہیں۔ وہاں چیچن اور شامی جنگجو روس کی حمایت میں بھی میدان میں اتر رہے ہیں اور زمین یوکرین کی استعمال ہو رہی ہے۔

جب روس نے یوکرین پر حملہ کیا تو اس کا خیال تھا کہ وہ ایک ہفتے کے اندر دارالحکومت کیف پر قبضہ کرکے ملک کا کنٹرول سنبھال لے گا، مگر لگ بھگ ایک مہینہ ہو چکا ہے اور روسی افواج کو ابھی بھی شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

مختلف ممالک کے رہنے والے روس مخالف جوشیلے افراد بشمول ان افراد کے جو یوکرینی ہیں اور دوسرے ممالک میں بستے ہیں، ان کی خاصی تعداد یوکرین کے دفاع میں شامل ہونے کے لئے یوکرین پہنچ چکی ہے۔

ان افراد کو جنگی تربیت فراہم کرنے کے لئے کئی کیمپ ہمسایہ ملک کی سرحدی پٹی پر قائم کئے گئے ہیں اور روس ان پر حملہ کرتا ہے تو یہ حملہ نیٹو پر حملہ تصور ہو گا جس کے نتیجہ میں تمام نیٹو ممالک روس کے ساتھ جنگ میں براہ راست ملوث ہو جائیں گے اور روس اس سے بچنے کی کوشش کر رہا ہے۔

اگرچہ یوکرینی صدر کئی مرتبہ امریکی صدر اور نیٹو کے دیگر ممالک سے کہہ چکا ہے کہ یوکرین کی فضائی حدود کو نو فلائی زون قرار دے دیں۔ مگر نیٹو ممالک اس سے اجتناب کر رہے ہیں کیوں کہ ایسا کرنے کی صورت میں براہ راست روس کے ساتھ سامنا ہوگا اور کئی نیوکلئیر ممالک اس میں ملوث ہو جائیں گے جس میں لامحدود نیوکلئیر حملہ ایک دوسرے پر کیا جائے گا جس کا خاتمہ دنیا کے بیشتر حصہ کی تباہی پر ہوگا۔

رواں ہفتے امریکی صدر بھی چند یورپی نیٹو ممالک بالخصوص مشرقی یورپ کا دورہ کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ روسی صدر اس حملے کا خمیازہ بھگت رہے ہیں اور وہ اپنے اتحادیوں کے ساتھ مضبوطی سے کھڑے ہیں۔

یہاں افسوسناک بات یہ ہے کہ بجائے تصفیہ والی زبان استعمال کرنے کے امریکی صدر بھی روسی صدر کی طرح اکثر مواقع پر دھمکیوں اور زور زبردستی والی زبان استعمال کرتے نظر آ رہے ہیں جس سے معاملہ سلجھنے کی بجائے الجھتا جا رہا ہے اور اب تو کئی امریکی سیاست دان بھی یہ کہہ رہے ہیں کہ خدانخواستہ اگر جنگ مزید طول پکڑ گئی تو روسی صدر اپنی جھوٹی انا کو قائم رکھنے اور جیت کا اعلان کرنے کے لئے وسیع یا محدود پیمانے پر ایٹمی ہتھیار بھی استعمال کر سکتا ہے جس سے پوری دنیا متاثر ہو سکتی ہے۔ ویسے دنیا کی زیادہ تر آبادی کورونا کے بعد اس جنگ میں روس پر لگی پابندیوں سے بڑھنے والی مہنگائی سے متاثر ہونا شروع ہو چکی ہے۔

عالمی طاقتوں کو اپنے ذاتی مفادات کو پس پشت رکھتے ہوئے عالمی مفادات کو سامنے رکھنا چاہیے اور اس جنگ کو روکنے کی سنجیدہ کوششیں کرنی چاہیں۔ اگر خدانخواستہ ایک دفعہ ایٹمی جنگ شروع ہو گئی تو وہ محدود جنگ سے عالمی جنگ میں بدل سکتی ہے جس کے اثرات پوری دنیا پر مرتب ہوں گے اور اکثر علاقوں اور ممالک کی داستاں تک نہ ہو گی داستانوں میں۔

احتشام اعجاز بھلی ان دنوں امریکہ میں مقیم ہیں اور U.S. Press Association کے ممبر ہیں۔ وہ پیشے کے لحاظ سے وکیل ہیں اور لاہور ہائی کورٹ کے تاحیات رکن ہیں۔