عمران خان دورِ حکومت کے پانچ بڑے کرپشن سکینڈل

عمران خان دورِ حکومت کے پانچ بڑے کرپشن سکینڈل
رواں ہفتے پاکستان تحریکِ انصاف حکومت کا خاتمہ ہوا اور ان کی جگہ شہباز شریف اور مسلم لیگ ن کی قیادت میں اپوزیشن اتحاد نے سنبھال لی ہے۔ یہ وہی شہباز شریف ہیں جنہوں نے عمران خان دورِ حکومت میں کرپشن الزامات میں قریب 13 ماہ جب کہ ان کے فرزند حمزہ شہباز نے قریب 20 ماہ جیل میں گزارے۔ اس حکومت کا سارا بیانیہ کرپشن پر کھڑا تھا۔ یہی اس کا فلسفہ تھا۔ کرپشن کا خاتمہ ہر قیمت پر۔ آئین و قانون کی قیمت پر۔ معیشت کی قیمت پر۔ معاشرت کی قیمت پر۔ کچھ کیسز میں خارجہ پالیسی کی بھی قیمت پر۔ عمران خان کا مقصد تھا کرپشن کا خاتمہ کرنا۔

لیکن کیا اس حقیقت سے نظر چرائی جا سکتی ہے کہ پاکستان میں کسی دورِ حکومت میں ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کے مطابق کرپشن میں اتنا اضافہ نہیں ہوا جتنا عمران خان کے دورِ حکومت میں ہوا؟ وہ تمام اشاریے جو اس ادارے نے کرپشن چیک کرنے کے لئے وضع کر رکھے ہیں، ان میں تحریکِ انصاف حکومت یا تو کوئی بہتری نہیں لا سکی یا پھر یہ مزید خراب ہو گئے۔ ٹرانسپرنسی انٹر نیشنل کے مطابق پاکستان 180 ممالک میں سے 140ویں نمبر پر آ گیا۔ تحریکِ انصاف کا دعویٰ ہے کہ یہ کرپشن انڈیکس درست اس لئے نہیں کہ پاکستان میں اس تنظیم کا نمائندہ ن لیگ کے قریب ہے۔ ممکن ہے اس میں کچھ حقیقت ہو۔ لیکن کیا ان سکینڈلز سے جان چھڑائی جا سکتی ہے جنہوں نے پاکستانی عوام کے لئے دو وقت کی روٹی اور بیماری کا علاج بھی دوبھر کر دیا؟ اس دورِ حکومت میں بڑے سکینڈل جو سامنے آئے، ان میں سے چند یہ ہیں۔

1۔ پشاور میٹرو بس منصوبہ

خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ محمود خان کے حکم پر صوبائی انسپیکشن ٹیم نے پشاور کے میٹرو بس منصوبے میں تاخیر کی تحقیقات کیں تو سامنے آیا کہ عوام کے ٹیکسوں سے بننے والے اس منصوبے میں ناقص ڈیزائن اور منصوبہ بندی کے ذریعے روپیہ پانی کی طرح بہایا گیا تھا۔ 27 صفحوں پر مبنی صوبائی انسپیکشن ٹیم کی رپورٹ میں لکھا گیا تھا کہ اس سارے منصوبے میں حقائق کو توڑا مروڑا گیا ہے اور بہت سی آئٹمز کے ریٹ حد سے زیادہ بڑھا کر بیان کیے گئے ہیں اور ایسی اشیا جن پر زیرو ریٹس تھے، انہیں سرے سے غائب کر دیا گیا ہے۔ 30 جنوری 2019 کو صوبائی حکومت کو جمع کروائی گئی رپورٹ پر وزیر اعلیٰ محمود خان نے سخت ایکشن لینے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس سے قبل قومی احتساب بیورو نے بھی قریب 68 ارب روپے کی لاگت سے بننے واے اس منصوبے پر اپنی ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ مرتب کی تھی لیکن اس کو پشاور ہائی کورٹ نے یہ کہہ کر روک دیا تھا کہ اس کے سامنے آنے سے پہلے ہی تاخیر کا شکار ہوئے منصوبے میں مزید تاخیر ہو سکتی ہے۔ اکتوبر 2017 میں شروع ہونے والے اس منصوبے پر کچھ تخمینوں کے مطابق سرکار کی جانب سے بتائے گئے 68 ارب روپے کے مقابلے میں کہیں زیادہ رقم خرچ ہوئی تھی اور تاخیر کے باعث لاگت میں بھی اضافہ ہوتا چلا گیا تھا۔

یاد رہے کہ یہ ٹھیکہ ایک ایسی کمپنی کو دیا گیا تھا جس کو پنجاب میں ٹھیکے لے کر بروقت پورے نہ کرنے کے باعث بلیک لسٹ کی جا چکی تھی۔

