بلوچوں کے خود ساختہ نسلی اور قومی مغالطے

بلوچوں کے خود ساختہ نسلی اور قومی مغالطے
بلوچ لکھاریوں اور دانشور طبقے نے بلوچ گروہ سے متعلق عجیب وغریب نظریات گڑھ رکھے ہیں۔ ان کے خود ساختہ قومتی ونسلی ابہام کا مقصد بلوچوں کو یک نسلی گروہ ثابت کرنا ہے۔ اُن کی لکھت کا کوئی سر پیر دکھائی نہیں دیتا۔ ہم نے یہاں اُن خود ساختہ نسلی و قومتی من گھڑت ابہام کا جائزہ لینا ہے۔

سب سے پہلے ہم واضع کرنا چاہتے ہیں کہ ہم کسی نسلی گروہ اور قومیت کے خلاف نہیں ہیں۔ ہمیں نہ ہی کسی قومیت و نسلی گروہ سے نفرت ہے۔ اس کالم کا مقصد صرف حقائق سے پردہ اٗٹھانا ہے اور سچ کو واضع کرنا ہے کہ حقائق کیا ہیں اور بلوچی لکھاریوں نے بہت زیادہ ابہام کیوں پیدا کئے؟ ان کا مقصد کیا ہے۔

پہلا بیانیہ جو بلوچ لکھاری پیش کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ بلوچ عرب النسل ہیں۔ دوسرا بیانیہ جو بلوچ پیش کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ بلوچ ایرانی النسل ہیں۔ تیسرا بیانیہ بلوچ لکھاری بلوچوں کو نمرود سے جوڑتے ہیں۔ اس کے برعکس ایک چوتھا مقامی بیانیہ جو وادی سندھ کا مقبول عام بیانیہ ہے، جو بلوچوں سے متعلق مشہور ومعروف ہے وہ یہ ہے کہ بلوچ خانہ بدوش ہیں۔

یہاں ہم ان تمام نظریات کا جائزہ لینے کی کوشش کریں گے۔ تمام بلوچ لکھاریوں نے بلوچ نسلی سلسلے کا تعلق مقبول عام یا یوں کہہ لیں وقت کے مقبول حملہ آوروں سے جا جوڑا ہے۔

پہلا بیانیہ: اس بیانیہ کے مطابق بلوچ عرب النسل ہیں اب یہاں کیونکہ عرب دعویٰ کرتے پیں کہ وہ سامی النسل ہیں جس کا مطلب غیر یہودی کے ہیں یہاں واضع نہیں کہ بلوچ خود کو سامی النسل کہیں گے؟ یا پھر وہ یہودی النسل ہونگے؟ یہاں پر بلوچ لکھاری واضع طور پر دو مختلف گروپوں میں منقسم دکھائی دیتے ہیں۔ ایک گروپ دعویٰ کرتا ہے کہ بلوچ حلب سے تعلق رکھتے ہیں۔ دوسرا گروپ پہلے گروپ کی نفی کرتا دکھائی دیتا ہے اور دعویٰ کرتا ہے کہ بلوچ حضرت امیر حمزہ رضی اللہ تعالٰی کی اولاد ہیں۔ کچھ لکھاری کہتے ہیں اصل لفظ بلوص ہے عرب کیونکہ ص ادا نہیں کر سکتے اس وجہ سے وہ بلوص کو بلوش پڑھتے ہیں۔ عربوں نے ''ص'' کو ''ش'' سے بدل کر بلوش لکھنا پڑھنا شروع کر دیا۔ بقول بلوچ لکھاری امیر جلال خان کا شجرہ حضرت امیر حمزہ سے جا کر ملتا ہیں۔ حضرت امیر حمزہ کی چھ اولادوں کا حوالہ دیتے ہیں۔ حضرت امیر حمزہ کا بیٹا ایک بیٹا عمار /عمارہ ابن حمزہ جو کہ قیس النجار کی بیٹی خولہ بنت قیس سے تھا بلوچ اپنا شجرہ ان سے بتاتے ہیں یا ثابت کرنے کوشش کرتے ہیں۔

دوسرا گروپ بلوچوں کا تعلق شام کی وادی حلب سے جوڑتا ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ بلوچ حلب سے نقل مکانی کرکے ایران پہنچے اس کے بعد وہ وادی سندھ میں داخل ہوئے۔

دوسرا بیانیہ: کچھ بلوچ لکھاری اُن لکھاریوں کی نفی کرتے ہیں جو کہتے ہیں بلوچ عرب النسل ہیں یہ گروپ کہتا ہے کہ بلوچ اصلاً ایرانی النسل ہیں۔ بلوچ ایران سے ہجرت کرکے جب عرب خطہ میں داخل ہوئے تو عرب کیونکہ "چ " ادا نہیں کر سکتے اس وجہ سے انھوں نے اس کو بلوچ سے بلوش بنا دیا۔ مزے کی بات یہ بھی ہے کہ یہ طبقہ یہ بھی کہتا ہے کہ اصل لفظ جو کہ بلوص ہے " ص " کیونکہ فارسی میں نہیں ہے اور ایرانی ''ص'' ادا نہیں کر سکتے۔ اس وجہ سے انھوں نے بلوص کو بلوچ لکھا اور پڑھا۔ بلوچ لکھاری شاہنامہ فردوشی کا حوالہ بھی دیتے ہیں۔ جس میں بلوچوں کے حوالے سے اشعار لکھے گئے ہیں۔ اِن بلوش / بلوچ / بلوص لکھاریوں نے شاید فارسی قاعدہ یا عربی قاعدہ دیکھنا گوارہ نہیں کیا نہ ہی عربی / یا فارسی حروف تہجی دیکھنا گوارا کیا ہے۔ ورنہ انھیں ضرور پتا چلتا کہ فارسی اور عربی قاعدے میں "ص" موجود ہے اور عرب و فارس یہ " ص " کا تلفظ خوب ادا کر سکتے ہیں اور "ص" کے بغیر عربی و فارسی قاعدہ  مکمل نہیں ہوتا۔

