• آن لائن اشتہاری ٹیرف
  • رابطہ کریں
  • ہمارے بارے میں
  • ہمارے لئے لکھیں
  • نیا دور انگریزی میں
جمعہ, جنوری 27, 2023
نیا دور
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English
No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English
No Result
View All Result
نیا دور
No Result
View All Result

فہمیدہ ریاض سے پہلی ملاقات

مرتضیٰ سولنگی by مرتضیٰ سولنگی
نومبر 18, 2019
in ادب, فیچر, میگزین
13 0
1
فہمیدہ ریاض سے پہلی ملاقات
15
SHARES
71
VIEWS
Share on FacebookShare on TwitterShare on Whatsapp

یہ قصہ ہے 1980 کا۔ وسطی سندھ کے ایک چھوٹے سے شہر پڈعیدن سے کراچی آئے ہوئے مجھے دو سال ہوئے تھے۔ ضیا آمریت کو شروع ہوئے تین سال گزر چکے تھے۔ بیس سال کی عمر میں مجھے اس وقت کے اکثر نوجوانوں کی طرح انقلاب کا بھوت سوار تھا۔

مزاحمت اور انقلاب ان دنوں میں فیشن بھی تھا۔

RelatedPosts

جنرل باجوہ کی توسیع؟ کابینہ کمیٹی کی آرمی ایکٹ میں ترمیم، ‘دوبارہ تقرر’ کی جگہ ‘برقرار’ لکھنے کی تجویز

حکومت پاک فوج اور افسر کے خلاف ہتک عزت پر قانونی کارروائی کرے: آئی ایس پی آر

Load More

میں ان دنوں پاکستان سٹیل ملز میں زیر تربیت کیمسٹ تھا۔ ہر ماہ پورے دو سو روپے کا وظیفہ ملتا۔ سارا گزر سفر اس رقم میں کرنا ہوتا تھا۔ اتنی مختصر رقم کا اچھا خاصہ پھر بھی ہم ریگل چوک پر پرانی کتابیں خریدنے میں خرچ کر دیتے تھے۔ میں اور میرا دوست ایاز ابڑو ڈرگ کالونی میں محکمہ صحت میں ملازم ان کے دوست کے ایک فلیٹ میں رہتے تھے۔ ایک دن ایاز خوش خوش آیا۔ کہا کہ نئی ملازمت ملی ہے۔ پوچھا کیا ملازمت ہے؟ کہا کہ ایک ادبی رسالے آواز میں کام کروں گا جس کی ایڈیٹر فہمیدہ ریاض ہے۔ میں نے پہلی بار ان کا نام سنا۔

ایک صبح جب ہم اٹھے تو جیب میں چند روپے تھے۔ میں نے کہا کہ پٹھان کے ہوٹل پر چائے پراٹھے کا شاندار ناشتہ کرتے ہیں۔ ایاز نے کہا کہ وہ تو ٹھیک ہے لیکن رات کو کیا کھائیں گے؟ پھر؟ میں نے پوچھا۔ کیا کریں؟

ایاز نے تھوڑی دیر سوچ کر کہا کہ شیر شاہ چلتے ہیں۔ وہاں میں نے کسی کو رسالے دیے ہیں۔ امید  ہے کہ وہ بِک گئے ہونگے۔ شیر شاہ کیسے جائیں؟ ایاز نے کہا کہ ڈرگ روڈ ریلوے سٹیشن سے سرکلر ٹرین شیر شاہ جاتی ہے۔ دس منٹ پیدل چل کر ہم ٹرین سٹیشن پہنچے اور ٹکٹ خرید کر پلیٹ فارم پر آئے۔ کچھ دیر بعد ریل گاڑی بھی آ گئی۔ شیر شاہ اتر کر ہم پیدل پیدل کچھ دیر بعد ایک نیوز سٹینڈ پر پہنچے۔ ایک ادھیڑ عمر کے ایک پختون بیٹھے تھے۔ ایاز نے پوچھا کہ رسالے فروخت ہو گئے تو لالے نے ایک طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ کوئی نہیں خریدتا۔ واپس لے جاؤ۔