LNG کا سکینڈل

جولائی 2021 میں عالمی معیشت پر نگاہ رکھنے والے امریکی رسالے بلوم برگ نے ایک رپورٹ شائع کی جس کے مطابق پاکستان نے تاریخ کی مہنگی ترین ایل این جی خریدی تھی۔ 2019 میں سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور ان کے مشیرِ خزانہ مفتاح اسماعیل کو قطر کے ساتھ 15 سال کی ایل این  جی کی ڈیل کرنے پر تحقیقات کا سامنا تھا اور یہ دونوں حضرات جیل بھیج دیے گئے تھے۔ کئی ماہ جیل میں رہنے کے باوجود ان کے خلاف تحقیقات میں کچھ ثابت نہ ہو سکا۔ تاہم، حکومت نے قطر کے ساتھ اس معاہدے کو اس آس پر ختم کر دیا تھا کہ اگر 15 سال کے دوران کسی موقع پر ایل این جی سستی ہو گئی تو ہم کیوں مہنگی خریدیں۔ دوسری جانب سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ 5 سال بعد اس پر دوبارہ غور کیا جا سکتا تھا۔ تاہم، حکومت نے اپنی چتر چالاکیوں میں ضرورت سے زیادہ عقل کا استعمال کرتے ہوئے یہ معاہدہ ختم کر دیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ پاکستان کو ناصرف معاہدے کی رو سے طے کی گئی قیمت سے کہیں زیادہ پر ایل این جی خریدنا پڑی بلکہ تاریخ کی بلند ترین قیمت پر گیس درآمد کرنا پڑی۔

یہاں یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ مہنگی گیس کی وجہ سے حکومت نے ایل این جی خریدی نہیں اور ملک میں آئی پی پیز ڈیزل پر پلانٹ چلا کر مہنگی بجلی پیدا کرتی رہیں۔ وزیر اعظم کے معاونِ خصوصی برائے پٹرولیم ندیم بابر خود بھی آئی پی پی انڈسٹری کے بڑے کھلاڑی ہیں اور صحافی رؤف کلاسرہ اپنے ایک کالم میں ذکر کر چکے ہیں کہ ان کے خلاف ہوئی انکوائری کی رپورٹ یوں غائب ہو چکی ہے جیسے گدھے کے سر سے سینگ۔

3۔ چینی سکینڈل

چینی سکینڈل کی تحقیقات بھی عمران خان نے خود شروع کروائیں اور پھر اس میں جن حضرات کے نام آئے، ان میں سرفہرست ان کے اپنے ہی قریبی دوست جہانگیر خان ترین سرِ فہرست تھے۔ جہانگیر ترین کو عمران خان سے فوری طور پر دور کر دیا گیا اور آج یہ حال ہے کہ یہی جہانگیر ترین بڑی تعداد میں قومی اور صوبائی اسمبلی کے ارکان کا گروپ بنائے بیٹھے تھے جس نے عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی میں کلیدی کردار ادا کیا۔ جہانگیر ترین کے خلاف تحقیقات میں بھی کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں ہو سکی۔ وہ آج بھی خوش و خرم اپنا کاروبار چلا رہے ہیں۔ اور رہی بات چینی کی تو وہ اس وقت بھی تقریباً اتنے ہی روپے میں بک رہی ہے جتنی پر یہ انکوائری کمیشن بنا تھا۔

یاد رہے کہ اس رپورٹ کے مطابق وفاقی اور صوبائی کابینہ نے چینی کا درست تخمینہ لگانے میں ناکامی کے باعث اسے ضرورت سے زیادہ جانتے ہوئے برآمد کرنے کی اجازت دیتے ہوئے سبسڈی کی منظوری دی تھی لیکن سبسڈی لینے والے شوگر مل مالکان کے خلاف تو کارروائی کا ڈرامہ رچایا گیا، چینی برآمدگی کی منظوری دینے والے وزیر اعظم عمران خان اور ان کے پنجاب کے وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔

4۔ آٹا سکینڈل

گندم کے بحران نے بھی اس حکومت میں سر اٹھایا جب 2020 میں یکایک آٹے اور گندم کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں۔ یہ اضافہ کتنا تھا، ذرا 2020 میں نیا دور پر شائع ہوئی اس رپورٹ کے اس حصے سے اندازہ لگائیے:

اسلام آباد جہاں مئی 2019 میں آٹا 45 روپے فی کلو کے حساب سے دستیاب تھا، وہاں 16 جنوری 2020 کے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 59 روپے فی کلو کے حساب سے آٹا بک رہا ہے جب کہ کراچی میں یہی آٹا مئی 2019 میں 54 روپے فی کلو کے حساب سے دستیاب تھا، آج (یعنی 26 جنوری 2020 کو) یہ قیمت 68 روپے فی کلو ہے۔