تیسرا بیانیہ: اس بیانیہ کے مطابق بلوچ نمرود کی اولاد ہیں کچھ لکھاری بلوشوں کا سلسلہ ہائے نسل عہد قدیم سے جوڑتے ہیں کہ اہل بابل اپنے قومی دیوتا کو بال (بعل) یعنی اعظم کہا کرتے تھے، یونانیوں نے اسے بیلوس کہا، اس کے بعد یہ لفظ بیلوس اور بعلوس کے طور پر تحریر وبیان میں آتا رہا۔ عرب اس کو بروج، بلوص اور بلوش ادا کرتے ہیں۔

چوتھا بیانیہ: وادی سندھ کے عظیم لوگوں نے مقامی وغیر مقامی میں تفرق دکھانے کیلئے غیر مقامی کی تعریف کیلئے اصطلاحیں گھڑی ہیں۔ وادی سندھ کے لوگوں نے اپنی لوک دانش کو بروئے کار لانے کیلئے غیر مقامی لوگوں کیلئے مختلف اصطلاحیں گڑھی ہیں جو وادی سندھ کے لوگوں کی لوک دانش کا منہ بولتا ثبوت ہے کہ غیر مقامی افراد کہاں سے اس خطہ میں داخل ہوئے۔ یہ لوک دانش لوک / دستانیں اُن روایت میں جا بجا دکھائی دیتی ھے۔ وادی سندھ کے لوگوں نے بلوچوں کو خانہ بدوش کیوں کہا؟

اِس کو سمجھنے کیلئے ایسا اصول کارفرما ہے جس کی مثال کسی تاریخ میں شاد ہی نظر آتی ہے۔ یہ صرف آپ کو وادی سندھ کے عظیم لوگوں میں دکھائی دیتی ہے۔ وادی سندھ کے لوگوں نے بلوچوں کیلئے لفظ " خانہ بدوش " استعمال کیا ہے۔ اس کو سمجھنے کیلئے ہمیں حملہ آوروں کی نفسیات کو سمجھنا ہوگا۔ ہم سب جانتے ہیں ہمارے خطہ میں مختلف حملہ آور آئے اور لوٹ مار کر کے چلے گئے۔ یہ حملہ آور مختلف ادوار میں اپنے ساتھ لوگوں کے جتھے لے کر چلتے تھے۔ جب یہ حملہ لوٹ مار کر وادی سندھ سے جانے کا قصد کرتے تو غیر ضروری لوگوں کو اپنے ساتھ لے کر نہیں جاتے تھے کیونکہ وہ حملہ آور سمجھتے تھے یہ غیر ضروری افراد ان پر بوجھ ہونگے۔ ان غیر ضروری افراد پر غیر ضروری اخراجات ہونگے جو اُن پر بوجھ ہوگا۔ اس وجہ سے یہ حملہ آور ان غیر متعلق افراد کو مجبور کرتے تھے۔ وہ اُن کے ساتھ نہیں جا سکتے یہی غیر ضروری لوگ جن کے پاس رہنے کو جگہ نہیں تھی کوئی مال اسباب نہیں تھا، مقامی کی نظر میں خانہ بدوش کہلائے۔

مقامی لوک دانش میں ایک روایت مشہور ہے کہ " ڈھیر کوں نہ لوچ متاں چاء ونجنی بلوش " ایک اور لوک دانش مشہور ہے بلوچیں دی کتی گھر دی تازی روٹی کنوں محروم تھائی "۔

اس کے علاوہ یہ لوک دانش تو مشہور و معروف ہے کہ " بلوچ تاں ڈاکو و چور ھوندن " انھیں لوک روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ مقامی لوک دانش نے کس طرح بغیر کسی ہتھیار کے فتح و کامرانی حاصل کی اور حملہ آوروں کی باقیات کے مد مقابل اپنا نظریہ لاگو کیا۔ وادی سندھ کے لوگوں نے بغیر ہتھیار کے حملہ آروں کا مقابلہ کیا۔ حملہ آرورں کا مقابلہ کرنے کیلئے اپنی لوک دانش سے بھرپور انداز میں استفادہ حاصل کیا ہے۔ یہی لوک دانش وادی سندھ کے لوگوں کا مقامی لوک بیانیہ ہے۔

حالیہ کچھ عرصہ میں بلوچستان میں آرکیالوجی ماہرین نے بلوچستان میں مہر گڑھ کے آثار دریافت کیے ہیں۔ اب بلوچ دانشور طبقہ بلوچوں کا نسلی سلسلہ مہر گڑھ جوڑتے دکھائی دیتا ہے۔ کیا اس طرح کے نسلی مغالطے پیدا کرنے سے بلوچوں کا عربوں، ایرانیوں، مقدونیہ، فرعون اور حلب سے نسلی رشتہ ختم ہو جائے گا ؟ دوسرا سوال یہ ہے کہ وادی سندھ کے مقامی نسلی گروہ اور قومتیں بلوچوں کو ایسا کرنے کی اجازت دیں گی؟