وسائل کی شدید کمی کے باوجود 'سنگا پور' ایشین ٹائیگر کیسے بن گیا؟

وسائل کی شدید کمی کے باوجود 'سنگا پور' ایشین ٹائیگر کیسے بن گیا؟
یہ جنوب مشرقی ایشیا میں واقع 63 مختلف جزائر پر مشتمل ایک چھوٹا سا ملک ہے۔ یہ ہیرے کی شکل سے مماثل ملک ایک قدیم بندر گاہ کے طور پر بھی جانا جاتا ہے۔ اسکے شمال میں انڈونیشیا اور جنوب میں ملائیشیا واقع ہیں۔ اس کے ہمسایہ ممالک میں تھائی لینڈ، بینگ کاک، کمبوڈیا اور فلپائینز شامل ہیں۔ یہ ملک لگ بھگ 728 کلو میٹر کی حد بندی کے ساتھ دنیا کا ایک سو چھیترواں بڑا ملک ہے اور آبادی کے لحاظ سے اس کا درجہ ایک سو تیرواں ہے۔ اس ملک کے نام کو لیکر کئی قصے مشہور ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ کسی شہزادے نے اس سر زمین پر پہلی بار قدم رکھا تو اس نے یہاں ایک شیر دیکھا جس کی وجہ سے اس نے اس سر زمین کو سنگھا پورہ کا نام دیا۔ سنگھا ملائی زبان میں شیر کو کہا جاتا ہے اور پورہ کا مطلب شیر کا مسکن جو بعد میں سنگا پور کے نام سے مشہور ہوا۔ جبکہ مزیدار بات یہ ہے کہ اس سر زمین پر شیروں کا نام ونشان تک موجود نہیں۔ ما سوائے ان مصنوعی شیروں کے جو مرلیون پارک میں بنے ہیں جنھیں مرلیون( Merlion ) کہا جاتا ہے۔ ان شیروں کی جلد مچھلی کی کھال سے مشابہ ہوتی ہے جو انکے قدیم طرز معاش کی علامت ہے اور منہ شیر کا ہے جن کے منہ پانی کے فوارے اگلتے رہتے ہیں۔

تیسری صدی عیسوی میں اگرچہ سنگا پور کے آثار ملتے ہیں۔ مگر چودھویں صدی میں مستند روایات کے ساتھ یہاں مچھیروں کی تجارتی بستیاں آباد تھیں۔ یوں تو اس خطے پر کئی حکمران خاندانوں نے حکومت کی۔ جیسے ملاکا ، پر میشور وغیرہ۔ مگر جب 1819ء میں سر تھامس اسٹیم فورڈ رافلز نے اس علاقے پر حملہ کیا تو اس وقت یہاں جوہرو خاندان کی حکومت تھی۔ لڑائی کے دوران اس علاقے کا فرمانروا شاہ حسین جوہرو بھاگ گیا اور یہ علاقہ برطانوی کالونی بن گیا۔ بعد ازاں سر رافلز نے شاہ حسین کو واپس بلا کر ایک معاہدے کے تحت تخت اس کے حوالے کر دیا۔ یہ فیصلہ انگریز کی زبردست سیاسی بصیرت کو ظاہر کرتا ہے۔ سنگا پور انگریز کے لئے چین تک تجارت کا آسان راستہ تھا جسے وہ ہر صورت محفوظ بنانا چاہتا تھا۔ تجارت کی اس غرض نے اسے شاہ حسین کو حکومت سونپنی پڑی ورنہ یہ علاقہ انگریز تجارت کے لئے بہت درد سر بن جاتا اور شاہ حسین کی شورش ان کے لئے ایک مستقل خطرہ بن جاتی اور یوں انھوں نے یہ مسئلہ حل کر دیا۔