ہم بڑے مایوس ہوئے۔ اب دوپہر ہو چلی تھی اور بھوک سے برا حال تھا۔

ایاز نے دو درجن رسالے اٹھا کر کاندھے پر رکھے اور دکان سے باہر نکل آئے۔ اب کیا کریں۔ ایاز نے کہا انہیں ردی میں بیچ دیتے ہیں۔ ایک جگہ رسالے بیچے اور چند روپے لیے۔

میں نے کہا پکوڑے نان خریدتے ہیں۔ ایاز نے کہا کہ اگر یہاں کھانا کھا لیا تو گھر کیسے جائیں گے؟ میں نے پوچھا کیا کریں پھر؟ ایاز نے کہا کہ ان پیسوں سے بس میں صدر چلتے ہیں فہمیدہ ریاض کے پاس۔ اسے سچ بتاتے ہیں۔

ہم دونوں بس میں بیٹھ کر ایمپریس مارکیٹ صدر پہنچے۔ وہاں سے ایلفی سٹریٹ جو اب زیب النِسا سٹریٹ کہلاتی ہے پیدل چلتے ہوئے آواز رسالے کے دفتر پہنچے۔ یہ دفتر اس وقت ریو سنیما کے مد مقابل واقع تھا جو بعد میں سنیما انڈسٹری کی تباہی کے بعد ریو آڈیٹوریم اور بعد میں شاپنگ مال میں تبدیل ہوا۔ ریو سنیما کیساتھ کونے پر کیفے نیویارک ہوا کرتا تھا۔

کونے میں سٹینڈرڈ پبلشنگ ہاؤس تھا جہاں سوؤیت روس کی کتابیں ملتی تھیں اور اس کے آگے آواز رسالے کا دفتر تھا جو کہ دوسری منزل پر تھا۔ صرف چند سال پہلے وہاں پر مرینا بار تھا جو کہ ضیا آمریت کے بعد بند ہو گیا تھا۔ یہ عمارت پنڈی سازش کیس میں فیض احمد فیض کے ساتھی محمد حسین عطا کی ملکیت تھی اور اس عمارت کا انتظام ان کے بیٹے نجم الحسن عطا کے پاس تھا جو خود بھی ایک ترقی پسند شاعر اور ادیب تھے۔ انہوں نے ہی یہ دفتر فہمیدہ ریاض کو دیا تھا۔ فہمیدہ ریاض کا خیال رکھنے والوں میں وہ تھے، مجاہد بریلوی تھے اور آنی سہیلی انیس ہارون۔

آگے ایاز اور پیچھے میں۔ ٹھک ٹھک ٹھک کرتے ہوئے لکڑی کے زینے چڑھتے ہوئے ہم فہمیدہ کے کمرے میں پہنچے۔ ایاز نے سلام کیا تو سامنے بیٹھی خاتون نے اپنی بڑی بڑی آنکھوں سے عینک ناک پر چڑھائی اور میٹھی سی آواز میں ایاز کو سلام کا جواب دیا۔ دفتر کیا تھا، چاروں طرف کتابوں کا سمندر تھا۔

ایاز نے میرا تعارف کرایا اور دن بھر کی پوری کارگزاری خاتون کو بتا دی۔

آپ کے رسالے ردی میں بیچ کر آ گئے ہیں اور رات سے کھانا نہیں کھایا۔

فہمیدہ نے ہماری طرف دیکھا اور سامنے پڑے ہوئے کالے رنگ کے فون کے کریڈل کو کھٹ کھٹ کر کے دبایا اور کہا، کیفے نیویارک؟ جلدی سے ایک درجن چکن پیٹس اور تین چائے لے آؤ۔

تھوڑی دیر میں ویٹر چکن پیٹس، چائے اور کیچپ کی بوتل لیکر پہنچ گیا۔

ہم نے کیچپ کی تقریباً پوری بوتل چکن پیٹس پر انڈیل کر کھائے، دو دو گلاس پانی پیا اور چائے پی۔

