تکبر اور پاکستانی سیاست

تکبر اور پاکستانی سیاست
دنیا کے مختلف ممالک کو ایسے سیاستدانوں سے سامنا رہا ہے جنہوں نے حد درجے کی خود پسندی، خود اعتمادی، تکبر اور بے جا فخر کا شکار ہو کر ناصرف اپنی سیاست کو بلکہ ملک اور قوم کو عالمی سیاست میں شدید دھچکا پہنچایا اور تنہائی کا شکار کیا۔ سیاست دنوں کی اس کیفیت کو "Hubris" کہا جاتا ہے جو تباہ کن حد تک خود پسندی کی کیفیت ہوتی ہے۔

ماہرین کہتے ہیں کہ اس کی بنیادی وجہ طویل عرصہ تک نہ ختم ہونے والے اقتدار، شہرت کی بلندیوں کو آسانی کے ساتھ چھو لینا، باآسانی اقتدار حاصل کر لینا اور پھر یہ سمجھ لینا کہ اسے اقتدار سے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ وہ سنگین غلطیاں کرنے لگتے ہیں حالانکہ اقتدار کبھی کسی کو مستقل نہیں ملا۔

ماہرین کے مطابق اقتدار کی مدت کی قدغن نہ ہونے سے مقتدر شخصیات کے رویوں میں بے پناہ تبدیلیاں آ جاتی ہیں۔ یہی وجہ تھی کہ امریکہ میں 1951 میں فرینکلن روزویلٹ کے چوتھی مرتبہ الیکشن جتنے کے بعد امریکی آئین میں بائیسویں ترمیم کے ذریعہ دو مرتبہ صدر منتخب ہونے کی پابندی لگ گئی۔

سابق برطانوی وزیر خارجہ لارڈ اوون جو تربیت یافتہ ماہر نفسیات ہیں، برطانوی وزیرآعظم ٹونی بلیئر اور امریکی صدر بش کی مثال دیتے ہیں اور کہتے ہیں دونوں Hubris syndrome کی بہترین مثال ہیں جنہوں نے مل کر سنگین غلطیاں کیں۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ مرض صرف سیاست دنوں تک محدود نہیں بلکہ دوسرے شعبوں پر بھی اس کا اطلاق ہوتا ہے اور وہ 2008 کے معاشی بحران کی مثال دیتے کہتے ہیں کہ بینکرز اور دوسرے شعبوں کے ماہرین بھی اس کا شکار ہوتے ہیں۔

پاکستان میں بھی سیاسی منظر نامے کو اگر دیکھیں تو یہاں بھی Hubris syndrome کا شکار ناصرف سیاستدان یا فوجی آمر رہے بلکہ دوسرے شعبوں کے ماہرین بھی اس کے متاثرین میں شامل نظر آتے ہیں لیکن ہم توجہ سیاسی لیڈرشپ پر ہی مرکوز رکھتے ہیں۔

فوجی جرنیل ایوب خان، ضیاء الحق، پرویز مشرف جو بغاوت کرکے اقتدار پر قابض ہوئے اور سات سے گیارہ سال تک تینوں نے اقتدار پر قبضہ کئے رکھا۔ تینوں نے آخری دنوں میں سگین غلطیاں کیں جس کی وجہ سے انہیں اقتدار سے محروم ہونا پڑا۔

ایوب خان چینی کی قیمت میں چند ٹکوں کے اضافہ کی وجہ سے، ضیاء الحق امریکیوں سے اقتدار کے آخری دنوں میں شدید اختلاف کی وجہ سے جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، جبکہ پرویز مشرف وکلا اور سول سوسائٹی کے ساتھ الجھ کر تذلیل کا شکار ہو کر آج کل دیار غیر میں عدالتوں میں مقدمات سے بھاگ کر خود ساختہ جلا وطنی کی زندگی گزار رہے ہیں، حالاںکہ تینوں نے یہ سمجھ لیا تھا کہ وہ پاکستان کے لئے ناگزیر ہیں اور نکے بغیر پاکستان ایک دن نہیں چل سکتا۔

ذوالفقارعلی بھٹو اور نواز شریف بھی تکبر خود پسندی اور حد درجہ فخر کے ہاتھوں شکار ہوئے اور اقتدار سے ناصرف الگ کر دیے گئے بلکہ ایک کو پھانسی پر چڑھا دیا گیا اور دوسرے کو قید وبند اور جلا وطنی کا بھی سامنا کرنا پڑا۔