برطانوی کالونی کا درجہ حاصل کرنے کے بعد اس علاقے پر دوسری بار قبضہ جاپانیوں نے دوسری جنگ عظیم میں1942 میں کیا۔ جاپانی اس خطے پر 1945 تک قابض رہے۔ 3 جون 1959 کو برطانوی کالونی کے زیر اثر رہتے ہوئے ایک خود مختار حکومت سنگا پور میں قائم کی گئی اور پیپلز ایکشن پارٹی کے لی کوان یو نے بانی وزیر اعظم کے طور پر اس کی باگ دوڑ سنبھالی۔ 16 ستمبر 1963 میں یہ ریاست برطانیہ سے آزاد ہو کر ملائیشیا میں شامل ہو گئی۔ مگر پیپلز ایکشن پارٹی اور ملائیشین الائنس کے درمیان کشیدگی کی وجہ سے 9 اگست 1965 کو علیحدہ مملکت بن گئی۔ اور جمہوریہ سنگا پور کے نام سے ایک نیا ملک دنیا کے نقشے پر ابھرا۔ اور پھر دنیا نے دیکھا کہ ایشیا کا یہ چھوٹا سا ملک دنیا کی ایک مضبوط معیشیت بن گیا۔

آزادی کے بعد اس ملک کا صحیح معنوں میں ترقی کا سفر شروع ہوا۔ لی کوان یو نے اس ملک کو مضبوط بنانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ اس نے ایسی اصطلاحات کیں جنکا نتیجہ خاطر خواہ نکلا۔ آزادی کے بعد لی کوان یو نے برطانیہ سے تعلقات اپنے مضبوط کیے اور آزاد تجارت کی بنیاد رکھی۔ دنیا بھر سے انویسٹرز کو اس نے اپنے ملک میں کاروبار کی اجازت دی اور دیکھتے ہی دیکھتے کچے پکے مکانوں پر یہ مشتمل یہ ملک دنیا کے خوبصورت اور ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑا ہو گیا۔ ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا میں کاروبار کے لئے دو ملک محفوظ ترین مانے جاتے ہیں۔ ایک نیوزی لینڈ اور دوسرا سنگا پور۔ سنگا پور آج ان پانچ ممالک کی صف میں کھڑا ہے جہاں کرپشن کا تصور بہت کم ہے اور کہیں حد تک ناپید بھی۔ جبکہ اس سے بہت پہلے آزاد ہونے والا ہمارا ملک کرپشن انڈیکس کے 180 ممالک کی صف میں 140 ویں نمبر پر ہے۔

سنگا پور وہ ملک ہے جس کا پاسپورٹ انتہائی طاقتور مانا جاتا ہے۔ اس ملک کے باشندے چائنا، شمالی کوریا اور امریکہ جیسے ممالک میں بغیر پاسپورٹ کے سفر کر سکتے ہیں۔ یہاں کے شہری قانون کا حد درجہ احترام کرتے ہیں۔ ایک دفعہ ایک شخص نے میٹرو ٹرین میں چیوگم پھینک دی جس کی وجہ سے میٹرو کا گیٹ جام ہو گیا اور کئی گھنٹے لوگوں کو تاخیر کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے بعد یہ قانون بن گیا کہ آپ چیوگم نہیں کھا سکتے اور لوگوں نے اس قانون کی پاسداری کو اپنا شیوہ بنا لیا۔

سنگا پور کے 90 فیصد لوگ اپنے گھروں میں رہتے ہیں اور 10 فیصد وہ لوگ ہیں جو یہاں کام کی غرض سے ٹکے ہوئے ہیں۔ اس ملک میں بے روزگاری کی شرح 2 فیصد سے بھی کم ہے۔ یہاں مذہبی رسومات کی مکمل آزادی ہے۔ یہاں زیادہ تر چائنا، ملائی ، تامل اور انگریزی زبانیں بولی اور سمجھی جاتی ہیں۔ جرائم کی روک تھام کے حوالے سے بھی یہ ملک اپنی پوری خوش قسمتی کے ساتھ نقطئہ عروج پر ہے۔ جرائم کی شرح ایک فیصد سے بھی کم ہے۔ اسکی وجہ یہاں کے سخت قوانین اور انکا اطلاق ہے۔ یہ ملک خوبصورتی اور صاف ستھرائی میں بھی اپنی مثال آپ ہے۔ یہاں پارکس اور سبزے کی بہتات ہے۔ اگر چہ اس ملک کو اپنا رقبہ بڑھانے کے لئے جنگلات کا صفایا کرنا پڑا ہے مگر پھر بھی یہاں درخت اور سبزہ اس کے حسن میں اضافہ کرنے کے لئے موجود ہیں۔ دنیا کا سب سے بڑا فوارہ سنگا پور میں واقع ہے جسے 1997 میں 6 ملین امریکی ڈالر خرچ کرکے تعمیر کیا گیا تھا۔ نائٹ زو اور نائٹ سفاری پارکس بھی اس ملک میں پائے جاتے ہیں۔ چانگی ائیر پورٹ ایشیا کا سب سے خوبصورت ایئرپورٹ مانا جاتا ہے۔ جسے کئی سال سے بہترین ائیرپورٹ کا اعزاز بھی حاصل ہے۔