فہمیدہ نے مجھ سے پوچھا کہ میں نے ادب، سیاست اور تاریخ  پر کیا کچھ پڑھا ہے۔

جاتے ہوئے فہمیدہ نے پچاس روپے ایاز کو دیے اور مسکرا کر کہا کہ عقلمند آدمی آئندہ پیسے ختم ہو جائیں تو مانگ لینا، رسالے ردی میں نہ بیچنا۔

فہمیدہ نے مجھے گھر آنے کا کہا۔ ان کا گھر پی ای سی ایچ سوسائٹی میں نرسری کے پاس تھا۔ وہیں پر میری ملاقات ان کے شوہر ظفر اُجن سے ہوئی جو حال ہی میں رسول بخش پلیجو کی پارٹی سندھی عوامی تحریک سے الگ ہوکر پ پ پ میں شامل ہوئے تھے لیکن ان کی گفتگو میں ماؤزے تنگ اور چے گویراکا تڑکا بھی شامل تھا۔ وہیں پر میری ملاقات ان کے بیٹے کبیر اور بیٹی ویرتا سے ہوئی جو اس وقت پرائمری سکول کی عمر میں تھے۔

یہ ان ہی دنوں کی بات ہے جب سندھ کے ایک انقلابی نوجوان نذیر عباسی کو ضیا کے ایک عقوبت خانے میں 9 اگست کو شہید کیا گیا تھا۔ جب معاملہ اس وقت کی سندھ ہائی کورٹ میں گیا تو درخواست ادھوری قرار دیکر کیس نمٹا دیا گیا تھا۔ اسی سانحے پر فہمیدہ ریاض نے اپنی شاندار نظم لکھی تھی۔

پتھرائے ہوئے چہرے
پتھرائی ہوئی آنکھیں
چمڑے کی زبانوں پر
لچکی ہوئی کچھ باتیں
پتھر کہ جو چکنے تھے
ہاتھوں سے پھسلتے تھے
قانون کے نکتے تھے
کیا لوگ سمجھتے تھے
‘سنگیں مجبوری ہے
درخواست ادھوری ہے

آواز رسالے میں چھپنے والا مواد کسی طور پر بھی ضیا دور میں قابل قبول نہیں تھا۔ کچھ عرصے بعد پتا چلا کہ فہمیدہ اپنے خاندان کے ہمراہ ملک چھوڑ کر چلی گئی ہیں۔ حال ہی میں نجم الحسن عطا نے مجھے بتایا کہ جب وہ بھارت دوبارہ ہجرت کر کے گئیں تو ان کی دوست اور مداح امرتا پریتم نے وزیر اعظم اندرا گاندھی سے درخواست کر کے انہیں سیاسی پناہ دلوائی جہاں سے وہ بینظیر بھٹو کے وزیر اعظم بننے کے بعد پاکستان واپس آئیں۔

پھر میں ان کو بھول ہی گیا کیونکہ میں 1993 میں امریکہ چلا گیا تھا۔

اکتوبر 2007 میں ایک دن واشنگٹن میں وائس آف امریکہ کی کوئن بلڈنگ میں کام کے دوران مجھ سے وہاں میرے ساتھ کام کرنے والی خاتون شہناز عزیز نے مجھ سے پوچھا کہ میرے پاس فہمیدہ ریاض کا نمبر ہے۔ میں نے کہا کہ میں کراچی میں کسے سے لیکر آپکو دیتا ہوں۔ جب میں نے نمبر لے لیا تو انہوں نے بری خبر سنائی کہ فہمیدہ کا جواں سال بیٹا کبیر ایک حادثہ میں جان بحق ہو گیا ہے۔ نوجوان کسی جھیل میں نہاتے ہوئے ڈوب گئے تھے اور کئی دن ان کی شناخت بھی نہ ہو پائی تھی۔ یہ بری خبر دینے کی ذمہ داری مجھے دی گئی۔ مجھے یاد نہیں پڑتا کہ یہ خبر میں نے کیسے دی لیکن جب وہ امریکہ آئیں تو وہ اندر سے بالکل ٹوٹ گئی تھیں۔ وہ مسلسل خلاؤں میں گھورتی رہتیں، کبھی ہنستیں اور کبھی روتیں۔