اب آتے ہیں موجودہ لیڈرشپ یعنی عمران خان کی شخصیت پر عمران خان کو میں 1997 کے انتخابات میں پہلی مرتبہ میانوالی میں الیکشن سے ایک دن پہلے ایک مقامی ہوٹل میں ملا تو ان کی سیاسی بصیرت اور ان میں بے پناہ تکبر کا اندازہ ہوا کہ یہ سیاست ان کے بس کی بات نہیں کیوں کہ تعارف ہوتے ہی ان کا طنزیہ جملہ تھا کہ "شکر ہے پی ٹی وی کو میرا خیال آگیا "۔

سیاسی بصیرت کا حال یہ تھا کہ انہیں یہ ہی نہیں پتا تھا کہ جہاں سے وہ انتخاب لڑ رہے ہیں وہاں ان کا ووٹ ہی نہیں اور ایک لیڈر کا ووٹ کاسٹ کرنا ور میڈیا پر اس کی کوریج کی کیا اہمیت ہے۔ خیر باتوں باتوں مجھ سے رہا نہیں گیا اور کہہ دیا کہ خان صاحب! آپ جو خیراتی کم کر رہے ہیں وہی کریں سیاست آپ کے بس کی بات نہیں۔ دوسرے دن جب نتائج آئے تو ان کی ضمانت بھی ضبط ہو چکی تھی۔

عمران خان آج کل بار بار کہتے ہیں کہ وہ پچیس سال سے جدوجہد کر رہے ہیں تاکہ چور لٹیروں سے وطن کی جن چھڑا کر نیک اور ایماندار قیادت کو پاکستان میں اقتدار میں شامل کیا جائے۔ نیا پاکستان اور تبدیلی کے نعرے نے ان کو کرکٹ کی شہرت سے نکل کر سیاست کے میدان کی ان بلندیوں پر لے آیا جہاں سے حکومت میں چار سال سے ہونے اور ہر میدان میں ناکامی دیکھ لینے کے باوجود اقتدار چھوڑنے پر تیار نہیں ہیں۔

انہیں پتا چل گیا ہے کہ قومی اسمبلی میں ان کے پاس اب عددی برتری حاصل نہیں ہے۔ ان کے اپنے ٹکٹ ہولڈر، قریبی وزیروں اور مشیروں کے تکبرانہ رویوں اور بد زبانی کی وجہ سے ان کا ساتھ چھوڑ کر اپوزیشن کی صفوں میں جا گھسے ہیں۔ جبکہ ان کے اتحادی بھی منہ موڑ چکے ہیں۔

انہیں عدم اعتماد کی تحریک سے بچنے اور کرسی بچانے کیلئے 172 ارکان کی حمایت درکار ہے لیکن اب صورتحال یہ کہ رپورٹس کے مطابق اپوزیشن کے پاس اب 195 ارکان موجود ہیں جس کا مظاہرہ انہوں نے جمعرات کے روز 173 ارکان کو ایوان میں پیش کرکے کیا لیکن ڈپٹی سپیکر نے عدم اعتماد کی تحریک پر بحث کی بجائے قومی اسمبلی کا اجلاس اتوار تک ملتوی کر دیا۔

خان صاحب جن کا دعویٰ ہے کہ مغرب کو ان سے زیادہ کوئی نہیں جانتا، اگر وہاں یہ صورتحال ہوتی تو ملک کا سربراہ استعفیٰ دینا بہتر سمجھتا ہے۔ یہ بات عمران خان خود کئی بار اپنی تقریروں کہہ چکے ہیں پر خود عمل کرنے کو تیار نہیں نہ اقتدار چھوڑنا چاہتے ہیں۔

خود پسندی کی حالت یہ کہ کل کے قوم سے خطاب میں انہوں نے بجائے اس کے کہ اپنی حکومت کی کامیابی اور رہ جانے والی مدت میں پروگرام کے بارے میں بتاتے، انہوں نے ڈاکو لٹیروں کی داستانوں کے علاوہ امریکہ کا نام لے کر اس پر الزام دھر دیا کہ انہوں نے ان کی حکومت کے خلاف سازش کی حالانکہ اگر ایسا کچھ ہوا بھی ہے تو ان معاملات کو سفارتی طریقوں سے حل کیا جاتا ہے نہ کہ جلسے جلوسوں میں ایسے معاملات کو اچھالا جائے۔

اپنی پینتالیس منٹ کی تقریر میں انہوں نے 173 مرتبہ اپنا ہی ذکر کیا، 88 بار میں، 17 بار مجھے، 11 بار میرا، 13 بار میرا اور اپنا نام "عمران" 13 بار لیا، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ Hubris Syndrome کا کس بری طرح شکار ہیں۔

مصنف سینئر صحافی ہیں اور ان سے asmatniazi@gmail.com پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