یہ ملک اگر چہ ہمارے ملک کی طرح قدرتی وسائل کی دولت سے مالا مال نہیں ہے۔ یہاں تک کہ یہ اپنا پینے کا پانی بھی انڈونیشیا اور ملائیشیا سے حاصل کرتا ہے۔ مگر اس کی ترقی پھر بھی حیران کن ہے۔ زرعی پیداور میں یہاں انناس، ناریل اور چاول کاشت ہوتے ہیں۔ صنعتی اعتبار سے یہ ملک بہت آگے ہے۔ یہاں کی بڑی بڑی صنعتوں میں پیٹرول کی مصنوعات، بجلی کا سامان، کیمیکلز، موٹر گاڑیاں اور ٹیلی کمیونیکیشن ہیں۔ 2021 کے اعداد و شمار کے مطابق ہندوستان میں سنگا پور سب سے زیادہ سرمایہ کاری کرنے والا بڑا ملک ہے۔ اسکی مضبوط صنعت اسے 1960 کے بعد صنعتی ترقی کرنے والے ممالک جیسے تائیوان، ہانگ کونگ اور جنوبی کوریا جنھیں ایشین ٹائیگرز بھی کہا جاتا ہے کی صف میں لا کھڑا کرتی ہے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہم سے کم عمر یہ ملک ترقی کی شاہراہیں کیسے عبور کر گیا؟ لی کوان یو نے جب وزیر اعظم کا حلف لیا تو اس نے اپنے نظرئیے کو عملی طور پر وسعت دی۔ جسکے نتیجے میں اسن ے آزاد تجارت کو فروغ دیا اور دنیا بھر سے کاروباری کمپنیوں کو کاروبار کی دعوت دی۔ لی نے ایک مضبوط اور مؤثر بیوروکریسی کی بنیاد رکھی۔ کرپشن کو ختم کرنے کے لئے نت نئے قوانین متعارف کروائے گئے۔ ٹیکس کا عوام دوست نظام متعارف کرایا گیا۔ یہاں کا ٹیکس نظام اس قدر منظم ہے کہ یہاں کے شہری خوشی خوشی ٹیکس دیتے ہیں۔ اور اگر ضرورت پڑے تو ٹیکس کے یہ پیسے نکلوا کر وہ اسے اپنے کام بھی لا سکتے ہیں۔ تعلیم کے نظام کو بہتر بنانے کے لئے اس نے بہترین حکمت عملی مرتب کی۔ اور آج سنگا پور کے لوگ سائنس اور ریاضی میں اقوام عالم سے بہت آگے سفر کر رہے ہیں۔

لی کی قوت مشاہدہ بہت تیز تھی۔ اس نے دوسرے ترقی یافتہ ممالک کا باریک بینی سے جائزہ لیا اور اپنے ملک کو ان کے نقش قدم پر چلاتے ہوئے اسے دنیا کی ایک مضبوط معیشیت بنا دیا۔ لی کوان یو نظم و ظبط اور پابندئ وقت میں یقین رکھتا تھا۔ اس کا یہ قول ہم جیسے ترقی پذیر ملکوں کے لئے مشعل راہ ہے ک" کوئی بھی قوم اپنے رقبے اور آبادی سے عظیم نہیں مانی جاتی۔ بلکہ اس قوم کی اجتماعی قوت، انکا اتحاد، انکی قوت برداشت، انکے راہنما کے اچھے اوصاف اور ڈسپلن۔ ان پر عمل پیرا قومیں ہی تاریخ میں ایک ممتاز اور قابل عزت مقام حاصل کرتی ہیں"۔

مصنف پیشہ کے لحاظ سے ایک ویٹنری ڈاکٹر ہیں جو کہ بطور پولٹری کنسلٹنٹ اور فزیشن اپنی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