ایک سال بعد جب میں پاکستان واپس آیا تو جب بھی میری ملاقات فہمیدہ ریاض سے ہوتی تو میں انہیں اس سہ پہر کا ضرور بتاتا جب انہوں نے ہمارے لئے چکن پیٹس اور چائے منگائی تھی اور شفیق ماں کا سلوک کیا تھا۔

آج جب فہمیدہ ریاض موجود نہیں ہیں تو ہم سب لوگ اظہار رائے کے حوالے سے بھوکے پیاسے ہیں۔ آج ہمیں فہمیدہ ریاض کی زیادہ ضرورت ہے۔

شاید ایسے ہی کسی موقع کیلئے سندھ کے جدید شاعر شیخ ایاز نے اپنے ھائیکو میں کہا تھا

آ گدري جي ھي ڦار امان
اڄ پورو ناھي چنڊ
اسانکي بک بہ ڏاڍي آ

ماں، مجھے تو یہ خربوز کی قاش لگتا ہے
آج چاند پورا نہیں
اور ہمیں بڑے زور کی بھوک لگی ہے

Tags: فہمیدہ ریاضمرتضیٰ سولنگینیا دور
Previous Post

صحافی امیج بہتر کرنے کا کام نہیں کرتے

Next Post

48 برس قبل جب پاکستان میں پہلے عام انتخابات منعقد ہوئے

مرتضیٰ سولنگی

مرتضیٰ سولنگی

Related Posts

عمران خان پر تنقید کے بعد سوشل میڈیا ٹرولنگ نے قاسم علی شاہ کو رُلا دیا!

عمران خان پر تنقید کے بعد سوشل میڈیا ٹرولنگ نے قاسم علی شاہ کو رُلا دیا!

by خضر حیات
جنوری 26, 2023
0

قاسم علی شاہ 25 دسمبر 1980 کو گجرات میں پیدا ہوئے۔ تعلیم حاصل کرنے کے لئے لاہور آ گئے اور گلشن راوی...

گلگت بلتستان؛ منفی 18 ڈگری میں خیموں میں پڑے سیلاب متاثرین حکومتی امداد کے منتظر

گلگت بلتستان؛ منفی 18 ڈگری میں خیموں میں پڑے سیلاب متاثرین حکومتی امداد کے منتظر

by سرور حسین سکندر
جنوری 25, 2023
0

گلگت بلتستان کے ضلع گنگنچھے کے گاؤں کونیس کے سیلاب متاثرین نے ہمیں بتایا کہ جمعہ کی نماز پڑھنے کے بعد گھروں...

Load More
Next Post
48 برس قبل جب پاکستان میں پہلے عام انتخابات منعقد ہوئے

48 برس قبل جب پاکستان میں پہلے عام انتخابات منعقد ہوئے

Comments 1

  1. عبدالباسط ماگرے says:
    4 سال ago

    منہ سے زبان قلم سے سچائ اور پاکستان میں اصلی اسلام ہمیشہ ان بدمعاش آمروں نے چھینا خدا دونوں جہانوں میں زلیل کرے ان ملک دشمن ****** کو

    جواب دیں

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تلاش کریں

No Result
View All Result

ایڈیٹر کی پسند

Aamir Ghauri Nawaz Sharif

نواز شریف چوتھی مرتبہ وزیر اعظم بن سکتے ہیں؟

by عامر غوری
جنوری 26, 2023
0

...

عمران خان اسٹیبلشمنٹ کی ٹھکرائی ہوئی محبوبہ ہیں

عمران خان اسٹیبلشمنٹ کی ٹھکرائی ہوئی محبوبہ ہیں

by عاصم علی
جنوری 18, 2023
0

...