یہاں دلچسپ امر یہ ہے کہ حکومتِ پاکستان کے مطابق 2019 میں گندم کے کل پیداواری ٹارگٹ سے 7 لاکھ ٹن کم پیداوار ہوئی تھی۔ تاہم، حکومت نے اس کم پیداوار کے باوجود یہ دعویٰ کیا تھا کہ گندم کے ذخائر ضرورت سے کہیں زیادہ ہیں لہٰذا اسے برآمد کیا جائے گا۔ اس فیصلے کی روشنی میں ادارہ شماریات کے مطابق ستمبر 2018 سے لے کر جون 2019 تک 6 لاکھ 50 ہزار میٹرک ٹن گندم برآمد کی گئی۔ اس برآمد شدہ گندم کی قیمت 18.5 ارب روپے بنتی ہے۔ تاہم، مئی 2019 میں یہ بات واضح ہو چکی تھی کہ گندم کے ذخائر کم ہو سکتے ہیں اور فیصلہ کیا گیا کہ وفاقی حکومت اور چاروں صوبائی حکومتیں 62 لاکھ 25 ہزار میٹرک ٹن گندم اٹھائیں گی لیکن جہاں باقی صوبوں اور وفاقی حکومت نے اپنے اپنے قوٹے سے کم گندم اٹھائی، سندھ حکومت نے بالکل ہی گندم نہیں اٹھائی۔

معاملہ کابینہ کی Economic Cooperation Committee یعنی اقتصادی رابطہ کمیٹی میں گیا جہاں ابتدا میں تو فیصلہ ہی نہ ہو سکا کہ اس ابھرتے ہوئے بحران سے بچنے کے لئے کرنا کیا ہے۔ گندم کی برآمد پر پابندی کا فیصلہ بھی نہ کیا جا سکا۔ بالآخر 14 جولائی 2019 کو یہ فیصلہ ہو گیا کہ گندم کی برآمد پر پابندی لگائی جانی چاہیے لیکن 25 جولائی تک اس کا نوٹیفکیشن بھی جاری نہ ہو سکا۔ آخر کار نوٹیفکیشن تو جاری ہو گیا لیکن اس کے باوجود 48 ہزار میٹرک ٹن گندم محض اگست اور ستمبر کے مہینوں میں برآمد کر دی گئی۔

بعد ازاں وزیر اعظم عمران خان کی سربراہی میں کابینہ نے فیصلہ کیا کہ 3 لاکھ میٹرک ٹن گندم درآمد کر لی جائے۔ یعنی 3 لاکھ میٹرک ٹن گندم درآمد کی جا رہی تھی جب کہ پاکستان 6 لاکھ 50 ہزار میٹرک ٹن گندم برآمد کر چکا تھا۔

توشہ خانہ سکینڈل

توشہ خانہ شاید عمران خان حکومت کے لئے خوفناک ترین سکینڈل ثابت ہونے جا رہا ہے۔ دیگر تمام سکینڈلز میں یہ غیر واضح تھا کہ آیا وہ کرپشن تھی یا حکومتی نااہلی۔ اور اگر کرپشن تھی بھی تو کیا وزیر اعظم عمران خان اس میں بالواسطہ یا بلاواسطہ شامل تھے کہ نہیں۔ تاہم، توشہ خانہ کیس میں الزام یہ عائد کیا گیا تھا کہ سابق وزیر اعظم اور ان کے خاندان نے توشہ خانہ سے اشیا سستے داموں خرید کر دبئی میں مہنگے داموں بیچ ڈالی تھیں۔ جب ان سے سینیٹ کی کمیٹی نے اس پر سوال کیا تو حکومت کی جانب سے جواب دیا گیا کہ تحائف کی تفصیل دینے سے پاکستان کے دوست ممالک کے ساتھ تعلقات خراب ہوں گے کیونکہ وہ نہیں چاہیں گے کہ ان کے تحائف کی تفصیل سامنے آئے۔ تاہم، 14 اپریل بروز جمعرات وزیر اعظم شہباز شریف کے ساتھ صحافیوں کی ملاقات میں جب رؤف کلاسرہ نے یہ سوال اٹھایا تو شہباز شریف نے یہ دعویٰ کیا کہ وہ پورے وثوق سے بتا سکتے ہیں کہ عمران خان اور ان کے خاندان نے توشہ خانہ سے چیزیں خریدنے کے قوانین میں ترمیم کروائی۔ اس ترمیم کی مدد سے انہوں نے پہلے سے طے شدہ قیمت سے بھی کم پر یہ تحائف خریدے اور انہیں دبئی میں 14 کروڑ روپے میں بیچ دیا۔ کیا اس تازہ ترین سکینڈل کی تحقیقات کی جائیں گی؟ کیا عمران خان اب اس حوالے سے وضاحت دیں گے؟ ان سوالوں کے جوابات آنے والے چند روز میں عوام کے سامنے ہوں گے۔

ویب ایڈیٹر

علی وارثی نیا دور میڈیا کے ویب ایڈیٹر ہیں.