جنرل یحییٰ خان اور جنرل قمر باجوہ ایک ہی سکے کے دو رخ ثابت ہوئے

جنرل یحییٰ خان اور جنرل قمر باجوہ ایک ہی سکے کے دو رخ ثابت ہوئے

by طارق بشیر
جنوری 18, 2023
0

...

ایک اقلیتی حقوق کے کمیشن کی تشکیل کیسے بارآور ثابت ہو سکتی ہے؟

ایک اقلیتی حقوق کے کمیشن کی تشکیل کیسے بارآور ثابت ہو سکتی ہے؟

by پیٹر جیکب
جنوری 14, 2023
0

...

Ahmad Baloch Kathak dance

بلوچستان کا ایک غریب چرواہا جو بکریاں چراتے چراتے آرٹسٹ بن گیا

by ظریف رند
جنوری 6, 2023
0

...

Newsletter

ہماری مدد کریں

ٹویٹس - NayaDaur Urdu

نیا دور کے صفِ اوّل کے مصنفین

پیٹر جیکب
پیٹر جیکب
View Posts →
حسن مجتبیٰ
حسن مجتبیٰ
View Posts →
عرفان صدیقی
عرفان صدیقی
View Posts →
نجم سیٹھی
نجم سیٹھی
View Posts →
نبیلہ فیروز
نبیلہ فیروز
View Posts →
محمد شہزاد
محمد شہزاد
View Posts →
توصیف احمد خان
توصیف احمد خان
View Posts →
رفعت اللہ اورکزئی
رفعت اللہ اورکزئی
View Posts →
فوزیہ یزدانی
فوزیہ یزدانی
View Posts →
حسنین جمیل
حسنین جمیل
View Posts →
مرتضیٰ سولنگی
مرتضیٰ سولنگی
View Posts →
اسد علی طور
اسد علی طور
View Posts →
ادریس بابر
ادریس بابر
View Posts →
رضا رومی
رضا رومی
View Posts →
علی وارثی
علی وارثی
View Posts →

Cover for Naya Daur Urdu
64,514
Naya Daur Urdu

Naya Daur Urdu

پاکستان کی ثقافت اور تاریخ کو دیکھنے کا ایک نیا زاویہ

This message is only visible to admins.
Problem displaying Facebook posts.
Click to show error
Error: Server configuration issue

خبریں، تازہ خبریں

  • All
  • انٹرٹینمنٹ
  • سیاست
  • ثقافت
کم از کم اجرت 20 ہزار، سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ: بجٹ 2021 پیش کر دیا گیا

اقتدار کے ایوانوں سے جلد کسی ‘بڑی چھٹی’ کا امکان ہے؟

اکتوبر 31, 2021
ہمیں نفرت اور مذہب کے بیوپاریوں کی نہیں، دھانی اور دھونی جیسے ہیروز کی ضرورت ہے

ہمیں نفرت اور مذہب کے بیوپاریوں کی نہیں، دھانی اور دھونی جیسے ہیروز کی ضرورت ہے

اکتوبر 27, 2021
بد ترین کارکردگی پر الیکشن نہیں جیتا جاسکتا، صرف ای وی ایم کے ذریعے جیتا جاسکتا ہے

ای وی ایم اور انتخابات: ‘خان صاحب سمندر پار پاکستانیوں کے ووٹ لینے کے لیئے بے تاب ہیں’

اکتوبر 24, 2021

Naya Daur © All Rights Reserved

No Result
View All Result
  • صفحۂ اول
  • تازہ ترین
  • خبریں
  • ویڈیوز
  • تجزیہ
  • فیچر
  • میگزین
  • عوام کی آواز
  • Click here for English

Naya Daur © All Rights Reserved

Welcome Back!

Login to your account below

Forgotten Password?

Retrieve your password

Please enter your username or email address to reset your password.

Log In